Tag: Allama Iqbal

  • علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس (ر) جاوید اقبال انتقال کر گئے

    علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس (ر) جاوید اقبال انتقال کر گئے

    لاہور : شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس (ر) جاوید اقبال حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال کرگئے۔

    خاندانی ذرائع کے مطابق جسٹس جاوید اقبال گزشتہ کچھ عرصے سے علیل اور شوکت خانم ہسپتال میں زیرعلاج تھے جہاں وہ ہفتہ کی صبح حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملے۔

    ذرائع کے مطابق ان کا جسد خاکی اسپتال سے گھر منتقل کیاجارہاہے مرحوم کی نمازجنازہ عصرکے وقت گلبرگ میں موجود ان کی رہائش گاہ پر اداکی جائے گی ۔

    عظیم شاعر اور نظریہ پاکستان کے خالق ڈاکٹر علامہ اقبال اپنی کتاب جاوید نامہ کی ایک نظم میں اپنے صاحبزادے جاوید اقبال سے بھی مخاطب ہوئے ہیں۔

    ڈاکٹر علامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی بار انیس سو بتیس میں شائع ہوئی۔

    کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتاہے اور وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا ایک انٹرویو میں کہناتھاکہ جاوید نامہ مجھ سے منسوب نہیں۔

    جاوید کا مطلب ابدی زندگی ہے۔ یہ معراج رسول سے تصور لیتے ہوئے، علامہ نے معاشرے کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے۔

    انہوں نے کہاکہ جاوید نامہ میں مجھ سے مخاطب صرف ایک نظم ہے، جس میں نوجوانوں کو مخاطب کیاگیاہے۔ چونکہ مشرقی شعرا کا خاصہ رہا ہے کہ وہ نئی نسل کو اپنے بیٹے کے نام سے پیغام دیتے تھے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    صدر اور وزیر اعظم کا اظہار افسوس
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال کے انتقال پر وزیر اعظم سمیت اہم سیاسی رہنماوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیاہے۔

    وزیرا عظم نواز شریف نے جسٹس جاوید اقبال کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اقبال کا انتقال ملک کیلئے عظیم نقصان ہے ۔

    صدر ممنون حسین نے جاوید اقبال کے انتقال پر دلی دکھ کا اظہار کیا۔وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر جاوید اقبال ایک محب وطن پاکستانی تھے۔مرحوم کی پاکستان کیلئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال عظیم باپ کے عظیم بیٹے تھے ،اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

  • شاعر مشرق علامہ اقبال کیلئے ’ترانہ ہند‘ کا اعزاز

    شاعر مشرق علامہ اقبال کیلئے ’ترانہ ہند‘ کا اعزاز

    نئی دہلی : بھارت میں شاعر مشرق علامہ اقبال کو بعد از مرگ ’ترانۂ ہند‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے تین روزہ پروگرام ’جشنِ اقبال‘ میں بھارت کے قومی ترانے ’سارے جہاں سے اچھا  ہندوستاں ہمارا ‘کی تھیم پر ہونے والے جشنِ اقبال میں ترانۂ ہند کااعزاز دیا گیا۔

      ترانہ ہند کا اعزا زمغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتاز بنرجی نے دیا۔ علامہ اقبال کے لئے یہ اعزاز ان کے پوتے وليد اقبال نے وصول کیا۔

    مذکورہ پروگرام کی نظامت بھارت کے معروف فلمی اداکار رضا مراد نے کی ۔ پروگرام میں علامہ اقبال کی شاعری سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کی تعریف کی گئی۔

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کو گزرے 77 برس بیت گئے

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کو گزرے 77 برس بیت گئے

    آج شاعرِ مشرق مفکر ِپاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی برسی ہے انہیں ہم سے جدا ہوئے77 برس بیت چکے ہیں۔

    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے تھےآپ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

    اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔

    علامہ اقبال کو دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

    یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں

    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز

    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو

    آپ 21 اپریل 1938 کو ساٹھ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے سائے میں مرجع خلائق ہے۔

  • یومِ پاکستان کی تقریبات کا آغاز، مزارِاقبال پرگارڈز کی تبدیلی

    یومِ پاکستان کی تقریبات کا آغاز، مزارِاقبال پرگارڈز کی تبدیلی

    کراچی: آج ملک بھریومِ پاکستان ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایاجارہا ہے، درالحکومت اسلام آبادمیں صبح کا آغازاکتیس توپوں اورصوبائی دارالحکومتوں میں اکیس اکیس توپوں کی سلامی سے ہوا جبکہ مساجد میں خصو صی دعاؤں کابھی اہتمام کیا گیا۔

    اس موقع پرمزاراقبال پرگارڈز کی تبدیلی کی پروقارتقریب ہوئی اور پاک فضائیہ کے چاق و چوبند دستے نے اپنے فرائض سنبھالے اس سے قبل پاکستان رینجرز کا دستہ بحیثیت گارڈ مزارپرتعینات تھا۔

    اسلام آباد میں سات سال بعد ہونے والی مسلح افواج کی پریڈ کے لئےہفتےکو شاندارفل ڈریس ریہرسل کا مظاہرہ کیا گیا۔

    پریڈ میں پہلی بار خواتین دستے بھی تینوں مسلح افواج کے دستوں کے شانہ بشانہ شرکت کریں گے۔
    جدیرترین کروز میزائل سمیت پہلی مرتبہ براق ڈرون، ٹینک الضراراورالخالد ٹینک کی نمائش کی جائے گی۔

    تقریب میں صدر،وزیراعظم،مسلح افواج کے سربراہان کےعلاوہ غیرملکی شخصیات کو بھی شرکت کریں گی۔

    اس موقع پرسکیورٹی کے سخت انتطامات کیے گئے ہیں، پریڈ کے موقع پراسلام آباد اورراولپنڈی میں پیرکی صبح چھ بجے سے دوپہر دو بجے تک موبائل فون سروس بھی معطل رہے گی۔

  • شاعر مشرق علامہ اقبال کا137واں یوم پیدائش

    شاعر مشرق علامہ اقبال کا137واں یوم پیدائش

    لاہور: شاعر مشرق علامہ اقبال کا 137واں یوم پیدائش آج عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر مزار اقبال لاہور پرگارڈزتبدیلی کی پُر وقارتقریب منعقد کی گئی۔

    نظریہ پاکستان پیش کرنےوالےشاعرمشرق علامہ اقبال کاایک سوسینتیسواں یوم پیدائش آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مزار اقبال پرگارڈز تبدیلی کی تقریب ہو ئی جس کے مہمان خصوصی نیوی کموڈور ایس ایم شہزاد نے مزار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔

    علامہ محمد اقبال کے ایک سو سینتیس ویں یوم پیدائش کے موقع پر مزاراقبال پر گارڈز تبدیلی کی پروقار تقریب ہوئی کر دوران پاک نیوی کے دستے نے پاکستان رینجرز کی جگہ شاعر مشرق کے مزار پرگارڈ کے فرائض سنبھالئے۔

    گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی مزار اقبال پر حاضری دی اور مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات قلمبند کیے۔ مزار پر قومی ترانے کی دھن بجا کر شاعر مشرق کو سلامی دی گئی۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، تقریب میں عسکری حکام، طلبا اور شہریوں کی بڑی تعداد نےشرکت کی۔

    تاریخ اقبال

    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہو ئے۔ وہ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کا شمار اردو اور فارسی کے اہم ترین شاعروں میں ہوتا تھا اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ انھوں نے شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ انھوں نے "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔

    علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

    علامہ اقبال 9 نومبر1877ء بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیال کوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کیا ہے۔ اقبال کے آبا ؤ اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم کو کافی سمجھتے تھے۔ علامہ کے والد کےسیالکوٹ کے اکثر مقامی علماء کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم اﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ مولانا ابوعبداﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔

    علامہ نے سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت پورا برصغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا ۔ خصوصاً اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کویہی گرفت درکار تھی ۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی رُوپ تھے ، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

    علامہ نے 1895ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے ۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے ۔ اپنے لیے انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے ۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔  1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ)میں داخلہ لے لیا۔ یہاں علامہ کو پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق میسّر آیا۔ جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔

    مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھرمیں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے ۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ سُننے والوں کا ایک ہجوم تھا ۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :

    موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
    قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

    تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے ۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے ۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا ۔ مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے ۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا ۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے ۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کردیا ۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
    ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13مئی1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوگئے ۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے ۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا ۔

    بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراؤ میں مبتلا تھی ۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی ، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے ۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے  اور طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا ۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل ۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے ۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کر غیر وابستہ ہی رکھا۔

    1911ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین ، سرسید کے حسب فرمان ، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے ، لیکن 1911ء اور 1912ء کے بیچ کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرّے پر چلے جارہے تھے ، اچانک پلٹا کھا گئے ۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے ، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے ، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے ۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی ۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا گیا ۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری 1912ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا ، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اُٹھے اور فرمایا:

    ’’مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں ۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے ، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے ۔ عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیاتھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا ، اور خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘

    اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ اور یوں فکر اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ ریاست اور اس کے وجود کے لئے جدوجہد کا خواب دیکھایا جس کے بعد پاکستان کا وجود ایک مسلہ حقیقت بن کر سامنے ابھرا۔

    تصانیف

    نثر

    علم الاقتصاد-1903

    فارسی شاعری

    اسرار خودی-1915
    رموز بے خودی-1917
    پیام مشرق-1923
    زبور عجم-1927
    جاوید نامہ-1932
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق-1936

    ارمغان حجاز (فارسی-اردو)-1938

    اردو شاعری

    شکوہ
    جواب شکوہ
    خصر راہ
    والدہ مرحومہ کی یاد میں
    تصورات و نظریات
    خودی
    عقل و عشق
    مرد مومن
    وطنیت و قومیت
    اقبال کا تصور تعلیم
    اقبال کا تصور عورت
    اقبال اور مغربی تہذیب
    اقبال کا تصور ابلیس
    اقبال اور عشق رسول

  • آزادی مارچ: عمران خان نے بجلی کے بل جلادئیے

    آزادی مارچ: عمران خان نے بجلی کے بل جلادئیے

    اسلام آباد: عمران خان نے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم بنوں یا نہیں، پاکستانی ایک قوم بن جائیں میرا مقصد پورا ہوجائے گا، انہوں نے تقریر کے اختتام پر بجلی کے بل بھی جلادئیے۔

    پاکستان تحریک ِ انصاف کے سربراہ آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے اورخطاب کے دوران انہوں نے کارکنوں کو دھرنے کے چھتیس دن گزرنے کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اب تو مسلم لیگ ن کے لیڈر بھی ’’گو نواز گو‘‘ کہنے لگے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تمام پیغمبر مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوئےاورظالم کےخلاف آوازِحق بلند کی، یہی دعا تو ہم نماز میں مانگتے ہیں کہ ان کاراستہ دکھا جو صحیح راستے پرہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ غریبوں پر ظلم ہورہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہم اسی لئے یہاں موجود ہیں کہ پاکستان کے مظلوموں کوان کا حق دلائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھتیس دنوں میں سیاست کا جو مزہ آیا وہ اٹھارہ سال میں نہیں آیا۔

    انہوں نے وزیرِاعظم کی تقریرکو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو قائدِ اعظم کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہئیے،وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے جبکہ وزیر اعظم تو پارلیمنٹ میں بھی جھوٹ بولتے ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قائد اعظم ٹیکس نہیں چراتے تھے ، انہوں نے عوام پر ظلم نہیں کرایا اورنہ ہی وہ کسی ملٹری ڈکٹیٹرکی پیداوار تھے اسی لئے ان کی عزت کی جاتی ہے۔

