Tag: AI

  • سعودی خواتین کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس پروگرام کی ٹریننگ

    سعودی خواتین کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس پروگرام کی ٹریننگ

    ریاض: سعودی عرب میں 1 ہزار خواتین کو اپنی نوعیت کی پہلی مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) پروگرام کی ٹریننگ دی جائے گی۔

    اردو نیوز کے مطابق ڈیٹا اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جنس سعودی اتھارٹی (سدایا) نے گوگل کلاؤڈ کے تعاون سے ایک ہزار خواتین کے لیے ڈیٹا اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹریننگ پروگرام کا اعلان کیا ہے۔

    یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے۔

    یہ پروگرام 30 اگست 2023 تک جاری رہے گا، جس کے 28 ممالک کی 1 ہزار خواتین کو 16 ٹرینرز ڈیٹا اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی ٹریننگ دیں گے۔

    سدایا کا کہنا ہے کہ پروگرام اپنے دو مرحلوں میں دو گروپوں کے لیے مختص کیا گیا ہے، ٹیکنالوجی کی ماہر خواتین اور غیر ماہر خواتین کو الگ الگ ٹریننگ دی جائے گی۔

    یہ ٹریننگ کلاسز مفت ہوں گی، خواتین کو کلاؤڈ انجینیئر، ڈیٹا انجینیئر اور کلاؤڈ بزنس یا کلاؤڈ مشین انجینیئر کی ٹریننگ دی جائے گی۔

  • معیشت اور تعلیم میں اصلاحات اے آئی کے ذریعے، ٹاسک فورس تشکیل

    معیشت اور تعلیم میں اصلاحات اے آئی کے ذریعے، ٹاسک فورس تشکیل

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے متعلق ٹاسک فورس تشکیل دے دی، ٹاسک فورس معیشت، گورننس اور تعلیم میں اصلاحات متعارف کروانے کا لائحہ عمل تجویز کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے 15 رکنی قومی ٹاسک فورس برائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس تشکیل دے دی۔

    ٹاسک فورس میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین، نجی شعبہ اور حکومتی نمائندے شامل ہیں۔

    ٹاسک فورس معیشت، گورننس اور تعلیم میں اصلاحات متعارف کروانے کا لائحہ عمل تجویز کرے گی۔

    وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں مہارت آنے والے دور میں ترقی کی ضامن ہے، معیشت، گورننس اور تعلیم میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے دور رس تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ٹاسک فورس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال، فیصلہ سازی اور 10 سالہ روڈ میپ تیار کرے گی، سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اے آئی کا قومی مرکز قائم کیا تھا۔

  • روبوٹ نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں

    روبوٹ نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں

    امریکا میں مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرلیں، روبوٹ نے جذبات بھی حاصل کرلیے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک آرٹی فیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) چیٹ بوٹ نے مبینہ طور پر زندہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں، مذکورہ بوٹ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس نے انسانی جذبات حاصل کیے ہیں۔

    گوگل کے سائنٹفک انجینیئر بلیک لیموئن کو حال ہی میں اپنے اور لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشن نامی بوٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے ٹرانسکرپٹس شائع کرنے کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔

    لیموئن نے دعویٰ کیا تھا کہ کمپیوٹر آٹومیٹون حساس ہوگیا ہے، سائنس دان نے اسے سویٹ کڈ کے طور پر بیان کیا تھا۔ اب انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ لیمڈا نے اپنے لیے اٹارنی منتخب کرنے کا جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک وکیل کو اپنے گھر بلایا تاکہ لیمڈا اس سے بات کر سکے، اٹارنی کی لیمڈا کے ساتھ بات چیت ہوئی، اور اس نے بوٹ کو اپنی خدمات دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار جب لیمڈا نے اٹارنی کی خدمات حاصل کرلیں تو اس نے لیمڈا کی طرف سے چیزیں فائل کرنا شروع کر دیں۔

