Tag: ANTARCTICA

  • براعظم انٹارکٹیکا میں حکمرانی اور قوانین کس کے چلتے ہیں؟

    براعظم انٹارکٹیکا میں حکمرانی اور قوانین کس کے چلتے ہیں؟

    دنیا کا انتہائی سرد ترین براعظم انٹارکٹیکا اس کرہ ارض کا ساتواں براعظم ہے، جہاں چاروں طرف برف ہی برف ہے، دیگر براعظموں کی نسبت یہاں انسانی آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

    انٹارکٹکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے، جہاں قطب جنوبی واقع ہے۔ جغرافیائی اصطلاح میں اسے منجمد جنوبی بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سرد ترین خشک ترین اور ہوا دار براعظم ہے جبکہ اس کی اوسط بلندی بھی تمام براعظموں سے زیادہ ہے۔

     رپورٹ کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا ایک وسیع اور ناقابلِ رہائش خطہ ہے جس کا رقبہ تقریباً 1.4 کروڑ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے سخت ترین سرد موسم اور مستقل آبادی کی عدم موجودگی کے باوجود اس کو قانون سے بالاتر یا مبرا نہیں سمجھا جاسکتا۔

    یہ منفرد بین الاقوامی ڈھانچے کے تحت ایک منظم علاقہ ہے جو بہت سے مفادات کو متوازن کرتے ہوئے متعدد ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دیتا ہے۔

    سال 1959ء میں 12 ممالک کے درمیان میں معاہدہ انٹارکٹک پر دستخط ہوئے، جس کی بدولت یہاں عسکری سرگرمیاں اور معدنیاتی کان کنی کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔

    فی الحال 54 ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے یہ معاہدہ انٹارکٹیکا کو ایک قدرتی محفوظ علاقہ قرار دیتا ہے۔

    اس کے علاوہ مذکورہ معاہدے میں اس خطے کو سائنسی تحقیق اور براعظم کی ماحولیات کی حفاظت کے کاموں کی حوصلہ افزائی کیلئے مختص کیا گیا تھا۔

    مختلف تحقیقی کام سر انجام دینے کے لیے دنیا بھر سے انٹارکٹکا پہنچنے والے سائنسدانوں کی تعداد ہر سال موسم گرما میں 5ہزار سے زائد ہوجاتی ہے جبکہ موسم سرما میں یہ تعداد کم ہوکر 1ہزار تک رہ جاتی ہے۔

    انٹارکٹکا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے جس کے باعث وہاں کوئی باقاعدہ و مستقل انسانی بستی نہیں۔ صرف سائنسی مقاصد کے لیے وہاں مختلف ممالک کے سائنس دان قیام پذیر ہیں۔

    معاہدے کے تحت انٹارکٹیکا کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا گیا ہے اور وہاں مسلح افواج کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔

    یہ معاہدہ انٹارکٹیکا کے ماحول کی حفاظت اور اس کو فروغ فراہم کرتا ہے، اس کے علاوہ انٹارکٹیکا میں جوہری دھماکے کرنا بھی سختی سے ممنوع ہے۔

    انٹارکٹیکا میں قابل اطلاق قوانین

    اگرچہ انٹارکٹیکا میں کوئی جامع اور قانونی فریم ورک نہیں ہے، اس لیے مختلف بین الاقوامی اور قومی قوانین یہاں نافذ کیے جاتے ہیں۔

    سمندروں کے قانون سے متعلق اقوامِ متحدہ کا کنونشن(یو این سی ایل او ایس) جیسے عمومی اصول نافذ ہیں۔

    چیلنجز اور تنازعات

    علاقائی دعوے : دنیا کے سات ممالک (ارجنٹائن، آسٹریلیا، چلی، فرانس، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور ناروے) نے انٹارکٹیکا میں علاقائی دعوے کیے ہیں جنہیں دیگر ممالک تسلیم نہیں کرتے۔

    وسائل کا استحصال : انٹارکٹیکا کے قدرتی وسائل کے ممکنہ استعمال پر مباحثے جاری ہیں۔

