Tag: Allama Iqbal

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کی 81 ویں برسی

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کی 81 ویں برسی

    شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 81 ویں برسی آج ملک بھرمیں عقیدت واحترام سے منائی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، والدین نے آپ کا نام محمد اقبال رکھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

    علامہ اقبال ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔

    شاعر مشرق 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ایران کی ایک شاہراہ ’شاعرِمشرق‘ کے نام سے منسوب ہے

    علامہ اقبال شعروشاعری کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922 میں برطانوی حکومت کی طرف سے ان کوسَر کا خطاب ملا۔

    شاعرمشرق آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

    علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں

    علامہ اقبال کا سنہ 1930 کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے،اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں۔

    نثر
    علم الاقتصاد
    فارسی شاعری
    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز

    اردو شاعری
    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف
    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو

  • اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں،شاہد آفریدی

    اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں،شاہد آفریدی

    کراچی : قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی کا کہنا ہے اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے اقبال کی یاد میں خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں، میری نظر میں یہی بہترین طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اقبال ڈے کی چھٹی کے حوالے سے کہا اقبال کوخراج عقیدت ان کے نظریے آگے لے کر چلنے سے دیا جاسکتا ہے، ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کو تعلیم سے ہمکنار کریں۔

    شاہد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اقبال ڈے پر اسکولوں کی چھٹی کے بجائے اقبال کی یاد میں خصوصی تعلیمی سیشنز ہونے چاہئیں، میری نظر میں یہی بہترین طریقہ ہے۔

    یاد رہے یوم اقبال پر 9 نومبر کو عام تعطیل بحال کرنے کی قرارداد ایوان میں پیش کی گئی ، حکومت کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی  قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما  احسن اقبال نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا پاکستان میں پہلےہی 52 قومی تعطیلات ہیں جوبہت زیادہ ہیں، علامہ اقبال نےمحنت کادرس دیا ہے، ہربات پرچھٹی کا نہیں، ایک دن کی چھٹی سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں : یوم اقبال پرعام تعطیل بحالی کی قرارداد پیش، حکومت اوراحسن اقبال کی مخالفت

    پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے حزبِ اختلاف کے رہنما احسن اقبال کی حمایت کرتے ہوئے ان کے موقف کو درست  قرار دیا اور کہا کہ ہرچیز پرچھٹی کا تاثر ختم ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہرچیز پرچھٹی کردیں، اقبال ڈے پر ہمیں چھٹی نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے بارے میں بتانا چاہیے۔

    واضح رہے کہ 9 نومبر کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کے عظیم شاعر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا، ان کے اس تصور کو پاکستان کے خواب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

    علامہ اقبال کا بیش تر کلام جوانوں میں عقابی روح پھونکنے، ان میں غیرتِ ملی کو بیدار کرنے اور انہیں ہمہ وقت آمادہٗ عمل رہنے کے فلسفے پر مشتمل ہے۔

  • علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں

    علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں

    شاعر مشرق، حکیم الامت اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 80 ویں برسی آج ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    اقبال کی شاعری عام شاعری نہیں تھی، ان کا کلام آفاقی تھا جس نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو سیاسی شعور عطا کیا، بلکہ اس وقت کی شاعری کو ایسی جہت عطا کی جس کی آج تک کوئی تقلید نہ کرسکا۔

    اقبال کے کلام کو موسیقی کی صورت بھی پیش کیا گیا اور کئی گلوکاروں نے اقبال کا کلام گا کر اپنے فن کو شہرت دوام بخش دی۔

    یہاں ہم اقبال کا وہ کلام پیش کر رہے ہیں جنہیں مختلف گلوکاروں نے گایا جس کے بعد ان کا کلام نئی نسل میں بھی مقبول ہوگیا۔


    شکوہ ۔ جواب شکوہ

    علامہ اقبال کی مشہور نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کو عظیم گلوکار استاد نصرت فتح علی نے گایا۔ اس نظم میں ایک انسان خدا سے شکوہ کر رہا ہے، اور بعد ازاں خدا اس شکوے کا جواب دے رہا ہے۔

    اقبال کا آفاقی کلام اور نصرت فتح علی خان کی جاودانی آواز نے مل کر اسے ایک سحر انگیز گیت بنا دیا۔


    خودی کا سر نہاں

    علامہ اقبال کی ایک اور مشہور نظم ’خودی کا سر نہاں‘ شفقت امانت علی اور صنم ماروی نے گائی۔


    ہر لحظہ ہے مومن

    سنہ 1965 میں پاک بھارت جنگ کے دوران ملکہ ترنم میڈم نور جہاں نے اقبال کا ایک نغمہ ’ہر لحظہ ہے مومن‘ گایا۔ اس نغمے نے فوج کے جوانوں اور قوم کا حوصلہ بے حد بلند کردیا۔


