Tag: america

  • کس ملک نے سب سے زیادہ ویکسی نیشن کی؟ بچوں کو بھی ٹیکے لگا دیئے گئے

    کس ملک نے سب سے زیادہ ویکسی نیشن کی؟ بچوں کو بھی ٹیکے لگا دیئے گئے

    عالمی وبا کورونا وائرس کے اثرات سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر کے تمام ممالک اپنی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تاہم ان سب میں ایک ملک ایسا ہے جس نے اب تک سب سے زیادہ ویکسی نیشن کی ہے۔

    اس حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا ویکسن لگانے کے معاملے میں اس وقت امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو سب سے آگے ہے، جہاں اب تک 29کروڑ ویکسین کے ٹیکے لگا دیئے گئے ہیں۔

    امریکہ بڑی آبادی والا پہلا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے لیکن کم آبادی والے چند ممالک کی بھی نصف آبادی کو ویکسین کی ایک ڈوز دی جا چکی ہے۔

    عالمی وبا کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکہ کورونا سے حفاظت کے لئے ویکسن لگوانے میں اس وقت سب سے آگے ہے۔ تقریبا نصف آبادی کو ویکسین کا ایک ڈوز جب کہ 35 فیصد آبادی کو دو ڈوز لگائے جا چکے ہیں۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق صحت کے معاملات دیکھنے والے امریکی محکمہ صحت کے ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول این پریونشن (سی ڈی سی) کے مطابق امریکہ بھر میں مجموعی طور پر 29 کروڑ کے قریب ویکسین ڈوز لگائی جاچکی ہے۔

    امریکی حکومت کو مختلف کمپنیوں کی جانب سے35 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ٹیکے فراہم کیے جاچکے ہیں، جن میں سے 28 کروڑ 77 لاکھ سے زائد ڈوز لگائے جا چکے تھے۔

    امریکہ میں13 کروڑ 10 لاکھ 78 ہزار608 افراد ایسے تھے جنہیں دونوں ڈوز لگائے جا چکے تھے جب کہ16 کروڑ43 لاکھ سے زائد افراد کو ایک ڈوز لگائی جاچکی تھی، امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق26 مئی تک امریکہ کی50 میں سے25 ریاستوں میں نصف بالغ آبادی کو کورونا ویکسین لگائی جاچکی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق ریاست الاسکا، کیلی فورنیا، کولاراڈو، کنیکٹیکٹ، ہوائی، لووا، مش گن، منیسوٹا، نیوجرسی، نیویارک، نیو میکسیکو، ورجینیا، پنسلوانیا اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سمیت مجموعی طور پر25 ریاستوں کی نصف بالغ آبادی کو ویکسین کے دونوں ڈوز لگائے جاچکے تھے۔

    مذکورہ ریاستوں میں نصف بالغ آبادی میں سے بھی زیادہ تر آبادی کو ایک ڈوز لگایا جا چکا ہے جب کہ جلد ہی وہاں نابالغ افراد کے لیے ویکسی نیشن شروع کی جائے گی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکہ کی کم از کم چار ریاستوں جن میں کنیکٹیکٹ، ورمونٹ، میساچوٹس اور مائن شامل ہیں وہاں کی تمام آبادی کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ مذکورہ ریاستوں میں نابالغ افراد کو بھی ویکسین لگائی جاچکی ہے۔

    امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں کہا تھا کہ حکومت رواں برس جولائی تک پوری آبادی کو ویکسین کے دونوں ڈوز لگانے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس ضمن میں کوششیں مزید تیز کردی گئی ہیں۔

    اس وقت امریکہ بڑی آبادی والا وہ پہلا ملک ہے، جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے لیکن کم آبادی والے چند ممالک کی بھی نصف آبادی کو ویکسین کا ایک ڈوز لگایا جاچکا ہے۔

    امریکا میں زیادہ لوگوں کو ویکسین لگائے جانے کے بعد حکومت نے کچھ نرمیاں بھی کی ہیں اور لوگوں کو ہر وقت فیس ماسک پہننے سے بھی آزاد قرار دیا ہے لیکن بھیڑ میں جاتے وقت فیس ماسک کے استعمال سمیت سماجی فاصلہ اختیار کرنے کی تجاویز بھی دے رکھی ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکہ میں 26 مئی 2021 تک سامنے آنے والے مجموعی کورونا کیسز کی تعداد 3 کروڑ 31 لاکھ سے زائد تھی اور وہاں پر ہلاکتوں کی تعداد 5 لاکھ 90 ہزار سے زائد ہوچکی تھی۔

    اگرچہ گزشتہ چند ماہ میں امریکہ میں سامنے آنے والے کورونا کیسز میں نمایاں کمی سامنے آئی لیکن اس کے باوجود وہاں اب بھی نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔

