Tag: america

  • ایران کا رویہ خطرناک ہے، دنیا اسے روکے، امریکا کی دہائی

    ایران کا رویہ خطرناک ہے، دنیا اسے روکے، امریکا کی دہائی

    واشنگٹن: امریکی حکومت نے کہا ہے کہ خطے میں ایران کا رویہ خطرناک ہے، عالمی برادری اسے تبدیل کرانے کے لیے تہران پر دباؤ ڈالے۔

    تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب مشرق وسطیٰ میں بدامنی پھیلانے کے لیے ذمے دار ہے۔

    امریکا نے کہا ہے کہ ایران کی ’آوارہ گردی‘ خطے کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے، اسے راہ رست پر لانے کے لیے دنیا تہران پر سخت دباؤ ڈالے۔ خیال رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کردیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ شام کے اندر سے اسرائیل کے زیر کنٹرول وادی گولان پر میزائل حملے، یمن میں حوثیوں کو اسلحہ کی سپلائی اور سعودی عرب پر بیلسٹک میزائل حملوں میں معاونت تہران کی جارحانہ پالیسی کا کھلا ثبوت ہے۔

    اسرائیلی حملے


    دوسری طرف شام کے اندر اسرائیل کی طرف سے ہونے والے فضائی حملوں میں گیارہ ایرانی جاں بحق ہوگئے ہیں، اس بات کا اعلان شام میں انسانی حقوق کے ایک نگراں گروپ کی جانب سے کیا گیا۔

    اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بم باری اور فضائی حملوں میں مجموعی طور پر ستائیس جانیں ضائع ہوئیں، جن میں شامی فوج کے تین افسران سمیت چھ اہل کار بھی شامل ہیں۔ اس حملے میں دس غیر شامی بھی جاں بحق ہوئے۔

    امریکی حکومت نے ایران پر پابندیوں کا آغاز کردیا


    اسرائیل کے مطابق اس نے شامی فوج کے زیر انتظام پانچ طیارہ شکن بیٹریوں پر بھی بم باری کی جن کے ذریعے اسرائیلی طیاروں کی جانب فائرنگ کی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ دو روز قبل اسرائیل شام میں ایرانی اہداف پر متعدد حملوں کا اعتراف کرچکا ہے جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ گولان کے پہاڑی علاقے میں اسرائیلی اڈوں پر ایران کی طرف سے میزائل داغے جانے کا جواب ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں پرجوابی پابندیاں عائد کردیں

    پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں پرجوابی پابندیاں عائد کردیں

    اسلام آباد : پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت کاروں پر  پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد امریکی سفارت کاروں کی رہائش گاہوں پر ریڈیو کمیونیکیشن کی تنصیب این او سی کے بغیر نہیں ہوگی، سفارتکاروں کو دی جانے والی کچھ سہولیات بھی واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں پاکستانی سفارت کاروں پر سفری پابندی کے بعد حکومت نے  بھی پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں پر جوابی سفارتی پابندی عائد کردی ہے۔

    مذکورہ پابندی کے بعد امریکی سفارت کاروں کو  محدود نقل و حرکت کی اجازت ہوگی اور  ان کو نقل و حرکت سے پہلے دفتر خارجہ سے اجازت لینا ہوگی جس کا اطلاق آج 11مئی سے ہی ہوگا۔

    وزارت خارجہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق امریکی کارگو اسکیننگ کے بغیر نہیں جانے دیا جائے گا، ایئر پورٹس پر بھی  سفاتر کاروں کو کارگو سے متعلق کوئی استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔

    وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کی گاڑیوں کے کالے شیشے ممنوع ہوں گے اور نان ڈپلو میٹک نمبر پلیٹ لگانے پر بھی پابندی ہوگی۔

    وزارت خارجہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق امریکی سفارت کاروں کو  موبائل سم کارڈ  نکلوانے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کروانا بھی ضروری ہوگی۔

    نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت کار ایک سے زائد پاسپورٹ نہیں رکھ سکیں گے اور ان کا قیام جاری ہونے والے ویزے کی مدت کے مطابق ہوگا جبکہ کرائےکی گاڑیوں پر ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ استعمال نہیں کی جائےگی۔