    ستاروں سے آگے

    نظم ’ستاروں سے آگے‘ راحت فتح علی خان نے گائی۔


    لا پھر اک بار وہی

    اقبال کی ایک اور نظم ’لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی‘ کو مشہور گلوکارہ شبنم مجید نے نہایت خوبصورت انداز میں گایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کی 80 ویں برسی

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کی 80 ویں برسی

    شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 80 ویں برسی آج ملک بھرمیں عقیدت واحترام سے منائی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، والدین نے آپ کا نام محمد اقبال رکھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

    علامہ اقبال ایف اے کرنےکے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔

    شاعر مشرق 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


    ایران کی ایک شاہراہ ’شاعرِمشرق‘ کے نام سے منسوب ہے

    علامہ اقبال شعروشاعری کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922 میں برطانوی حکومت کی طرف سے ان کوسَر کا خطاب ملا۔

    شاعرمشرق آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

    علامہ اقبال کا سنہ 1930 کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے،اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں۔


    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز

    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • علامہ اقبال کے  یوم پیدائش  پرعام تعطیل قرار دیا جائے‘ پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع

    علامہ اقبال کے یوم پیدائش پرعام تعطیل قرار دیا جائے‘ پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے مفکر پاکستان حضرت ڈاکڑ علامہ اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے قومی تعطیل کی قرارداد اور فرانزک لیب میں ہونے والی کروڑوں روپوں کی بے ضابطگیوں کے خلاف تحریک التوائے کار اسمبلی میں جمع کروادی۔

    تفصیلات کے مطابق شاعر مشرق کے یومِ پیدائش کے حوالے سے تعطیل کی قرارد ڈاکٹر نوشین حامد نے جمع کرائی جبکہ اپوزیشن رکن چوہدری عامر سلطان چیمہ نے فرانز ک لیب کی بے قاعدگیوں کے خلاف تحریک ِ التوا جمع کرائی۔

    پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رکن ڈاکٹر نوشین حامد نے مفکر پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت قومی چھٹی دینے کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت نے شاعر مشرق کے کلام کو نہ صرف تعلیمی نصاب سے نکال دیا ہے‘ بلکہ ان کی پیدائش پر ہونے والی تعطیل کو بھی ختم کردیا ہے جسے فی الفور بحال کیا جائے۔

    دوسی اپوزیشن رکن چوہدری عامر سلطان چیمہ کی جانب سے فرانزک لیب میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف تحریک التوائے کار جمع کروا دی۔تحریک التوائے کار میں موقف اختیار کیا گیا کہ لیب کے سربراہ ڈاکٹر طاہر اشرف کی تقرری خلاف قواعد ہے۔ ت

    چوہدری عامر سلطان چیمہ کی جانب سے جمع کرائی جانے والی تحریک میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فرانزک لیب کے سربراہ کی جانب سے سافٹ وئیر کے لیے ساڑھے چار لاکھ ڈالر مختص کئے گئے لیکن ابھی تک وہ سافٹ وئیر تیار نہیں ہوسکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • اقبال اورملوکیت‘ دبستانِ اقبال لاہور سے

    اقبال اورملوکیت‘ دبستانِ اقبال لاہور سے

    دبستان اقبالؒ (لاہور) کے پلیٹ فورم سے موجودہ دور میں فکرِاقبال کی معنویت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لئے معروف اساتذہ اقبالیات کی تعلیم ،فروغ اور تشہیر کے لیے طلبا کے ساتھ عصری تقاضوں کے مطابق گفتگو کا سلسلہ باہم عروج پر ہے‘ جس کا بنیادی مقصد ہے کہ نسل نو میں ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا یا جاسکتے اور اُن میں ملک و قوم کی خدمت کا نیا جوش و جذ بہ پیدا کیا جا سکے۔

    امارات سے تشریف لائے معروف سکالر بریگیڈیر(ر) وحیدالزمان طارق کا سیر حاصل لیکچر بعنوان ”اقبال و ملوکیت“ کا اہتمام بھی اِسی شاندار سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ تقریب میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، میاں اقبال صلاح الدین،کرنل(ر) مقصودمظہر،تیمور افضل خان،مسز وحیدالزمان،ڈاکٹر کلیم عرفانی، مسز تنویر بٹ، تنزیلہ فاطمہ، علی حسن، نواب برکات ،مستنصر رضوی، مسعود اقبال،محمد عمر رانا، ڈاکٹر عطیہ سید اور، رانا امیر احمد خان سمیت اہل علم حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    بریگیڈیر(ر) وحیدالزمان طارق نے اپنے خطبے میں کہا کہ ملوکیت موروثی بادشاہت کی صورت ہے جس میں مختلف یعنی جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی رہنما، پیر اور طاقتور طبقات ایک شخص کو اقتدار کے تخت پر بٹھا کر اسے زمین پر خدا کا عکس قرار دیتے ہیں اور اس کی اندھی اطاعت پر عوام کومائل کرتے ہیں۔ یہ دراصل فرعون کے نظام کا تسلسل ہے ۔یہ ابلیسی نظام انسان سے سوچ اور عمل چھین کر اسے غلام کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔ اسلام نے اسی نظام کو تہہ و بالا کرکے انسانیت کو عظمت اور فکری آزادی سے روشناس کرایا تھا۔

