Tag: Animals

  • زندہ جانوروں کی بطور کی چین فروخت

    زندہ جانوروں کی بطور کی چین فروخت

    چین میں ننھے ننھے زندہ جانوروں کو پلاسٹک بیگ میں قید کر کے کی چینز کی صورت میں فروخت کیا جارہا ہے جو ایک طرف تو لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہے ہیں تو دوسری جانب جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ننھے ننھے آبی جانوروں کو پلاسٹک بیگز میں قید کر کے بیچنے کا عمل چین میں کافی عرصے سے جاری ہے۔

    سنہ 2011 میں سی این این نے اس بارے میں ایک رپورٹ پیش کی تھی تاہم اس کے باوجود یہ کاروبار کامیابی سے جاری و ساری ہے۔

    ان ’کی چینز‘ میں کسی ننھے جانور کو قید کر کے اس میں پانی، آکسیجن اور کچھ نمکیات بھر دیے جاتے جو اس جانور کو چند دن تک زندہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم 2 سے 3 دن بعد یہ جانور مر جاتے ہیں جس کے بعد یہ کی چین بیکار ہوجاتے ہیں اور انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک بیگ میں قید کیے جانے والے ان جانوروں میں کچھوے، مچھلیاں، چھپکلیاں اور دیگر جاندار شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی جانوروں کو اس طرح قید کر کے رکھنا بدترین ظلم ہے۔

    آبی جاندار درجہ حرارت کے مقابلے میں بے حد حساس ہوتے ہیں اور معمول سے زیادہ گرم یا سرد درجہ حرارت برادشت نہیں کر پاتے، یہی وجہ ہے کہ یہ جاندار بہت جلد اذیت ناک موت مرجاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • نیند سے متعلق جانوروں میں انسانوں جیسی حیران کن عادات

    نیند سے متعلق جانوروں میں انسانوں جیسی حیران کن عادات

    انسانوں اور جانوروں کا رشتہ ایک اٹوٹ رشتہ ہے جو زمین پر ہماری بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر انسان نہ ہوں تو جانور زمین پر رہ سکتے ہیں، لیکن اگر جانور اور جنگلی حیات نہ ہو تو انسان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔

    انسان اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ جانوروں کا محتاج ہے۔ یہی نہیں انسانوں کی جان بچانے اور نئی دواؤں کے تجربات کرنے کے لیے پہلے جانوروں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کے بعد اسے انسانوں پر آزمایا جاتا ہے۔

    اسی لیے آج ہم آپ کو جانوروں کی نیند سے متعلق کچھ انوکھے اور حیرت انگیز حقائق بتانے جارہے ہیں جو انسانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ جانور پالتو بھی ہیں جو ہم میں سے اکثر افراد کے گھر موجود ہوتے ہیں۔


    جانوروں میں نیم خوابی

    نیم خوابی وہ حالت ہے جس میں نہ آپ مکمل طور پر سو سکتے ہیں اور نہ مکمل طور پر جاگے ہوئے ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق نیم خوابی کے مرض کا شکار افراد کئی طبی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی نیند پوری نہیں ہوتی اور وہ صبح اٹھنے کے بعد بھی خود کو سست اور تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

    جرنل سلیپ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صرف انسان ہی نہیں بلکہ کتے اور چوہے بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    تو اگر کسی روز آپ کو اپنا پالتو کتا سست سا نظر آئے تو جان لیں کہ وہ رات میں ٹھیک طرح سے سو نہیں پایا۔


    بطخوں کو نئی جگہ پر سونے میں مشکل

    ہم میں سے بعض افراد کسی نئی جگہ یا نئے ماحول میں ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔

    ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ نئی جگہ پر سوتے ہوئے ہمارے دماغ کا ایک حصہ غیر ارادی طور پر کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام رات چاک و چوبند رہتا ہے لہٰذا ہم رات میں بھرپور نیند نہیں لے پاتے، اور ذرا سی آہٹ پر چونک کر اٹھ جاتے ہیں۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نیند میں اس خلل کا شکار معصوم بطخیں بھی ہوتی ہیں۔ انہیں بھی نئی جگہ اور نئے ماحول سے مطابقت کرنے خصوصاً خود کو سونے کے لیے تیار کرنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔


    پرندوں کو قیلولہ کی ضرورت

    جس طرح ہمیں آدھا دن بھرپور کام کرنے کے بعد تھکن کا احساس ہوتا ہے اور قیلولے کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح پرندوں کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

    قیلولہ صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر ممالیہ جانوروں کو بھی درکار ہوتا ہے۔