    وزارت خارجہ کے مطابق رہائش گاہوں پر ریڈیو کمیونیکیشن کی تنصیب این اوسی کے بغیر نہیں ہوگی اور امریکی سفارت کار این او سی کے بغیر کرائے پر کوئی بھی جگہ نہیں لے سکیں گے۔

    پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت کاروں پر عائد کردہ پابندی کے حوالے سے امریکی سفارت خانے کوآگاہ کردیا ہے  اور اب پاکستانی ایئر پورٹس پر امریکی سفارتخانے کے سامان کی ترسیل کو ویانا کنونشن کے مطابق ڈیل کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں امریکا نے پاکستان کے سفارت کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں جس کی تصدیق گزشتہ روز دفتر خارجہ کے ترجمان نے کی تھی۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستانی عملے کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا اطلاق 11 مئی سے ہوگا، پاکستان نے بھی جوابی ردعمل میں امریکی سفارتی عملے پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

     ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ 11 مئی سے امریکا میں تعینات سفارتی عملے پر پابندیاں عائد ہوں گی جس کے بعد عملہ سفارت خانے سے  40 کلومیٹر  حدود کے دائرے سے باہر نہیں جاسکے گا، اسی طرح کی پابندیاں پاکستان نے بھی امریکی سفارتی عملے پر عائد کردیں۔

    مزید پڑھیں: سفارتی پابندیوں کے بعد پاکستان کا سپر پاور کو کرارا جواب

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ سفری پابندیاں باہمی دوطرفہ سطح پر نافذ ہوں گی، اگر سفارتی عملے  کےکا رکن کسی بھی علاقے میں جانا چاہیے گا تو اُسے امریکی وزارتِ داخلہ سے پیشگی اجازت لینی ہو گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکی اقدامات کا خمیازہ یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں، یورپی وزیر خارجہ

    امریکی اقدامات کا خمیازہ یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں، یورپی وزیر خارجہ

    پیرس :امریکا کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں پر یورپ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اقدامات کا خمیازہ یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی جانب سے ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی انتظامیہ نے ایرانی سپاہ پاسداران کو مالی مدد فراہم کرنے والے چھ افراد اور ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی تین کمپنیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فرانس نے امریکا کی جانب سے ایران پر اور سپاہ پاسداران سے تعلق کے شبے میں یورپی کمپنیوں پر پابندی لگانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول قرار دیا ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فرانس کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں پر تنقید کرنے سے امریکا اور فرانس کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکا کا ایرانی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد گزشتہ روز ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ کاروبار کرنے پر چھ افراد اور تین کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ ان افراد اور کمپنیوں کے ایرانی سپاہ پاسداران سے رابطے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد متعدد فرانسیسی کمپنیوں نے ایران کے ساتھ اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا کہنا تھا کہ ایران کے معاہدہ کرنے والی کمپنیوں میں فرانس کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایئر بس، آئل کمپنی ٹوٹل، جبکہ کار بنانے والی کمپنیوں میں رنو اور پژجو شامل ہیں۔

    یورپ کے وزیر خارجہ لی ڈارین کا کہنا ہے کہ امریکا کے اقدامات کا جرمانہ یورپی کمپنیاں کیوں ادا کریں، امریکا کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل دیگر شراکت داروں کی عرت کرنی چاہیئے۔

    یورپی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات پہلے سے تیل کے اخراجات میں اضافہ اور مشرقی وسطی میں سیاست کی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ محسوس ہوگا۔

    خیال رہے کہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ تینوں یورپی ممالک جوہری معاہدے پر باقی رہیں گے اور ایران کے ساتھ مل کر معاہدے پر عمل درآمد رہیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کم جونگ اُن سے ملاقات سنگاپور میں ہوگی، امریکی صدر کا ٹوئٹ

