Tag: Alien

  • ناسا کے سائنسدانوں کا ایلینز سے متعلق بڑا دعویٰ

    ناسا کے سائنسدانوں کا ایلینز سے متعلق بڑا دعویٰ

    دنیا بھر کی خلائی ایجنسیوں کو ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں مل پایا ہے کہ ایلینز حقیقت میں موجود ہیں بھی یا نہیں، مگر اب ناسا کے سائنسدانوں کا ایلینز سے متعلق بڑا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا 2030 تک ایلینز کی تلاش مکمل کرلے گا، محققین نے بتایا کہ مشتری کے چاند ’یوروپا‘ پر ایلین موجود ہو سکتے ہیں۔ ان کا پتہ لگانے کے لیے ایک مشن شروع کیا جائے گا۔

    یوروپا کلپر مشتری کے چاند یوروپا تک پہنچنے کے لیے ساڑھے پانچ سال کا سفر طے کرے گا جبکہ ناسا اس سال اکتوبر میں ‘یوروپا کلیپر’ نامی خلائی جہاز خلا میں بھیجنے کے لئے بالکل تیار ہے۔

    سائنسدانوں کی جانب سے یہاں پر پہنچ کر زندگی کے آثار تلاش کئے جائیں گے، اس خلائی جہاز کو بنانے میں 178 ملین ڈالر یعنی تقریباً 1500 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یوروپا کلیپر اکتوبر میں لانچ ہونے کے بعد 2030 تک چاند کا سفر مکمل کر لے گا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یوروپا کلپر خلائی جہاز جدید آلات سے لیس ہے۔

    آلات کے ذریعے ان کیمیکلز کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے جو زمین پر زندگی کا سبب ہیں۔یہ آلات اس بات کا بھی پتہ لگا سکتے ہیں کہ یوروپا کے چاند کے سمندروں سے نکلنے والے برف کے چھوٹے ذرات میں زندگی موجود ہے یا نہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے تین اہم چیزیں انتہائی ضروری ہیں، پہلا درجہ حرارت ہے جو مائع پانی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ دوسرا کاربن پر مبنی مالیکیولز کی موجودگی اور تیسرا توانائی، جیسے سورج کی روشنی۔ یہ تینوں چیزیں یوروپا پر موجود ہیں۔

    یوروپا چاند کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ یہاں بڑے بڑے سمندر ہیں اور ان پر برف کی موٹی چادر بچھی ہوئی ہے۔ برف کی اس چادر کے نیچے زندگی کے آثار ہوسکتے ہیں، تاہم اب تک یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر یہاں ایلین بھی ہوں گے تو وہ چھوٹے جرثوموں یا بیکٹیریا کی صورت میں موجود ہوں گے۔ اکثر برف پھٹ جاتی ہے اور اس سے پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے ڈیٹیکٹ کر کے ہی ایلینز کا علم ہوسکے گا۔

  • کیا چین کو خلائی مخلوق کے سگنل موصول ہوگئے؟ ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کر کے ہٹا دی

    کیا چین کو خلائی مخلوق کے سگنل موصول ہوگئے؟ ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کر کے ہٹا دی

    چین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خلائی مخلوق کی کسی تہذیب کے سگنل وصول کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، تاہم اس خبر کے شائع ہونے کے بعد کچھ ہی دیر بعد اسے ہٹا دیا گیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق چین کا دعویٰ ہے کہ اس کی دیوہیکل اسکائی آئی دوربین ممکنہ طور پر ایلین (خلائی مخلوق) تہذیبوں کے سگنلز پکڑنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

    ریاستی حمایت یافتہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی نے اس حوالے ایک رپورٹ شائع کی تھی، لیکن بعد میں اس دریافت کے بارے میں شائع شدہ رپورٹ اور پوسٹس کو حذف کر دیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں بیجنگ نارمل یونیورسٹی، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی قومی فلکیاتی رصد گاہ اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کی ماورائے زمین تہذیب کی تلاش کی ٹیم کے چیف سائنس دان ژانگ ٹونجی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی اسکوپ اسکائی آئی کے ذریعے دریافت کیے گئے نیرو (تنگ) بینڈ برقی مقناطیسی سگنلز پچھلے پکڑے گئے سگنلز سے مختلف ہیں اور ٹیم ان کی مزید جانچ کر رہی ہے۔

