Tag: Ahmet Davutoglu

  • سابق وزیر اعظم نے نئی سیاسی جاعت تشکیل دے دی

    سابق وزیر اعظم نے نئی سیاسی جاعت تشکیل دے دی

    انقرہ : ترکی کے سابق وزیراعظم احمد داود اوغلو نے نئی سیاسی جماعت بنا لی ہے۔سابق وزیراعظم نے ’مستقبل جماعت‘ (فیوچر پارٹی) کے نام سے اندراج کے لیے وزارت داخلہ میں درخواست دے دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوآن کا کہنا ہے کہ العنان نظام حکمرانی سے نالاں ان کے دوسابق اتحادیوں نے اپنی الگ الگ نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کا اعلان کیا ہے اور یہ مستقبل میں حکمراں جماعت انصاف اور ترقی (آق) کے لیے چیلنج ثابت ہوسکتی ہیں۔

    احمد داؤد اوغلو سے قبل سابق نائب وزیراعظم ، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ علی بابا جان نے ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔

    صدر اردوآن کے زیر قیادت آق حکومت کی اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک معاشی بحران سے دوچار ہوچکا ہے اور بے روزگاری کی شرح میں نمایاں اضافہ ہے۔اس وجہ سے ترک ووٹر حکمراں آق سے ناراض ہورہے ہیں۔

    اس کا اظہار انھوں نے ترکی میں منعقدہ گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں کیا تھا اور ان میں استنبول اور انقرہ آق کے کنٹرول سے نکل گئے تھے اور وہاں حزب اختلاف کے امیدوار میئر منتخب ہوئے ہیں۔

    دونوں جماعتیں آق کی حکومتی کارکردگی سے غیر مطمئن ان ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرسکتی ہیں اور انھیں بہتر اور ترقی پسند منشور کی صورت میں ترک شہریوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق داؤد اوغلو کے اعلان سے قبل رائے عامہ کے ایک جائزے میں ان کی نئی جماعت کو 3.4 فیصد ترکوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ باباجان کی جماعت کے لیے عوامی حمایت کا تناسب 8 فی صد ہے۔

    ترک صدر طیب اردوآن نے قبل ازیں تو احمد داؤد اوغلو یا باباجان کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ان دونوں کے علاوہ اپنے دوسرے سابق اتحادیوں پر ریاست کے ملکیتی حلق بنک میں فراڈ کا الزام عاید کیا تھا اور کہا تھا کہ احمد داؤد اوغلو نے استنبول میں سحر یونیورسٹی کے قیام کے لیے اس بنک سے قرضے منظور کیے تھے۔

    واضح رہے کہ سابق ترک وزیراعظم ہی نے یہ جامعہ قائم کی تھی۔

    انھوں نے ترک صدر کے الزام کا ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا اور پارلیمان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صدر اردوآن ، ان کے خاندان کے افراد اور سابق اور موجودہ اعلیٰ عہدے داروں کے اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں۔

    انھوں خود کو بھی تحقیقات کےلیے پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاملے کی ان سے بھی پوچھ تاچھ کی جائے۔احمد داؤد اوغلو نے ستمبر میں آق کی رکنیت سے استعفا دے دیا تھا۔

    واضح رہے کہ احمد داؤد اوغلو 2009ء سے 2014ء تک ترکی کے وزیر خارجہ رہے تھے، اسی سال وہ وزیراعظم بن گئے تھے اور 2016ء تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔

  • وزیراعظم احمد اوغلو کی اپوزیشن کوعبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت

    وزیراعظم احمد اوغلو کی اپوزیشن کوعبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت

    استنبول : ترک وزیرِاعظم نے یکم نومبر کےانتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کو عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی۔

    وزیراعظم احمد اوغلو کا کہنا ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندگی ملنی چاہیے، احمد اوغلو کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی دو جماعتوں نے احمد اوغلو کی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے، جس میں اے کے پارٹی کو اکثریت حاصل ہو۔

    کردوں کی حامی اپوزیشن جماعت ایچ ڈی پی کے رہنما کا کہنا ہے کہ انکی پارٹی کےارکان عبوری کابینہ کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں لیکن داغلو کوشش کریں گے کہ انہیں شامل نہ کیا جائے۔

    انکا کہنا تھا کہ انہیں حیرانی نہیں ہوگی اگر وزیرِاعظم آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایچ ڈی پی کے بغیر حکومت تشکیل دیں۔

    تجزیہ کاروں کے نزدیک کرد جنگجوؤں پر ترک طیاروں کی بمباری کیساتھ ایچ ڈی پی کاحکومت میں شامل ہونا متنازعہ ہوگا جبکہ صدراردگان ایچ ڈی پی پر جنگجوؤں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کرچکے ہیں۔

  • داعش کیخلاف کارروائی، ترکی کا بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کا عندیہ

    داعش کیخلاف کارروائی، ترکی کا بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کا عندیہ

    قبرص: ترکی نے بھی غیرملکی جنگجووں اور دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کا عندیہ دے دیا ہے۔

    قبرص میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ترک وزیراعظم احمد داود اولو کا کہنا تھا کہ شدت پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں کی جانب سے عراق اور شام کی طرح ترکی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں، ملک اور قوم کے مفاد میں رہتے ہوئے ترکی نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    واضح رہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لئے امریکی صدر باراک اوباما کے اعلان کے بعد عراق اور شام میں موجود شدت پسند گروپ داعش کے اہم ٹھکانوں پر حملے شروع کردئیے گئے ہیں۔

    شدت پسندوں گروپ کے خلاف حملوں میں دنیا کے تیس ممالک امریکا کے ساتھ ہیں۔