    عمران خان نے یہ بھی کہا کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ ملے نہ ملے ، اگر پاکستانی ایک قوم بن جائیں تو ان کا مقصد پورا ہوجائےگا۔

    انہوں نے نیروبی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں غریب اور امیر کی خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی وہاں گاڑی سے ہاتھ باہرنہیں نکال سکتا کہ گھڑی کے لئے اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے گا،اگرنظام نہیں بدلا تو پاکستان کا بھی یہی حال ہوگا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم پر بے پناہ زوردیا اوران کی حکومت میں پچپن لاکھ بچے پرائمری اسکول نہیں جاسکتے۔

    انہوں نے غربت اور جرائم کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے وزیرِاعظم سے سوال کیا کہ پچھلے تیس سال میں آپ لوگ چھ بار پنجاب اور تین بار مرکز میں حکومت میں آئے اورکچھ نہیں کیا تو اب کون سا چراغ رگڑکرملک کی حالت سدھاریں گے؟۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مزید دو ججز نے دھاندلی کے خلاف پی پی ایک سو چھتیس اورایک سو ساتھ میں دھاندلی کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے ریٹرننگ افسران کے بارے میں لکھا کہ ان کا کردارشرمناک تھا، پی پی ایک سو چھتیس میں اسی فیصد دھاندلی ہوئی۔

    انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اقبال کا شاہین بننا ہے ، پرواز تو کوّا بھی کرتا ہے لیکن اقبال کا شاہین سچا ہوتا ہے۔ عدل و انصاف سے کام لیں اور اپنی انا پر قابو پالیں کیونکہ خود غرض انسان بڑا انسان نہیں بن سکتا۔

    انہوں نے نواز شریف سے سوال کیا کہ بجلی کی قیمت اسی فیصد کیوں بڑھائی گئی، چوری پرقابو کیوں نہیں پایا گیا؟۔

    عمران خان کی تقریر کے دوران دھرنے کے شرکاء’گو نواز گو‘کے نعرے لگاتے رہے، عمران خان نے تقریر کے اختتام پرسول نا فرمانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گھرکے بجلی کے بل بھی جلادیئے۔

  • بغیراسلام کےمسلمان

    جب میں مغرب گیا تو اسلام کو بغیر مسلمانوں کے دیکھا، جب واپس مشرق میں آیا تو مسلمانوں کو بغیر اسلام کے دیکھا۔

    یہ الفاظ کسی اور کہ نہیں عاشق رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے ہیں جن سے کسی صورت اختلاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ علامہ اقبال نے عشق کی وە منازل تہہ کیں کہ تلاوت قرآن کے وقت قرآن کریم آپ کے آنسوؤں سے تر ہو جاتا  آپ عشق رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر سر شار ہوۓ کہ اہل دنیا کی زبانوں پر آج بھی آپ کی صفات کا سلسلہ روز اول کی طرح جاری ہے۔

    اور کیوں نہ ہوتا جب کوئی الله تعالی کے احکامات اور آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہوجاتا ہے تو الله تعالی اسکا ذکر زمین والوں ہی نہی آسمان والوں میں بھی عام کر دیتا ہے اور ملائکہ الله تعالی کے حضور اسکی بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔

    نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد اہل دنیا کے لۓ ایک ایسے رہنما کی سی ہے جو اندھیروں اور گمراہی میں ڈوبے انسانوں کیلۓبائص رحمت ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی اس کائنات پر الله تبارک و تعالی کا احسان عظیم ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل اہل دنیا جہالت کی ان سیاە گھاٹیوں میں گم تھے جنکا وجود محض نفرت ، بغض اور عداوت پرمشتمل تھا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد با سعادت کے ساتھ ہی نفرتوں کا وجود مٹنے لگا حتکہ آپ کی تریسٹھ سالہ حیات مبارکہ میں الله تبارک و تعالی نے قیامت تک آنے والےتمام مسائل کا حل سمو دیا ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ہر لمحےکو الله تعالی نے انسانیت کیلۓ رہنمائی اور ہدایت کا ایسا ذریعہ بنا کر قیامت تک آنے والوں کیلۓ ایک مکمل ضابطہ حیات بنادیا ہے۔