  • روس نے امریکہ کیخلاف جوابی کارروائی کا بڑا فیصلہ کرلیا

    روس نے امریکہ کیخلاف جوابی کارروائی کا بڑا فیصلہ کرلیا

    ماسکو : روس نے امریکہ سے اس کے سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے بعد جوابی کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے، اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ روس نے امریکا سمیت دیگر ممالک کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا ہے کہ ماسکو غیر دوستانہ ممالک کی فہرست ترتیب دے رہا ہے اور ظاہر ہے کہ امریکہ کو بھی اس فہرست میں رکھا جارہا ہے۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلیک لسٹ کرنے کا روسی فیصلہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حالیہ غیر دوستانہ اقدامات کے جواب میں ہے۔

    گزشتہ روز نشر ہونے والے ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ماریا زاخارووا نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے غیر دوستانہ اقدامات کے بعد ان ممالک کی فہرست بنانے پر کام شروع ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ غیر دوست ممالک کون سے ہیں؟ ان کی فہرست اب تیار کی جارہی ہے۔

    زاخارووا نے اس فہرست میں شامل کسی دوسرے ملک کا نام لئے بغیر کہا کہ میں اس بات کی تصدیق کرسکتی ہوں اس بلیک لسٹ میں امریکہ ضرور ہوگا۔

    زاخارووا نے مزید کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے حال ہی میں دستخط کیے گئے ایک فرمان کے مطابق جن ممالک کو “غیر دوست” ممالک قرار دیا گیا ہے وہ روسی شہریوں کو اپنے سفارتی اور قونصلرانہ مشن میں کام کرنے کے لئے ملازمت پر نہیں رکھ پائیں گے۔

    یاد رہے اپریل کے وسط میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے 10 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے حکم کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کے مابین ایک تازہ سفارتی محاز کھل گیا ہے جس میں امریکہ نے کریملن پر 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت اور گزشتہ سال کے سولر ونڈس سائبر جاسوسی کے واقعے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ ڈیڑھ ہفتہ قبل امریکا نے ہیکنگ اور انتخابات میں مداخلت کے الزام میں روس کی متعدد کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں عائد کی تھیں اس کے علاوہ دس سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا تھا۔ ان میں روسی انٹلیجنس سروسز کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

    امریکہ کے اس اقدام پر روس نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ بھی اس کے جواب میں بھرپور جارحانہ جواب دے گا۔ روس نے امریکی پابندیوں کا جلد جواب دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہا ہے۔

  • دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر کون سا ملک ہے؟

    دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر کون سا ملک ہے؟

    اسٹاک ہوم : دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر کون سا ملک ہے اس حوالے سے سوئیڈن کے تحقیقی ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مختلف ممالک کے اسلحے کی خریداری سے متعلق اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔

    سویڈن کے تحقیقی ادارے کے مطابق اس وقت امریکہ دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ برس کے دوران امریکہ کی برآمدات میں 37 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ روس اور چین کی اسلحہ برآمدات میں کمی ہوئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدا جاتا ہے اور سعودی عرب اس خطے میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

    اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اسلحہ کی عالمی منڈی میں امریکہ اب بھی سب سے بڑا تاجر ہے۔ گذشتہ پانچ برس کے دوران اسلحہ کی عالمی منڈی میں امریکہ کی برآمدات میں 37 فیصد تک اضافہ ہوا۔

    امریکی ہتھیاروں کی برآمدات کا 47 فیصد مشرق وسطی کے ممالک کو کیا گیا، سعودی عرب نے امریکی اسلحے کی کل برآمدات کا 24 فیصد اسلحہ خریدا۔ امریکہ اب 96 ریاستوں کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔

    فرانس کے بڑے ہتھیاروں کی برآمدات میں 44 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جرمنی کی برآمدات میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔ اسرائیل اور جنوبی کوریا دونوں نے اپنی برآمدات میں نمایاں اضافہ کیا۔

    ایس آئی پی آر آئی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں گذشتہ پانچ برس کے مقابلے میں 25 فیصد اسلحہ زیادہ درآمد کیا گیا۔ سب سے زیادہ 61 فیصد اضافہ سعودی عرب کی درآمدات میں ہوا۔

    اس کے علاوہ مصر کی اسلحہ درآمدات میں 136 فیصد اور قطر کی درآمدات میں 361 فیصد اضافہ ہوا۔

    رپورٹ کے مطابق روس سے اسلحے کی برآمد میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، چین جو اسلحے کی برآمدات میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، اس کی برآمدات میں 7.8 فیصد کمی آئی ہے۔

  • امریکی عوام کی اکثریت نشے سے کیوں بیزار ہے؟

    امریکی عوام کی اکثریت نشے سے کیوں بیزار ہے؟

    ٹیکساس : امریکہ کے الکحل فری بارز میں شراب نوشی ترک کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، عوام کی اکثریت الکحل سے پاک مشروبات سے لطف اندوز ہونا پسند کررہے ہیں۔

    امریکی ریاست ٹیکساس میں آسٹن کے سنس بار میں لوگوں کی بڑی تعداد الکحل سے پاک مشروبات نوش کرنے کےلیے آرہی ہے، جہاں عام بارز کی طرح موسیقی اور رنگ برنگی لائٹنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔

    مذکورہ بار عام بارز کی طرح دکھائی دیتا ہے جہاں چارو طرف مختلف رنگوں اور برانڈز پر مشتمل مشروبات کی بوتلیں رکھی ہیں لیکن یہاں الکحل سے پاک مشروبات ہی فروخت کی جاتی ہیں۔

     بار کے مالک کرس مارشل نے بتایا کہ یہاں آنے والے 75 فیصد افراد الکحل سے پاک مشروبات پینا پسند کرتے ہیں۔  ایک اور کیفے کے  مالک جوشوا جیز نے بتایا کہ الکحل سے پاک مشروبات پینے کی ایک ہزار  وجوہات ہیں جبکہ حاملہ خواتین بھی  الکحل سے پرہیز کرتی ہیں اس کے علاوہ  دیگر کئی وجوہات کی بنا پر بھی لوگ شراب نوشی سے پرہیز کررہے ہیں۔

    علاوہ ازیں ایک اور الکحل فری بار کے مالک ڈگلس واٹرس نے کہا کہ آج کل  لوگ سوڈا اور جوس سے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور  الکحل سے پاک مشروبات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے شوق کی تکمیل کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ اپنے پرانے ذوق کی نقل کرتے ہوئے تسکین حاصل کرتے ہیں، وہ الکحل فری مشروبات کو وہیسکی یا شراب کی طرح نوش کر رہے ہیں۔

    بار میں آئے ایک گاہک نے بتایا کہ مجھے اب گاڑی چھوڑ کر جانا نہیں پڑے گا اور نہ ہی گھر جانے میں مجھے کوئی پریشانی پیش آئے گی جبکہ صبح مجھے سر میں بھی درد نہیں ہوگا، گاہک نے بتایا کہ نشہ سے دور ہوکر وہ خود کو صحتمند محسوس کر رہے ہیں۔

    الکحل فری بارز میں آنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ صحتمند زندگی کے لیے نشے سے دور رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح 19ویں صدی میں بھی امریکہ میں نشہ سے پاک سماج سے متعلق رحجانات میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    موجودہ ماحول میں امریکی عوام میں شراب سے بیزارگی دیکھی جارہی ہے اور پرسکون زندگی گزارنے کے علاوہ سماجی زندگی میں ان کی دلچسپیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔

  • جیتنے کے ثبوت موجود ہیں، صرف اچھے جج کی ضرورت ہے، ٹرمپ

    جیتنے کے ثبوت موجود ہیں، صرف اچھے جج کی ضرورت ہے، ٹرمپ

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس انتخابات جیتنے کے کافی ثبوت موجود ہیں اور اب دلائل سننے کے لئے صرف ایک اچھے جج کی ضرورت ہے۔

    یہ بات انہوں نے پنسلوینیا میں عوامی سماعت کے دوران فون پر کہی، امریکی صدر حالیہ انتخابات میں نتائج کے باوجود اپنی ممکنہ شکست کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں، ان کو اب بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ دوبارہ اسی منصب پر فائز ہوں گے۔

    گزشتہ روز ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں انتخابی نتائج کو درست کرنا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لئے تمام شواہد موجود ہیں۔ ہمیں صرف ایک اچھے جج کی ضرورت ہے جو ہمارے تمام دلائل کسی بھی قسم کی سیاسی بددیانتی کے بغیر سنے۔

    واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے نئی انتظامیہ کو اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے، صدارت کے امیدوار کے انتخاب جیتنے اور حلف برداری کی تقریب کی مدت کے وقت کو ٹرانزکشن کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں حلف برداری کی تقریب 20جنوری کو ہے۔

    ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے یہ الیکشن بہت آسانی اور بہتر طریقے سے جیت لیاتھا، پوری دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے، امریکہ دنیا کو دیکھ رہا ہے اور ہم اسے اس طرح نہیں جانے دیں گے۔

    خیال ر ہے کہ امریکی میڈیا اداروں کے مطابق مستقبل کے امریکی صدر جو بائیڈن نے پنسلوینیا میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، یہاں انہیں 20 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں۔

  • امریکہ کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل گرانے کا کامیاب تجربہ، ویڈیو جاری

    امریکہ کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل گرانے کا کامیاب تجربہ، ویڈیو جاری

