Tag: american senator

  • بھارت نے امریکی سینیٹر کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ نہیں کرنے دیا، شاہ محمود قریشی

    بھارت نے امریکی سینیٹر کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ نہیں کرنے دیا، شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد : وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت نے امریکی سینیٹر کرس وان کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ نہیں کرنے دیا، ہم انہیں آزاد کشمیرجانے کی دعوت دیتے ہیں۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں امریکی سینیٹرکرس وان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ امریکی سینیٹر بھارت سے ہوتے ہوئے پاکستان آئے ہیں لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے امریکی سینیٹر کرس وان کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ نہیں کرنے دیا گیا۔

    امریکی سینیٹر اگر چاہیں تو ہم ان کو آزاد کشمیر جانے کی دعوت دیتے ہیں، امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے امریکی صدر کو کشمیرکی صورتحال پرخط لکھا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، مقبوضہ وادی میں دوماہ سے مسلسل کرفیو جاری ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکر گزارہوں جنہوں نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھا، شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں مؤثر طور پر اٹھایا اور دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔

    مزید پڑھیں: بھارت انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کا دورہ کیوں نہیں کرنے دے رہا، شاہ محمود قریشی

    وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی مؤقف اگرسچ ہے توعالمی میڈیا کو کشمیر آنے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن کے وفد کو سری نگر ایئرپورٹ سے واپس کیوں بھجوایا جاتا ہے، بھارت انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورہ کیوں نہیں کرنے دے رہا۔

    بھارتی سماجی کارکنوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد وہاں کی صورتحال کو جہنم جیسا قرار دیا تھا۔ بھارتی سماجی کارکنوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان کے ایک گروپ نے 9 سے 13 اگست تک کرفیو زدہ مقبوضہ کشمیر کا 5 روزہ دورہ کیا۔

    اس گروپ میں ماہر معیشت ڑان دریز، نیشنل ایلائنز آف پیپلز موومنٹ کے ویمل بھائی، سی پی آئی ایم ایل پارٹی کی کویتا کرشنن اور ایپوا کی میمونا ملاہ شامل تھیں۔ بھارتی سماجی کارکنوں نے دورہ کشمیر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

  • ایرانی حکومت کا مؤقف ہٹلر کی پالیسیوں کے مشابہ ہے، امریکی سینیٹر

    ایرانی حکومت کا مؤقف ہٹلر کی پالیسیوں کے مشابہ ہے، امریکی سینیٹر

    واشنگٹن : امریکی سینیٹر لینڈی گراہم نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ یورپی قیادت سنگین جرائم کی مرتکب ایرانی حکومت کی رضا حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہی ہے جو پورے کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کے سرکردہ رکن سینیٹر لینڈی گراہم نے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے تعلقات برقرار رکھنے پر یورپی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ جو یورپی ممالک ایران کے ساتھ تعلق رکھے ہوئے ہیں وہ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ظالم ملک ایران کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی رکن لینڈی گراہم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیا کہ ’سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والی ایرانی حکومت کے ساتھ یورپی قیادت کا رویہ پورے یورپ کے باعث ننگ و عار ہے‘۔

    امریکی سینیٹر کا ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’ایران کا موجودہ نظام ظلم و جبر پر مبنی ہے جسے ایرانی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا گیا ہے لیکن ایرانیوں کی جانب مذکورہ نظام کی کبھی حمایت نہیں کی گئی‘۔

    سینیٹر لینڈی گراہم کا نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کی موجودہ حکومت کا مؤقف دوسری عالمی جنگ اور جرمن آمر ہٹلر کی پالیسیوں اور رویوں سے شباہت پیش کرتا ہے‘۔

    امریکی سینیٹر نے ٹویٹر پر دیئے گئے پیغام میں کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کی خوشنودی کے حصول کے کوشاں یورپی قیادت کو ایران قوم کی موجودہ نظام سے نکلنے اور بہتر نظام گزارنے کے لیے بلند ہونے والے چیخ و پکار سنائی نہیں دے دیتی؟

    لینڈی گراہم نے کہا کہ مظلوم ایرانی عوام کی صدائیں کانگریس میں بھی ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ سنائی دیتی ہیں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی سینیٹر نے یورپی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے آیت اللہ نظام کے خلاف تیار کی گئی حکمت عملی میں صدر ٹرمپ کا ساتھ دیں اور متحد ہوکر مظلوم ایرانیوں کو جبر نظام سے چھٹکارا دلوائیں۔

    یاد رہے کہ جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ٹرمپ نے ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا کہا تھا اور 7 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے تھے، جس کے بعد ایران پر اقتصادی شعبے میں اسی روز رات 12 بجے سے پابندیوں کا اطلاق ہوگیا تھا تاہم یورپی ممالک کی جانب سے امریکی صدر کے فیصلے کو سرے مسترد کردیا گیا تھا۔