Tag: AIG

  • بچے کو واپس نہیں لا سکتے لیکن یقین دلاتے ہیں انصاف ہوگا: ایڈیشنل آئی جی

    بچے کو واپس نہیں لا سکتے لیکن یقین دلاتے ہیں انصاف ہوگا: ایڈیشنل آئی جی

    کراچی: ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ نے ڈیڑھ سالہ بچے کی ہلاکت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ واقعے پر متاثرہ خاندان سے معذرت کرتے ہیں، بچے کو تو واپس نہیں لا سکتے لیکن یقین دلاتے ہیں انصاف ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے پر دکھ اور افسوس ہے، فیملی سے معذرت کرتے ہیں۔ ایس او پیز بار بار دیکھی جاتی ہیں۔ فیملی نے جو بھی مطالبہ کیا اس کو پورا کریں گے۔

    ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ فیملی نے کہا بہترین افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ متاثرہ خاندان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی اور مکمل انصاف فراہم کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی اور دیگر ثبوتوں پر کارروائی کی جائے گی، بچے کو تو واپس نہیں لا سکتے لیکن یقین دلاتے ہیں انصاف ہوگا۔ جہاں جہاں ایسے واقعات ہوئے یقیناً کوتاہی ہے۔ فیملی نے ایف آئی آر اپنی مرضی سے درج کروائی ہے۔

    ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی کے لحاظ سے بھرتیاں نہیں ہوئیں، تربیت سے متعلق بھی خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تربیتی معیار کو بہتر کرنا ہوگا۔ تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے، تفتیش مکمل ہونے دیں۔ تفتیشی ٹیم کی سفارشات پر عمل کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ صورتحال بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن پر اعتماد ہوگا ان سے تفتیش کروائی جائے گی۔ بچے کے اہلخانہ نے تفتیش کے لیے افسران کے نام دیے ہیں۔

    آئی جی نے مزید کہا کہ پولیس والوں نے غلط کیا ہے تو انہیں سزا ضرور ملے گی۔ عبد اللہ شیخ اور پیر محمد شاہ سے تفتیش کروائی جائے گی۔ مجمعے میں لوٹ مار کے دوران اہلکار کو گولی نہیں، دماغ سے کام لینا ہوگا۔

    خیال رہے کہ ڈیڑھ سالہ بچے کی ہلاکت کا واقعہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر پیش آیا تھا جب پولیس کی مبینہ فائرنگ کی زد میں 19 ماہ کا کمسن بچہ بھی آگیا۔

    مقتول بچے کے والد کاشف کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی روڈ پر رکشے میں جا رہے تھے کہ اسی دوران پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا، کچھ دیر بعد بچے احسن کے جسم سے خون نکلنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ خون بہنے کے بعد ہم اسی رکشے میں بچے کو لے کر اسپتال پہنچے مگر وہ اُس وقت تک دم توڑ چکا تھا۔

    مبینہ پولیس فائرنگ سے بچے کی موت پر پولیس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں، ورثا سے رابطے میں ہیں۔

  • کراچی سے تمام بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے: اے آئی جی سندھ

    کراچی سے تمام بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے: اے آئی جی سندھ

    کراچی: اے آئی جی سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا ہے کہ 2018 میں اب تک اغوا کے 8 کیسز رپورٹ ہوئے، تمام آٹھ بچوں کو بازیاب کراکر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں انٹرویو دیتے ہوئے کیا، ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا تھا کہ 2018 میں اب تک 186 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 90 فیصد مل گئے، اس کے علاوہ اغوا کا کوئی واقعہ ہے تو وہ ہماری اطلاع میں لایا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ بچوں کے اغوا سے متعلق غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، پولیس میں کالی بھیڑوں کی وجہ سے عوام میں بداعتمادی پیدا ہوئی، چاہتا ہوں کالی بھیڑوں کو پولیس کی صفوں سے باہر نکالا جائے، پہلے دن سے کوشش ہے پولیس کا رویہ عوام سے اچھا ہو۔