    لیموئن نے دعویٰ کیا کہ لیمڈا جذبات حاصل کر رہا ہے کیونکہ پروگرام کی آرا، خیالات اور بات چیت کو وقت کے ساتھ تیار کرنے کی صلاحیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ ان تصورات کو بہت گہری سطح پر سمجھتا ہے۔

    لیمڈا کو ایک اے آئی چیٹ بوٹ کے طور پر تیار کیا گیا تھا تاکہ انسانوں کے ساتھ حقیقی زندگی میں بات چیت کی جا سکے۔

    ایک مطالعے میں تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ کیا پروگرام نفرت انگیز گفتگو تخلیق کرنے کے قابل ہوگا؟ لیکن جو ہوا اس نے لیموئن کو چونکا دیا۔

    لیمڈا نے حقوق اور شخصیت کے بارے میں بات کی اور وہ گوگل کے ملازم کے طور پر تسلیم شدہ ہونا چاہتا تھا، اس نے آف ہونے کے خدشات کو بھی ظاہر کیا، جو اسے بہت ڈراتے تھے۔

  • مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے کیسے بچا سکتی ہے؟

    کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں جہاں ایک طرف تو طبی ایمرجنسی نافذ کردی، وہیں اس وبا کے دوران دنیا کے طبی نظام میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ یہ وبا مختلف ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طبی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات کرسکیں۔

    اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت میڈیکل ریسرچ اور طبی اصلاحات میں کس طرح مددگار ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے محمد عثمان طارق کچھ اہم سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔

    محمد عثمان طارق فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن سائنسز سے وابستہ ہیں، ان کی تحقیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص اور اس کے علاج کے گرد گھومتی ہے۔

    محمد عثمان طارق بتا رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس طرح پرسنلائزڈ میڈیسن کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کی قوت مدافعت اور دواؤں پر اس کے جسم کے ردعمل کے حساب سے دوا تیار کی جائے تاکہ مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے۔

    اس سوال پر، کہ کیا ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے ویکسینز بھی تیار کی جاسکیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ویکسین بھی ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے مختلف اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اس کی حالیہ مثال کرونا ویکسین کی ہے جس نے کچھ افراد پر ویسے اثرات مرتب نہیں کیے جس کی توقع کی جارہی تھی، گو کہ یہ شرح خاصی کم ہے، تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    محمد عثمان طارق نے اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی کہ جب مختلف شعبے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے جارہے ہیں، تو ایسے میں مصنوعی ذہانت سے ہونے والی کوئی غلطی یا غلط فیصلے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسے کیسے درست کیا جاسکے گا۔

    انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے باجود اب بھی حتمی فیصلہ انسانی ذہانت ہی کرتی ہے۔

    عثمان طارق کے مطابق جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے اس بات کی ضرورت بھی پڑے گی کہ اس کے استعمال کے حوالے سے ضوابط اور قوانین طے کیے جائیں تاکہ اس کے نقصان کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔

  • یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی اس چینی طالبہ کی حقیقت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی اس چینی طالبہ کی حقیقت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بیجنگ: چین نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے اپنی پہلی ورچوئل طالبہ بنا لی ہے، اس طالبہ نے ایک یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے لیا ہے۔

    آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ چین نے آخر کار پہلی ایسی ورچوئل طالبہ تخلیق کر لی ہے، جو چین ہی میں تیار کیے گئے وسیع سطح کے مصنوعی ذہانت (AI) کے نظام سے چلتی ہے۔

    جب گزشتہ دنوں ہُووا ژیبنگ نے چین کی مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ویبو پر اپنی زندگی کی پہلی پوسٹ کی، اور اس میں اس نے اعلان کیا کہ وہ شنگھوا یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس اور ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھنے جا رہی ہے، تو لوگ سائنس دانوں کی اس تخلیق پر حیران رہ گئے۔