    واشنگٹن : امریکہ نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کو گرانے کا پہلا کامیاب تجربہ کرلیا، جاپان کی بحری سیلف ڈیفنس فورس بھی مذکورہ انٹرسیپٹر میزائل کی تنصیب کرے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے جزائر مارشل کے ایک آزمائشی مقام پر پہلے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ امریکہ کی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ اس نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کو گرانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

    اس مقصد کے لیے امریکہ اور جاپان کا مشترکہ طور پر تیار کردہ انٹرسیپٹر میزائل استعمال کیا گیا۔ وزارت کی میزائل دفاع کی ایجنسی نے گزشتہ روز بتایا کہ ایس ایم 3 بلاک آئی آئی اے انٹرسیپٹر میزائل نے ہوائی کے قریبی سمندر میں پیر کے روز اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔

    ایجنسی نے بتایا کہ ہوائی سے 4 ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع جزائر مارشل کے ایک آزمائشی مقام سے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغا گیا۔ ایک جدید ریڈار سے اس ہدف کی نشاندہی کی گئی اور ایجس نظام سے لیس تباہ کن بحری جہاز سے فائر کیے گئے انٹرسپٹر نے ہدف کو مار گرایا۔

    درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کرنے کے تجربات پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔ تاہم، بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کو نشانہ بنانے کا پیر کے روز یہ پہلا تجربہ تھا۔

    امریکہ نے بظاہر شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کے مدنظر اپنے میزائل دفاعی نظام میں بہتری کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکہ، شمالی کوریا کی میزائل ترقی سے متعلق شدید خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔

    واضح رہے کہ جاپان کی بحری سیلف ڈیفنس فورس بھی ایس ایم 3 بلاک آئی آئی اے انٹرسیپٹر میزائل کی تنصیب کرے گی۔

  • امریکہ : ٹرمپ کے حامیوں کی مخالفین سے پرتشدد جھڑپیں، ویڈیو وائرل

    امریکہ : ٹرمپ کے حامیوں کی مخالفین سے پرتشدد جھڑپیں، ویڈیو وائرل

    واشنگٹن : امریکہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد ٹرمپ کے حامی اپنی ممکنہ شکست پر سیخ پا ہیں اور جیسا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، ویسا ہی نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

    مختلف امریکی ریاستوں میں ٹرمپ حامیوں اور مخالفین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں شروع ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

    ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ شب سے واشنگٹن سمیت کئی امریکی ریاستوں میں ٹرمپ کے حامیوں ںے بڑی تعداد میں جمع ہوکر انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کیا جس میں چوری بند کرو اور ہر ووٹ گنتی کرو کے نعرے لگائے۔

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان واشنگٹن میں تلخ تصادم ہوا، پولس حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم حالات مکمل طور پر قابو میں نہیں آرہے۔

    امریکی میڈیا میں شائع ایک خبر کے مطابق گزشتہ شب شہر میں کئی مقمات پر پرتشدد تصادم کے واقعات پیش آئے۔ واشنگٹن پوسٹ نے کئی ویڈیو کا حوالہ بھی پیش کیا ہے جس میں ٹرمپ حامی اور مخالفین کے درمیان ہاتاھ پائی اور تشدد کے مناظر واضھ دکھائی دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں دونوں اطراف سے سامان اٹھا کر پھینکا جارہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق کئی مقامات پر مظاہرین اور پولس کے درمیان بھی جھڑپ ہوئی، حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، اس دوران وہائٹ ہاؤس کے باہر کچھ مظاہرین کی جانب سے آتشزدگی بھی کی گئی جس کے بعد نقاب پوش سیکورٹی افسروں نے مشتعل افراد کو قابو کرکے پیچھے ہٹا دیا۔

    واضح رہے کہ امریکی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے بعد جو بائیڈن کو 306 الیکٹرول ووٹ حاصل ہوئے ہیں جو کہ صدارت کے لیے واضح برتری ہے تاہم صدر ٹرمپ اول دن سے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں اور ان کی کمپین ٹیم کئی مقامات پر نتائج کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرچکی ہے۔

  • ماں بیٹی کا کارنامہ، دنیا داد دئیے بغیر نہ رہ سکی

    ماں بیٹی کا کارنامہ، دنیا داد دئیے بغیر نہ رہ سکی

    واشنگٹن: امریکہ سے تعلق رکھنے والی ماں بیٹی نے تاریخ رقم کردی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکہ سے تعلق رکھنے والی کیپٹن سوزی گیریٹ اور ان کی بیٹی نے ایک ساتھ کمرشل پرواز اڑانےکا کارنامہ سر انجام دیا ہے، اس کے ساتھ ہی دونوں کمرشل پرواز اڑانے والی دنیا کی جوڑی بن گئیں۔