    کم جونگ اُن سے ملاقات سنگاپور میں ہوگی، امریکی صدر کا ٹوئٹ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں سربراہ شمالی کوریا سے ملاقات کی تاریخ و مقام کا اعلان کردیا، انھوں نے کہا ہے کہ ہم سنگاپور میں ملیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کم جونگ اُن سے ملاقات 12 جون کو ہوگی۔ ہم دونوں کوشش کریں گے کہ اس ملاقات کو عالمی امن کے لیے ایک خصوصی لمحہ بنادیں۔

    خیال رہے کہ پانچ مئی کو امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے رہنما کے ساتھ ملاقات کی تاریخ طے ہوگئی ہے، یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ملاقات سنگاپور میں ہوگی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملاقات میں شمالی کوریا پر ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، دوسری طرف آج ہی انھوں نے ٹوئٹ کے ذریعے شمالی کوریا میں قید تین امریکیوں کی رہائی کی خبر بھی دی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان مزید برف پگھلنے کا اشارہ ملتا ہے۔

    واضح رہے امریکی وزیر دفاع مائک پومپیو پہلے سے طے شدہ مذکرات کے سلسلے میں شمالی کوریا میں موجود ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ممکنہ معاہدے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  شمالی کوریا کے سربراہ کا دورہ چین، شی جن پنگ سے ملاقات

    دوسری طرف شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے چین کا دورہ کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر روز دیا، امریکی صدر سے ملاقات سے قبل اس دورے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  امریکی صدر ٹرمپ کا ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان

    دریں اثنا امریکی صدر نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ یک طرفہ قرار دیتے ہوئے ایک روز قبل ختم کردیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایران نے معاہدے کے باوجود جوہری پروگرام جاری رکھا، ایران اور اس کے ساتھ جوہری تعاون کرنے والی ریاست پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایران مذاکرات کرے یا پھر حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، ٹرمپ

    ایران مذاکرات کرے یا پھر حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، ٹرمپ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد کہا ہے کہ ایران مذاکرات کرے یا پھر کسی بھی طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران سے کیا جانے والا جوہری معاہدہ بہت بڑی غلطی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں اور اسے سمجھوتے کی آڑ میں دی جانے والی رعایتیں ختم کی جائیں۔

    امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے جوہری معاہدے پر دوبارہ کام شروع کیا تو اس کے بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے، ایران نے جوہری پروگرام کا آغاز کیا تو اس کا بروقت جواب دیا جائے گا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو بند کریں، یہ مشورہ ابھی زبانی ہے ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے علیحدگی کے بعد فوج کو اضافی فنڈںگ کی ضرورت نہیں ہے اور فوج کی جانب سے ایسی کوئی درخواست بھی سامنے نہیں آئی ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر سخت پابندیاں لگائیں گے، ایران سے جوہری تعاون کرنے والی ریاست پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    واشنگٹن : امریکی صدر نے جے پی او سی کے اجلاس میں باقاعدہ ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا، جس کے بعد سنہ 2015 سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ نافذ کردی جائیں گی.

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج جے سی او پی کے ساتھ امریکی تعاون کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے کی رو سے ایران پر سنہ 2015 سے پہلے عائد پابندیوں کا دوبارہ اطلاق ہوجائے گا جو ایٹمی معاہدے کے باعث ختم کی گئی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کا دفتر برائے بیرونی اثاثہ جات اس حوالے سے فوری اقدمات کررہا ہے۔

    امریکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کچھ پابندیاں تین ماہ کے اندر لاگو کردی جائیں گی جبکہ کچھ پابندیوں 6 ماہ کے اندر اندر نافذ العمل کیا جائے گا، اس دوران ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے تمام کمپنیاں اپنے آپریشن بند کردیں ورنہ ان پر بھی سختی کی جائے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں میں پرائمری اور ثانوی دونوں نوعیت کی پانبدیاں شامل ہیں، او ایف اے سی نے اپنی دیب سایٹ پر امریکی صدر ٹرمپ سے کیے گئے سوالات کو شائع کیا ہے جس میں لگائی گئی پابندیوں کی تفصیلات واضح ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر وزیر خزانہ اسٹیون ٹی کا کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ حلف لینے کے بعد سے متواتر کہتے آئے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ ایران کی جانب سے پیدا کی گئی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو مکمل طور ہر حل کرنے کےلیے پُر عزم ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترین منصوبہ سازی کے ذریعے ایسا لائحہ عمل معاہدہ تیار کریں گے جو ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہوگا۔