    محو خواب ممالیہ جانور

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف انسان ہی واحد ممالیہ جاندار نہیں جو خواب دیکھتا ہے۔ دیگر کئی ممالیہ جانور بھی خواب دیکھتے ہیں جن میں وہ زیادہ تر اپنی پسندیدہ کھانے کی اشیا دیکھتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کتے خواب میں کیا دیکھتے ہیں؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جانوروں سے محبت اور نرمی کا سلوک ۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

    جانوروں سے محبت اور نرمی کا سلوک ۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

    دین اسلام امن کا دین ہے۔ وہ مذہب، عقیدے اور مسلک سے بالاتر ہو کر تمام انسانیت سے محبت کا سبق دیتا ہے۔

    دین اسلام صرف ہمیں انسانوں سے ہی محبت کرنا نہیں سکھاتا بلکہ یہ بے زبان جانوروں سے نرمی کا برتاؤ کرنے، ان کا خیال رکھنے، حتیٰ کہ درختوں کا بھی خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔

    دراصل اسلام وہ ضابطہ حیات ہے جو امن، عزت، عظمت، رواداری، انصاف اور مہربانی کا سبق دیتا ہے، چاہے وہ کسی مسلمان کے ساتھ کیا جائے یا غیر مسلم کے ساتھ، جانوروں کے ساتھ ہو یا درختوں کے ساتھ کیا جائے۔

    ہمارے حضور پاک محمد ﷺ کو بھی محسن انسانیت قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر تمام دنیا کے انسانوں اور خدا کی دیگر مخلوقات کے لیے سراپا رحمت تھے۔

    حضور پاک ﷺ اکثر تلقین کیا کرتے تھے کہ چونکہ جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں لہٰذا ان سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیئے اور ان کا خیال رکھنا چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے ایسی کچھ مثالیں بتانے جارہے ہیں جن میں انہوں نے جانوروں سے محبت اور نرمی کا عملی مظاہرہ کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔


    حضور اکرم ﷺ عربوں کو گھوڑوں کی دمیں اور گردن کے بال کاٹنے سے منع فرمایا کرتے تھے جو اس دور کا عام رواج تھا۔ اسی طرح وہ جانوروں کے جسم کے نرم حصوں پر مالک کا نام گودنے سے بھی گریز کی ہدایت کرتے۔


    ایک بار حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، ’جس کسی نے کسی جانور یا پرندے کو بلا سبب نقصان پہنچایا یا مارا، وہ جانور قیامت کے روز خدا سے شکایت کرے گا اور اس کا قاتل خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا‘۔


    اسی طرح ایک روایت ہے کہ کچھ افراد کسی سفر پر جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک پرندے کے گھونسلے سے اس کے ننھے ننھے 2 بچے اٹھا لیے جس کے بعد ان کی ماں قافلے کے اوپر بے قراری کی حالت میں اڑنے اور چکر لگانے لگی۔

    حضور اکرم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں سخت خفگی کا اظہار کیا اور پرندے کے بچوں کو واپس ان کی جگہ پر چھوڑنے کی ہدایت کی۔


    جب حضور اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ خوراک کے لیے زندہ اونٹ کا کوہان اور بھیڑ کی دمیں کاٹ دیا کرتے تھے۔

    حضور ﷺ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ کسی زندہ جانور کے جسم کے حصے کو کاٹ لینا اسے سخت اذیت پہنچانے اور زندہ درگور کردینے کے مترادف ہے۔


    اسی طرح جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے وہ فرمایا کرتے تھے کہ، ’تیز دھار چھری سے جانور کو ذبح کیا کرو تاکہ فوراً اس کی جان نکل جائے اور وہ جان کنی کی اذیت میں مبتلا نہ ہو‘۔


    ایک بار حضور ﷺ نے ایک بیمار اور لاغر اونٹ کو دیکھا تو اس کے مالک کو بلا کر سرزنش کی اور فرمایا، ’جانوروں سے سلوک کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان سے اچھا سلوک کرو‘۔


    کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طوائف کے گناہوں کو صرف اس لیے معاف کردیا اور اسے جنت کی بشارت دی کیونکہ اس نے ایک بار ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔

    اسی طرح ایک عورت کو صرف اس بنا پر دوزخ میں ڈال دیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا رکھ کر جان سے مار ڈالا تھا۔


    روایت ہے کہ ایک بار کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنے پر بھی خدا کی طرف سے کوئی صلہ ملے گا؟ تو حضور ﷺ نے جواب دیا، ’کسی بھی زندہ جاندار سے مہربانی کا سلوک کرنا انسان کو اللہ کے انعام کا حقدار بنا دیتا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