Tag: #ammadyousafarrested

  • عماد یوسف کو کہاں رکھا گیا؟ سندھ پولیس نے بتا دیا

    عماد یوسف کو کہاں رکھا گیا؟ سندھ پولیس نے بتا دیا

    کراچی: سندھ پولیس نے اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتاری ظاہر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق عماد یوسف کی گرفتاری کے 7 گھنٹے بعد سندھ پولیس نے گرفتاری ظاہر کر دی، پولیس کا کہنا ہے کہ عماد یوسف کو میمن گوٹھ تھانے میں درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق عماد یوسف کو میمن گوٹھ تھانے کے انویسٹیگیشن آفیسر کی تحویل میں دے دیا گیا ہے، اور ممکنہ طور پر انھیں کل ملیر کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    واضح رہے کہ عماد یوسف کے خلاف درج ایف آئی آر سے حکومت کی پھرتیاں ظاہر ہوگئی ہیں، ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتاری سے صرف ایک گھنٹہ قبل ایف آئی آردرج کی گئی تھی۔

    ماہرین قانون نے عماد یوسف کی گرفتاری کا طریقہ غیر قانونی اور اغوا قرار دے دیا

    ایف آئی آر میں سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، ارشد شریف، خاور گھمن، اور عدیل راجہ کے نام بھی شامل ہیں، نیز یہ ایف آئی آر میمن گوٹھ تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت درج کی گئی ہے۔

    ماہرین قانون نے عماد یوسف کی گرفتاری خلاف قانون قرار دے دی ہے، بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کسی بھی شخص کی گرفتاری کے لیے مجسٹریٹ سے وارنٹ لینا پڑتا ہے، نوٹس بھی دیا جاتا ہے۔

    اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف بغیر وارنٹ ڈیفنس سے گرفتار

    ماہر قانون صفدر شاہین نے کہا کہ قانون میں مقدمہ پہلے اور گرفتاری بعد میں کوئی شق نہیں ہے، عماد یوسف کو گرفتار نہیں اغوا کیا گیا ہے۔

  • ’عماد یوسف کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں‘

    ’عماد یوسف کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں‘

    لاہور: شیخ رشید نے اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتار کی مذمت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ حکومت آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، میں عماد یوسف کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں۔

    انھوں نے کہا یہ نکمی حکومت اپنے انجام کو پہنچے گی، جب عقل پر پردہ پڑ جائے تو ایسی اوچھی حرکتیں کی جاتی ہیں۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    شیخ رشید نے عماد یوسف کی گرفتاری کو حکومت کی جانب سے زیادتی قرار دیا، انھوں نے کہا اے آر وائی کی کلیئرنس کے بعد حکومت زیادتی کر رہی ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے اپنے رد عمل میں کہا کہ میں عماد یوسف کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، عماد یوسف کو گرفتار نہیں گھر سے اٹھایا گیا ہے، کیا یہاں پر جنگل کا قانون ہے کہ کسی کو بھی اٹھالو۔

    اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف بغیر وارنٹ ڈیفنس سے گرفتار

    مراد سعید نے کہا خاور گھمن نے ن لیگی میڈیا سے متعلق ایک اسٹوری بریک کی تھی، ن لیگ کو ایسا میڈیا ہاؤس چاہیے جو ان کو صحیح ثابت کر سکے، اے آر وائی پر ملک سے بغاوت اور غداری کا الزام لگایا جا رہا ہے، موجودہ حکومت فرعون بنی ہوئی ہے۔

  • ماہرین قانون نے عماد یوسف کی گرفتاری کا طریقہ غیر قانونی اور اغوا قرار دے دیا

    ماہرین قانون نے عماد یوسف کی گرفتاری کا طریقہ غیر قانونی اور اغوا قرار دے دیا

    کراچی: ماہرین قانون نے عماد یوسف کی گرفتاری کا طریقہ غیر قانونی اور اغوا قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین قانون نے اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتاری کے طریقے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

    ماہر قانون علی ظفر نے کہا کسی بھی شخص کی گرفتاری کے لیے مجسٹریٹ سے وارنٹ لینا پڑتا ہے، اور وارنٹ گرفتاری سے پہلے نوٹس بھی دیا جاتا ہے، بغیر وارنٹ کسی کو گرفتار کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    انھوں نے کہا اس طرح کی کارروائیاں آمرانہ دور میں بھی ہوتیں، لیکن آئین و جمہوریت کے ہوتے ایسی کارروائیاں غیر قانونی ہیں، سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر معاملے پر کارروائی کر سکتی ہے۔

    فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے، عماد یوسف کی گرفتاری بہت افسوسناک ہے، حکومت کے اس اقدام کی پکڑ ہو سکتی ہے، اگر ریاست ہی قانون کی دھجیاں اڑائے تو فسطائیت پھیلتی ہے، ایسی کارروائی گرفتاری نہیں اغوا ہے۔

    اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے، امید ہے چیف جسٹس از خود نوٹس لیں گے، آزادی اظہار کا قانون صحافیوں کو بات کرنے کا موقع دیتا ہے۔

    اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف بغیر وارنٹ ڈیفنس سے گرفتار

