Tag: america

  • امریکی ایوان نمائندگان میں بھی ڈیموکریٹ نے سبقت حاصل کرلی

    امریکی ایوان نمائندگان میں بھی ڈیموکریٹ نے سبقت حاصل کرلی

    نیویارک : امریکی ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ نے204 نشستیں حاصل کرلیں جبکہ ری پبلکن پارٹی 190 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

    امریکی ایوان نمائندگان کی کل435 نشستیں ہیں اور گزشتہ روز ان تمام نشستوں پر انتخاب ہوئے ہیں جن کے اب تک کے نتائج کے مطابق ڈیموکریٹ نے204 نشستیں حاصل کیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی 190نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر ہے جبکہ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن کی48،ڈیموکریٹ کی48 نشستیں ہیں۔

    امریکی ایوان نمائندگان کی کل435 نشستیں ہیں اور 3 نومبر کو ان تمام نشستوں پر انتخاب ہوئے ہیں، اب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق ایوان نمائندگان (صدر کا انتخاب اس سے الگ ہے) میں ڈیموکریٹک پارٹی نے204نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ ری پبلیکن پارٹی 190سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

    امریکی ایوان نمائندگان کیلئے تمام چار بھارتی نژاد امریکی دوبارہ منتخب ہوئے ہیں، منگل کو ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک کے چار امیدواروں کو دوبارہ کامیابی ملی۔

    جن بھارتی نژاد ممبران کو کامیابی ملی ان میں راجا کرشنا مورتی لبرل پارٹی کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے لبریٹرین پارٹی کے امیدوار کو 41.8 فیصد سے ہرایا۔ پرمیلا جئے پال واشنگٹن سے جیت گئی ہیں، روہا کھنہ نے اپنی کیلیفورنیا کی نشست بچا لی ہے جبکہ امری بیرا بھی کیلیفورنیا سے منتخب ہوئی ہیں۔

  • امریکہ میں صدارتی انتخابات : ووٹنگ کا عمل جاری

    امریکہ میں صدارتی انتخابات : ووٹنگ کا عمل جاری

    واشنگٹن : امریکہ میں 59 ویں صدارتی انتخابات کا عمل جاری ہے اس حوالے سے عوام میں جوش و خروش پایا جا رہا ہے، کورونا وبا کے باعث الیکشن سے قبل ڈاک اور ارلی ووٹنگ کا آپشن بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔

    صدارت کیلئے ٹرمپ اور جوبائیڈن مد مقابل ہیں، جن کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ریپبلکن امیدوار ٹرمپ دوسری بار صدارت کیلئے میدان میں آنے والے ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن 8 سال امریکی نائب صدر رہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ پہلے ہی فلوریڈا میں ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں، جوبائیڈن نے ڈیلاوئیر میں ووٹ ڈالا تھا، اس کے علاوہ نائب صدارت کیلئے مائیک پینس اور کاملا ہیرس مد مقابل ہیں، ڈیموکریٹ پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے جبکہ ری پبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔

    امریکی ریاست نیو ہمپشائر کے ڈکس ویل ٹاؤن میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی ہے، نیو ہمپشائر کے ڈکس ویل ٹاؤن میں جوبائیڈن5 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں، ڈکس ویل ٹاؤن چھوٹا علاقہ ہے جہاں رات 12 بجے ووٹنگ شروع ہوئی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ میں 59 ویں صدارتی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری ہے، اس بار تقریباً نو کروڑ سے زائد ووٹ پہلے ہی این پرسن اور پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعہ ڈالے گئے ہیں۔کورونا کی وجہ سے بذریعہ ڈاک زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔

    منگل کو پولنگ کا آغاز امریکی ریاست ورمانٹ میں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے سے ہو گیا۔ امریکا چونکہ ایک بہت بڑا ملک ہے اس لیے ملک کے مغربی حصوں میں پولنگ ختم ہونے اور الیکشن نتائج آنے میں وقت لگے گا۔ انتخابات کے حوالے سے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے،۔

    امریکا میں الیکٹورل ووٹ سے صدر کو منتخب کیا جاتا ہے،538الیکٹورل ووٹ میں سے جیتنے کیلئے270 ووٹ درکار ہیں، فلوریڈا کے29 اور پینسلوانیا کے 20 الیکٹورل ووٹ ہیں، فلوریڈا، اوہائیو، پینسلوانیا، وسکانسن ،مشی گن میں کڑا مقابلہ ہوگا،13سوئنگ ریاستوں کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔

    امریکا کا صدارتی الیکشن قدرے پیچیدہ مرحلہ ہے، ہار جیت کا دارو مدار عام شہریوں کے ووٹوں سے زیادہ ہر ریاست سے منتخب ہونے والے "الیکٹرز” پر ہوتا ہے، جو بعد میں صدر کا انتخاب کرتے ہیں، ہر ریاست سے ان "الیکٹرز” کی تعداد وہاں سے منتخب ہونے والے اراکین کانگریس کے برابر ہوتی ہے۔

    538ارکان پر مشتعمل اس گروپ کو "الیکٹرل کالج” کہا جاتا ہے، اس گروپ کی اکثریت یعنی 280 ممبر جس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں وہ ملک کا صدر قرار پاتا ہے۔

  • کرونا وائرس، دورانِ علاج ٹرمپ کو دی جانے والی ’مؤثر دوا‘ کے حوالے سے بڑا معاہدہ

    کرونا وائرس، دورانِ علاج ٹرمپ کو دی جانے والی ’مؤثر دوا‘ کے حوالے سے بڑا معاہدہ

    واشنگٹن : امریکی حکومت نے ٹرمپ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا کے حصول کے لیے اہم معاہدہ کرلیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایلی للی نامی کمپنی نے اُس فارمولے پر دوا تیار کی جو ٹرمپ کو کرونا علاج کے دوران دی گئی تھی جس کے استعمال سےامریکی صدر وائرس سے صحت یاب ہونے میں کامیاب بھی ہوئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق کمپنی دو ادویات کے مرکب سے ایسی دوا تیار کرچکی ہے جو متاثرہ افراد کے اینٹی باڈیز (مدافعتی نظام) کو متحرک کرے گی۔ اس سے قبل امریکا کی ہی کمپنی اس فارمولے پر دوا بنا چکی ہے۔

    امریکی حکومت نے ایلی للی کے ساتھ 109 بلین ڈالر کا مشروط معاہدہ کیا جس کے تحت کمپنی دوا کی دس لاکھ خوراکیں تیار کرے گی اور پھر عوام کو یہ مفت فراہم کی جائیں گی۔

    رپورٹ کے مطابق معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر دوا کارگر ثابت ہوئی تو امریکی حکومت کمپنی کو رقم ادا کر کے طے شدہ خوراکیں خرید لے گی۔

    دوسری جانب کمپنی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ابتدائی مرحلے میں تین لاکھ خوراکوں کی فراہمی کی جائے گی اور پھر مریضوں پر اس کے اثر  کو دیکھا جائے گا، بعد ازاں محکمہ صحت کی جانب سے اس دوا کے استعمال کی باقاعدہ منظوری دی جائے گی‘۔

    امریکی محکمہ صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس 812.5 ملین ڈالر میں 650،000 اضافی خوراکیں خریدنے کا اختیار ہے۔ معاہدے کے مطابق دوا کی فی خوراک 1،250 ڈالر کی ہوگی مگر  حکومت عوام کو یہ بالکل مفت فراہم کرے گی۔

  • کورونا وائرس نے امریکہ میں خوفناک صورتحال پیدا کردی

    کورونا وائرس نے امریکہ میں خوفناک صورتحال پیدا کردی

    واشنگٹن : امریکی ماہرین صحت نے کورونا وائرس کےحوالے سے نیا انکشاف کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اگلے 6ہفتے تاریک ترین دن ہوں ثابت گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد85لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ اموات دو لاکھ 26ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں، امریکا اس وائرس کے سبب دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

    اس حوالے سے امریکا میں کورونا وائرس کے حوالے سے نیا الرٹ جاری کردیا گیا ہے، امریکی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے حوالے سے آئندہ6ہفتے تاریک ترین دن ہوں گے، ملک میں یومیہ55ہزار کورونا کیسزرپورٹ ہورہے ہیں۔

    ڈاکٹر مائیکل اوسٹر ہوم نے کہا کہ چند ماہ میں یومیہ75ہزار کورونا کیسز سامنے آسکتے ہیں، غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک امریکا میں کورونا کیسز کی تعداد85لاکھ سے تجاوز کرگئی جبکہ اب تک کورونا وائرس سے2لاکھ26ہزارسے زائد اموات ہوچکی ہیں۔