    بقول علامہ اقبالؒ

    موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
    نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
    اس سے بڑھ کے اور کیا فکر ونظر کا انقلاب
    بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمین

    (ابلیس کی مجلس شوریٰ، ارمغان حجاز)

    بدقسمتی سے مسلمان بہت جلد فکری و عملی آزادیوں کو خیرباد کہہ کر خود بادشاہت کی طرف مائل ہو گئے اور پرانی فرسودہ روایات کو از سر نو زندہ کرکے اسی نظام کے محافظ بن گئے۔

    خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
    خود سر تخت ملوکیت نشست

    ترجمہ: خود جس قوم نے قیصر و کسریٰ کا طلسم توڑا تھا
    اسی کے افراد ملوکیت کے تخت پر متمکن ہو گئے

    (جاوید نامہ)

    قرآن پاک میں ملوکیت کو فساد اور معاشرتی تباہی کا باعث قرار دیا ہے۔ سورہ نمل کی آیات نمبر34میں ارشاد ہوتا ہے ”کہ جب سلوک (بادشاہ) کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کردیتے ہیں۔ وہاں کے سب سے معزز افراد کو ذلیل و خوار کر دیتے ہیں اور اسی طرح کے اور بھی کام کرتے ہیں“۔

    علامہ اقبال نے اسی آیات کی طرف اشارہ کرکے قوم کو خبردار کیا ہے کہ تباہی اور بربادی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس نظام کو سراسر خدا کے شرک کا مظہر ہے ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ استحصالی طبقات کے مفادات کا محافظ ہے اس لئے انسان کو ان سے تصادم پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آنحضور ﷺکے دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں اور جب تک یہ نظام قائم رہے گا انسان اپنی ذہنی ارتقاء، اخلاقی سربلندی اور کردار کی عظمت سے محروم رہے گا۔ علامہ اقبال ارمغانِ حجاز میں فرماتے ہیں:

    Allama Iqbal

    ہنوز اندر جہان آدم غلام است
    نظامش خام و کاوش نا تمام است
    غلام فقر آن گیتی ہناھم
    کہ دردنشیں ملوکیت حرام است

    ترجمہ: ابھی تک انسان اس جہان میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
    اس کا سیاسی اور آئینی نظام بے کار ہے اور اس کا کام نامکمل ہے۔
    میں رسول پاک جن کی آغوش تمام جہاں نے پناہ لے رکھی ہے،
    کے فقر کا غلام ہوں کیونکہ آپ کے دین میں ملوکیت حرام ہے“۔

    آج بھی انسان ملوکیت کی نئی نئی چالوں اور صورتوں سے دوچار ہے۔ ابلیس کی زبان سے علامہ فرماتے ہیں:

    ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
    جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

    یہ مجلس ملت‘ اصلاحی تحریکیں‘ حقوق اور آزادیوں کی باتیں محض زبانی حد تک میں اندر سے یہ نظام استحصال اور استبداد پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال ان تمام طبقات کے خلاف نبردآزما تھے جنہوں نے انگریز کے اقتدار، موروثی حکمرانوں اور استبدادی طاقتوں کا ساتھ دیا ہے اور انسان سے اس کا ضمیر اور مال چھین کر اسے نان جویں کا محتاج کر دیا ہے۔ بنکاری بھی اسی نظام کا آلٔہ کار ہے اور علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

    تانہ و بالا نہ گردد این نظام
    دانش و تہذیب و دیں سودائے عام

    ترجمہ: جب تک یہ نظام تہ و بالا نہیں ہو جاتا،
    آپ کا علم، دانش، تہذیب اور حتیٰ کہ دین بھی اک عام سی شے بن کر رہ جاتے ہیں۔

    دوران خطبہ حال کا منظر قابل دید تھا جو اہل علم خواتین و حضرات سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا ۔شرکاءکی خطبے میں دلچسپی بھی قابل تعریف تھی۔ حسب سابق دبستان اقبال آج بھی اپنے بنیادی ہدف میں کامیاب نظر آیا کہ ہر پہلو میں اقبال سے ایک مفصل رہنمائی لینے کا عمل جاری رکھا جائے اور اس عمل کو سوسائٹی کے بااثر افراد اور طبقات تک پھیلانے کی کوشش بھی ہو۔