    سوزی گیریٹ کا اپنی بیٹی کے ساتھ سفر شروع کرنے سے پہلے کہنا تھا کہ مجھے اپنی نوکری سے بہت پیار ہے، ہمارے کسی بچے نے مستقبل میں پائلٹ بننے کے لئے نہیں سوچا تھا، مگر جب آپ کسی دوسرے کے کیر یئر کو دیکھتے ہیں جو دفتر میں بیٹھے ہوں ، اور بہت خوش بھی ہوں، یہ آپ کی آنکھیں کھونے کے لئے کافی ہے۔

    والدہ کے ساتھ یادگار سفر پر جانے والی ڈونا کا کہنا تھا کہ مجھے بہت چھوٹی عمر ہی سے ہوا بازی کی حقیقت کا علم ہوچکا تھا، والدین کے شوق اور پرواز سے محبت کی وجہ سے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا، میری والدہ اور والد کے طرز زندگی کا تجربہ حیرت انگیز تھا، یہی وجہ ہے کہ آج میں دنیا کے سامنے آگئی ہوں۔Seeing the world: Donna got to do a lot traveling growing up because of her parents' jobs

    کیپٹن سوزی گیریٹ تیس سال سے زیادہ عرصے سے پائلٹ ہیں، حال ہی انہوں نے اپنی بیٹی اور فرسٹ آفیسر ڈونا گیریٹ کے ساتھ کاک پٹ کی تصاویر شیئر کیں، دونوں اس وقت امریکہ میں اسکائی ویسٹ ایئر لائنز کی ملازم ہیں۔

    کیپٹن سوزی گیریٹ کا مزید کہنا تھا کہ آج سے تیس سال پہلے میں نے اپنی پہلی پرواز لی تھی، اسکائی ویسٹ کے ساتھ اتنے عرصے جڑے رہنے کی سب سے بڑی وجہ شیڈولنگ ہے، مجھے یہ پسند ہے، میں اپنی ایئر لائن سے محبت کرتی ہوں، اب مجھے فخر محسوس ہورہا ہے کہ میری بیٹی بھی اسکائی ویسٹ فیملی کا حصہ ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس کا کیریئر بھی شاندار ہوگا۔Looking back: 'Experiencing my mom and dad's lifestyle was wonderful,' she said. 'It revealed to me the possibilities the industry offered'

    واضح رہے کہ کیپٹن سوزی گیریٹ اور ان کی بیٹی کے علاوہ سوزی کے شوہر ڈوگ اور اس کا بیٹا مارک بھی پائلٹ ہیں۔

  • امریکہ میں نائب صدور کا کیا کردار ہوتا ہے؟

    امریکہ میں نائب صدور کا کیا کردار ہوتا ہے؟

    واشنگٹن : امریکہ میں گزشتہ دنوں ہونے والے الیکشن میں عوام نے اپنے نئے صدر کا انتخاب پرجوش انداز میں کیا، الیکشن میں صدارت کے امیدوار اپنے نائب صدر کے لیے شخصیت کا انتخاب پہلے ہی کرلیتے ہیں۔

    ابتدا میں امریکی نائب صدر کا کردار مذاق کا نشانہ بنا کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس عہدے کے اختیارات اور اس کی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔

    نیلسن راک فیلر نے ابتداء میں اس عہدے کے لیے انہیں لانے کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اُن کی شخصیت "کسی ایسے فالتو آلے کی طرح نہیں ہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جائے، تاہم انہوں نے 1974ء میں صدر نکسن کے استغفے کی وجہ سے اچانک پیدا ہونے والے بحران کے بعد یہ عہدہ قبول کرلیا۔

    کرسٹوفر ڈیوائن ڈیٹن یونیورسٹی میں نائب صدر سے متعلق سیاسیات کا مطالعہ کرنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے بعض لوگ اب بھی یہ کہیں کہ اس عہدے کا زیادہ تر تعلق صدر کی جگہ جنازوں میں شرکت کرنے سے ہے مگر اب وقت بدل گیا ہے اورحقیقی معنوں میں یہ ایک اہم عہدہ بن چکا ہے۔

    راک فیلر کو چننے والے جیرالڈ فورڈ جب ملک کا سب سے بڑا عہدہ یعنی صدارت سنبھالنے کے لیے وائٹ ہاؤس منتقل ہوئے تو اس سے ثابت ہو گیا کہ نائب صدور کتنے اہم ہوتے ہیں۔

    آئینی بنیادیں

    ابتدائی طور پر امریکہ کے آئین میں امریکی نائب صدور کا بہت چھوٹا سا کردار رکھا گیا۔ امریکی آئین نائب صدر کو سینیٹ میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے برابر کی تعداد میں ووٹوں کی صورت میں فیصلہ کن ووٹ کا حق دیتا ہے اور سینیٹ کے پریزائڈنگ آفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کا کہتا ہے۔