    اس سے قبل امریکا میں متعدی امراض کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے بھی گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ امریکی ریاستوں فلوریڈا، ایریزونا اور ٹیکساس میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

  • امریکا عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، ترجمان چینی فوج

    امریکا عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، ترجمان چینی فوج

    بیجنگ : چینی وزارت دفاع نے اپنی فوج سے متعلق ایک متنازعہ امریکی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی امن کو دراصل سب سے بڑا خطرہ امریکا سے ہی ہے۔

    چینی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ووشین نے امریکی وزارت دفاع کی اس رپورٹ کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنی سالانہ کانگریشنل رپورٹ میں چینی فوجی پالیسیوں کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔

    جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں چھپنے والی خبر کے مطابق ترجمان نے اپنے مذمتی بیان میں مزید کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے دونوں ملکوں کے فوجوں کے باہمی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ یکم ستمبر کو جاری کردہ ایک امریکی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ چینی فوج کی ماڈرنائزیشن کو نظر انداز کیا گیا تو امریکی قومی مفادات کو شدید نقصانات پہنچنے کا خدشہ ہو گا۔ اس رپورٹ میں بالخصوص چینی فوج میں ترقی اور اس کے عزائم پر بات کی گئی تھی۔

    اس رپورٹ کے جواب میں کرنل شین نے کہا کہ ” کئی برسوں کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ امریکا ہی ہے، جس نے علاقائی بدامنی پھیلائی، بین الاقوامی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تباہ کیا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکی اعمال ہی کی وجہ سے عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک میں آٹھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک یا بے گھر ہوئے۔

    کرنل شین کا یہ بھی کہنا تھا کہ خود احتسابی کے بجائے امریکا نے چینی فوج کے بارے میں غلط بیانات جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ چینی قومی دفاع اور فوجی عزائم پر حقیقی بنیادوں پر غور کرے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی فوجی صلاحتیں صرف دفاعی نوعیت کی ہیں۔

  • امریکہ : اینٹی کورونا ویکسین تیاری کے آخری مرحلے میں

    امریکہ : اینٹی کورونا ویکسین تیاری کے آخری مرحلے میں

    واشنگٹن : امریکہ میں اس وقت ایسٹرازینیکا، مارڈرنا اور فیزر نامی تین کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے ویکیسن کے تیسرے مرحلے کا کلینکل ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    امریکہ کی فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سربراہ اسٹیفن ہون نے کہا ہے کہ اگر تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل کے بہتر نتائج آئے تو امید ہے کہ اس کی تکیمل سے قبل ہی کورونا کے کسی ویکسین کو رجسٹرڈ کیا جاسکتا ہے۔

    امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کی گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مسٹر ہان نے یہ بات ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اس وقت ایسٹرازینیکا، مارڈرنا اور فیزر نامی تین کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے ویکیسن کے تیسرے مرحلے کا کلینکل ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    مسٹر ہان نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ3 نومبر کے صدارتی انتخابات سے قبل کسی ویکسین کی منظوری دی جاسکتی ہے، اگر ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل سے پہلے ہمیں لگتا ہے کہ یہ محفوظ اور کارگر ہیں تو اسے منظوری دی جاسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ امریکہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 61 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور اب تک 1,82,786 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • امریکہ : سمندری طوفان کے ٹکرانے سے تباہی، 6 افراد ہلاک ہزاروں بے گھر

    امریکہ : سمندری طوفان کے ٹکرانے سے تباہی، 6 افراد ہلاک ہزاروں بے گھر

    لوئزیانا : امریکا میں سمندری طوفان نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی، 6 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی رہاست لوئیزیانا کے ساحل پر سمندری طوفان لارا ٹکرانے کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی پھیل گئی، تیز ہواؤں اور موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں6 افراد ہلاک ہوگئے، متعدد زخمی اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سمندری طوفان لارا امریکا کی ریاست لوئیزیانا کے ساحلی علاقے میں پوری قوت کے ساتھ داخل ہوگیا،220کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والے تیز ہواؤں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو مٹا کر رکھ دیا۔