    انھوں نے کہا ایسی کیا آفت آ گئی تھی کہ رات گئے عماد یوسف کو گرفتار کیا گیا، اصولی طور پر کسی شخص کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا جاتا ہے، عماد یوسف کی اس طرح گرفتاری قانون کی خلاف ورزی ہے، معاملے کو کسی اور طرف لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    ماہر قانون صفدر شاہین نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے مقدمہ درج ہو پھر گرفتاری ہو، آئین و قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اس طرح کی غیر اخلاقی کارروائیوں کی آئین میں کوئی جگہ نہیں، قانون میں مقدمہ پہلے اور گرفتاری بعد میں کوئی شق نہیں ہے، عماد یوسف کو گرفتار نہیں اغوا کیا گیا ہے۔

    صفدر شاہین کا کہنا تھا گرفتاری کے لیے آنے والے اہل کاروں کو وارنٹ گرفتاری دکھانے ہوتے ہیں، پولیس کے پاس بغیر وارنٹ گرفتاری کسی کے گھر داخل ہونے کا اختیار نہیں، جب وارنٹ نہیں تو یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے، عماد یوسف کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

    انھوں نے کہا عدالت کی جانب سے عماد یوسف کو چھوڑ دیا جائے گا، عدالت انصاف کرے گی، واقعے میں جو لوگ بھی ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، ایف آئی آر بھی درج ہو سکتی ہے، اگر کارروائی نہیں ہوتی تو مجسٹریٹ براہ راست طلب کر سکتا ہے۔

  • ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کا عماد یوسف کی فوری رہائی کا مطالبہ

    ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کا عماد یوسف کی فوری رہائی کا مطالبہ

    کراچی: ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے عماد یوسف کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر کی صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز نے اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر دیا۔

    پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہیئں، پی ایف یو جے رہنما لالہ اسد پٹھان نے کہا حکومتی اقدام انتہائی شرمناک ہے، وزیر اعظم فوری ایکشن لیں۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے کہا اے آر وائی کی جانب سے وضاحت جاری کر دی گئی تھی، اس کے بعد بات ختم ہو جانی چاہیے تھی، اگر گھروں پر چھاپے ماریں گے تو اس سے اچھا میسج نہیں جائے گا، کوئی سیاسی لیڈر غلط بات کرتا ہے تو ادارے کی وضاحت پر بات ختم ہو جاتی ہے، عماد یوسف کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

    انھوں نے کہا آج ہماری میٹنگ ہوگی، شام کو صورت حال سے آگاہ کریں گے، اگر کسی نے غلط بات کی ہے تو ادارے نے معذرت کر لی ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی چینل کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے، ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے کہ لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ جائے۔

    پی ایف یو جے دستور کے سیکریٹری جنرل اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ اگر عماد یوسف کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو صحافی ملک گیر احتجاج کی کال دیں گے۔

    کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور نے اپنے بیان میں کہا کہ آزادی اظہار پر قدغن کسی طور پر برداشت نہیں، صحافیوں کے ساتھ ہر دم کھڑے ہیں، حکومت صحافیوں کا احترام کرے۔

    اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف بغیر وارنٹ ڈیفنس سے گرفتار

    سیکریٹری کراچی پریس کلب رضوان بھٹی نے کہا کہ آزادی اظہار پر قدغن کسی طور برداشت نہیں، لاہور پریس کلب نے بھی عماد یوسف کی فوری رہائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

  • سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، ارشد شریف سمیت دیگر ایف آئی آر میں نامزد

    سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، ارشد شریف سمیت دیگر ایف آئی آر میں نامزد

    کراچی: عماد یوسف کی گرفتاری جس ایف آئی آر کے ذریعے عمل میں آئی ہے اس میں سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، اور ارشد شریف سمیت دیگر صحافی بھی نامزد کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایف آئی آر سے حکومت کی پھرتیاں ظاہر ہو گئیں، اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی گرفتاری سے صرف ایک گھنٹہ قبل ایف آئی آر درج کی گئی۔

    ایف آئی آر میں سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، ارشد شریف، خاور گھمن، اور عدیل راجہ کے نام بھی شامل ہیں، ایف آئی آر میمن گوٹھ تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت درج کی گئی ہے۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    ایف آئی آر دفعہ 120،124A،131،153A کے تحت درج کی گئی، جس میں بغاوت اور سازش جیسے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ رات گئے اے آر وائی نیوز کے خلاف حکومت نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کو کراچی میں ڈیفنس سے گرفتار کر لیا ہے، 15 سے 20 افراد نے گھر پر دھاوا بولا۔

    اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف بغیر وارنٹ ڈیفنس سے گرفتار

    چھاپے کے وقت سی سی ٹی وی کیمروں کا رخ موڑا گیا، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے دروازے توڑ کر گھر میں گھسے، اور توڑ پھوڑ مچائی۔

    کچھ افراد پولیس کی وردی اور بعض سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے، عماد یوسف کا لائسنس یافتہ اسلحہ، سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی ساتھ لےگئے، چھاپا مار ٹیم میں نہ کوئی خاتون اہل کار تھی اور نہ ہی وارنٹ گرفتاری دکھایا گیا۔