    یہ واضح نہیں ہے کہ رپورٹ کو بظاہر چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے سرکاری اخبار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی کی ویب سائٹ سے کیوں ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ خبر پہلے ہی سوشل نیٹ ورک ویبو پر ٹرینڈ کرنا شروع کر چکی تھی اور دیگر بشمول ریاست کے زیر انتظام ذرائع ابلاغ نے بھی اسے شائع کیا تھا۔

    ستمبر 2020 میں اسکائی آئی، جو کہ چین کے جنوب مغربی صوبہ گوئیژو میں واقع ہے اور اس کا قطر 500 میٹر (1,640 فٹ) ہے، نے باضابطہ طور پر بیرونی زندگی کی تلاش کا آغاز کیا۔

    رپورٹ کے مطابق سائنس دان ژانگ نے بتایا کہ ٹیم نے 2019 میں جمع کیے گئے ڈیٹا پر کارروائی کرتے ہوئے 2020 میں مشکوک سگنلز کے دو سیٹوں کا پتہ لگایا، اور 2022 میں ایک اور مشکوک سگنل ایکسپو پلینیٹ کے اہداف کے مشاہدے سے ملا۔

    چین کی اسکائی آئی کم فریکوئنسی والے ریڈیو بینڈ میں انتہائی حساس ہے اور ایلین تہذیبوں کی تلاش میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتبہ سگنلز تاہم کسی قسم کی ریڈیو مداخلت بھی ہو سکتے ہیں، اس پر مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔

  • میرا ہونے والا بچہ خلائی مخلوق کی نسل سے ہوگا، خاتون کا دعویٰ

    میرا ہونے والا بچہ خلائی مخلوق کی نسل سے ہوگا، خاتون کا دعویٰ

    پیرس : مستقنل سے آنے کا دعویٰ کرنے والی خاتون نے خلائی مخلوق پر خود کو حاملہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’ وہ ایک بچے کو جنم دے دی جو ایلین(خلائی مخلوق) اور انسان کی مشترکا اولاد ہوگی‘۔

    تفصیلات کے مطابق مستقبل یا ماضی سے حال میں آنے کے مناظر عموماً فلموں میں تو دکھے جاتے ہیں لیکن یورپ میں ایک نوجوان خاتون نے حقیقت میں سنہ 3500 کا سفر کرکےواپس آج کے زمانے میں آنے کا دعویٰ کیا تھا جو اب نئے نئے انکشافات سے دنیا کو مزید حیرت میں مبتلا کررہی ہے۔

    غیر معمولی اور پُر اسرار خبروں کےلیے مشہور یوٹیوب چینل ایپکس ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے نامعلوم خاتون نے دعویٰ کیا کہ اینڈرومیڈا نامی گلیکسی پر خلائی مخلوق نے اسے پکڑ لیا تھا۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ ’ مجھے گرفت میں لینے کے بعد خلائی مخلوق نے میرے ساتھ تعلق کیا جس کے باعث میں حاملہ ہوئی اورابسے پانچ ماہ بعد ایسے بچے کو جنم دوں گی جو انسان اور ایلین کی مشترکا اولاد ہوگا‘۔

    ویڈیو کلپ میں خاتون نے اپنی کہانی سناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جب وہ 18 سال کی عمر میں یونیورسٹی آف پیرس میں زیر تعلیم تھی، تب مبینہ طور پر ٹائم مشین پر مشتمل ایک پُر اسرار کمرہ دریافت کیا اور یونیورسٹی کے دیگر عملے کی مدد سے ٹائم مشین پر مشتمل کمرے میں کام شروع کردیا۔

    میں ٹائم ٹریولر مشین کے ذریعے سنہ 3500 میں گئی لیکن وہاں مجھے ایلینز نے پکڑلیا جس کے بعد دنیا وار زون میں تبدیل ہوچکی تھی، خاتون نے بتایا کہ مقناطیسی اور تابکاری لہروں کے باعث ہمارے واپس آنے کے راستے بھی بند ہوچکے تھے۔