    سمندری طوفان سے کئی درخت، ہورڈنگز اور کھمبے گر گئے، ایک کار پر بڑا اور بھاری درخت گرنے سے14 سالہ لڑکی سمیت 4افراد ہلاک ہوگئے جب کہ دیگر مختلف مقامات سے دو لاشیں ملی ہیں، دو درجن سے زائد زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

    لوئیزیانا کے بعد سمندری طوفان لارا کا رخ اب ریاست آرکنساس کی طرف ہے تاہم اس کی شدت کم ہونے کی وجہ سے وہاں نقصان کا اندیشہ کم ہے جب کہ لوئیزیانا میں لارا طوفان کے نقصانات میں اضافے کا خدشہ بدستور برقرار ہے۔

  • امریکہ میں خوفناک سمندری طوفان ساحل سے ٹکرا گیا، الرٹ جاری

    امریکہ میں خوفناک سمندری طوفان ساحل سے ٹکرا گیا، الرٹ جاری

    نیویارک : امریکہ میں خوفناک سمندری طوفان نے تباہی مچادی کیٹیگری 4 کی شدت والے سمندری طوفان ” لورا ” امریکی ریاست لوزیانا سے ٹکرا گیا۔

    لوزیانا کے شہر لیک چارلس میں طوفانی ہواؤں کےساتھ بارش کا سلسلہ جاری ہے جبکہ لوزیانا اور ٹیکساس میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کیٹیگری چار کے طوفان کے راستے میں آنے والے ٹیکساس اور لوزیانا کے علاقوں سے 6 لاکھ سے زائد افراد کو انخلا کی وارننگ جاری کی گئی ہے جبکہ سمندری طوفان کی شدت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

    امریکہ کی جنوبی ریاستوں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ آئی ٹین کئی مقامات پر ٹریفک کیلئے بند کردی گئی، بحر اوقیانوس میں رواں سال ریکارڈ 25 بڑے طوفان آنے کا امکان ہے۔ لورا اس سیزن کا بارہواں بڑا طوفان ہے۔

    لوزیانا کے گورنر نے خبردار کیا ہے کہ طوفان سے ریاست کے متاثرہ حصے پانی میں ڈوب سکتے ہیں، طوفان کے باعث 150 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ دوسرے بڑے سمندری طوفان لورا کے باعث ہیٹی میں 21 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے حریف جوبائیڈن سے انوکھا مطالبہ

    ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے حریف جوبائیڈن سے انوکھا مطالبہ

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی حریف اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کا منشیات کا ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم دوبارہ منتخب ہوکر امریکا کو مزید خوشحال بنائیں گے۔

    فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے صدارتی مباحثوں کے باقاعدہ آغاز سے پہلے سابق نائب صدر جوبائیڈن کے منشیات کا ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کے ہمراہ وہ اپنا ٹیسٹ بھی کروائیں گے، یہ بات انہوں نے امریکی میگزین واشنگٹن ایگزامینر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن کی بہتر کارکردگی پر انہیں تشویش ہے۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ ان معاملات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انہوں نے جو بائیڈن کو مختلف صدارتی امیدواروں کے ساتھ مباحثوں میں شرکت کرتے دیکھا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن ماضی میں تقریباً نااہل تھے جبکہ برنی سینڈرز کے ساتھ ہونے والے صدارتی مباحثے میں ان کی کارکردگی نارمل تھی۔

    صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کی کارکردگی میں یکدم بہتری پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کیسے ممکن ہو گیا؟ صدر  ٹرمپ نے 2016 کی صدارتی مہم میں بھی اپنی انتخابی حریف ہیلری کلنٹن کے بارے میں کہا تھا کہ انہوں نے منشیات استعمال کی ہیں۔

    علاوہ ازیں صدرٹرمپ نے ریپبلکن نیشنل کنونشن میں صدارتی نامزدگی قبول کرلی ہے ان کا کہنا ہے کہ دوسری بار صدر منتخب ہوکرامریکا کو مزید خوشحال بنائیں گے، چار روزہ کنونشن کے آخری روز وائٹ ہاؤس میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدامنی ،انتشار اور احتجاج پر اکسانے والوں کو شکست ہوگی.

    واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ 29 ستمبر کو منعقد ہوگا جبکہ دیگر دو مباحثے15اور22اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔

  • لاکھوں افراد ایک ساتھ کورونا کا شکار کیسے بن گئے ؟ تحقیق میں انکشاف

    لاکھوں افراد ایک ساتھ کورونا کا شکار کیسے بن گئے ؟ تحقیق میں انکشاف

    ہوسٹن : ماہرین کی نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس ایک اجتماع کے ذریعے لاکھوں افراد میں منتقل ہوا، یہ اجتماع رواں سال 26فروری کو ہوسٹن میں منعقد ہوا تھا۔

    نئے کورونا وائرس کی دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ اس کا ایک سے دوسرے فرد میں خاموشی سے منتقل ہونا ہے۔

    درحقیقت ایسا بھی ممکن ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے متاثر ایک فرد اسے درجنوں افراد میں منتقل کردے۔

    ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر اب ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک عام سی کانفرنس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کووڈ 19کا شکار ہوگئے۔

    رواں سال 26 فروری کو بائیو ٹیک کمپنی بائیو جین کے عہدیداران بوسٹن کے ایک ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوئے، اس وقت کورونا وائرس امریکی عوام کی نظر میں کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا جو چین تک ہی محدود تھا مگر وائرس اس کانفرنس میں موجود تھا جو ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا چلا گیا۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ کانفرنس کورونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا باعث بننے والا پہلا ایونٹ بن گیا جس نے امریکا، سنگاپور اور آسٹریلیا تک ممکنہ طور پر لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن جاری کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ موزوں حالات میں کورونا وائرس کتنی دور تک پھیل سکتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج ایک پراجیکٹ کا حصہ تھے جس کا آغاز مارچ کے اوائل میں ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے براڈ انسٹیٹوٹ نے کیا تھا، یہ ایسا تحقیقی مرکز ہے جو بڑے پیمانے پر جینوم سیکونسنگ میں مہارت رکھتا ہے۔

    جب میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اس انسٹیٹوٹ کے محققین نے متاثرہ افراد کے خلیات میں موجود وائرسز کے جینیاتی مواد کا تجزیہ کیا۔

    محققین نے میساچوسٹس ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کے نمونوں کو بھی دیکھا جس کی جانب سے بوسٹن میں بے گھر افراد کی پناہ گاہوں اور نرسنگ ہومز میں ٹیسٹنگ کی جارہی تھی۔

    سائنسدانوں نے جنوری سے مئی کے دوران کووڈ 19 کے 772 مریضوں کے وائرل جینومز کا تجزیہ کیا، اس کے بعد محققین نے ان تمام جینومز کا موازنہ کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کی کہ ہر فرد میں یہ وائرس کہاں سے آیا۔

    جب ایک وائرس اپنی نقول بنانا شروع کرتا ہے تو یہ ورثے میں جینیاتی مواد پیچھے چھوڑتا ہے جس کی مدد سے محققین وائرس کی منتقلی کے واقعے کو ٹریک کرسکتے ہیں، محققین نے بتایا کہ یہ کسی فنگرپرنٹ کی طرح ہے جس کی مد سے ہم وائرس کا تعاقب کرسکتے ہیں۔

    بوسٹن میں کورونا وائرس کا پہلا مصدقہ کیس 29 جنوری کو چین کے شہر ووہان سے واپس آنے والے فرد میں سامنے آیا تھا، جس کا جینیاتی مواد ویسا تھا جو ووہان میں دریافت کیا گیا۔

    مگر براڈ انسٹیٹوٹ کے محققین نے بعد میں بوسٹن میں سامنے آنے والے مریضوں میں اس کے جینیاتی فنگرپرنٹ کو دریافت نہیں کیا، کیونکہ پہلے کیس کو الگ تھلگ رکھ کر وائرس کو پھیلنے سے روک دیا گیا تھا۔

    مگر فروری میں محققین نے بوسٹن میں 180 دیگر افراد میں دریافت کیا کہ انہوں نے دیگر تک اس وائرس کو پھیلایا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بوسٹن میں بیشتر کیسز کے جینیاتی فنگرپرنٹ یورپ کے ابتدائی کیسز سے مماثلت رکھتے تھے کیونکہ کچھ افراد اس وائرس کو براہ راست یورپ سے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔

    جب ماہرین نے گہرائی میں جاکر دیکھا کہ کن مقامات سے یہ وائرس شہر بھر میں پھیلا تو انہوں نے دریافت کیا کہ میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ایک جیسی اقسام نہیں پائی جاتیں، جس سے عندیہ ملا کہ یہ ہسپتال وائرس پھیلنے کا ذریعہ نہیں۔

    مگر ایک نرسنگ ہوم میں ایسا ہوا جہاں مقیم 87 فیصد مریض اور 37 فیصد عملہ کووڈ 19 سے متاثر ہوا اور محققین نے ان مین وائرس کی 3 اقسام کو شناخت کیا، تاہم ان میں سے ایک قسم 90 فیصد کیسز کا باعث بنی۔

    اس طرح کے بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے کیسز کورونا وائرس کی خصوصیت ہے جس میں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے موزوں مقام پر ایک متاثرہ فرد درجنوں افراد کو بہت کم وقت میں متاثر کرسکتا ہے۔

    تاہم ایسے واقعات بہت زیادہ نہیں ہوتے، مگر جب ہوتے ہیں تو طبی ماہرین کو وائرس کی صلاحیت دنگ کردیتی ہے۔ نرسنگ ہوم میں پھیلنے والا وائرس چاردیواری سے باہر نہیں جاسکا مگر بائیوجین کی کانفرنس میں جب وائرس نمودار ہوا تو تحقیق کا رخ بالکل بدل گیا۔

    محققین اس کانفرنس میں شریک افراد میں 28 وائرل جینوم سیکونسز تیار کرنے میں کامیاب رہے اور ہر ایک میں ایک ہی قسم سی

    2416ٹی کو دریافت کیا گیا۔ اس کانفرنس میں یورپ سے آنے والے افراد نے بھی شرکت کیتھی اور یہ ممکن ہے کہ وہاں سے آنے والا کوئی فرد اپنے ساتھ وائرس کی اس قسم کو لے آیا۔

    مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وائرس بوسٹن میں کانفرنس سے ایک ہفتے یا اس سے پہلے پہنچ چکا ہو اور کوئی اسے اپنے ساتھ کانفرنس میں لے گیا۔

    اس کانفرنس میں شریک افراد نے گھنٹوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے قریب رہ کر گزارے، جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص تھا جبکہ فیس ماسکس کا استعمال بھی نہیں کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں وائرس تیزی سے پھیلا۔

    کانفرنس میں شریک افراد کے اندر یہ وائرس ایک اور قسم جی 26233 ٹی میں تبدیل ہوا اور جن کے اندر یہ قسم بنی، جب اس نے دیگر افراد یں اسے منتقل کیا تو وہ دوہری اقسام والے وائرسز کا شکار ہوئے۔

    اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا، یہاں تک کہ بے گھر افراد کے ایک مرکز میں 51 فیصد افراد میں سی 2416 ٹی کو دریافت کیا گیا جبکہ 54 میں دونوں اقسام دیکھی گئیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس کانفرنس سے جڑا ہوسکتا ہے، یہ ہمارے لیے سرپرائز کی شکل میں سامنے آیا، محققین کے تخمینے کے مطابق بوسٹن میں 20 ہزار سے زائد افراد اس کانفرنس سے پھیلنے والے وائرس سے متاثر ہوئے۔ مگر یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں بلکہ محققین نے دیگر امریکی ریاستوں جیسے ورجینیا،نارتھ کیرولائنا اور مشی گن سے حاصل کیے گئے نمونوں میں اسے دریافت کیا، جبکہ یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا تک بھی پہنچا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے لیے یہ تعین کرنا ناممکن ہے کہ بوسٹن میں ہونے والی کانفرنس کئی ماہ اب تک یہ وائرس کتنے افراد کو اپنا ہدف بنایا جاچکا ہے، مگر ہمارے خیال میں یہ تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔

    اس کانفرنس کو اب 6 ماہ ہوگئے ہیں اور محققین کا کہنا تھا کہ یہ نتائج ہر ایک کے لیے انتباہ ہیں جن کے خیال میں وائرس کو قابو کیے بغیر زندگی پھر معمول کی جانب لوٹ سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایک برا فیصلہ لاتعداد افراد کو متاثر کرسکتا ہے، جن میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کے لیے یہ وائرس جان لیوا ثابت ہو۔