    ماحولیاتی تبدیلی : انٹارکٹیکا کے نازک ماحولیاتی نظام پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بعد لوگوں کی تشویش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    جیسے جیسے براعظم انٹارکٹیکا کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کا معاہدہ نظام امن، سائنسی تحقیق اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے۔

  • روزانہ ہزاروں ڈالر مالیت کے سونے کی بارش، ویڈیو دیکھیں

    روزانہ ہزاروں ڈالر مالیت کے سونے کی بارش، ویڈیو دیکھیں

    انٹارکٹیکا کے آتش فشاں پہاڑ ’ماؤنٹ ایریبس‘ نے سونا اُگلنا شروع کردیا، یومیہ 6ہزار ڈالر مالیت کا سونا ایک ہزار کلومیٹر تک پھیل جاتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا کا بلند ترین آتش فشاں پہاڑ ماؤنٹ ایریبس ہے۔

    Antarctica

    مذکورہ آتش فشاں کا ذکر ان دنوں ایک انتہائی حیران کن اور انوکھی وجہ سے میڈیا میں زیر گردش ہے جس کی بڑی وجہ اس سے نکلنے والی وہ دھول ہے جس میں سونے کی بڑی مقدار موجود ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ماؤنٹ ایریبس براعظم انٹارکٹیکا کا سب سے اونچا فعال آتش فشاں پہاڑ ہے جس کی اونچائی 12 ہزار 448 فٹ ہے۔

    آئی ایف ایل سائنس کے مطابق آتش فشاں سے ہر روز جو سونے کی دھول نکلتی ہے اس کا وزن تقریباً 80گرام تک ہے جس کی مالیت چھ ہزار امریکی ڈالر ہے۔

    نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) ارتھ آبزرویٹری کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ انٹارکٹیکا میں روزانہ سونے کی بارش ہورہی ہے۔

     amazing volcano

    کیا پہاڑ سے نکلنے والا سونا حاصل کیا جاسکتا ہے؟

    انٹارکٹیکا کا ماؤنٹ ایریبس سے سونا نکلنے کی خبر پر کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ کیا وہ یہ سونا اپنے لیے بھی حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر آپ بھی یہی سوچ رہے ہیں تو جان لیں کہ اس سونے کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا کیونکہ اوّل تو اس جگہ پر پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

    اور دوسرا یہ کہ دور دراز مقام ہونے کی وجہ سے اس تک کوئی پہنچ بھی نہیں سکتا، اس لیے سائنسدان اور محققین سیٹلائٹ کی مدد سے اس علاقے کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔

  • انٹارکٹیکا میں بڑا برفانی تودہ 2 دن میں اچانک غائب

    انٹارکٹیکا میں بڑا برفانی تودہ 2 دن میں اچانک غائب

    زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ مختلف خطوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور برفانی خطوں پر بھی اس کے شدید اثرات دکھائی دے رہے ہیں، حال ہی میں انٹارکٹیکا سے ایک بڑا برفانی تودہ پگھل کر سمندر میں شامل ہوگیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انٹار کٹیکا میں اسلام آباد سے بھی بڑے رقبے پر پھیلی آئس شیلف کے ڈرامائی اختتام کا مشاہدہ سیٹلائٹ تصاویر میں کیا گیا ہے۔

    مشرقی انٹار کٹیکا کے ساحل پر کونگر آئس شیلف 15 مارچ کو مکمل طور پر منہدم ہوگئی، اس آئس شیلف کا رقبہ 1200 اسکوائر کلومیٹر تھا اور اگر آپ کو علم نہ ہو تو اسلام آباد کا رقبہ 906 کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔

    ووڈز ہول اوشینو گرافک انسٹی ٹوٹ ناسا کی ماہرین کیتھرین والکر نے سیٹلائٹ تصاویر کو 24 مارچ کو ٹویٹر پر شیئر کیا۔

    اس ٹویٹ میں موجود جی آئی ایف میں دکھایا گیا کہ 14 مارچ سے آئس شیلف غائب ہونا شروع ہوئی اور 16 مارچ کی تصویر میں بالکل غائب ہوگئی۔

    آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے ماہر اینڈریو میکینٹوش نے بتایا کہ کونگر آئس شیلف وہاں موجود تھی اور اچانک غائب ہوگئی۔