    لہٰذا شروع کے نائب صدور اپنا زیادہ تر وقت سینیٹ میں گزارا کرتے تھے، سینٹ لوئس یونیورسٹی کے قانون کے سکول کے ریٹائرڈ پروفیسر اور نائب صدارت کی تارِیخ کے ماہر، جوئل کے گولڈ سٹین نے بتایا کہ انیسویں صدی کے بیشتر حصے میں نائب صدارت بنیادی طور پر ایک آئینی عہدہ ہی ہوا کرتی تھی اور نائب صدر سینیٹ میں مستقلاً موجود رہ کر سینیٹ کی صدارت کیا کرتا تھا۔

    ابتدائی برسوں میں نائب صدور صدارتی نامزدگی کی انتخابی مہم میں نظریاتی یا جغرافیائی توازن برقرار رکھنے کی غرض سے چنے جاتے تھے۔ ڈیوائن کے مطابق نائب صدر چننے میں اِن ترجیحات کی اہمیت اب بہت زیادہ کم ہو گئی ہے۔ ڈیوائن کہتے ہیں، "( آج) جغرافیے کی اہمیت کم اور تجربے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔”

    نائب صدر کے بڑھتے ہوئے فرائض

    حالیہ عشروں میں صدور نے بذات خود اس عہدے کو وسعت دینے کا انتخاب کیا، اِس کا آغاز جمی کارٹر سے ہوا۔ وہ 1976ء میں صدر منتخب ہوئے، واشنگٹن اُن کے لیے ایک اجنبی جگہ کی حیثیت رکھتی تھی تاجر ہونے کی حیثیت سے کارٹر نے محسوس کیا کہ ملک کو نائب صدر کے عہدے پر کام کرنے والے شخص سے فائدہ اٹھانا چاہیے، گولڈ اسٹین کے مطابق انہوں نے والٹر مونڈیل کو ایک حقیقی شراکت کار اور مشیر کے طور پر استعمال کیا۔

    مونڈیل کو سینیٹ میں ہی نہیں بٹھا دیا گیا، انہیں وائٹ ہاؤس کے ویسٹ ونگ میں اپنے پسند کی دفتر کی جگہ دی گئی، کارٹر سے ملنے کے لیے وہ کسی بھی وقت اوول آفس میں جا سکتے تھے انہیں اجلاس اور فیصلوں میں شامل کیا جاتا تھا گولڈ اسٹین کے مطابق نائب صدر کے عہدے کے لیے یہ ایک ایسی انتہائی اہم پیشرفت تھی جسے بعد میں آنے والے صدور نے برقرار رکھا۔

    جب صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کا 1945ء میں انتقال ہوا تو اُس وقت جو کچھ ہوا کارٹر اُس سے جزوی طور پر متاثر ہوئے، روز ویلٹ کے نائب صدر، ہیری ایس ٹرومین کو علیحدہ کرکے ملک کے جوہری بم بنانے کے ایک خفیہ منصوبے کے بارے میں بتایا گیا۔

    گولڈ اسٹین نے کہا کہ کارٹر نے سوچا کہ یہ سیدھی سادی ایک خوفناک بات ہے کہ ایک ایسا شخص (جو کہ) دِل کی ایک دھڑکن کے فاصلے پر ہے، (اپنے فرائض) کے لیے تیار نہ ہو۔

    امریکی نائب صدر کو حالیہ حکومتوں میں صدر کا ایک بڑا متبادل قرار دیا جا سکتا ہے۔

    گولڈ اسٹین نے کہا کہ وفاقی حکومت کا توسیع شدہ کردار ایک قابل جانشین کے ہونے کو ملک کے ابتدائی دنوں کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ اہم بناتا ہے، انہوں نے کہا کہ جدید خطرات کا مطلب ہے کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ کسی بحران کے دوران کوئی (یعنی نائب صدر) فرائض سنبھالنے کے لیے تیار ہو۔

    سینیٹ میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے ووٹوں کی برابر تعداد کی صورت میں فیصلہ کن ووٹ ڈالنے اور اُس وقت صدارتی فرائض ادا کرنے کے علاوہ جب کہ صدر اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکے، نائب صدور پر مندرجہ ذیل نئی ذمہ داریاں پڑ چکی ہیں۔

    وہ مخصوص موضوعات کے بارے میں کمشنوں اور دیگر پروگراموں کی قیادت کرتے ہیں، صدر کے پاس کسی خاص موضوع پر دی جانے والی توجہ دکھانے کا یہ ایک راستہ ہے، مثال کے طور پر ایلگور نے صدر بل کلنٹن کی بنیادی حکومتی تبدیلیوں کے عنوان سے کی جانے والی کاوشوں کی قیادت کی۔

