Tag: aliens

  • خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

    دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہر فلکیات کہیں نہ کہیں موجود خلائی مخلوق کا کھوج لگانے کی کوششوں میں ہیں، اتنی بڑی کائنات میں آخر کہیں نہ کہیں تو زندگی موجود ہوگی، تو پھر ہم اب تک اس کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟

    اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی ہے، تو آخر وہ کہاں ہے اور اب تک ہمارا اس سے رابطہ کیوں نہیں ہوسکا؟

    یہ مشہور سوال دنیا کا پہلا جوہری ری ایکٹر تیار کرنے والے اٹلی کے مشہور طبیعات دان انریکو فرمی نے پوچھا تھا، سب کہاں ہیں؟

    لیکن اس کا کوئی جواب آج تک نہیں مل سکا۔

    ویسے تو سازشی نظریات ماننے والوں کی بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہماری دنیا میں اکثر و بیشتر اڑن طشتریاں اترتی رہتی ہیں، لیکن ان کی خبروں کو چھپایا جاتا ہے۔

    تو آج ہم بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، کہ ہم اب تک خلائی مخلوق سے ملاقات کیوں نہیں کر سکے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے سنہ 2009 میں لانچ کی جانے والی کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ہماری زمین کے ارد گرد یعنی ہماری کہکشاں کے اندر سینکڑوں سیارے دریافت کیے۔

    اس دریافت کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں کے اندر کم از کم کھربوں کی تعداد میں سیارے موجود ہیں، اور کائنات میں ایسی اربوں کہکشائیں موجود ہیں۔

    فرض کیا جائے کہ ہماری کہکشاں میں موجود 10 ہزار میں سے کسی ایک سیارے پر بھی زندگی موجود ہے، تب بھی کم از کم 5 کروڑ ممکنہ سیارے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں زندگی موجود ہونی چاہیئے۔

    ہماری زمین، کائنات میں ہونے والے ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ کے 9 ارب سال بعد تشکیل پائی، فرض کرتے ہیں کہ اس طویل عرصے کے دوران ہم سے پہلے کسی سیارے پہ زندگی جنم لے چکی ہو۔

    اس سیارے کی مخلوق رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک جدید مخلوق بنی ہو اور اس نے ہم جیسی یا ہم سے بھی بہتر ٹیکنالوجی تیار کرلی ہو۔

    گو کہ آج زمین پر جتنی بھی ٹیکنالوجی موجود ہے وہ گزشتہ صرف 100 سال کے عرصے میں سامنے آئی، لیکن چلیں ہم اس غائبانہ خلائی مخلوق کو رعایت دیتے ہیں کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی کو جدید ترین سطح پر لانے میں کئی لاکھ سال لگے، تو اب تک اس مخلوق کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم از کم ہماری پوری کہکشاں تو فتح کرلینی چاہیئے تھی۔

    اور مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو، اس خلائی مخلوق نے توانائی پیدا کرنے والے سیارے خلا میں چھوڑ رکھے ہوں، یا پھر ایسے فن پارے تخلیق کیے ہوں جو خلا میں معلق ہوں اور ہمیں چمکتے ستاروں اور مختلف خلائی مظاہر کی صورت میں دکھائی دیتے ہوں۔

    تب تو ایسی مخلوق سے رابطہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا کہ ان کے خارج کردہ سگنلز خلا میں جابجا موجود ہوں گے، لیکن پھر بھی ہم انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔ آخر کیوں؟

    اس کا سب سے آسان اور ممکنہ جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نہایت ترقی یافتہ، ذہین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل اس مخلوق نے کہکشاں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہو اور انہوں نے مصنوعی طریقے سے ایک خلائی خاموشی طاری کر رکھی ہو تاکہ کسی ممکنہ دشمن سے بچ سکیں، اسی میں ان کی بقا ہے۔

    لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسی جدید مخلوق لاکھوں سال پہلے خود ہی مٹ چکی ہو کیونکہ ان کی تیار کردہ ٹیکنالوجی ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہو اور اس نے پورے سیارے کو تباہ کردیا ہو۔

    یا پھر ایک عام سا خیال، کہ ممکن ہو وہ مخلوق اتنی ذہین نہ ہو کہ اتنی ترقی کرسکے، یا پھر واقعی ہم ہی اس کائنات کی واحد تہذیب ہوں۔

    بہت سی ترقی کرلینے کے باوجود ہم اب تک سیاروں اور ستاروں کی بہت معمولی سی تعداد ہی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرسکے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے ہم غلط سمت میں دیکھ رہے ہوں۔

    ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی ہے کہ، ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے جان لیا ہو کہ زندگی صرف معلومات کے پیچیدہ نظام کا نام ہے جس کے لیے جسامت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

    جیسے زمین پر ایجاد کیا گیا اسٹیریو سسٹم آہستہ آہستہ چھوٹا ہو کر ایک معمولی سے آئی پوڈ کی صورت ہاتھوں میں سما گیا، ویسے ہی خلائی مخلوق نے بھی خود کو مائیکرو اسکوپک لیول پر منتقل کرلیا ہو، ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں خلائی مخلوق سے بھری پڑی ہو لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا ادراک نہیں۔

    ایک اور اچھوتا نظریہ جاننا بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں موجود خیالات دراصل خلائی شے ہوں۔ وہ ایسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ظاہری جسم تو مرجاتا ہے لیکن ہمارے آئیڈیاز اور خیالات، زمین پر موجود ایجادات، کتابوں اور فن کی صورت میں زندہ رہتے ہیں اور یہ اپنے اندر پوری ایک دنیا، ایک اچھوتی دنیا رکھتے ہیں۔

    ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے خود کو ارتقائی مراحل سے گزار کر ایسے زندہ رہنے کا راز جان لیا ہو۔

    ان میں سے کون سا نظریہ حقیقت کے کتنا قریب ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید ہم کبھی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوجائیں، یا پھر ہم یہ ادھوری خواہش لیے ختم ہوجائیں اور خلائی مخلوق کا راز کبھی نہ جان سکیں۔

  • ٹرمپ کا خلائی مخلوق کے حوالے سے معلومات دینے سے انکار

    ٹرمپ کا خلائی مخلوق کے حوالے سے معلومات دینے سے انکار

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ خلائی مخلوق کے حوالے سے اہم معلومات اور دلچسپ باتیں سنی ہیں لیکن کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کے بیٹے ’ڈون جر‘ نے یوٹیوب پر والد سے انٹرویو لیا، اس موقع پر انہوں نے ٹرمپ سے اہم موضوعات پر سوالات کیے اور خلائی مخلوق کا بھی تذکرہ چھیڑ دیا۔

    ڈون جر ٹرمپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں، انہوں نے امریکی ٹی وی انڈسٹری میں بھی اپنی شناخت بنائی، امریکا میں انہیں ایک بڑے اور بااثر بزنس مین کے طور پر جانا جاتا ہے۔

    امریکی صدر کے بیٹے نے انٹرویو کے دوران 2 جولائی 1947 کی طوفانی رات کو امریکی قصبے روزویل میں ایک مبینہ اڑن طشتری گرنے سے متعلق سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں کیا یہاں خلائی مخلوق موجود ہے‘؟

    جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں خلائی مخلوق کے حوالے سے جو باتیں جانتا ہوں وہ نہیں بتاؤں گا۔

    یاد رہے کہ 2 جولائی 1947 کو امریکا میں ایک پراسرار واقعہ پیش آیا تھا، طوفانی رات کو امریکی قصبے روزویل میں مبینہ طور پر ایک اڑن طشتری آگری تھی، تاہم اب تک واضح نہیں ہوسکا کہ واقعے کی اصل حقیقت کیا ہے۔

    خیال رہے کہ روزویل کی یہ کہانی آج بھی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے، ہمیشہ معمہ بنے رہنے والے اس واقعے کی یاد میں ہر سال 2 جولائی کو ورلڈ یو ایف او ڈے منایا جاتا ہے۔

  • خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    خلائی مخلوق کی تلاش: کیا ہم سے کمزور خلائی مخلوق موجود ہے؟

    جب سے انسان ترقی یافتہ اور خلائی اسرار سمجھنے کے کچھ قابل ہوا ہے، تب سے وہ اس تلاش میں سرگرداں ہے کہ کیا اس وسیع و عریض کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا ہمارے جیسا کوئی اور بھی سیارہ اپنے اندر زندگی رکھتا ہے؟

    کیا کوئی سیارہ ایسا بھی ہے جہاں زمین کی طرح زندگی رواں دواں ہے؟ کیا اس کائنات میں ہمارے جیسی کوئی مخلوق نت نئی ایجادات اور تحقیقوں میں مصروف ہے یا کم از کم پتھر کے دور میں ہی جی رہی ہے؟

    اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، یعنی ہمارے علاوہ بھی اس کائنات میں زندگی بستی ہے اور لوگ رہتے ہیں تو کیا وہ بھی ایسے ہی کسی کی تلاش میں ہوں گے؟

    امریکا کی ایک کوانٹم آسٹرو کیمسٹ کلارا سلوا اس بارے میں بتاتی ہیں، ’اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی ہے تو وہ باآسانی ہمیں ڈھونڈ سکتا ہے‘۔

    کلارا اس بارے میں مزید کیا بتاتی ہیں، انہی کی زبانی سنیں۔

    ’اگر خلائی مخلوق ہمیں تلاش کرنا چاہیں تو وہ بہت آسانی سے ہمیں تلاش کرسکتے ہیں۔ ہم گزشتہ 100 سال سے ریڈیو کے سگنلز خلا میں بھیج رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ٹیلی ویژن کے سگنلز بھیجنا شروع کیے۔ اگر یہ سگنلز روشنی کی رفتار سے خلا میں جارہے ہیں تو اب تک یہ طویل فاصلے طے کر کے دور دراز واقع ستاروں اور سیاروں تک پہنچ چکے ہوں گے، ایسے ہی کسی دور دراز سیارے پر موجود، کسی دوسرے سیارے پر زندگی کھوجتی مخلوق آسانی سے یہ سگنلزوصول کرسکتی ہے‘۔

    ’اگر کوئی ایسا ہوگا جو اپنے طاقتور ڈی ٹیکٹرز کا ہماری طرف رخ کیے ہوگا، تو وہ بی بی سی کی براڈ کاسٹنگ سن رہا ہوگا، وہ ہمارے ٹی وی پروگرامز سن رہا ہوگا اور اب تک اندازہ کرچکا ہوگا کہ ہمارا رہن سہن اور طرز زندگی کیسا ہے‘۔

    ’کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک انہایت احمقانہ عمل ہے کہ ہم اپنے بارے میں بہت ساری معلومات پوری کائنات میں بھیج رہے ہیں۔ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق خطرناک بھی ہوسکتی ہے چنانچہ ہمیں اپنی پوزیشن کے بارے میں نہیں بتانا چاہیئے‘۔

    اگر ہم خلا میں سگنلز نہ بھیجیں کیا تب بھی ہمیں ڈھونڈا جا سکتا ہے؟

    اگر ایک لمحے کے لیے تصور کیا جائے کہ ہم اپنے تمام سگنلز بند کردیں اور بالکل خاموشی سے بیٹھ جائیں، کیا تب بھی خلائی مخلوق ہمیں ڈھونڈ سکتی ہے؟

    اس بارے میں کلارا کہتی ہیں۔

    ’اگر ہم خلا میں کوئی سنگلز نہ بھیجیں، اور کوئی خلائی مخلوق طاقتور دوربین لگا کر ہمیں ڈھونڈنا چاہے تو اسے ہر جگہ 300 ارب سیارے دکھائی دیں جو خوبصورت سفید روشنیوں کی صورت میں چمک رہے ہوں گے‘۔

    ’تاہم یہ سفید روشنی بھی بہت سارے راز عیاں کرسکتی ہے‘۔

    ’ہم جانتے ہیں کہ جب سفید روشنی میں پانی کا قطرہ داخل ہوتا ہے تو آس پاس موجود اشیا کے رنگ اس میں منعکس ہونے لگتے ہیں (اسی تکنیک سے قوس قزح تشکیل پاتی ہے)۔ اگر خلائی مخلوق ایک طاقتور پریزم (ایک تکون جسم جس سے روشنی گزرتی ہے تو منعکس ہوتی ہے) ہمارے سورج کی طرف کریں تو وہ ہماری قوس قزح کو باآسانی دیکھ سکتے ہیں‘۔

    ’اور اگر وہ کچھ عرصے تک مستقل اس کا مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہر سال اس قوس قزح میں کچھ نئے رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ رنگ ان مالیکیولز کی وجہ سے ظاہر اور غائب ہوتے ہیں جو ہماری فضا میں موجود ہیں‘۔

    ’ان رنگوں کو دیکھ کر باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس ایک خوبصورت اور متنوع سیارہ موجود ہے۔ ہمارے پاس آبی حیات سے بھرے سمندر ہیں اور آکسیجن پر انحصار کرنے والی زندگیاں ہیں۔‘

    ’ان تمام معلومات پر مبنی ہماری فضا، زمین کے گرد ایک تہہ تشکیل دیتی ہے جسے بائیو سفیئر کہا جاتا ہے اور صرف یہی ہماری موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بائیو سفیئر بتاتا ہے کہ اس سیارے پر کون موجود ہے اور کس طرح زندگی گزارتا ہے۔ گویا اگر ہم اپنے سگنلز بھیجنا بند بھی کردیں تب بھی ہماری موجودگی کے اشارے ملتے رہیں گے‘۔

    کیا اس تکنیک سے ہم بھی خلائی مخلوق کو ڈھونڈ سکتے ہیں؟

    کلارا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہم ایسے ٹولز نہیں بنا سکے جو کسی سیارے کی بائیو سفیئر کی جانچ کرسکیں، ہم صرف اس قابل ہیں کہ اگر کوئی خلائی مخلوق اپنے سگنلز ہماری طرح خلا میں بھیج رہی ہے تو ہم اسے وصول کرسکیں، تاہم میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایسے ٹولز کی تیاری پر کام جاری ہے جو بائیو سفیئر کی جانچ کرسکے۔

    ’ان ٹولز کی تیاری کے بعد ہم ان خلائی مخلوق کو بھی ڈھونڈ سکتے ہیں جو ہماری طرح ترقی یافتہ نہیں اور خلا میں کوئی سگنلز نہیں بھیج رہی‘۔

  • خلائی مخلوق زمین کا کام زمین پرچھوڑدے، الیکشن کے التواء کا جواز نہیں، سراج الحق

    خلائی مخلوق زمین کا کام زمین پرچھوڑدے، الیکشن کے التواء کا جواز نہیں، سراج الحق

    لاہور : امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ خلائی مخلوق زمین کا کام زمین پر چھوڑے، افواہیں تو گردش میں ہیں لیکن الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، سراج الحق نے کہا کہ بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں، افواہیں تو بہت گردش میں ہیں لیکن الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابی نظام پرعوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص پر اس کی حیثیت کے مطابق ٹیکس لگانا چاہیے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو ایکشن لیا ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، سو روپے کے موبائل کارڈ پر40روپے کا ٹیکس کہاں کا انصاف ہے، وفاقی حکومت نے عوام پر ٹیکسز کے نئے بوجھ ڈال دیئے ہیں۔

    امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کیلئے ایسا شخص ہونا چاہیے جو غیر جانبدار ہو، غیرجانبدار شخص کے نام پراتفاق کیا گیا تو ہم اس کی حمایت کرینگے، وزیر اعظم نے اس حوالے سے مشاورت کی تو ملک اور قوم کے مفاد کیلئے بہترین مشورہ دینگے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے نگراں کابینہ کیلئے ہم سے اب تک مشاورت نہیں کی،  مینار پاکستان پر13مئی کا جلسہ سیاست کو نیا رخ دے گا، یہ جلسہ ماضی کے تمام سیاسی ریکارڈ توڑ ڈالے گا۔

    سراج الحق کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ خلائی مخلوق زمین کا کام زمین پر چھوڑ دے، ہماری خواہش ہے ماضی کی روایات کو چھوڑ کر آگے بڑھیں، اس قسم کی باتوں سے ووٹرکا اعتماد ختم ہورہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور عمران خان نے نادیدہ قوتوں سے متعلق بیانیہ دیا، ان کے بیانیے نے بیلٹ بکس اور پولنگ پر عوام کا اعتماد مجروح کیا، خلائی مخلوق جیسے یانات سے انتخابی نظام کی چولیں ہل گئی ہیں۔

  • آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا مقابلہ خلائی مخلوق کے ساتھ ہے، نوازشریف

    آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا مقابلہ خلائی مخلوق کے ساتھ ہے، نوازشریف

    صادق آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ن لیگ کا مقابلہ زرداری کے ساتھ ہے نہ عمران کے ساتھ بلکہ ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق کے ساتھ ہے، اب پاکستان کی بدنصیبی کا70سالہ دور دوبارہ نہیں آئے گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے صادق آباد میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، نواز شریف نے پی ٹی آئی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف تو کوئی شے ہی کچھ نہیں ہے، یہ بلا لے کر نکلنے والے لوگ قوم سے مذاق کررہے ہیں۔

    پی ٹی آئی والوں کو کرکٹ کھیلنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے، شاید یہ لوگ میری کرکٹ کے لئے خدمات کو بھی بھول گئے ہیں، یہ لوگ شوکت خانم میموریل کیلئے میری خدمت کو بھی بھول گئے، انہوں نے بتایا کہ میں نے 1990میں شوکت میموریل اسپتال کیلئے جو خدمت کی وہ فرض سمجھ کرکی۔

    نواز شریف نے مزید کہا کہ میرا عمران خان سے کوئی مقابلہ نہیں آپ میرے سامنے کوئی شے ہی نہیں ہو اور زرداری صاحب آپ کا بھی مجھ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے بلکہ ن لیگ کا مقابلہ ایک خلائی مخلوق کے ساتھ ہے ، اب پاکستان کی بدنصیبی کا70سالہ دور دوبارہ نہیں آئے گا۔

    نوازشریف نے کہا کہ میں نے پچھلے 4سال قوم کی خدمت کی اور ملک سے اندھیرے دور کئے، دہشت گردی کو ختم کیا کراچی کا امن بحال کیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، صادق آباد سے اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ختم کیں، موٹرویز بنائی ہیں۔

    آپ کو مبارک ہو کراچی تا ملتان موٹروے بھی زیرتعمیر ہے، موٹر وے کو پشاور سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچائی، لاہور سے موٹروے کوملتان اور پھر سکھر اور کراچی پہنچائیں گے۔

    انہوں نے سوال کیا کہ قوم کیلئے اتنی خدمات ہیں کیا اس لئے مجھے فارغ کردیا گیا، دن رات خدمت کرنیوالے کو راہ چلتے چلے فارغ کررہے ہیں، نواز شریف نے شرکاء سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے ن لیگ کا منشور بھی پیش کیا۔

    انہوں نے کہا کہ 2018کے الیکشن کو ریفرنڈم سمجھیں، میرے خلاف فیصلہ بدلنا چاہتے ہو تو ن لیگ کے شیروں کو کامیاب کراؤ، پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کےلئے ن لیگ کو ووٹ دو، میرے خلاف فیصلے کو اسمبلی سے ختم یا بدلا جاسکتا ہے تاکہ ہم ترقی کا سفر جاری رکھ سکیں۔

    انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی حکومت آئی تو پاکستان کے تمام غریبوں کو ہیلتھ کارڈ دینگے، ہمارے منشور میں شامل ہوگا کہ ہر غریب کو چھت اور گھر ملے گا، ن لیگ نے کسانوں کو ٹیوب ویلوں پر سبسڈی دی۔

    مزید پڑھیں: بہترہوگازرداری صاحب ذاتی الزام تراشیوں کا دفتر نہ کھولیں ،نوازشریف

    ان کا کہنا تھا کہ آج نوازشریف اپنے لئے نہیں بکلہ آپ کے اچھے مستقبل کیلئے آپ کے پاس آیا ہے، میرا ہر اول دستہ بنیں گے تو ملک میں ہرطرف انقلاب برپاکردینگے، الیکشن کے بعد صادق آباد سے ٹلو روڈ دوبارہ تعمیر اور دو رویہ بنائیں گے، صادق آباد سے رحیم یارخان تک سڑک کو بھی دو رویہ کرینگے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔  

  • خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا؟

    خلائی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں اب تک کئی متضاد دعوے سامنے آچکے ہیں اور ان میں سے کون سا دعویٰ حتمی ہے، یہ کہنا مشکل ہے تاہم پہلی بار چاند پر قدم رکھنے والے خلانوردوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا، اب سچ ثابت ہوگیا ہے۔

    سنہ 1969 میں امریکی خلائی مشن اپالو 11 چاند پر بھیجا گیا تھا اور اس میں موجود خلا نوردوں نے چاند پر قدم رکھ کر، چاند پر پہنچنے والے اولین انسانوں کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

    مشن پر جانے والے خلا نورد اپنے کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا سامنا خلائی مخلوق سے ہوا تھا تاہم ان کے دعوے پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: چینی خلائی جہاز پر خلائی مخلوق کی دستک

    اب حال ہی میں ان خلا نوردوں کا لائی ڈیٹیکٹر (جھوٹ پکڑنے والی مشین) سے ٹیسٹ کیا گیا جس میں وہ کامیاب ہوگئے، گویا خلائی مخلوق کو دیکھنے کا ان کا دعویٰ درست ہے۔

    یہ ٹیسٹ امریکی ریاست اوہائیو میں واقع انسٹیٹیوٹ آف بائیو ایکوزٹک بیالوجی میں کیا گیا جس میں اپالو 11 میں موجود خلا نورد بز ایلڈرن نے یہ ٹیسٹ پاس کرلیا۔

    ٹیسٹ کے نتائج میں ماہرین نے بتایا کہ ایلڈرن جو نیل آرم اسٹرونگ کے بعد چاند پر قدم رکھنے والے دوسرے انسان تھے، اس مشن کی واپسی سے یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ انہوں نے چاند تک اپنے سفر کے دوران خلائی مخلوق کو دیکھا تھا، اب انہوں نے لائی ڈیٹیکٹر کا یہ ٹیسٹ پاس کرلیا ہے چنانچہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ انہوں نے خلائی مخلوق کو واقعتاً دیکھا تھا۔

    ایلڈرن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے چاند کے سفر کے دوران ایک قابل مشاہدہ شے دیکھی تھی جو انگریزی حرف تہجی ’ایل‘ جیسی تھی۔ ٹیسٹ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں تاہم وہ شے کیا تھی، ان کا دماغ اس کی تشریح پیش کرنے سے قاصر ہے۔

    ٹیسٹ میں خلا نوردوں ایڈگر مچل اور گورڈن کوپر کی آوازوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ دونوں خلا نورد انتقال کرچکے ہیں اور ان کی آواز کے تجزیے کے لیے ان کے ایک پرانے انٹرویو سے مدد لی گئی۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا زمین کی تباہی کا سبب

    ایڈگر مچل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے متعدد اڑن طشتریوں کو دیکھا تھا۔ مذکورہ ٹیسٹ میں ان کی آواز کے تجزیے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ بھی سچ کہہ رہے تھے۔

    خلا نوردوں پر مذکورہ ٹیسٹ کے بعد خلائی مخلوق کی تلاش کے مشنز اور تجربات کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی ہے۔ سائنس داں پر امید ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی کی جانے والی کوششوں کو جلد کامیابی حاصل ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

     

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا۔

    خلائی مخلوق سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں گردش کرتی رہتی ہیں اور ایسی مخلوق کو تلاش کرنے کیلئے سائنس دانوں کی جستجو آج بھی جاری ہے۔

    مستقبل کی اس تلاش کے حوالے سے بہت ساری تخیلاتی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کی ایک اور شکل وہ بھی ہے جو زمین پر تو موجود نہیں ہے لیکن زمین سے باہر خلا میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا، یہ بیکٹیریا خلائی اسٹیشن کی سطح پر پایا گیا تھا۔

    ایک روسی سائنسدان جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اپنے تیسرے سفر کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے اسٹیشن کی سطح پرایک حیاتی بیکٹیریا پایا ۔

    روسی خلائی سائنسدان کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی سطح پر زندگی کی حفاظت ممکن ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ خلائی اسٹیشن کے باہر پایا جانے والا یہ بیکٹیریاپہلے سے موجود ہے یا کسی اور طریقے سے لایا گیا۔

    خلائی مخلوق کی موجود گی پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق جس مقام پر زمین کا کرہ ہوائی ختم ہوتا ہے، وہاں مختلف نوعیت کی جراثیمی مخلوق کی موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلا میں موجود اکثر سیارچے ایسے بھی ہیں کہ جن میں جراثیمی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

    خلا میں گھومنے والا جب کوئی آوارہ سیارچہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوجاتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور زمین پر پہنچنے سے پہلے وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسے واقعات روزانہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔

    خلائی سائنس دان زمین کے کرہ ہوائی سے باہر جراثیمی مخلوق کی زندگی پر تحقیق کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کررہے ہیں۔

    ان کا خیال ہے کہ زمینی حدود کے باہر کوئی ایسی مخلوق بھی موجود ہے جو ہوا، پانی، سورج کی روشنی کے بغیر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اگر سائنس دان کرہ ارض کے باہر سے اس طرح کی کوئی مخلوق پکڑ کرلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ غالباً کرہ ارض پرآنے والی پہلی حقیقی خلائی مخلوق ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمونپسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