    اسٹیون ٹی کا کہنا تھا کہ ’امریکا ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں کے لیے درکار سرمائے تک رسائی کو سرے سے ختم کردے گا، کیوں کہ ایران دہشت گردوں کا سب سے بڑی پشت پناہی کرنے والی ریاست ہے‘۔

    امریکی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں امریکا کے اتحادیوں و حامیوں کے خلاف استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائل، شامی صدر بشار الااسد کی حمایت اور اپنے ہی عوام کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بین الااقوامی مالیاتی نظام کا استعمال شامل ہے‘۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام:ایرانی فوجی اڈے پر اسرائیل کا فضائی حملہ، 9 غیرملکی فوجی جاں بحق

    شام:ایرانی فوجی اڈے پر اسرائیل کا فضائی حملہ، 9 غیرملکی فوجی جاں بحق

    دمشق : اسرائیلی افواج کی جانب سے شام کے شہر قصویٰ میں قائم ایرانی فوجی اڈے پر میزائل حملے کیے گئے ہیں، فضائی حملوں میں 9 غیر ملکی جنگوؤں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے اہم خطے شام کے سرکاری نشریاتی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز دارالحکومت دمشق میں صیہونی ریاست اسرائیل کی دفاعی افواج کی جانب سے فوجی مرکز پرمیزائل حملے کیے گئے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شام کے فضائی دفاعی سسٹم نے منگل کے روز شامی شہر قصویٰ کے میں اسرائیل کی جانب سے داغے گئے دو میزائلوں کو تباہ کردیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ میزائل حملوں میں کسی کے زخمی یا جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں، البتہ مانیٹرنگ گروپ کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشار الااسد کی حامی جنگجؤ گروپس کے 9 حملے میں جاں بحق ہوئے ہیں جس میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجو بھی شامل ہیں۔

    شامی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی منگل کے روز ہی افواج کے بیس کیمپ پر میزائل حملوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تھی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق شامی صدر بشار الااسد کی حمایت میں لڑنے والے گروپ کے ایک کمانڈر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گذشتہ روز داغے گئے میزائلوں کا مقصد شام کے فوجی مرکز کو نشانہ بنانا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم سیرئین آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں میں شامی افواج کے اسلح ڈپو کو ہدف بنایا گیا تھا۔

    برطانوی انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری کا کہنا تھا کہ حالیہ حملوں میں ایران کی سپاہ پاسداران اور شیعہ جنگجو گروپ کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کی جانب سے اسرائیلی افواج پر لگائے گئے الزامات کا صیہونی حکام نے کوئی جواب نہیں دیا ہے، البتہ اسرائیل نے شام میں ایرانی افواج کی موجوگی کو اسرائیل کے خلاف مورچہ بندی کہا تھا۔

    واضح رہے کہ ایرانی حکومت گذشتہ سات برس سے جاری شام کی خانہ جنگی میں بشار الااسد کی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، اور شامی حکومت کی حمایت کے لیے ہزاروں فوجی اہکار اور مشیر تاحال شام میں ہی موجود ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے منگل کے روز جس جگہ میزائل حملے کیے ہیں ان مقامات پر ایران نے فوجی چھاونیاں قائم کررکھی تھی۔

    یاد رہے کہ سنہ 2017 میں برطانوی خفیہ اداروں نے غیر ملکی خبر رساں اداروں کو بتایا تھا کہ قصویٰ میں ایرانی افواج نے فوجی اڈا بنارکھا ہے جسے شامی افواج استعمال کررہی ہے۔

    شامی شہر قصویٰ میں گذشتہ روز ہونے والے حملے کے رد عمل میں ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل کے لیے شام میں قائم کیے گئے فوجی اڈوں پر حملے کا انتقام ضرور لے گا۔

    خیال رہے کہ ایران اور صیہونی ریاست اسرائیل کے درمیان کشیدگی اس وقت اضافہ ہوا جب اسرائیلی حکام نے الزام عائد کیا کہ شام کے پہاڑی سلسلے گولان میں ایران کی جانب سے غیر معمولی آمد و رفت کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل کا قبضہ ہے، جس کے باعث صیہونی افواج نے مذکورہ علاقے کو ریڈزون بنایا ہوا ہے اور وہاں بارودی سرنگیں بھی بچائی ہوئی ہیں۔

    اسرائیلی افواج کے ترجمان جوناتھن کونریکس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیا تھا کہ ’اسرائیلی ریاست کے خلاف کی گئی ہر کارروائی کا سخت رد عمل دیا جائے گا‘۔

    اسرائیلی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ سنہ 1948 کے بعد سے پہلی مرتبہ حکومت نے گولان میں بسنے والے اسرائیلی شہریوں کو متنبے کیا تھا کہ محفوظ پناہ گاہیں تیار رکھیں اور حملے کی صورت میں فوری اس میں منتقل ہوجائیں۔

    خیال رہے کہ شامی حکومت کی جانب سے فوجی چھاونیوں پر میزائل حملوں کا انکشاف ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب عالمی سطح پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنے کی وجہ پہلے ہی انتشار پھیلا ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے امریکا کے یورپی اتحادی بالخصوص فرانس، برطانیہ اور جرنی مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کو جوہری معاہدے کی منسوخی سے روکنے کے لیے کوششیں کررہے تھے، لیکن ٹرمپ نے کہا تھاکہ ’میں ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کروں گا اور جو ملک ایران کی مدد کرے گا اس پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی‘۔

    اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدوں کے باعظ خطے میں ایران کی اشتعال انگیزیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا جارہا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ ایران جوہری معاہدے سے متعلق فیصلے کا اعلان آج کریں گے

    ٹرمپ ایران جوہری معاہدے سے متعلق فیصلے کا اعلان آج کریں گے

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ آج ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے مستقبل کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے۔

    صدر ٹرمپ ابتدا سے ہی 2015 میں ایران اور امریکا سمیت چھ دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے خلاف رہے ہیں اور امریکا کے معاہدے سے علیحدگی کی دھمکی دے چکے ہیں۔

    ٹرمپ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے میں شامل دیگر تمام 5 ممالک نے روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ڈیڈ لائن سے قبل معاہدے میں موجود خامیاں دور نہ کیں تو امریکا اس معاہدے نکل جائے گا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردے گا۔

    دوسری جانب ایران کی قیادت واضح کرچکی ہے ان کی جانب سے معاہدے پر مکمل طور پر عمل کررہی ہے، معاہدے کی کسی شق پر نظرثانی کے لیے کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: جوہری سمجھوتہ: امریکی صدر کے فیصلے کا توڑ تیار کرلیا، ایرانی صدر حسن روحانی

    ایران کے صدر حسن روحانی کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ اگر امریکا جوہری معاہدے الگ ہوجاتا ہے تو پھر بھی ایران باقی پانچ ملکوں کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھ سکتا ہے۔

    فرانسیسی صدر ایمانول میکرون بھی ٹرمپ سے معاہدے میں رہنے کے لیے کہہ چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر مریکا نے معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

    واضح رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے میں امریکا سمیت چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ حصہ ہیں، امریکی صدر کو 12 مئی کو اس معاہدے کی تجدید کرنا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانوی وزیر خارجہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچ گئے

    برطانوی وزیر خارجہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچ گئے

    واشنگٹن : برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن امریکا پہنچ گئے جہاں وہ امریکی صدر سے ملاقات کریں گے اور ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو بھی کریں گے.

