Tag: Al Jazeera Journalist

  • الجزیرہ کے صحافی وائل الدحدوح کے حوالے سے اہم خبر

    الجزیرہ کے صحافی وائل الدحدوح کے حوالے سے اہم خبر

    دوحہ: صہیونی فورسز کی بمباری میں زخمی ہونے والے الجزیرہ کے صحافی وائل الدحدوح غزہ سے دوحہ پہنچ گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں زخمی ہونے والے بیورو چیف وائل الدحدوح کو سرجری کے لیے دوحہ قطر لایا گیا ہے، وہ ایک طیارے کے ذریعے دوحہ پہنچے، جہاں ان کے ساتھیوں نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔

    وائل الدحدوح 15 دسمبر کو اسرائیلی حملے کے دوران گھائل ہوئے تھے، ان کے بازو پر شدید چوٹ آئی تھی، دوحہ میں جس کی سرجری کی جائے گی، اس سے قبل مصر کی جانب سے داخل ہونے کی اجازت ملنے پر وہ رفح کراسنگ کے ذریعے مصر گئے تھے جہاں سے انھیں طیارے میں دوحہ پہنچایا گیا۔ جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں فرحانہ اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں دحدوح تو زخمی ہو گئے لیکن ان کے ساتھی کیمرہ مین سمر ابو دقّہ شہید ہو گئے تھے۔

    صحافی وائل الدوحدوح نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں بیوی، بیٹا، بیٹی اور پوتے کو کھو دیا تھا، خان یونس میں ایک ہفتہ قبل جوان بیٹا 27 سالہ حمزہ رپورٹنگ کے دوران اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوا تھا۔ وہ گاڑی میں صحافی مصطفیٰ ثریا کے ساتھ جا رہا تھا جب میزائل نے انھیں ہٹ کر دیا، مصطفیٰ بھی شہید ہو گئے تھے۔

    حمزہ دحدوح اپنے چھوٹے بھائی محمود کے ساتھ

    وائل عزم اور حوصلے کی مثال ہیں، جنھوں نے خاندان کھونے کے باوجود اپنے فرائض کو جاری رکھا، اور صحافتی ذمہ داریاں پوری کیں۔

    اکتوبر کا وہ تباہ کن دن تھا جب اسرائیلی گولہ باری میں وائل نے اپنی بیوی، ایک 16 سالہ بیٹے، ایک 7 سالہ بیٹی اور ایک پوتے کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔

  • فلسطینی صحافی کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل قرار

    فلسطینی صحافی کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل قرار

    جنیوا: اقوام متحدہ نے فلسطینی مقتول صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گولیاں اسرائیلی فورسز نے چلائی تھیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ان کے پاس جمع کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 مئی کو الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ پر گولیاں اسرائیلی فورسز نے چلائی تھیں۔

    اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان روینہ شامدسانی نے جمعہ کو جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے جو بھی معلومات اکٹھی کی ہیں وہ اس بات سے مطابقت رکھتی ہیں کہ ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے اور اس کے ساتھی علی صمودی کو زخمی کرنے والی گولیاں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے آئیں نہ کہ مسلح
    فلسطینیوں کی فائرنگ سے۔

    الجزیرہ کی صحافی شرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین پر فوجی چھاپے کی کوریج کر رہی تھیں، ان کے قتل سے فلسطینیوں اور دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

    بعد ازاں اسرائیلی پولیس نے ان کے جنازے میں شریک افراد پر بھی حملہ کیا، جس سے ابو عاقلہ کا تابوت تقریباً زمین پر گر گیا۔

    متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے تجربہ کار رپورٹر کو ہلاک کیا اور کئی میڈیا اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات بھی اسی نتیجے پر پہنچی ہیں۔

    اسرائیلی حکام، بشمول وزیر اعظم نفتالی بینیٹ، نے ابتدائی طور پر یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ فلسطینی بندوق بردار ابو عاقلہ کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم، اسرائیلی بعد میں پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ وہ اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ یہ گولی کسی اسرائیلی فوجی نے چلائی تھی۔

    اسرائیل نے ابھی تک یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا کہ آیا کسی کو اس قتل پر مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا یا نہیں اور اس نے اندرونی تحقیقات سے سامنے آنے والے نتائج کو بھی جاری نہیں کیا ہے۔

    الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے 26 مئی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے اس معاملے میں انصاف کے لیے ایک قانونی ٹیم تشکیل دی ہے جو دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کرے گی۔

    اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے پر آئی سی سی میں دائر کیس پر کام کرنے والے وکلا نے بھی کہا ہے کہ وہ ابو عاقلہ کے قتل کو اپنے کیس میں شامل کریں گے۔