    تحریر: حسیب اعجاز عاشر

  • علامہ اقبالؒ کا141واں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے

    علامہ اقبالؒ کا141واں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے

    نوجوانوں کو خودی کا درس دینے والے مصور پاکستان اور بیسویں صدی کے عظیم صوفی شاعر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا ایک سو اکتالیسواں یوم ولادت آج منایا جارہا ہے،مصور پاکستان نے شاعری کے ذريعے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔

    شاعر مشرق حکیم الامت اور سر کا خطاب پانے والے ڈاکٹر علامہ اقبال 9 نومبر اٹھارہ سو ستتر (1877) کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، آپ نے قانون اور فلسفے ميں ڈگرياں لیں لیکن جذبات کے اظہار شاعری سے کیا۔

    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

    ملت اسلامیہ کو ” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری “ جیسی آفاقی فکر دینے والے علامہ اقبالؒ نے قانون اور فلسفے میں ڈگریاں لیں لیکن جذبات کے اظہار شاعری سے کیا، اقبالؒ نے اپنے خیالات اشعار کی لڑی میں ایسے پروئے کہ وہ قوم کی آواز بن گئے۔

    شاعر مشرق نے یورپ اور انگلستان میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا لیکن انہوں نے انگریزوں کا طرز رہن سہن کبھی نہیں اپنایا، علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں زیادہ ترنوجوانوں کو مخاطب کیا، علامہ اقبالؒ کو دو جدید کا صوفی بھی سمجھا جاتا ہے۔

    دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر​
    نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر​

    شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے۔

    علامہ اقبال کی اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر ن

    اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کے کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے معترف ہیں، بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں

    وکالت کے ساتھ ساتھ آپ نے سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے آپ کو سرکا خطاب ملا، 1926 ء میں آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر چنے گئے، آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔


    مزید پڑھیں: علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں


     آپ کا الٰہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔

    ایران کے مشہورشہر مشہد میں ایک شاہراہ شاعرمشرق علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کے نام سے منسوب ہے۔ علامہ محمد اقبال کے نام سے منسوب اس شاہراہ کا نام ’’بولیوارڈ اقبالِ لاہوری‘‘ ہے۔

    یاد رہے کہ شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال نے کبھی بھی ایران کا دورہ نہیں کیا تاہم ان کے فارسی کلام کے سبب ایران میں ان کے قارئین کی تعداد بہت زیادہ ہے

    ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔

    علامہ اقبال اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن قدرت کی منشاء سے پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938ء(بمطابق 20 صفر 1357ھ) میں علامہ انتقال کر گئے تھے۔ (انا للہ واناالیہ راجعون) ۔

  • یومِ دفاع، مزارِ قائد اور مزارِاقبال پر گارڈزکی تبدیلی کی پُروقار تقریب

    یومِ دفاع، مزارِ قائد اور مزارِاقبال پر گارڈزکی تبدیلی کی پُروقار تقریب

    کراچی: ملک بھر میں یومِ دفاع ملی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مزار اورشاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پرُوقار تقاریب ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں یومِ دفاع کے موقع پر مزارِقائد پر گارڈز کی تبدیلی کی پْروقار تقریب منعقد ہوئی، مزارقائد پر پاک فضائیہ کاچاق وچوبنددستہ نے سلامی پیش کی ۔ شائینوں نے گارڈزکےفرائض سنبھال لئے۔

    تقریب کے مہمان خصوصی ایئروائس مارشل عمران خالد تھے،گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کے موقع پر مہمان خصوصی ایئروائس مارشل عمران خالد نے مزار قائد پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ائیروائس مارشل عمران خالد نے نے کہا دشمن نے ارض پاک کو میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کو تباہ برباد کردیں گے۔

    دوسری جانب لاہور میں مزار اقبال پر اعزازی گارڈ کی تعیناتی کی پر وقارتقریب ہوئی، گیریژن کمانڈر میجر جنرل محمد عامر نے مزار اقبال پر چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی جبکہ مہمانوں کی کتاب میں تاثرات بھی قلمبند کیے۔

    پاک رینجرز کے چاق و چوبند دستے نے مزاراقبال پر سلامی دی اور ذمہ داری سنبھال لی۔

    دن کا آغاز ملک بھر کی مساجد میں ملکی سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ ہوا، انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی یادگاروں پر پھول چڑھانے کے علاوہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کی گئی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

    طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

    تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

    دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
    نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

    میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

    *********

  • ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

    تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

    **********