Tag: anniversary

  • ہانگ کانگ کے چین میں ضم ہونے کے 22 سال مکمل، عوام کا احتجاج

    ہانگ کانگ کے چین میں ضم ہونے کے 22 سال مکمل، عوام کا احتجاج

    ہانگ کانگ : سابق برطانوی کالونی ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے کے بائیس سال مکمل ہونے پرہزاروں شہریوں نے احتجاج کیا، پولیس نے مظاہرین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

    تفصیلات کے مطابق ہانگ کانگ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کا انعقاد اس سابق برطانوی کالونی کو چین کے حوالے کرنے کے بائیس برس مکمل ہونے کے موقع پر کیا گیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے بدترین خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا ہے، ان احتجاجی مظاہروں کا انعقاد اس سابق برطانوی کالونی کو چین کے حوالے کرنے کے بائیس برس مکمل ہونے پر کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر میڈیا کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف پیپر اسپرے اور ڈنڈوں کا آزادنہ استعمال کیا گیا۔

    واضح رہے کہ ہانگ کانگ میں1997 میں اس سابق کالونی کو بیجنگ کے حوالے کرنے بعد سے ہر سال بڑے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے جاری تھے، یہ حالیہ مظاہرےاس مجوزہ قانون سازی کے خلاف تھےجس کے تحت ملزمان کو ہانگ کانگ سے چین منتقل کیا جا سکتا ہے۔

  • مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی پر اردن کا اسرائیل سے شدید احتجاج

    مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی پر اردن کا اسرائیل سے شدید احتجاج

    عمان : اردنی وزیر خارجہ نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قبلہ اول میں نمازیوں اور روزہ داروں پر صہیونی فوج کا تشدد ناقابل برداشت ہے‘۔

    تفصیلات کے مطابق اردن کی وزارتِ خارجہ نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں، معتکفین اور روزہ داروں خلاف اسرائیلی ریاست کے اشتعال انگیز اقدامات اور ماہ صیام کے دوران صہیونی فوج اور یہودی آباد کاروں کے قبلہ اول پردھاووں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

    عرب ٹی وی کے مطابق اردنی وزارت خارجہ نے قبلہ اول اور حرم قدسی میں اسرائیلی اشتعال انگیز سرگرمیوں پر صہیونی ریاست سے باضابطہ احتجاج کیا گیا ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی حکام اور یہودی آباد کار حرم قدسی شریف کی مسلسل اشتعال انگیز انداز میں بے حرمتی کے مرتکب ہو رہے ہیں، پولیس کی فول پروف سیکیورٹی میں یہودی آباد کار مسجد اقصیٰ میں گھس کر فلسطینی نمازیوں، روزہ داروں اور معتکفین کو تشدد کا نشانہ بناتےہیں۔

    دوسری طرف اسرائیلی پولیس ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت محکمہ اوقاف کے عملے کو گرفتار کرکے اوقاف کے امور میں کھلی مداخلت کررہی ہے۔

    عمان حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز سرگرمیاں ناقابل قبول ہیں اور ان کے نتیجے میں خطے میں تشدد کی ایک نئہی لہر اٹھ سکتی ہے۔

    اردنی وزارت خارجہ کے ترجمان سفیان سلمان القضا نے کہا کہ حکومت نے سفارتی چینلز سے اسرائیلی حکومت کو اپنا احتجاج پہنچا دیا ہے۔ اس احتجاجی یاداشت میں حرم قدسی میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کی اشتعال انگیز سرگرمیوں پرپابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ ماہ صیام کے دوران اسرائیلی فوج، پولیس اور یہودی آباد کار مل کر مسجد اقصیٰ پر یلغار کرتے رہے ہیں۔ ماہ صیام کے آخری ایام میں یہودیوں کی تعطیلات کے موقع پرقبلہ اول میں سخت کشیدگی دیکھی گئی۔

    ماہ صیام کے آخری عشرے میں یہودی آبادکاروںکو قبلہ اول کے احاطے میں داخلےکی اجازت نہیں دی جاتی مگر اس بار صہیونی حکام نے یہ روایت بھی توڑ؟ دی اور بار بار مسجد میں گھس کرمسلمان روزہ اور معتکفین کو زدو کوب کیا جاتا ہے۔

    حرم قدسی اور مسجد اقصی میں یہودی آباد کاروںکی اشتعال انگیز سرگرمیاں ایک ایسے وقت میں دیکھی گئی ہیں جب دوسری جانب صہیونی ریاست ‘متحدہ القدس’ کی تقریبات اور سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

    اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پرقبضہ کرلیا تھا، اس کے مشرقی اور مغربی القدس کی وحدت کے حوالے دو جون کا دن منایا جاتا ہے، اس سال یہ دن ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ماہ صیام جاری ہے اور مسجد اقصیٰ میں بڑی تعداد میںمسلمان عبادت کے لیے آ رہے ہیں۔

  • جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    برصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم موڑثابت ہونے والے واقعے ’جلیاں والا باغ‘ کو 100 سال بیت گئے ہیں‘اس واقعے نے برصغیرمیں آزادی کی مہم کو مہمیزکیا تھا‘ سنہ 1997 میں بھارت کے دورے پرملکہ برطانیہ نے اس تاریخ کا افسوس ناک باب قراردیا تھا۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق’’ اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا‘‘۔

    دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

    جلیاں والا باغ میں تعمیر کردہ یاد گار

    تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیرکسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔

    انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔

    سنہ 1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئیں تھی‘ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر بھارت میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کمار گجرال کہتے نظر آئے تھے کہ’’اس سانحے کے وقت ملکہ پیدا نہیں ہوئی تھیں لہذا انہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

    وہ کنواں جس میں سے سینکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

    اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:

    بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔ میں وہاں کل جاؤں گی۔ مگر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، چاہے ہم کتنی کوشش کر لیں۔ اس کے اپنے دکھ اور خوشی کے لمحات ہیں۔ ہمیں رنج سے سیکھ کر اپنے لیے خوشیاں جمع کرنی چاہیئں۔

    14 اکتوبر، 1997ء کو ملکہ الزبتھ دوم نے جلیاں والا باغ کا دورہ کیا اور نصف منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس وقت ملکہ نے زعفرانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیا تھا جو سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل رنگ ہے۔ یادگار پر پہنچ کر انہوں نے اپنے جوتے اتارے اور پھول چڑھائے۔

    اگرچہ انڈین لوگوں نے پچھتاوے کے اظہار اور ملکہ کے رنج کو قبول تو کیا مگر بعض نقاد کہتے ہیں کہ یہ معافی نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کے انڈین وزیرِ اعظم اندر کمار گجرال نے ملکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ملکہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔

    ملکہ برطانیہ الزبتھ جلیاں والا باغ کے دورے پر

    8 جولائی، 1920ء کو ونسٹن چرچل نے ایوانِ نمائندگان کو کرنل ڈائر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چرچل نے ہاؤس کو کرنل ڈائر کو زبردستی ریٹائر کرنے پر آمادہ کر لیا مگر چرچل چاہتے تھے کہ کرنل کو سزا بھی ملتی۔

    فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو ‘برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا‘۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔

    دو روز قبل پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت برطانیہ جلیاں والاباغ قتل عام اور قحط بنگال پرپاکستان، بھارت اوربنگلا دیش سے معافی مانگے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ برطانیہ کو کوہ نور ہیرا بھی لاہورمیوزیم کو واپس کرنا چاہیے، ساتھ ہی معافی مانگنی چاہیے۔

  • سقوطِ بغداد کو761 برس بیت گئے

    سقوطِ بغداد کو761 برس بیت گئے

    آج سے  لگ بھگ ساڑھے سات صدی قبل ہلاکو خان نے ام البلاد بغداد کو تاراج کیا تھا، آج سقوطِ بغداد کو 761 برس مکمل ہوگئے ہیں، ہلاکو خان کے  حملے کے بعد دنیا کا سب سے عظیم شہر ایسا اجڑا کہ پھر ویسا نہ بس سکا، کہتے ہیں کہ دریائے دجلہ پہلے خون سے سرخ ہوا ، پھر کتابوں کی سیاہی سے سیاہ رنگ کا ہوکر بہتا رہا ۔

    تاریخی کتب کے مطابق ہلاکو خان نے سنہ 1258 عیسوی میں بغداد کا محاصرہ کیا، اس وقت عالمِ اسلام کے اس مرکز پر 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم بااللہ کی حکومت تھی۔ بغداد جو کہ اس وقت دنیا میں علم و حکمت کا مرکز تھا ، عباسی خلافت کی مسلسل کمزوریوں کے سبب عسکری میدان میں منگولوں کا مقابلہ کرنے کی قوت نہ رکھتا تھا۔

    ہلاکو خان نے 29 جنوری سنہ 1257 کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا تھا۔  اس دوران  منگول افواج نے  بارود کی مدد سے شہر پناہ پر تابڑ توڑ حملے کیے ، یہاں تک کہ محض تیرہ دن بعد ہی خلیفہ مستعصم بااللہ نے شہر کے دروازے منگول افواج کے لیے کھول دیے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