    آئس شیٹس اس برطانوی براعظم کے سمندر میں برف کے بہاؤ کو روکے رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں اور اینڈریو میکنٹوش نے بتایا کہ اگر وہ منہدم ہوجائیں تو برف کے بہاؤ کی رفتار بڑھ جائے گی جس کا نتیجہ سمندروں کی سطح میں اضافے کی شکل میں نکلے گا۔

    انٹار کٹیکا کو حال ہی میں غیر معمولی شدید درجہ حرارت کا سامنا ہوا ہے۔

    مشرقی انٹار کٹیکا میں موجود کنکورڈیا اسٹیشن کے مطابق اس خطے میں درجہ حرارت مارچ کے وسط میں منفی 11.8 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو کہ سال کے اس حصے کی اوسط سے 30 ڈگری زیادہ تھا۔

    یہ درجہ حرارت اس خطے میں چلنے والی گرم ہوا کا نتیجہ تھا۔

    یہ جاننا تو بہت مشکل ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اس آئس شیلف کے منہدم ہونے کا باعث بنی مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کونگر کے ارگرد کا ماحول کس حد تک بدل گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا میں میں گرم موسم نے برف کے پگھلنے پر کس حد تک اثر کیا ہے۔

    اس سے قبل جولائی 2017 میں انٹارکٹیکا کے برفانی خطے لارسن سی سے 5800 اسکوائر کلومیٹر بڑا تودہ الگ ہوا تھا جس وزن ایک کھرب ٹن تھا۔

    اس برفانی تودے کے الگ ہونے سے کئی سال پہلے ہی ایک بہت بڑی دراڑ نمودار ہونے لگی تھی مگر مئی 2017 کے آخر میں یہ دراڑ 17 کلو میٹر تک پھیل گئی تھی جبکہ جون کے آخر میں اس کی رفتار تیز ہوگئی اور روزانہ دس میٹر سے زائد تک پہنچ گئی تھی۔

    سائنسدانوں کے پاس انٹارکٹیکا میں موسم کی صورتحال کے حوالے سے مستقبل کی معلومات موجود نہیں جس نے انہیں زیادہ فکر مند کیا ہوا ہے۔

    کمپیوٹر کی پیشگوئی سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر اسی شرح سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج جاری رہا تو دنیا بھر کا موسم زیادہ گرم ہوگا جس کے نتیجے میں برفانی براعظم کے مختلف حصے تیزی سے پگھل جائیں گے جس سے اس صدی کے آخر تک سمندری سطح میں چھ فٹ یا اس سے زائد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق کسی تحقیق کے نتائج سامنے آنے میں کئی برس لگ جائیں گے مگر سمندری سطح کی رفتار بڑھنے کے حوالے سے فوری تفصیلات جاننا ضروری ہے۔

    ابھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ انٹارکٹیکا کے مختلف حصے کب تک پگھل کر سمندر کا حصہ بن جائیں گے مگر کچھ بدترین پیشگوئیاں یہ ہیں کہ ایسا رواں صدی کے وسط میں ہوسکتا ہے۔

  • ایسا گاؤں جہاں جانے کیلئے اپنڈکس کا آپریشن کرانا ضروری، لیکن کیوں؟؟

    ایسا گاؤں جہاں جانے کیلئے اپنڈکس کا آپریشن کرانا ضروری، لیکن کیوں؟؟

    دنیا کے سب سے سرد مقام بر اعظم انٹارکٹیکا میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے کہ جہاں رہنے یا سیر کرنے یا کیلئے یہ شرط عائد ہے کہ آپ کو اپنا اپینڈکس نکالنا پڑتا ہے اس کے بغیر آپ وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔

    انٹارکٹیکا میں ایک بستی ہے جس میں ایک اسکول ، ایک پوسٹ آفس اور متعدد مکانات ہیں۔ یہ علاقہ دوسرے دیہات کی طرح ہی ہے لیکن صرف ایک فر ق ہے وہ یہ کہ کسی بھی شخص کو اس علاقے کے اندر جانے کے لئے اپنڈکس کی سرجری ضرور کروانی ہوگی۔