    وہ ایسے وقت پر خاص طور پر بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں جب کسی دوسرے ملک کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے صدر تیار نہیں ہوتا مگر وہ ایک اعلٰی سطحی ایلچی بھیجنا چاہتا ہے۔

    وہ ایسے مشیروں کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں جن کی تمام تر وفاداریاں کسی بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں واضح طور پر صدر کے ساتھ ہوتی ہیں۔

    ڈیوائن نے کہا کہ اگر انہیں مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ مضبوط اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں یعنی ایسے اتحادی جن کو افسر شاہی کے شعبے کے حوالے سے اپنا دفاع نہیں کرنا پڑتا۔

  • الیکٹورل کالج کیا ہے؟ اوراس سے امریکی صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ جانیے

    الیکٹورل کالج کیا ہے؟ اوراس سے امریکی صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ جانیے

    جب امریکی شہری صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ کسی ہیگنر مسٹر یا ریکس ٹیٹر نامی شخص کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ امریکا میں صدر کا انتخاب صرف براہ راست عوامی ووٹوں سے نہیں بلکہ دوسرے طریقے سے ہوتا ہے۔

    ریاستی سیاسی پارٹیاں اُن “انتخاب کرنے والوں” کو چنتی ہیں جو یہ انتخاب ہوجانے کے بعد صدر منتخب کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔

    ووٹر انتخاب کے دوران بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدواروں کے نام دیکھتے ہیں مگر درحقیقت اُن کے ووٹوں سے اُن انتخاب کرنے والوں کو چنا جاتا ہے جو کسی ایک (صدارتی) امیدوار کی حمایت کرنے کا وعدہ کرچکے ہوتے ہیں۔

    امریکی صدر کے انتخاب کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے اگرچہ عوامی ووٹوں کی اہمیت ضرور ہے اور اُمیدوار کو ملنے والے عوامی ووٹ ہی نئے صدر کا تعین کرتے ہیں لیکن بعض مرتبہ زیادہ عوامی ووٹ لینے والا اُمیدوار بھی اس عہدے کا اہل قرار نہیں پاتا کیوں کہ صدر کے انتخاب کے لیے عوامی ووٹوں کے ساتھ ہی الیکٹورل کالج نامی ادارے کے منتخب اراکین کے ووٹ بھی لازمی درکار ہوتے ہیں۔

    الیکٹورل کالج کیا ہے؟

    عام افراد کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ الیکٹورل کالج کیا ہے اور یہ کیوں عوامی ووٹوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور سب سے اہم بات کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟

    دراصل الیکٹورل کالج کوئی ادارہ نہیں بلکہ عوام کی جانب سے منتخب کردہ 538 ارکان کا ایک گروہ ہے اور لوگوں کے ان گروہ کو ہی الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے۔

    کانگریس لائبریری کے مطابق الیکٹورل کالج کے 538 ارکان کو امریکی ووٹرز ہی منتخب کرتے ہیں، ان 538 ارکان کو ووٹرز انتخابات والے دن ہی منتخب کرتے ہیں جو بعد میں الیکٹورل کالج کے نام میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر وہی نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔

    الیکٹورل کالج کے ارکان کو پہلے ہی پارٹیاں نامزد کرتی ہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی سیاسی جماعت کسی انتخاب کے لیے اپنا اُمیدوار نامزد کرتی ہے۔

    سیاسی جماعتوں کی جانب سے منتخب کیے جانے کے بعد الیکٹورل کالج کو ان کی پارٹی کی وابستگی سے ہی منتخب کیا جاتا ہے اور طے ہے کہ الیکٹورل کالج کے ارکان کبھی شکست نہیں کھاتے۔

    ہر ریاست سے تمام پارٹیاں اپنے ارکان منتخب کرتی ہیں اور ہر ریاست میں پہلے سے ہی الیکٹورل کالج کا کوٹا مختص ہے اور سب سے زیادہ الیکٹورل کالج کے ارکان ریاست کیلی فورنیا سے ہوتے ہیں، جن کی تعداد 55 تک ہے۔

    امریکا کی تمام 50 ہی ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن سے مجموعی طور پر 538 الیکٹورل کالج ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ ان 538الیکٹورل کالج میں سے اگر 270 ارکان کسی بھی اُمیدوار کو ووٹ دیں گے تو وہ ملک کا نیا صدر بن جائے گا۔

    امریکی انتخابات میں الیکٹورل کالج 300 سال سے کام کرتا آ رہا ہے اور 18 سال سے زائد عمر رجسٹرڈ ووٹرز ان ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔

    الیکٹورل کالج کیسے صدر منتخب کرتا ہے؟

    الیکٹورل کالج کے ارکان کے ووٹ کاسٹ کرنے کے تمام ریاستوں میں علیحدہ علیحدہ قوانین ہیں، جس وجہ سے کبھی کبھار توقعات کے برعکس بھی انتخابی نتائج نکلتے ہیں۔

    عام ریاستوں کے الیکٹورل کالج ارکان اس ہی اُمیدوار کو اپنا ووٹ دیتے ہیں، جس اُمیدوار کو مذکورہ ریاست سے زیادہ عوامی ووٹ ملے ہوں گے۔

    یعنی اگر کسی صدارتی اُمیدوار کو ریاست کیلی فورنیا سے تمام عوامی ووٹ ملیں گے تو وہاں کے تمام الیکٹورل کالج ارکان بھی اسے ہی ووٹ دیں گے۔

    لیکن بعض ریاستوں میں الیکٹورل کالج اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ وہ اس اُمیدوار کو ہی ووٹ دیں، جس کے نام پر انہوں نے ووٹ حاصل کیا اور جسے عوام نے ووٹ دے کر جتوایا۔

    گزشتہ انتخابات 2016 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، جس میں ہیلری کلنٹن نے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کیے تھے مگر الیکٹورل کالج کے ووٹ کم ملنے کی وجہ سے وہ صدر نہیں بن پائیں، اس سے قبل بھی کم از کم ایک بار ایسا ہی ہوچکا ہے۔

    لیکن سال 2016 کے انتخابات میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی جانب سے دوسرے اُمیدوار کو ووٹ دیے جانے پر کانگریس اور امریکی سپریم کورٹ نے سخت فیصلے دیے اور ریاستوں کو پابند کیا کہ اگر کوئی رکن خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر جرمانے عائد کیے جائیں۔ ابھی بھی یہ امکان موجود ہے کہ بعض الیکٹورل کالج اپنی وفاداری کے برعکس دوسرے اُمیدوار کو ووٹ دیں۔

    الیکٹورل کالج کب ووٹ کاسٹ کرتے ہیں؟

    عام طور پر تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا جاتا ہے کہ جس ریاست میں جو اُمیدوار برتری حاصل کرلیتا ہے، وہاں کے زیادہ الیکٹورل ووٹ اس کے پاس ہی چلے جاتے ہیں لیکن الیکٹورل کالج کے ارکان باضابطہ طور پر دسمبر میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔

    اگر پہلے سے ہی یہ اعلان کردیا جائے کہ فلاں ریاست میں فلاں اُمیدوار کو الیکٹورل کالج کے اتنے ووٹ ملے ہیں، وہ حتمی نتائج نہیں ہوتے بلکہ وہ جائزوں اور اعداد و شمار پر مبنی نتائج ہوتے ہیں، جن میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔

    اس بار الیکٹورل کالج کے ارکان 14 دسمبر کو باضابطہ طور پر ووٹ کاسٹ کریں گے اور تمام ارکان اپنی اپنی ریاستوں میں ایک جگہ جمع ہوکر ووٹ کاسٹ کریں گے۔

    ان ارکان کے کاسٹ کردہ ووٹوں کو کانگریس کے رکن نئے سال کے موقع پر 6 جنوری کو گنتے ہیں اور ان کے ووٹوں کے بعد ہی حتمی طور پر کسی اُمیدوار کی کامیابی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ الیکٹورل کالج کے ارکان نائب صدر کے لیے ووٹ بھی دیتے ہیں اور زیادہ تر یہ ارکان ایک ہی پارٹی کے اُمیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔

    انتخابات کے بعد الیکٹورل کالج کے ارکان کا کیا ہوتا ہے؟

    صدارتی انتخابات کے بعد از خود الیکٹورل کالج کے ارکان کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ واپس اپنی اصلی حالت یعنی عام فرد بن جاتے ہیں۔

    الیکٹورل کالج کے ارکان صرف ایک بار ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اگلے انتخابات میں نئے ارکان کو منتخب کیا جاتا ہے، یہ ارکان عام افراد ہوتے ہیں، جو اس ریاست کے مقیم ہوتے ہیں، جہاں سے انہیں منتخب کیا جاتا ہے اور رکن کے لیے یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قانون ساز ادارے کارکن نہ ہو اور نہ ہی اس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہو۔

    اگر اُمیدواروں کو یکساں الیکٹورل کالج ووٹ ملیں تو کیا ہوگا؟

    امریکی آئین میں کی گئی12 ویں ترمیم کے مطابق اگر اتفاق سے صدارتی اُمیدوار کو یکساں الیکٹورل کالج ووٹ ملیں تو اس صورت میں ایوان نمائندگان کے رکن صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے۔ اسی طرح اگر نائب صدارتی اُمیدواروں کو بھی یکساں ووٹ ملتے ہیں تو کانگریس رکن نائب صدر کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے۔