    عباسی خلافت جو انتہائی شان و شوکت سے ابھری تھی اور تین براعظموں پر چھا گئی تھی۔ 37 ویں خلیفہ تک آتے آتے انحطاط کا شکار ہوچکی تھی ، خلافت کے زیر اہتمام زیادہ بادشاہ خود مختار تھے اور خلیفہ کا بس نام کا سکہ چلتا تھا۔ خلیفہ کا خیال تھا کہ  بغداد کے حملے کی خبر سن کر  مراکش سے لے کر ایران تک سبھی مسلمان ان کی مدد کو آجائیں گے، لیکن منگول آندھی کے خوف سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

    جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملے کا ارادہ کیا تو نہ صرف  اس کے بھائی منگوخان  نے تازہ دم  منگول دستے بھجوائے تھے،  بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔

    ایک جانب تو منگول لشکر آزمودہ کار تازہ دم سپاہیوں پر مشتمل تھا تو دوسری جانب تکنیکی میدان میں بھی انہیں برتری حاصل تھی ، اور وہ اس وقت کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی یعنی بارود سے لیس تھے۔ منگول فوج میں چینی انجنیئروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور باردو کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ دوسری جانب  بغداد کے سپاہی آتش گیر مادے نفتا سے  تو واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔

    اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی ، وہ اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کی ٹیوبوں میں رکھ دیتے تھے جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ جب محاصرہ ہوا تو  منگولوں کی منجنیقوں نے شہر پر آگ برسانا شروع کر دی۔ بغداد کے شہریوں کے لیے تو قیامت کی ایک نشانی پوری ہورہی تھی  کہ آسمان سے آگ برسے گی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑدی ، یہاں تک کہ خلیفہ نے سرینڈر کردیا۔

     خلیفہ اور اس کے امراء کی جانب سے ہتھیارڈال دینے کے بعد اگلے چند دن تک جو ہوا،  اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے۔:

    [bs-quote quote=”وہ شہرمیں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔” style=”default” align=”center”][/bs-quote]

    مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ سے لے کر دس لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیے گئے اور جو زندہ بچ گئے ، ان کی زندگی مردوں سے بد تر تھی۔بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔

    خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ‘کھاؤ۔’

    مستعصم باللہ نے کہا: ‘ہیرے کیسے کھاؤں؟’ ہلاکو نے جواب دیا: ‘اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔’

    اس کے بعد ہلاکو خان کے حکم پر مستعصم بااللہ کونمدے میں لپیٹ کر اس پر گھوڑے دوڑا دیے کہ خلیفہ کا خون زمین پر نہ بہے، یاد رہے کہ منگول روایات میں کسی بادشاہ کے خون کا زمین پر بہنا اچھا شگون تصور نہیں کیاجاتا تھا۔

    بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور نے سنہ 762  عیسوی میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

    تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے لے کر سنہ 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے دس لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

  • مایہ ناز باکسر محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس گزر گئے

    مایہ ناز باکسر محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس گزر گئے

    دنیا کے ممتاز باکسر محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج دو برس گزر گئے۔ محمد علی ایک لیجنڈ باکسر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم شخصیت اور عزم و ہمت کی مثال تھے۔

    دو برس قبل آج ہی روز سانس لینے میں دشواری کے باعث آج ہی روز اسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں 74 سالہ سابق امریکی باکسر محمد علی دوران علاج اپنے اہل خانہ اور مداحوں غمگین کرگئے۔

    خیال رہے کہ لیجنڈ باکسر محمد علی گذشتہ 3 دہائیوں سے پارکنسن سمیت متعدد امراض کا شکار تھے۔

    محمد علی لیجنڈ باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند انسان بھی تھے اور معاشرے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج رہتے تھے۔

    سنہ 1959 سے 1975 تک لڑی جانے والی ویت جنگ میں امریکی افواج میں شامل کرنے کے لیے محمد علی سے عہد نامے پر دستخط لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کردیا، جس کے باعث امریکی حکومت نے ان سے اولمپک چیمپئن شپ کے اعزازات واپس لے کر 5 برس کے لیے جیل منتقل کردیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ذرائع کے مطابق امریکی شپریم کورٹ نے لیجنڈ باکسر کی گرفتاری پر بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے محمد علی کی سزا کو ختم کردیا تھا۔

    محمد علی زندگی کو ایک مثبت نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ آج ان کی برسی کے موقع پر ان کے زریں خیالات و اقوال یقیناً آپ کی زندگی بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے۔