    تفصیلات کے مطابق ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے کی منسوخی کے حوالے سے امریکا اور ایران کے درمیان حالات پھر کشیدہ ہونے لگے، برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن ایٹمی معاہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایٹمی معاہدے پر باقی رکھنے کے لیے امریکا پہنچ گئے۔

    برطانیہ اور دیگر یورپی اتحادی امریکا کو منانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے کو جاری رکھا جاسکے۔

    برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن دورہ امریکا کے دوران امریکی نائب صدر، مائیک پینس، مشیر برائے قومی سلامتی جون بولٹن سے بھی ملاقات کریں گے. ان کا کہنا تھا کہ ’امریکا اور برطانیہ ایک ہی وقت میں ایک ہی ہدف پر کام کررہے ہیں، چاہے وہ شام میں کیمیائی حملوں کی روک تھا ہو یا لندن کے شہر سالسبری میں سابق روسی جاسوس کو زہر دینے کا معاملہ ہو‘۔

    بورس جانسن کا کہنا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپی اتحادیوں متحد ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی مداخلت کو کنٹرول کرنے، لبنان کی تنظیم حزب اللہ کی حمایت اور یمنی حوثی جنگجؤوں کو خطرناک میزائل کی فراہمی سے روک سکیں۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شروع سے ہی ایران اور امریکا سمیت چھ عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے ایٹمی معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے مذکورہ معاہدے کو ’پاگل پن‘ قرار دیتے آئے ہیں۔

    برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے ہفتے کے روز ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ’ایران معاہدے کے مطابق کوئی بھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کررہا‘۔

    یاد رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے دور صدرات میں فرانس، برطانیہ، چین، روس، جرمنی، امریکا اور ایران کے درمیان جوہری ہتھیار کے حصول کو ترک کرنے کا معاہدہ طے ہوا جس کے تحت عالمی طاقتوں نے ایران پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی تھی۔

    واضح رہے کہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس موجودہ معاہدے پر متفق ہیں جس کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی امریکا کو ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کے خطرناک نتائج سے خبردار کرچکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • امریکا میں سلاد کے پتے کھانے سے ایک شخص ہلاک، سینکڑوں بیمار پڑ گئے

    امریکا میں سلاد کے پتے کھانے سے ایک شخص ہلاک، سینکڑوں بیمار پڑ گئے

    واشنگٹن: امریکا کے مختلف علاقوں میں ’رومین لیٹس‘ نامی سلاد کے پتے کھانے سے ایک شخص ہلاک اور سینکڑوں  بیمار پڑ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز امریکا کے مختلف علاقوں میں سلاد کے پتوں میں مخصوص بیکٹیریا ہونے کے باعث کھانے والے سینکڑوں شہری سخت بیمار ہوگئے جن میں سے ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کی جاچکی ہے، جبکہ بیمار افراد کو علاج معالجے کے لیے اسپتال منتقل کیا جاچکا ہے۔

    امریکی حکام کی جانب سے لوگوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے کہیں سے بھی ’رومین لیٹس‘ نامی سلاد کے پتے خریدے ہیں تو اسے فوراً پھینک دیں، یہ سلاد اس وقت تک استعمال نہ کریں جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ اسے ریاست ایری زونا کے علاقے یوما میں نہیں اگایا گیا ہو۔

    پپیتے کے بیج بے شمار فائدوں کا باعث

    دوسری جانب ماہرین امریکی ریاست ایری زونا میں قائم دو درجن فارموں کا معائنہ کر رہے ہیں اور ان کی پیداوار کے نمونوں کا تجزیہ بھی کیا جارہا ہے جبکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سلاد میں موجود ’ای کولی‘ نامی بیکٹیریا کا حملہ بہت شدید ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ تر مریضوں کو اسپتال داخل ہونا پڑتا ہے۔

    پپیتہ:ہزاروں خوبیوں سے لبریز،زود ہضم پھل

    خیال رہے کہ اس سے قبل امریکا میں ’ای کولی‘ بیکٹیریا نے 2006 میں وبائی شکل اختیار کی تھی، 2006 میں اس بیکٹیریا نے 200 سے زیادہ لوگوں کو بیمار کر دیا تھا، جبکہ ماضی میں ہونے والے حملے کے بعد یہ اس بیکٹیریا کا دوسرا بڑا حملہ ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