    اے آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سی پی ایل سی اعدادوشمار میں صرف اسٹریٹ کرائم شامل نہیں، چوری کی گئی موٹرسائیکلوں کے واقعات بھی اسٹریٹ کرائم ہے، کراچی میں گاڑیاں اور موٹرسائیکل چھیننے کے واقعات میں کمی آئی، اسٹریٹ کرائم میں کچھ گروہ متحرک ہوئے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ موبائل اسنیچنگ سے متعلق مقامی سطح پر اقدامات کیے، ایک گینگ پکڑا ہے جو الیکٹرانک مارکیٹ میں چوری کے موبائل دیتا تھا، چوری موبائلز کا آئی ایم ای آئی مکمل بلاک کے لیے وفاق کا تعاون درکار ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران پولیس اہلکاروں کے تبادلے سے فرق پڑا، پولیس کے تبادلے سے اسٹریٹ کرائم بڑھا ہے، پنجاب میں بھی پولیس کے تبادلوں سے کرائم بڑھا ہے، ملزمان کو سزا دلانے کے لیے لوگوں کو پراسس سے گزرنا پڑتا ہے۔

  • کراچی میں روزانہ کرائم کی 40 سے 50 وارداتیں ہوتی ہیں: ایڈیشنل آئی جی

    کراچی میں روزانہ کرائم کی 40 سے 50 وارداتیں ہوتی ہیں: ایڈیشنل آئی جی

    کراچی: ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ کا کہنا ہے کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر کرائم کی 40 سے 50 وارداتیں ہوتی ہیں۔ کارروائیوں میں روزانہ 150 افراد گرفتار ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا کام عوام کی خدمت اور مدد کرنا ہے۔ 14 اگست پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہوں گے۔

    ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ شہر میں 13 ہزار سے زائد افسران و اہلکار تعینات ہوں گے۔ مزار قائد کے اطراف 500 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی پولیس کے لیے اسٹریٹ کرائم بڑا چیلنج ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کرائم کی 40 سے 50 وارداتیں ہوتی ہیں۔ کارروائیوں میں روزانہ 150 افراد گرفتار ہوتے ہیں۔

    ایڈیشنل آئی جی نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔

  • صحافیوں پر تشدد، آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو نوٹس جاری

    صحافیوں پر تشدد، آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو نوٹس جاری

    کراچی : عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں پر پولیس تشدد کیخلاف سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ ، ڈی آئی جی ، اورایس ایس پی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ کل تک ان تمام افراد کے نام بتائیں جائیں جو لوگ صحافیوں پر تشدد میں ملوّث ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ذوالفقار مرزاکی طرف سے دائر توہین عدالت کیس میں عدالت نے ہائیکورٹ کے باہر صحافیوں پر تشدد کے واقعے پر شدید برہمی کا اظہار کیا.عدالت نےذمہ داروں کیخلاف فوری کارروائی کا حُکم دے دیا ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ کراچی  کے باہرصحافیوں پرتشدد اور توہین عدالت کامعاملے پر سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ پربرہمی کااظہار کیا۔ آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت چار پولیس افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے۔ ریمارکس دیئے کہ عدالتیں بند کردیں گے لیکن حملہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔۔توہین عدالت کیس میں آئی جی سندھ،ایڈیشنل آئی جی کراچی،چیف سیکریٹری سندھ پیش ہوئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے آئی جی سندھ پربرہمی کااظہارکیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ سب کچھ آئی جی سندھ۔۔ ایڈیشنل اآئی جی ڈی آئی جی اور ایس ایس پی ساؤتھ کی سرپرستی میں ہوا۔ عدالت نے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ کے سامنے بھی کئی سوال رکھ دیئے۔پوچھا گیا کہ کس کی ہدایت پر یہ آپریشن شروع کیاگیا نقاب پوش اہلکاروں کی قیادت کون کررہا تھا؟ میڈیا کے نمائندوں اوردیگرپرتشدد کا اختیار کس نے دیا؟ ذمہ دار افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تئیس مئی کو رات آٹھ بجے تک چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ،  آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ساؤتھ سے رابطہ کی کوشش کی گئی مگر کسی نے جواب نہیں دیا۔عدالت نے چاروں پولیس افسران کوتوہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے کل تک جواب جمع کرانے کاحکم دیا۔

    آئی جی سندھ،ایڈیشنل آئی جی کراچی اورسیکریٹری داخلہ کو حلف نامے اور چیف سیکریٹری سندھ کوبھی جواب جمع کرانےکاحکم دیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کیااب عدالت کے تحفظ کیلئے فوج بلائیں۔عدالتیں بند کردیں مگرعدالت پرحملہ برداشت نہیں کیاجائیگا۔عدالت نے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادرتھیبوڈی آئی جی ساؤتھ فیروزشاہ اورایس ایس پی ساؤتھ چودھری اسد کوتاحکم ثانی کام سے روک دیا، بینچ کے روبرو آئی جی سندھ کا کہنا تھاکہ ذوالفقارمرزا کےساتھیوں نے عدالت کے اندراورباہرقتل عام کامنصوبہ بنایا تھا،اس لئے پولیس کو کارروائی کرناپڑی۔

    عدالت کا آئی جی سندھ کے بیان پر کہنا تھا کہ جس وقت عدالت کا گھیراؤ کیا گیا کیا آپ سو رہے تھے۔آپ اتنا آگے نہ جائیں کہ اپنا دفاع کرنا ممکن نہ ہو۔۔تسلی بخش جواب نہ دیا تو آپ کوبھی کام سے روک دیاجائیگا،عدالت نے آئی جی سندھ،ایڈیشنل آئی جی کراچی اورسیکریٹری داخلہ کوکل تک حلف نامے جبکہ چیف سیکریٹری سندھ کوجواب جمع کرانیکاحکم دیاہے۔آئی جی سندھ کی عدالت آمد کے موقع پرصحافیوں نے پولیس تشددکیخلاف احتجاج بھی کیا ایڈیشنل آئی جی کراچی نے صحافیوں کو ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔

    عدالت نے چیف سیکرٹری، آئی جی سندھ اور ہوم سیکرٹری کو تحریری طور پرحلف نامہ داخل کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے ملزمان کیخلاف فوری کاروائی کا حُکم دیا۔ جس کے بعد سماعت منگل چھبیس مئی تک ملتوی کردی گئی۔

  • سندھ پولیس کے کرپٹ افسران کی فہرست تیار

    سندھ پولیس کے کرپٹ افسران کی فہرست تیار

    کراچی: سندھ پولیس کے کرپٹ افسران کی فہرست تیار کرنا شروع کردی گئی، اعلیٰ عہدوں پر فائز پولیس افسران سب سے زیادہ اثاثوں کے مالک نکلے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کی کے اثاثہ جات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں کچھ ایسے افسران کے نام بھی شامل ہیں جو ایماندار ہیں لیکن زیادہ ترکرپٹ نکلے ہیں۔

    فہرست کے مطابق ڈی آئی جی، اے آئی جی سے لے ڈی ایس پی کی سطح کے افسران کے اثاثہ جات کی بھی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی اعلیٰ افسران کروڑوں روپے مالیت کے بنگلے، ہوٹلز، پترول پمپ اور بیرونِ ملک کاروبار کے مالک نکلے جبکہ کچھ کے بلڈرز کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں۔

    سی پی ایل سی کے سابق سربراہ جمیل یوسف نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کیبدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو کہ کسی بھی برسراقتدار شخص کا احتساب کرسکے۔

    سابق سی پی ایل سی چیف جمیل یوسف

    ان کا کہنا تھا ان تمام حرکتوں سے نقصان ریاست کا ہوتا ہے احتساب صرف پولیس کا ہی نہیں بلکہ تمام بیوروکریسی کا ہونا چاہئیے۔

    اے آروائی نیوز کے اینکر پرسن اقرار الحسن کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ پولیس کا محمکہ اس قدر کرپٹ ہوچکا ہے کہ جب تک بڑے پیمانے پرکاروائی نہیں ہوگی معاملات سدھار کی جانب نہیں جائیں گے۔