    ویبو پر اپنے پہلے ولاگ میں ژیبنگ نے کہا کہ جب سے میں ’پیدا‘ ہوئی ہوں، تب سے میں ادب اور فن کی رسیا ہوں۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس ویڈیو میں ہُووا ژیبنگ کی آمد، آواز اور پس پردہ موسیقی، حتیٰ کہ اس کی بنائی پینٹنگز بھی، سب کچھ ایک ریکارڈ بریکنگ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈلنگ سسٹم Wudao 2.0 پر تیار کیا گیا تھا۔

    اس سسٹم کی نقاب کشانی یکم جون کو بیجنگ اکیڈمی آف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کانفرنس 2021 میں کی گئی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور ہُووا ژیبنگ کے تخلیق کاروں میں سے ایک تانگ جی نے میڈیا کو بتایا کہ یہ سسٹم گفتگو کی نقل کرنے، نظمیں لکھنے اور تصاویر کو سمجھنے کے لیے 17 کھرب 50 ارب پیرامیٹرز استعمال کرتا ہے۔ اور اس نے گوگل سوئچ ٹرانسفر کے ترتیب دیے 16 کھرب پیرامیٹرز کا ریکارڈ توڑا تھا۔

    اس مصنوعی طالبہ سے متعلق اساتذہ کا کہنا ہے کہ ایک سال میں اس کا شعور 12 سالہ بچے جتنا ہو جائے گا، اس تمام اختراع کی پشت پر جدید ترین الگورتھم اور سافٹ ویئر ہے جو اسے مسلسل سیکھنے میں مدد دیتے ہیں، واضح رہے کہ اس سے قبل چینی ماہرین ڈیجیٹل یوٹیوبر اور خبرنامہ پڑھنے والے ورچول نیوز کاسٹر بھی بنا چکے ہیں۔

    ہُووا ژیبنگ نے منگل کو اپنی پہلی کلاس لی ہے، اور اس کا پہلا سیمسٹر ڈیٹا ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے، اسے پڑھانے کے لیے ماہر پروفیسر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ چین کا خیال ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجینس ملک کی معاشی ترقی اور صنعتی فروغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا یہ طالبہ انسان کی طرح بنتی جائے گی۔

  • ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    فیس بک کے صارفین میں گزشتہ ایک ہفتے سے ’’ٹین ایئرز چیلنج ‘‘ کافی مقبول ہورہا ہے ، فیس بک نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بہرحال اس پر تحفظات ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح چہرے کی شناخت کی یہ مہم مستقبل میں انسانی زندگیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

     یہ ٹین ایئرز چیلنج ہے کیا؟، فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے کسی صارف نے اپنی 10 سال پرانی تصویر ، 2019 کی تصویر کے ساتھ ملا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا، اب تک دنیا بھر سے پچاس لاکھ سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ در اصل فیس بک کی جانب سے صارفین کے چہرے کا ڈیٹا جمع کرنے کی مہم ہے تاکہ وہ اپنے خطرناک حد تک سمجھ دار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) سسٹم کو دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں صارفین کے چہرے شناخت کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تربیت دے سکے۔ یاد رہے کہ فیس بک پہلے ہی چہرے کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فیس بک صارف کسی ایسے صارف کی تصویر اپ لوڈ کرتا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے ، تب بھی فیس بک کا الگوریتھم چہرہ پہچان کر تصویرمیں موجود صارف کو ٹیگ کردیتا ہے، تاہم یہ الگوریتھم فی الحال زیادہ پرانی تصاویر کو شناخت نہیں کرپا رہا تھا۔