    دوستی ایسی چیز نہیں جو آپ کسی تعلیمی ادارے میں سیکھیں، بلکہ اگر آپ نے دوستی کے صحیح معنی نہیں سیکھے، تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔

    مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے۔ میں ابھی تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا۔

    جو شخص مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔

    اگر تم مجھے ہرانے کا خواب بھی دیکھو، تو بہتر ہے کہ تم جاگ جاؤ اور اپنے اس خواب کی معافی مانگو۔

    قوم آپس میں جنگیں نقشوں میں تبدیلی لانے کے لیے لڑتی ہیں۔ لیکن غربت سے لڑی جانے والی جنگ زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے۔

    میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، لیکن اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک شخص کی زندگی بھی بہتر کرنے میں کامیاب رہا تو میری زندگی رائیگاں نہیں گئی۔

    جو شخص خواب نہیں دیکھتا، وہ کبھی بھی اونچا نہیں اڑ سکتا۔

    کاش کہ لوگ دوسروں سے بھی ویسے ہی محبت کرتے جیسے وہ مجھ سے کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔

    ویت نام کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کے بعد محمد علی نے کہا، ’یہ مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ میں یونیفار پہن کر اپنے گھر سے 10 ہزار میل

    دور جاؤں، اور کالوں پر گولیاں اور بم برساؤں؟ یہ تو اپنے ہی ملک میں نیگرؤوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں‘۔

    محمد علی زندگی کے بارے میں کہتے تھے۔

    زندگی بہت چھوٹی ہے۔ ہم بہت جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کرنے میں اپنا وقت ضائع کردیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • ستمبر 11 کی جنگ اپنے آخری دور میں داخل ہوگئی

    ستمبر 11 کی جنگ اپنے آخری دور میں داخل ہوگئی

    نائن الیون سے قبل انسانی تاریخ کو قبل ازمسیح اور بعد از مسیح میں تقسیم کیا جاتا تھا لیکن سانحہ نائن الیون ایک ایسا واقعہ تھا جس نے انسانی تاریخ کو ایک نیا موڑدیا اوردنیا کو جنگوں کی ایک نئی آگ میں جھونک دیا، آج اس واقعے کو 14 سال بیت چکے ہیں لیکن ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی راکھ میں دبی چنگاریاں آج بھی اس دنیا کو تپش دے رہی ہیں۔

    ستمبر 9، 2001 ایک ایسا دن تھا کہ جب امریکا میں موجود دنیا کی بلند ترین عمارت سےاغوا کئے گئے دو طیارے ٹکرادئیے گئے جس کے سبب تین ہزارافراد سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

    جب صبح آٹھ بج کرچھیالیس منٹ پرنیویارک میں موجود دنیا کی بلند ترین عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو دہشتگردوں نے اپنا شکار بنایا اور دو مغوی طیاروں کو یکے بعد دیگرے عمارت جو کہ دراصل 110 منزلہ دو ٹاوروں پر مشتمل تھی ان سے ٹکرا دیا۔

    اس انسانیت سوز سانحے میں تین ہزارامریکی اورغیر ملکی باشندے مارے گئے جبکہ چھ ہزارسے زائد افراد زخمی ہوئے اورمالی نقصان کا تخمینہ دس ارب ڈالر لگایا گیا۔

    اس واقعے کے فوری بعد دنیا بھرتشویش کی لہردوڑ گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہربھی محسوس ہوئی، واقعے کے ردعمل میں امریکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو کہ کئی سال تک جاری رہا۔

    امریکہ نے واقعے کا ذمے دارالقائدہ رہنماء اسامہ بن لادن کو ٹہراتے ہوئے افغانستان پربمباری شروع کردی جس کے بعد جنگ کا دائرہ عراق اورپاکستان کے سرحدی علاقوں تک پھیلا دیا گیا۔

    افغانستان اور عراق میں لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک میں وہاں قائم حکومتیں ختم ہوگئی، افغانستان میں طالبان کا دورِ حکومت ختم ہوا تو دوسری جانب عراق میں صدام حسین کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔

    پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی پاکستان کے 50 ہزارسے زائد شہریوں نے اس جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جبکہ100 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔

    پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں پر حتمی اور فیصلہ کن ضرب لگانے کے لئے پاک فوج کی جانب سے جانب سے آپریشن ضربِ عضب جاری ہے جس کے سبب پاکستانی میں گزشتہ 14 سالوں سے جاری دہشت گردی کی لہراب دم توڑرہی ہے۔

    ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مقام پر امریکہ میں ایک نئی عماعت تعمیر کی گئی ہے جس کا نام ’’ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ رکھا گیا ہے۔