Tag: allergy

  • الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی عموماً دو اقسام کی ہوتی ہے اس کی ایک قسم کا تعلق سانس اور دوسری کا جِلد سے ہے، جو حساس لوگوں کو مخصوص چیزوں کو چھونے سے ہونے لگتی ہے۔

    یہ بظاہر ایک عام سا مرض ہے، جسے زیادہ تر لوگ کوئی خطرناک مرض نہیں سمجھتے لیکن در حقیقت یہ ایک خطرناک مرض کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    مرض میں مبتلا افراد بظاہر نارمل نظر آتے ہیں، مگر وہ بر وقت ایسی چیزوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، جن کے سامنے آتے ہی انہیں الرجی ہونے لگتی ہے۔

    ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بیماریوں والے بیکٹیریاز اور وائرسز سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایسے ہی کسی بھی عنصر کے مخالف ایک مضبوط مدافعتی رد عمل ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، یہ عنصر الرجی کہلاتا  ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ یہ کیفیت قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    الرجی ہے کیا اور کیوں ہوتی ہے؟

    صحت جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ الرجی دراصل انسان کے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    صحت جرنل میں مدافعتی نظام سے متعلق بتایا گیا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، جو عام افراد کو سمجھ نہیں آتا، لیکن اس کی آسان تشریح یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جو جسم کی بیرونی چیزوں سے حفاظت کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے مٹی، دھول، جانوروں کی جلد کے وائرسز، ہوا میں شامل نمی اور دیگر کئی چیزیں انسانی جسم میں داخل ہوکر ’الرجن‘ کا وائرس پیدا کرتی ہیں، جسے امیونوگلوبلین ای ( آئی جی ای) اینٹی باڈیز بھی کہا جاتا ہے جو بڑھ کر الرجی بن جاتا ہے۔

    الرجی کن چیزوں سے ہوتی ہے؟

    الرجی ایک حساس بیماری ہے، جو مختلف لوگوں کو بہت ہی حساس اشیاء سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی پھولوں، دُھول، مٹی کے ذرات، پالتو جانوروں اور پرندوں کے قریب رہنے سے بھی ہوتی ہے، کچھ خاص کھانوں اور پھلوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ روزہ مرہ کے استعمال میں آنے والی چیزوں میں بوسیدہ اور ملی ہوئی چیزوں سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی کے باعث ہونے والی چند بیماریاں

    نزلہ، زکام، کھانسی، ناک کا بند رہنا، یا بہتے رہنا۔ سانس ٹھیک سے نہ لے پانا، استھما۔ سینے میں درد، خارش، جلد میں خرابی، خشکی، بہت ہی گرمی لگنا، جلد پر سرخ دانے نکلنا۔ سر درد، آنکھوں کا لال رہنا، آنکھوں میں پانی رہنا۔ پیٹ کی خرابیاں، ہاضمے کی شکایات وغیرہ۔

    احتیاطی تدابیر

    الرجی عارضی ہو یا دائمی، اس کا مستقل علاج موجود نہیں ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔

    اگر اس کی ویکسین دستیاب ہے تو باقاعدگی سے ویکسین استعمال کریں، تاہم احتیاط کرنے سے ہی الرجی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • کون سی عام غذا بچوں کو الرجی سے بچا سکتی ہے؟ اہم تحقیق

    کون سی عام غذا بچوں کو الرجی سے بچا سکتی ہے؟ اہم تحقیق

    شمالی کیرولائنا: امریکی محققین نے ایک ریسرچ کے نتائج میں انکشاف کیا ہے کہ مونگ پھلی اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کو نوزائیدہ بچوں کی غذا میں شامل کرنا ان کی بتدریج نشوونما میں اضافے اور مختلف الرجیز سے بچنے کا سبب بنتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دی لانسیٹ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی زندگی میں بچوں کی خوراک میں مونگ پھلی کو شامل کرنے سے مستقبل میں مختلف الرجیز کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    ریسرچ اسٹڈی میں 146 ایسے بچوں کو شامل کیا گیا تھا جنھیں مونگ پھلی سے الرجی تھی، جن کی عمریں ایک سے تین کے درمیان تھیں، اس گروپ میں سے 96 بچوں کو روزانہ مونگ پھلی کا پروٹین پاؤڈر دیا جاتا تھا، جس کی خوراک 6 مونگ پھلی کے برابر تھی۔

    جب کہ دوسرے گروپ کے بچوں کو جو کے آٹے کا پلیسبو دیا گیا جو کہ چھ ماہ بعد حساسیت کا شکار ہوئے اور اس میں الرجی کی حد زیادہ تھی۔

    جن بچوں کو مونگ پھلی کا پاؤڈر ملا انھوں نے الرجی میں کمی ظاہر کی یعنی اس تھراپی کے ختم ہونے کے چھ ماہ بعد کوئی الرجک رد عمل نہیں ہوا۔

    نتائج سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی بچوں کو مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کھانے کا عادی کیا جائے تو وہ مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سے متاثر نہیں ہوتے۔

  • کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز لگوانے کے بعد بعض افراد میں الرجی کی شکایت سامنے آئی تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے حوصلہ افزا پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز سے الرجی کا شدید ردعمل کبھی کبھار سامنے آسکتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