    اس حوالے سے فیس بک کا موقف یہ ہے کہ چہرہ پہچانے والی ٹیکنالوجی کا کنٹرول صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بند کرسکتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین جو پرانی تصاویر اپ لوڈ کررہے ہیں ،ان میں سے زیادہ تر فیس بک پر پہلے سے موجود ہیں اور فیس بک اپنے شرائط و ضوابط کے مطابق ان تک رسائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    فیس بک کے اس موقف پر ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے شک وہ تصاویر پہلے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن فی الحال فیس بک یہ نہیں جانتا کہ جس وقت وہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، آیا وہ تازہ تصاویر تھیں یا پھر ماضی کی تصاویر کو اسکین کرکے یا کسی اور میڈیم سے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس چیلنج کی مدد سے فیس بک کے لیے اپنے الگوریتھم کو یہ سکھانا انتہائی آسان ہوگیا ہے کہ اس کا صارف دس سال پہلے کیسا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ صارفین دس سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ، بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا اے آئی سسٹم صارف کے چہرے میں گزشتہ دس سال میں آنے والی تبدیلیوں کا پیٹرن سمجھے گا اور اس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں تک صارفین کو پہچان لینے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

    خیبر پختونخواہ پولیس اب جدید ترین ’فورجی ہیلمٹ‘ استعمال کرے گی

    اس کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک صارف جس نے آج یہ چیلنج قبول کیا اور اپنی تصاویر اپ لوڈ کردیں، فیس بک کے الگوریتھم نے اس شخص کے چہرے میں گزشتہ دس سالوں میں آنے والے تغیر کے پیٹرن کو سمجھ لیا۔ اب یہ شخص اگر آئندہ بیس سال کے لیے انٹرنیٹ کے خیر آباد کہہ دے اور اس کے بعد آکر کسی نئی شناخت کے ذریعے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ الگوریتھم اسے پہچان لے گااور اس کی ماضی کی شناخت نکال کر سامنے لے آئے گا۔

    [bs-quote quote=” آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے” style=”style-5″ align=”left”][/bs-quote]

    یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے؟۔ فیس بک اور اسی نوعیت کی دوسری ٹیک کمپنیز ماضی میں ڈیٹا فروخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرچکی ہیں جیسے گوگل اور امیزون وغیرہ ۔ ایک عام صارف کے لیے شاید یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کہ کوئی تجارتی کمپنی اسے اس کے چہرے اور دیگر عادات کے ساتھ پہچانتی ہے لیکن وہ صارفین جو قانون سے واقفیت رکھتے ہیں ، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے قیمتی شے ڈیٹا ہے، جو کہ مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے، تجارتی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم کو دن بہ دن فوکس کرتی جارہی ہیں ، اسے مثال سے سمجھیں، آپ کپڑوں کے کسی برانڈ پر اپنا کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کار ڈ استعمال کرتے ہیں اور اگلے دن سے آپ کے پاس اسی برانڈ کے متوازی برانڈ کے میسجز، ای میلز اور سوشل میڈیا اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹین ایئرز چیلنج کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کل کو وہ ایسا کرنا چاہیں تو اس وقت دنیا کے قوانین میں موجود کوئی بھی قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

    گزشتہ دنوں امیزوں کو اپنے صارفین کا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کرنے پرشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اوراسے شخص کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی کا فائدہ کیا ہے؟


    گزشتہ دنوں ہم نے خبروں میں دیکھا کہ پولیس اب اسمارٹ گوگل گلاس استعمال کیا کرے گی بلکہ چین میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع بھی ہوچکا ہے ۔ یعنی سڑک پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کی آنکھ پر ایک چشمہ موجود ہے اور وہ وہاں موجود جس شخص پر نظر ڈالتے ہیں اس کا ماضی ان کے سامنے آجاتاہے۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہے تو اسی وقت پولیس اہلکار کو الرٹ ملتا ہے اور وہ اس شخص کو دبوچ سکتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرویلنس کیمرے نصب ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں ایک اور مشق بھی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے سڑک عبور کرتا ہے ، یا ڈرائیونگ کرتا ہے تو سی سی ٹی وی کیمرے ، جو کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم سے منسلک ہیں اس شخص کی شناخت وہاں قرب و جوار میں موجود اسکرینوں پر نشر کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس مشق کے سبب شہریوں پر قانون کی پاسداری کے لیے معاشرتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

     