    مگر افسوس کے جو طریقہ آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایاہم اس کو چھوڑ کر دنیا میں فلاح چاہتے ہیں۔ جہاں صرف دنیا کا ذکر اسلۓ کیا ہے کہ آخرت کو تو ہم نے ویسے ہی بھلادیا ہے۔ یوں نافرمانیوں میں لگے ہوۓ ہیں، جیسے ہم نے مرنا ہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہم نے تو بھلا دیا مگر اہل مغرب نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بتلاۓ ہوۓ طور طریقوں کو اپنا کر ترقی و منزلت کی وە منازل تہہ کرلیں جو شاید ہم کبھی تہہ نہ کر سکیں۔

    ہم اپنے قول و فعل کے تضاد کا اندازە ایک حالیہ تحقیق سے لگا سکتے ہیں جوکچھ اور نہی تو ہماری ۔ناکامی کے اسباب ضرور بتادے گا

    جارج واشنگٹن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی کے شعبہ انٹرنیشنل بزنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر شہزاد ایس رحمان اور پروفیسر حسین عسکری نے الله تعالی کے احکامات، قرآنی ارشادات سے مطابقت رکھنے والے ممالک کی درجہ بندی کی ۔ زندگی گزارنے کیلۓ اسلامی اقدار کے نفاذ میں پہلا نمبر ملک آئرلینڈ کا ہے۔ آئرلینڈ کے معاشرە میں سب سے زیادە شخصی آزادی، انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور یہ میرا ذاتی مشائدە بھی ہے کہ آئرلینڈ کے لوگ نہ صرف انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اور اسی لۓ آج آئرلینڈ کو رہنے کیلۓ جنت سمجھا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی میں دوسرا نمبر ڈنمارک کا ہے۔ اور ڈنمارک وہ ملک ہے جہاں ملاذمین کی تنخوائیں انکے میز پر رکھ دی جاتی مگر وہاں چوری کا تصور تک نہی ہے۔

    سویڈن کا نمبر تیسرا اور برطانیہ کا چوتھا ہے۔ امریکہ پندرہویں،ہالینڈ سولہویں اور فرانس سترہویں نمبر پر ہے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ مسلمانوں کیلۓ سب سے زیادە قابل نفرت ملک اسرائیل اس درجہ بندی میں ستائیسویں نمبر پر ہے۔

    اور سب سے پہلا اسلامی ملک اس فہرست میں تینتسویں نمبر پر ہے اور اس ملک کا نام ملائیشیا ہے۔ بھارت کا نمبر 81 ہے تو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا آپ کا اور میرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نمبر 147 ہے۔

    اس درجہ بندی کو دیکھنے کے بعد بہت سے اہل علم اور عقل سلیم سے مالا مال نفوس کو اپنی ناکامی کی سمجھ ضرور آگئی ہوگی۔آخر وە کون سی وجوہات ہیں کہ آج ہم ناکام و نامراد ہیں۔ آخر کیوں دشمن کے دل سے ہمارا خوف ختم ہوگیا؟

    الله تعالی کے بنائے ہوۓ قانون کو ایک سائیڈ پر کر کے کب کوئی فلاح پا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ میں دونوں جہانوں کی فلاح ہے اس طریقہ کو چھوڑ کر ہم اس جہان میں تو ناکام ہیں ہی، یقینا آخرت میں بھی ناکامی ہمارا مقدر بنے گی۔

    وقت ہو تو غور ضرور فرمائیے گا