    میسا چوسٹس جنرل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایم آر این اے ویکسینز اپنی طرز کی اولین ویکسینز ہیں اور ان کی افادیت حیران کن ہے جبکہ تمام افراد کے لیے محفوظ ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ان ویکسینز سے متعلق الرجک ری ایکشن کے بارے میں مستند تفصیلات جمع کی جائیں، کیونکہ یہ ویکسین پلیٹ فارم مستقبل میں وباؤں سے متعلق ردعمل کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا۔

    اس تحقیق کے دوران 52 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ایم آر این اے کووڈ ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کروایا گیا تھا، ان میں سے 2 فیصد میں الرجی ری ایکشن نظر آیا جبکہ اینافائیلیکس کی شرح ہر 10 ہزار افراد میں 2.47 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اینافائیلیکس کی اس شرح کا موازنہ عام بائیوٹیکس ادویات کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے، فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی کووڈ 19 ویکسینز کی تیاری کے لیے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔

    اینافائیلیکس سے مراد ایسا شدید الرجک ری ایکشن ہے جس میں مختلف علامات جیسے جلد پر نشانات، نبض کی رفتار کم ہوجانا اور شاک کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن سے الرجی کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن میں لوگوں کو ویکسین کے استعمال سے قبل اینافائیلیکس کا سامنا ہوا تھا۔

    تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شدید الرجی کے تمام کیسز جلد صحت یاب ہوگئے اور کسی کو بھی شاک یا سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والی نالی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

  • آنتوں کے کیڑے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں

    آنتوں کے کیڑے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں

    کراچی (ویب ڈیسک) – صحت انسانی زندگی کا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کچھ بیماریاں ایسی ہوتی یں جن کے آثار فوراً ظاہر ہوتے ہیں اور متاثرہ شخص کی توجہ ان کی جانب مبذول ہجاتی ہے اور مریض بر وقت علاج کرالیتا ہے لیکن ایک بیماری ایسی بھی جس کے آثار ظاہر تو ہوتے ہیں لیکن وہ اتنی معمولی نوعتیت کے ہوتے ہیں کہ مریض توجہ نہیں دیتا اور بعض اوقات بے پناہ نقصان اٹھاتا ہے۔

    آنتوں میں کیڑے ہونا ترقی پذیر ممالک میں ایک عمومی مرض ہے اور خصوصاً بچوں میں یہ مرض بکثرت پایا جاتا ہے۔ ان میں ’پن وارم ، راؤنڈ وارم اور ٹیپ وارم‘ عام اقسام ہیں۔ بظاہر معمولی نظر آنے والی یہ بیماری مریض کی زندگی کو اس طرح اجیرن کردیتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔

    پاکستان کے بیشتر علاقوں کامرطوب موسم ان کیڑوں کو سازگار ماحول فراہم کرتا ہے لیکن ان کے پھیلنے کے بے شمار ذرائع اور بھی ہیں۔ یہ پینے کے پانی میں کسی بھی قسم کی کثافت کی آمیزش سے انسانی پیٹ میں پہنچ سکتے ہیں ، سبزیوں اور پھلوں کو اگر بغیر دھوئے استعمال کیا جائے تو بھی ان کے انسانی جسم میں پہنچنے کا اندیشہ ہے ، یہ ابتدا میں ’یک خلیائی جسم‘ ہوتے ہیں لہذا یہ ناخنوں کے ذریعے منہ سے اور ہوا کے ذریعے ناک سے بھی انسانی جسم میں داخل ہونے کا راستہ بنا لیتے ہیں اور گھر سے باہر برہنہ قدم گھومنے کی صورت میں پیر کے مساموں سے انسانی جسم میں داخل ہوسکتےہیں۔

    انسانی جسم میں کیڑوں کی موجودگی کی چند بنیادی علامات ہیں جن میں اکثر و بیشتر متلی ہونا، اجابت میں بے قاعدگی، قبض رہنا، ریاح کا بدبو دار ہونا، سر یا جسم میں درد رہنا ، مستقل کمزوری یا تھکاوٹ کا شکار رہنا اور آںکھوں کے گرد سیاح حلقے شامل ہیں۔

    یہ علامات ابتدائی نوعیت کی ہیں جبکہ انتہائی نوعیت کی علامات میں پیٹ میں مستقل شدید درد ، خون کی کمی ، جسم میں زخم اور پیٹ میں کیڑوں کی کثرت کی صورت میں ظہور پذیرہوتی ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ کیڑے پیٹ میں ایک فٹ تک قامت اختیار کرلیتے ہیں اور انکی بقا کا دارومدار انسانی خون پر ہوتا ہے جس سے انسانی جسم میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

    ایک محتاط سروے کے مطابق پاکستان کی ستر فیصد آبادی آنتوں میں رہنے والے ان کیڑوں کا شکار ہے لیکن ان میں سے اکثر ان کی موجودگی اور ہلاکت انگیزی سے ناواقف ہیں جبکہ حفطان ِ صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آںتوں کے کیڑوں کی افزائش کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے، اور مرض لاحق ہوجانے کی صورت میں کسی بھی فزیشن سے دوا لے کر ابتدائی اسٹیج پر ہی ان سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