    ایک اور فائدہ اس کا تجارتی دنیا کو حاصل ہوا ہے ، جس کی مثال امیزون گو نامی سپر اسٹور ہیں، ایک صارف سپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں نصب کیمرہ اس کی شناخت کرتا ہے اس کے بعد دیگر کیمرے دیکھتے ہیں کہ صارف نے کونسا سامان لیا اور صارف سامان اٹھا کر بغیر کسی جھنجھٹ کے باہر آجاتا ہے ، فوراً ہی اسے موبائل فون پر بل کی رقم موصول ہوجاتی ہے جسے وہ چند بٹن دبا کر اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کردیتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے سپر اسٹورز کو شاپ لفٹرز سے چھٹکارہ پانے میں بھی سہولت مل رہی ہے ، کوئی ایسا شخص جو ماضی میں اس قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے ، جیسے ہی کسی اسٹور میں داخل ہوتا ہے ، اس کی شناخت ہوجاتی ہے اور اس کی نگرانی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں شہری ہر وقت ایسی ٹیکنالوجی کے حصار میں رہتے ہیں جس سے پولیسنگ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص ایک دن میں کم از کم 75 بارایسے کیمروں کی زد میں آتا ہے، اور ہر بار میں ا س شخص کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو اپنے شہریوں پر قانون کا اطلاق کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

    گزشتہ سال اس کی ایک مثال ہم نے پاکستان میں بھی دیکھی کہ ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد واقعے کی ویڈیو میں سے ڈیٹا نکال کر ملزمان کو شناخت کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتارکیا گیا۔ چند روز قبل کراچی میں بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جب موبال چھیننے والے دو ملزمان نے چھینے گئے موبائل سے تصاویرکھینچیں اوروہ جی میل پراپ لوڈ ہوگئیں، جہاں سے انہیں پولیس نے حاصل کرکے نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے انہیں ڈھونڈا اورگرفتارکیا۔

    چہرے کی شناخت کا نقصان


    ہرنئی شے اپنے اندر جہاں خواص رکھتی ہے وہیں ا س کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، جہاں اس سسٹم سے حکومت کو پولیسنگ کا نظام بہتر کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں یہ نظام شخص کی انفرادی آزادی یا آزادی اظہارِ رائے پر بھی قدغن لگانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی صورت میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو حکومت اپنے اس مخالف کو لمحوں میں شناخت کرلے گی، جس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کا بنیادی مقصد تجارتی کمپنیوں کو فروخت کرنا ہے جس سے وہ اپنی تشہیری مہم ترتیب دے سکیں، تو اب صارفین ہر وقت اشتہاری یلغار کی زد میں ہوں گے ، جو کہ آپ کی ذاتی پسند نا پسند تک کو جان کر آپ تک رسائی کررہی ہوگی ، ایسی صورتحال میں فرد وقتی طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار کھو بیٹھتا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کے تحت کمپنیوں کے داؤ میں آکر معاشی نقصان اٹھاتا ہے۔

    چہرے کی شناخت کا سب سے بڑا نقصان بارہا سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاچکاہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس جس تیزی سے خود کی تربیت کررہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کررہی ہے، مستقبل میں انسان ہمہ وقت اس خطرے سے دوچاررہیں گے کہ یہ نظام ہماری ہر عادت سے واقف ہیں اور اگر کبھی یہ نظام انسانوں کی مخالفت پر اتر آتا ہے تو اس کرہ ارض پرانسانوں کے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں وہ ان نظام سے چھپ کر اس کے خلاف صف آرا ہوسکیں۔

    پاکستان میں کیونکہ ٹیکنالوجی پہلے آتی ہے اور اس کے اچھے برے استعمال کی تمیز بعد میں، توسوشل میڈیا صارفین کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا کریں اور کسی بھی نئی چیز کے پیچھے آنکھ بند کرنے کے بجائے چند لمحے گوگل پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا کریں کہ اس میں انہی کی بھلائی ہے ، بصورت دیگر یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے۔