    لاس اسٹرالز انٹارکٹیکا کا وہ علاقہ ہے جہاں کا درجہ حرارت منفی 60تک بھی پہنچ جاتا ہے، اس علاقے میں جانا بھی انتہائی دشوار ہے، اس کے لیے سمندر میں600میل کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔

    اس راستے میں ہوا اور برف کے اتنے شدید اور خطرناک طوفان آتے ہیں کہ جان تک خطرے میں پڑجاتی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں جانے کیلئے یہ کڑی شرط ہے کہ آپ کو اپنا اپنڈکس نکلوانا پڑے گا۔

    گاؤں میں داخلے لیے اتنی کڑی شرط لگانے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں سے سینکڑوں میل دور تک کسی مریض کیلئے کوئی اسپتال یا فرسٹ ایڈ دینے کیلئے بھی کوئی طبی مرکز ہی نہیں ہے۔ لہٰذا وہاں جانے کیلئے اپنڈکس نکلوانا لازمی امر ہے۔

  • کورونا وائرس نے دنیا کا آخری کونہ بھی نہ چھوڑا

    کورونا وائرس نے دنیا کا آخری کونہ بھی نہ چھوڑا

    سنتیاگو : پوری دنیا کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لینے والی جان لیوا وبا کورونا وائرس نے اس محفوظ ترین مقام کو بھی نہ چھوڑا جو اب تک اس کی پہنچ سے دور تھا۔

    جان لیوا کورونا وائرس دنیا کے اس آخری براعظم تک بھی پہنچ گیا ہے جو اب تک اس وبائی مرض سے محفوظ تھا، براعظم انٹار کٹیکا میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا مگر اب وہاں لاطینی امریکی ملک چلی کے تحقیقی مرکز میں اولین کووڈ کیسز سامنے آئے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چلی ریسرچ بیس میں چلی کی فوج کے 26 افراد اور دیگر عملے کے 10 افراد میں کوویڈ19 کی تشخیص ہوئی ہے۔ جنرل برنارڈو او ہیگینس ریکیولم ریسرچ بیس میں ان کیسز کی رپورٹ 21 دسمبر کو سامنے آئی۔

    اس حوالے سے چلی کی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بروقت احتیاطی کارروائی سے ان افراد میں کوویڈ 19کی تشخیص ہوئی۔

    رپورٹ کے مطابق تحقیقی مرکز کو معاونت فراہم کرنے والے ایک بحری جہاز کے عملے کے 3 افراد میں بھی انٹار کٹیکا کے مشن سے واپسی پر کوویڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

    انٹارکٹیکا میں جن 36 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی انہیں چلی کے شہر پونتا آریناس منتقل کیا جاچکا ہے جہاں وہ قرنطینہ میں ہیں اور ان کی حالت مستحکم ہے۔

    غیر ملکی ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹار کٹیکا کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام اہم تحقیقی منصوبوں کو روکا جاچکا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے سائنسدانوں کا کام متاثر ہوا ہے۔

  • گلیشیئر کا بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ  ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    گلیشیئر کا بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    انٹارکٹیکا: پائن آئی لینڈگلیشیئر سے ایک اور ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہوگیا ہے، یہ برفانی تودہ تین سو کلومیٹر وسیع رقبے پر پھیلاہواتھا، عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہے صدی کےاختتام تک سمندرکی سطح میں تین میٹر یادس فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت ماحولیات کے حوالے سے دنیا بھر کیلئے پریشانی کا سبب بن رہا ہے، انٹارکٹیکا میں پائن آئی لینڈگلیشیئر کا وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ایک اور ٹکڑا ٹوٹ کرالگ ہوگیا۔

    یورپین اسپیس ایجنسی کی جاری کردہ سٹیلائٹ تصاویر میں پائن آئن لینڈ گلیشئیرسےایک بڑے ٹکڑے کو ٹوٹتےہوئےدیکھا جاسکتاہے۔

    ای ایس اے کی سوشل میڈیا پر جاری کردہ رپورٹ کہ مطابق یہ برفانی تودہ تین سو کلومیٹر وسیع رقبے پر پھیلاہوا تھا، جو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔

    عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہےکہ انٹارکٹیکا میں درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہاہے،صدی کےاختتام تک سمندرکی سطح میں تین میٹر یادس فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل ماہرین کا کہنا تھا دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ انٹارکٹیکا سے علیحدہ ہونے کے بعد بحر ہند کی جانب روانہ ہوگیا ہے، جس کا رقبہ برطانوی دارالحکومت لندن سے بھی چار گناہ بڑا ہے۔

    مزید پڑھیں : دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ بحر ہند کی طرف روانہ! کیا تباہی لائے گا؟

    ماہرین کے مطابق برفانی تودہ جسے اے 68 کہا جاتا ہے، اس کا رقبہ 2300 مربع میل (6 ہزار کلومیٹر) ہے اور ایک کھرب ٹن وزنی ہے، جو انٹارکٹیکا سے 2017 میں ٹوٹ کر علیحدہ ہوا تھا اور اب مستقل شمال کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آئس برگ اے 68 جیسے ہی کھلے سمندر میں آئے گا پانی کے تیز بہاؤ کے باعث کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔

    خیال رہے پانی اور ہوا کا درجہ حرارت انٹارکٹیکا اور گرین لینڈ کے ساحل پر عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے اور گلوبل وارمننگ کا بھی سبب ہے جس کی وجہ سے برف بگھلنے میں تیزی آرہی ہے۔

    واضح رہے 2017 میں براعظم انٹارکٹیکا میں 6 ہزار مربع کلومیٹر برفانی تودہ شگاف پڑ جانے کے باعث ٹوٹ کر خطے سے علیحدہ ہوگیا تھا ، یونیورسٹی آف سوائنسے کے سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے برفانی تودہ خطے سے الگ ہوا ہے اور گزشتہ 30 برسوں میں ٹوٹنے والا یہ برف کا سب سے بڑا تودہ ہے۔

    ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ انتہائی بڑا تودہ ہے اور اس کو پگھلنے کے لیے بھی کم از کم دو سے تین برس لگ سکتے ہیں تاہم اس کی نگرانی ضروری ہے۔

  • پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ ظفر وہ پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں جو قطب شمالی پر کیے جانے والے ایک ریسرچ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں۔

    ڈاکٹر طیبہ ماہر فلکیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہوم وارڈ باؤنڈ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں جس کے تحت انہیں 3 ہفتے انٹارکٹیکا میں گزارنے تھے۔

    اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینیئرنگ اور طب کے شعبے سے منسلک دنیا بھر کی خواتین کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات میں اضافہ کرنا تھا۔ 26 ممالک سے تعلق رکھنے والی 80 خواتین کی ٹیم میں وہ واحد پاکستانی خاتون تھیں۔

    اپنے پروگرام کے دوران انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے پینگوئن کی کالونیاں، وہیل اور گلیشیئرز کا بھی مشاہدہ کیا جبکہ برف پر کشتی کا سفر بھی کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا جس نے ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی لگن میں اضافہ کیا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انٹارکٹیکا میں قیام کے دوران ہم بیمار بھی ہوئے، ’چونکہ ہم اس ماحول کے عادی نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس سے مطابقت کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی‘۔

    ڈاکٹر طیبہ فزکس میں ماسٹرز کرچکی ہیں جبکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ سنہ 2007 میں انہیں کوپن ہیگن نیل بوہر انسٹیٹیوٹ کے ڈارک کوسمولوجی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے فلکیات کا شوق تھا تاہم اسکول میں اس سے متعلق کوئی مضمون نہیں تھا، انہوں نے فلکیات اور ستارہ شناسی کے بارے میں بے شمار کتابیں خرید کر اپنے علم میں اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ ملک میں سائنس کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد نہایت کم ہے اور فلکیات میں تو بالکل نہیں، ’یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ثقافتی و سماجی پابندیاں ان کے آڑے آجاتی ہیں‘۔

    خود انہیں بھی اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملی تھی۔

    ڈاکٹر طیبہ کا عزم ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کریں تاکہ اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں۔

  • دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟ یہ سوال سن کر شاید آپ کے ذہن میں افریقہ کے صحرائے صحارا کا تصور آجاتا ہو، یا پھر چین کے صحرائے گوبی کا، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران مقام آجاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔ جی ہاں، ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ صحرا صرف گرم ہی ہو، صحرا جیسے حالات رکھنے والا ہر علاقہ اس کیٹگری میں آتا ہے اور انٹارکٹیکا بھی برف کا صحرا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر صحراؤں کی طرح یہاں بھی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔

    یہ برفانی صحرا 54 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے برعکس صحرائے صحارا کا رقبہ 35 لاکھ اسکوائر میل ہے۔ انٹارکٹیکا زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے جبکہ صحارا دنیا کا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔

  • انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے والی باہمت خواتین

    انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے والی باہمت خواتین

    برطانوی فوج سے تعلق رکھنے والی 6 خواتین دنیا کی وہ پہلی خواتین کی ٹیم بن گئی ہیں جنہوں نے برفانی خطے انٹارکٹیکا کو پیدل سفر کر کے عبور کیا۔

    یہ ٹیم برطانوی فوج کی 2 ڈاکٹرز نے کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی ایک تحقیق  کو غلط ثابت کرنے لیے تشکیل دی تھی، تحقیق میں کہا گیا تھا کہ خواتین کا جسم مردوں کے مقابلے میں سخت محنت اور حالات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

     برطانوی ڈاکٹرز نے اسی تحقیق کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ اسیکنگ ٹیم تشکیل دی جس کے ذمہ انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے کا ٹاسک لگایا گیا تھا۔

    ٹیسٹ کے لیے آنے والی برطانوی فوج کی 250 خواتین سپاہیوں میں سے 6 کا انتخاب کیا گیا۔ تمام تیاریوں کے بعد اس ٹیم نے اپنے سامان کے ساتھ انٹارکٹیکا کا سفر شروع کیا۔

    ٹیم ممبران کا کہنا تھا کہ سفر کے آغاز میں ہلکی سی ہوا تھی، تاہم صرف ایک گھنٹے بعد ہی ان کا سامنا انٹارکٹیکا کی 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی برفانی کاٹ دار ہوا سے تھا، جس کا مقابلہ کرنا بہت سے جاندار مردوں کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔

    ان خواتین نے 62 دن میں پیدل سفر اوراسکینگ کرتے ہوئےانٹارکٹیکا کے  ایک ہزار 56 میل کے رقبے کو عبور کیا۔ اس دوران یہ تیز سرد ہواؤں اور منفی درجہ حرارت سے لڑتی رہیں۔

    ٹیم کی ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہاں ہوا اس قدر طوفانی تھی کہ کیمپ لگاتے ہوئے 4 اراکین ٹینٹ کو پکڑے رکھتیں، بقیہ 2 زمین پر اسے نصب کرتیں تب کہیں جا کر کیمپ لگتا۔

    اس دوران ٹیم کو محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم سے متعلق ای میلز بھی موصول ہوتی رہیں۔

    ان باحوصلہ خواتین نے مقرر کیے گئے وقت سے قبل ہی فنشنگ لائن عبور کرلی اور یوں یہ انٹارکٹیکا کو عبور کرنے والی خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم بن گئیں۔

  • قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    قطب جنوبی میں اربوں ٹن برف پگھلنے کا عمل جاری

    دنیا بھر میں رونما ہوتے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج نے جہاں بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں وہیں قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں بھی برف پگھلنے کی رفتار 6 گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف سنہ 1979 سے 2017 تک نہایت تیزی سے پگھلی ہے، اس عرصے میں پگھل جانے والی برف اس سے قبل پگھلنے والی برف سے 6 گنا زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 1979 سے 1990 تک انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی مقدار سالانہ 40 ارب ٹن رہی۔

    سنہ 1990 کے بعد سے اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور اب انٹارکٹیکا میں سالانہ 250 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے۔ ان اعداد و شمار کے لیے سائنسدانوں نے سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا۔

    مزید پڑھیں: آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    اس سے قبل ایک اور تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