    نامعلوم خاتون کا کہنا تھا کہ ’وہاں ہمارے ساتھ پُرتشدد ، ذلت آ میز اور درد ناک سلوک کیا گیا اس لیے میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتی‘۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ میں ایک نوح نامی برطانوی نوجوان نے سنہ 2030 سے آنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ایک ہفتہ قبل نوح نے انکشاف کیا کہ مستقبل سے آنے کی ویڈیوجھوٹی تھی، نوح نے بتایا کہ اصل میں وہ ایک یوٹیوبرڈینس بل ہے۔

  • خلائی مخلوق پر طیارے کا ملبا غائب کرنے کا الزام، بھارتی میڈیا مذاق بن گیا

    خلائی مخلوق پر طیارے کا ملبا غائب کرنے کا الزام، بھارتی میڈیا مذاق بن گیا

    نئی دہلی: بھارتی فوج لاپتا طیارے کا ملبا ڈھونڈنے میں ناکام ہوئی تو بھارتی میڈیا نے گمشدگی کی ذمے داری خلائی مخلوق پر ڈال دی۔

    تفصیلات کے مطابق خلائی مخلوق پر طیارے کا ملبا غائب کرنے کے نیوز چینل کے دعوے نے سوشل میڈیا پر کھلبلی مچادی، شہری بھارتی صحافت کے معیار پر سوالات اٹھا نے لگے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی فوج لاپتا طیارے کا ملبا ڈھونڈنے میں ناکام ہوئی تو بھارتی میڈیا نے گمشدگی کی ذمے داری خلائی مخلوق پر ڈال دی، خبر سننے والا بھی سر پکڑ کر رہ گیا، سوشل میڈیا پر بھی مذاق بن گیا۔

    بھارت میں مقامی نیوز چینل نے صحافت کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ گذشتہ ہفتے لاپتہ ہونے والے بھارتی فضائیہ کے طیارے کی گمشدگی کا ذمہ دار خلائی مخلوق کو ٹھہرا دیا، خبر سننے اور دیکھنے والے ہکا بکا رہ گئے۔

    مقامی نیوز چینل ژی ہندوستان نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی فضائیہ کا لاپتہ ہونے والا طیارہ دراصل ایلین (خلائی مخلوق) لے گئے ہیں۔

    بھارتی فضائیہ کا ایک اور مگ طیارہ تباہ، پائلٹ لاپتہ

    نیوز چینل کے اس دعوے پر سوشل میڈیا پر اس کا کافی مذاق بن گیا، شہری بھارتی صحافت کے معیار پر سوالات اٹھا نے لگے خیال رہے کہ 3 جون کو بھارتی ائیرفورس کا اے این 32 طیارہ آسام سے اروناچل پردیش جاتے ہوئے لاپتہ ہوگیا تھا جس کا سراغ اب تک نہیں لگایا جاسکا ہے۔ طیارے میں 13 افراد سوار تھے۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسداں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی بار انسانوں کا ان سے سامنا بھی ہوچکا ہے، لیکن حکومتوں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

    دی کنورزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیون کنتھ نے دعویٰ کیا کہ ہماری کائنات میں خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی موجودگی کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔

    کیون کنتھ ناسا میں اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد اب ایک امریکی یونیورسٹی میں طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امکان کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ کچھ ایسے اجنبی اڑنے والے آبجیکٹس (آسان الفاظ میں اڑن طشتریاں) موجود ہیں جو ہمارے ایجاد کردہ ایئر کرافٹس سے کہیں بہتر ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے بھی بے تحاشہ ثبوت ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں بات کرنا اس وقت نہایت متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان دعووں کی سائنسی بنیاد پر تحقیق نہیں کی جارہی۔

    ان کے خیال میں اس کی ذمہ دار حکومتیں اور میڈیا ہے جس نے اس موضوع کو نہایت متنازعہ بنا دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    پروفیسر نے کہا کہ خلائی مخلوق ایک حقیقت ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں 300 ارب ستارے موجود ہیں، اور ان میں سے کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جہاں زندگی موجود ہوگی۔

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اب تک ایک بھی ایسا باقاعدہ اور مصدقہ دستاویز تیار نہیں کیا گیا جو اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے حوالے سے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان معلومات کو راز میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوگی اور اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