Tag: among

  • ایران دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں ہے، اقوام متحدہ

    ایران دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں ہے، اقوام متحدہ

    نیویارک : ایران میں سال 2017 میں منشیات سے متعلق جرائم کے سلسلے میں سزائے موت کی تعداد 231 تھی جو 2018 میں کم از کم 24 تک آ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایران میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ذمے دار جاوید رحمن کا کہنا ہے کہ ایران میں گذشتہ برس آزادی اظہار کے حق پر قدغن اور شخصی آزادی اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے حوالے سے خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھا گیا، اس دوران بالغ افراد اور بچوں کے خلاف سزائے موت پر عمل کی 253 کارروائیاں رپورٹ کی گئیں۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم کی گئی رپورٹ میں جاوید رحمن نے بتایا کہ اگرچہ سزائے موت کی کارروائیاں 2007 کے بعد کم ترین تعداد میں تھیں تاہم ایران میں سزائے موت کا تناسب اب بھی دنیا بھر میں بلند ترین سطح کے حامل ممالک میں ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سزائے موت کے تناسب میں واضح کمی 2017 میں انسداد منشیات کے قانون میں ہونے والی ترمیم کا نتیجہ ہے، سال 2017 میں منشیات سے متعلق جرائم کے سلسلے میں سزائے موت کی تعداد 231 تھی جو 2018 میں کم از کم 24 تک آ گئی۔

    جاوید رحمن نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایران میں 80 سے زیادہ جرائم ہیں جن کی سزا موت ہے جب کہ ان میں کئی جرائم ایسے ہیں جو شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق (آئی سی سی پی آر) کی رو سے خطرناک جرائم شمار نہیں ہوتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذمے دار کے مطابق اپریل 2018 میں ایران میں جن سات قصوروار کم عمر بچوں کو سزائے موت دی گئی ان میں دو کی عمر 17 برس تھی۔ ان پر عصمت دری اور چوری کے الزام عائد کیے گئے تھے اور اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں کم عمر افراد کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا۔

    جاوید رحمن نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر پیچلیٹ مچل کے اس بیان کو دہرایا کہ جرم کے مرتکب بچوں کو موت کی سزا دینا مکمل طور پر ممنوع ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔

    مزید برآں جاوید رحمن نے دہری شہریت کے حامل ایرانیوں اور غیر ملکی افراد کی جبری گرفتاری اور حراست، ان کے ساتھ برے برتاو اور انہیں طبی دیکھ بھال سے محروم کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے 30 کیس موجود ہیں۔

  • جاپان میں چاقو زنی کی واردات، تین افراد ہلاک

    جاپان میں چاقو زنی کی واردات، تین افراد ہلاک

    ٹوکیو : جاپان کے شہر کاواساکی میں ایک شخص نے چاقو سے حملہ کرکے دو افراد کو قتل جبکہ متعدد اسکول طلبہ کو زخمی کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے دارالاحکومت ٹوکیوں کے کے جنوب میں واقع شہر کاواسکی میں چاقو زنی کی واردات کے دوران 18 افراد زخمی جبکہ دو افراد ہلاک ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک اسکول طالبہ اور 39 سالہ شخص شامل ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ حملے کے اہداف و مقاصد تاحال واضح نہیں ہوسکا ہے۔

    جاپانی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں 16 اسکول طالبات شامل ہیں جو بس اسٹاپ پر کھڑی اسکول وین کا انتظار کررہی تھیں۔

    پولیس نے جائے وقوعہ سے دو خنجر برآمد کیے ہیں جن کا فورنسسک ٹیسٹ کےلیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔

    کاواساکی فائر بریگیڈ عملے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیں آج صبح 7 بج کر 44 منٹ (جاپانی وقت کے مطابق) پر فون کال موصول ہوئی جس میں اسکول طلبہ پر چاقو سے حملے کی اطلاعات شامل تھیں۔

    اسکول وین کے ڈرائیور نے بیان دیا کہ ملزم نے قطار میں کھڑے طالب علموں پر چاقو سے حملہ کیا جو بس میں سوار ہونے کا انتظار کررہے تھے اور بعدازاں بس میں سوار بچوں کو بھی چاقو زنی کا نشانہ بنایا۔

    پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم نے بچوں کو زخمی کرنے کے بعد خنجر سے اپنی گردن پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اس وقت جاپان کے سرکاری دورے پر ہیں نے بچوں کو چاقو زنی کی واردات میں نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا۔

    واضح رہے کہ جاپان میں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے جس کے باعث اسے دنیا کے سب سے کم جرائم والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے تاہم کچھ برسوں میں یہاں چاقو زنی کی کئی واردات رونما ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2016 میں ذہنی مریض شخص نے چاقو سے حملہ کرکے 19 افراد کو زخمی کردیا تھا جبکہ 2001 میں آٹھ طالب علم چاقو زنی واردات میں قتل ہوئے تھے۔

  • سوڈان میں حالات مزید کشیدہ، چارافراد ہلاک، فوج نے کرفیو لگا دیا

    سوڈان میں حالات مزید کشیدہ، چارافراد ہلاک، فوج نے کرفیو لگا دیا

    خرطوم : سوڈان میں صدر عمر البشیر کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران چار شہریوں کی ہلاکت کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے جبکہ سوڈانی فوج نے دار الحکومت خرطوم میں کرفیو نافذ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایوان صدارت کے قریب مشتعل ہجوم ایک ہفتہ سے دھرنا دیئے بیٹھا ہے جس نے فوج کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کرفیو کا نفاذ غیر قانونی ہے۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ دستور میں دیئے گئے اظہار کا حق استعمال کررہے ہیں اور حکومت گرانے سے پہلے وہ واپس نہیں جائیں گے، قبل ازیں سوڈانی صدر عمر البشیر کے ایوان صدارت کے سامنے ہزاروں مظاہرین اور سیکیورٹی فورس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایوان صدارت دارالحکومت خرطوم کے مرکز میں واقع ہے۔

    عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ 4 ماہ قبل شروع ہونے والے مظاہرے نکتہ عروج کو پہنچ چکے ہیں، ام درمان بھی مظاہروں کی لپیٹ میں آچکا ہے۔

    پولیس ترجمان میجر جنرل ہاشم عبد الرحیم نے بتایا کہ سوڈانی پولیس نے ام درمان میں ہنگاموں کے دوران ایک شہری کی موت کا اعتراف کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ دسمبر سے لیکر اب تک مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 32 تک پہنچ چکی ہے، ہیومن رائٹس واچ نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 51 بتائی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے اور طبی امداد کے سہولت کار بھی شامل ہیں، سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے ام درمان میں مظاہرین پر اشک آور بم استعمال کئے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے عمر البشیر کے ایوان صدارت کے قریب سنگ باری کی جبکہ نئے مظاہروں کی اپیل اپوزیشن رہنماﺅں نے صدر البشیر پر دباو بڑھانے اور انہیں اقتدار سے دستبردا ر ہونے کیلئے آمادہ کرنے کیلئے کی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے نعروں میں ایک نعرہ آزادی، امن اور انصاف، دوسرا نعرہ ایک فوج اور ایک قوم مقبول ہورہے ہیں۔

    مزید پڑھیں : سوڈانی صدر کے استعفے کے لیے مظاہرہ، فورسز کی فائرنگ سے 60 افراد ہلاک

    مظاہروں میں شامل ایک شہری امیر عمر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کے نمائندے سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تک ہمارا ہدف پورا نہیں ہوا البتہ ہم نے فوج کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہمارے شریک بن جاو۔

    غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آدم یعقوب نامی شہری نے کہا کہ عمر البشیر نے ملکی معیشت اس حد تک تباہ کردی ہے کہ عوام دواوں کی قلت کی وجہ سے مرنے لگے ہیں۔

  • مانچسٹر میں نامعلوم شخص کی فائرنگ، دو بچوں سمیت 10 افراد زخمی

    مانچسٹر میں نامعلوم شخص کی فائرنگ، دو بچوں سمیت 10 افراد زخمی

    لندن : برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں نامعلوم شخص نے کیریبئین کارنیول کی تقریب کے لیے جمع ہونے ہجوم پر اندھا دھند فائرنگ کردی، فائرنگ کے نتیجے میں 10 افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے علاقے موس سائیڈ پر واقع کلئیر ماؤنٹ روڈ پر نامعلوم شخص کی جانب سے سڑک پر موجود ہجوم پر فائرنگ کی گئی ہے جس کے نتیجے میں دس افراد زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

    برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں تاہم ابھی تک ہجوم پر فائرنگ کرنے والے حملہ آور کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہ برطانوی سماجی کارکن ایرینا بیل کا کہنا ہے کہ شہریوں پر فائرنگ کرنے والا شخص لوگوں پر پیلٹ بندوق سے گولیاں برسا رہا تھا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہجوم کیریبئین کارنیول کی مناسبت سے جمع ہوئے تھے جن پر نامعلوم شخص نے فائرنگ کردی، فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے افراد کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ صورت حال کے پیش نظر جائے وقوقہ پر  اضافی نفری طلب کرلی گئی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ حملے کی جگہ پر درجنوں افراد موجود تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز برطانیہ کے علاقے سیلسبری میں قائم عسکری ساز وسامان تیار کرنے والی فیکٹری میں دھماکے سے ایک شخص ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا تھا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ میں موسکو 17 میوزیکل گروپ کے ایک اور گلوکار کو تشدد کے بعد اسی مقام پر چاقو کے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا، جہاں اس کے دوست کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن نے جرائم کی شرح میں امریکی شہر نیویارک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، برطانوی میڈیا کے مطابق نوجوان گینگ کلچر کا شکار ہورہے ہیں جس کے باعث لندن میں رواں سال چاقو زنی کی وارداتوں میں اب تک 50 سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں۔

  • جرمن حکومت کی عوامی سطح پر مقبولیت میں کمی، سروے رپورٹ

    جرمن حکومت کی عوامی سطح پر مقبولیت میں کمی، سروے رپورٹ

    برلن : جرمن حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان تارکین وطن کے معاملے پر اختلافات منظر عام پر آنے کے باعث وفاقی حکومت کی عوامی شہرت میں کمی واقع ہونے لگی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے درمیان تارکین وطن سے متعلق پالیسی پر شدید اختلافات منظر عام پر آنے کے بعد عوامی سطح پر حکومت کی مقبولیت میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی۔

    جرمن خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ’ڈوئچ لانڈ ٹرینڈ‘ نامی سروے کے دوران ملک کی 80 فیصد سے زائد عوام حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ناخوش ہیں۔ جمعرات کے روز جاری کی جانے والی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انجیلا میرکل کی حکومت عوام میں اپنی پذیرائی کھو رہی ہے۔

    سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی کے 80 فیصد سے زائد عوام ملک کی اتحادی حکومت کی تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں اور کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے حوالے سے عوامی سروعے ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اتحادی حکومت میں شامل پارٹیوں ’سی ایس یو، سی ڈی یو اور ایس پی ڈی‘ کے درمیان گذشتہ کئی دنوں سے تارکین وطن اور مائیگریشن کی پالیسیوں پر اختلافات جاری ہیں۔

    عوامی سروے کے دوران عوام کا کہنا تھا کہ جرمنی کی موجودہ حکومت تارکین وطن اور مہاجرین کے بحران کے حوالے سے پالیسیوں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے، تاہم دیگر ملکی معاملات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی۔

    خیال رہے کہ جرمن چانسلر انجیلا میرکل اور وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے درمیان مہاجرین کے معاملے پر اختلافات شروع ہوئے تھے جو اب حکومت میں شامل تینوں جماعتوں کے درمیان پھیل چکا ہے۔

    جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر ان تارکین وطن کو جرمنی کی سرحد سے ہی لوٹانا چاہتے ہیں جنہوں نے دیگر یورپی ممالک میں بھی پناہ کی درخواستیں دی ہوئی ہیں، جبکہ جرمن چانسلر جرمنی کی سطح پر کوئی بھی پالیسی بنانے کے بجائے یورپی سطح پر پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔

    سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کی اتحادی جماعتیں سی ایس یو اور سی ڈی یو کی مقبولیت میں کمی کے باعث تارکین وطن کی مخالف جماعت اے ایف ڈی کی عوام پذیرائی پہلے سے زیادہ ہورہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں