Tag: Anti Corona Vaccine

  • کورونا ویکسین : دبئی میں ریستوران مالک کی انوکھی پیشکش

    کورونا ویکسین : دبئی میں ریستوران مالک کی انوکھی پیشکش

    دبئی: ایک ریسٹورنٹ کے مالک نے ایسے لوگوں کو مفت کافی پلانے کی انوکھی پیشکش کی ہے جنہوں نے کورونا ویکسین لگوالی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ایک سرمایہ کارعلی خان نے جو کیفے ریسٹریٹو چین کے مالک ہیں کورونا ویکسین لینے والوں کو مفت کافی کی پیشکش کی ہے۔

    غیر ملکی خبر برساں ادارے کے مطابق علی خان کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش ایک ماہ کے لیے ہے اور اس کا مقصد معاشرے میں کورونا ویکسین کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے علی خان کی اس پیشکش پر غیرمعمولی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

    علی خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پیشکش ہے کہ اگر آپ نے کورونا ویکسین لے لی تو ہمارے یہاں سے مفت کافی نوش کریں اب تک روزانہ 80 افراد اس پیشکش سے لطف اٹھاچکے ہیں۔

    اس سے قبل بھی علی خان لاک ڈاؤن کے موقع پر دبئی کے راشد اسپتال میں اسپیشل کافی ہاؤس قائم کرچکے ہیں جہاں چار ماہ تک پولیس اہلکاروں، شہری دفاع کے اہلکاروں، ڈاکٹروں اور نرسوں کو مفت کافی پیش کی جاتی رہی ہے۔ علی خان اپنے کافی ہاؤس کی شاخیں بھارت اور مصر میں بھی قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق اس کے علاوہ دبئی کے کئی اور ریستوران بھی کورونا ویکسین لگوانے والے صارفین کے لیے رعایتی پیشکشیں کررہے ہیں۔

    کورونا ویکسین کی پہلی خوراک لینے والوں کو ڈنر کے لیے دس اور دوسری خوراک لینے والوں کو بیس فیصد رعایت کی پیشکش کی جارہی ہے۔

    اس پشکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے کورونا ویکسین لگوانے کا ثبوت جیسے میڈ یکل سرٹیفکیٹ دکھانا ضروری ہے۔

     

  • کورونا ویکسین کا اہم جزو کیا ہے اور کیسا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    کورونا ویکسین کا اہم جزو کیا ہے اور کیسا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    نیویارک : فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی اس ویکسین کا اہم جزو میسنجر آر این اے ہے جسے ایک ننھے سے بلبلے میں مقید کیا گیا ہے، یہ بلبلہ فیٹی ایسڈ سے تیار کردہ ہے جسے نینو پارٹیکل کہا جاتا ہے۔

    گزشتہ دنوں فائزر اس کی پارٹنر جرمن کمپنی بایو این ٹیک اور موڈرنا نامی امریکی کمپنی بالآخر اپنی اپنی ایجاد کردہ ویکسین دنیا کے سامنے لے آئے۔

    دنیا بھر میں ڈرگ اتھارٹیز نے ان ویکسینز کو منظور کر لیا ہے، جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او اور امریکی ادارہ ایف ڈی اے بھی شامل ہیں۔

    اسی دوران چین کی ایک کمپنی بھی اپنی ویکسین ایجاد کرنے کا دعویٰ کرچکی ہے مگر ابھی وہ کلینیکل ٹرائلز کے مراحل میں ہے۔ سائنسی اور طبی نقطۂ نظر سے اولین دو ویکسینز کس طرح زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی اور ان ویکسینز کا میکنزم یا طریقۂ عمل کیا ہے۔

    ویکسینز کا میکنزم یا طریقۂ عمل

    یہ عام ویکسینز نہیں ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کے ایک بالکل نئی قسم کی ویکسینز ہیں۔ جنہیں عرفِ عام میں ہم میسنجر آر این اے ویکسینز کہہ سکتے ہیں، اب تک استعمال میں آنے والے ویکسینز کا طریقۂ عمل تقریباً سبھی جانتے ہیں۔ بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ غیر مؤثر کئے گئے، میسنجر آر این اے انسانی جسم میں داخل کئے جاتے ہیں تاکہ جسم میں موجود قوت ِمدافعت کو متحرک کرکے ان کے خلاف لڑائی میں استعمال کئے جائیں۔

    یہ انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ زیادہ درجۂ حرارت یا کیمیائی عمل کے ذریعے غیر مؤثر بنا دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے جسم میں موجود قوت ِمدافعت انہیں بیرونی حملہ آور سمجھتے ہوئے ان کے خلاف عمل پذیر ہوتا ہے اور اس کی مدافعت کے لیے اینٹی باڈیز بناتا ہے جو ایک طرح سے اس مخصوص وائرس کے خلاف انسانی جسم کا ہتھیار ہوتا ہے۔

    اس لڑائی سے ان کی میموری میں یہ بیرونی اجسام اس طرح محفوظ ہوجاتے ہیں کہ جونہی اصل بیماری کا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے، اینٹی باڈیز اسے پہچان کر حرکت میں آتے ہیں اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے قبل ہی اس وائرس کو ختم کر دیتے ہیں لیکن اس قسم کی روایتی ویکسینز کی تیاری ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزر کر ہی ممکن ہوتی ہے اور فارماسوٹیکل انڈسٹریز کو ان کی بڑے پیمانے پر تیاری میں بہت سے دوسرے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    سائنسدان اس میدان میں پہلے ہی ڈی این اے کے ذریعے ویکسینز کی تیاری میں کامیابی حاصل کرچکے تھے اور مزید کام کر رہے تھے۔ فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی ویکسینز اسی عمل کے ذریعے تیار کی گئی ہیں جنہیں ہم میسنجر آر این اے ویکسینز کہتے ہیں۔

    نئی تیکنیک کے ذریعے جو ویکسینز تیار کئے گئے ہیں ان میں بیماری سے متعلق انسانی جسم میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ خود انسانی جسم اور خلیوں کے اندر ان اینٹی جینز کو بنا کر بیماری کے خلاف مدافعت تیار کی گئی ہے۔ اس پورے عمل کو سمجھنے کے لیے پہلے انسانی جسم اور اس میں موجود خلیاتی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    انسانی جسم کے اندر موجود خلیوں کی اساس ڈی این اے ہے۔ ڈی این اے دراصل وہ مالیکیول ہے، جس کی اندر انسان کی تمام تر جینیاتی خصوصیات محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کے اندر وہ تمام اطلاعات موجود ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر یہ آگے خلیوں کو پروٹینز کی تعمیر کے لیے پیغام بھیجتا ہے اور یوں انسانی خلیئے ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پروٹین کے بڑے مالیکیولز کی تعمیر کرتے ہیں۔

    ڈی این اے سے ان پیغامات کو آگے خلیوں تک پہنچانے کے لیے ایک اور مالیکیول کی ضرورت ہوتی ہے جسے میسنجر آر این اے کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہییے کہ اینٹی جینز جنہیں ویکسین کی شکل میں انسانی جسم میں وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کی غرض سے داخل کیا جاتا ہے دراصل پروٹین ہی ہوتی ہیں جو وائرس کے سیل وال یا خلیاتی دیوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    ڈی این اے کی جینیاتی ترتیب کو سائنسی تحقیقات کے ذریعے بہت پہلے ہی ڈی کوڈ کرلیا گیا ہے اور اب یہ جاننا کوئی اسرار نہیں کہ جسم میں داخل کئے گئے اینٹی جینز کی جینیاتی ترتیب کون سے کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہے۔ اب اصل ویکسین کی تیاری کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

    کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سائنسدانوں نے پہلے ہی ڈی کوڈ کرلیا تھا۔ ڈیکوڈنگ کرنے کے بعد سیل کے اندر اس کی تعمیر کے لیے اس مخصوص کیمیائی ترتیب پر مشتمل میسنجر آر این اے کو لیباریٹری میں تیار کیا گیا اور پھر اس میسنجر آر این اے کو جسم میں ویکسین کی طرح داخل کیا گیا۔

    یہ باہر سے ہدایات لے کرآتا ہے اور براہ راست انسانی مسلز کے اندر اس کے سیل تک پہنچ کر کورونا وائرس کے مساوی اینٹی جنز کی تعمیر کی ہدایات پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا جب یہ اینٹی جینز تیار ہوئے تو انہوں نے جسم کے مدافعتی نظام کو تحریک دی ،جس سے یہ نظام ان اینٹی جینز پر حملہ آور ہوکر ان کی شکل اپنے میموری میں محفوظ کرلیتا ہے اور جونہی اصل وائرس کے مقابل آتا ہے اسے زیر کرنے میں دیر نہیں کرتا۔

    ڈی این اے بیسڈ ویکسینز پہلے تیار کئے جاچکے ہیں لیکن ایم آر این اے بیسڈ ویکسینز اس لحاظ سے مزید فائدہ مند ثابت ہوں گے کہ یہاں جسم میں موجود ڈی این اے کو چھیڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔

    یا یوں کہیں کہ بجائے ڈی این اے کو ایک نئی ترکیب بنا کر ایم آر این اے کے ذریعے آگے پہچانے کا کام دینے کے بجائے باہر سے براہ راست تیار کردہ ایم آر این اے کو وہی پیغامات اور ہدایات فراہم کردی گئیں جو وہ اصل میں ڈی این اے سے حاصل کرتا اور خلیئے تک لے کر جاتا ہے۔

    یہ طر یقہ زیادہ محفوظ ثابت ہوا جس میں انسانی جسم کے اندرونی نظام کے ساتھ کم سے کم چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ۔اس بات سے دنیا میں پھیلے اس افواہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانوں کے ڈی این اے میں اپنی مرضی کے مطابق ترامیم کی جا سکتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔

    ویکسین کا اہم جزو کیا ہے ؟

    فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی اس ویکسین کا اہم جزو میسنجر آر این اے ہے جسے ایک ننھے سے بلبلے میں مقید کیا گیا ہے۔ یہ بلبلہ فیٹی ایسڈ سے تیار کردہ ہے جسے نینو پارٹیکل کہا جاتا ہے۔ یہ بلبلے اس محلول میں معلق ہوتے ہیں جو دراصل سلائن ہوتا ہے۔ یہ سلائن مریض کے جسم میں ایسے ہی داخل کیا جاتا ہے جو کسی بھی مریض کو کمزوری دور کرنے کی خاطر ڈرپ کے ذریعے عام طور پردیا جاتا ہے۔

    اس ویکسین کی افادیت اور اس کا اثر کتنا طویل ہو سکتا ہے ابھی کمپنیاں اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فی الحال چھ ماہ کا اثر بھی قابل قبول ہوگا، تاہم موڈرنا کے سی ای او کا کہنا ہے کہ یہ اثر کئی سال بھی رہ سکتا ہے۔

    وبا میں مبتلا دنیا کے لیے اس وقت یہی بڑی خبر ہے کہ نئے ویکسین کا نتیجہ90 فی صد سے زیادہ ہے۔ خطرناک وبا سے خوفزدہ انسانیت کے لیے یہ کچھ دیر دم لینے کا وقت ہے، اگر یہ ویکسین چار سے چھ ماہ کے لیے بھی مؤثر رہتی ہے تو کم از کم اس وقت تک کے لیے جب تک مزید تحقیقات اور ترقیاتی کام جاری رہے اور لوگ خوف و ہراس کے ماحول سے باہر آ سکیں گے۔

    جہاں تک اس طریقۂ علاج اور ویکسین کے میکنزم کا تعلق ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اثر طویل المعیاد ہی ہوگا اور اس دوران ہونے والی مزید پیش رفت کورونا وائرس کی کسی بھی قسم کی واپسی اور دوبارہ سر اُٹھانے کے امکان کو یکسر نہیں تو بہت حد تک ختم کرچکی ہوگی۔

    خوشی آئند بات یہ ہے کہ اس دوران پاکستان میں ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم بھی صحت یاب ہوجانے والے مریضوں سے حاصل کئے گئے پلازمہ کی مدد سے ویکسین کی تیاری کا کام کر رہی ہے۔

    نیز چینی فارماسیوٹیکل کمپنی کے اشتراک سے بننے والی ویکسین بھی تب تک کلینیکل ٹرائلز سے آگے بڑھ کر ہیلتھ ریگولیٹرز کی منظوری حاصل کر چکی ہوگی۔

    ان تمام اقدام کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کرنا بے جا نہ ہوگا کہ سال 2021ءکے اوائل میں دنیا کووِیڈ19 کے خوف سے کچھ نہ کچھ حد تک نجات حاصل کرلے گی۔

  • کورونا ویکسین سے متعلق امریکی دوا ساز کمپنی نے بڑا دعویٰ کردیا

    کورونا ویکسین سے متعلق امریکی دوا ساز کمپنی نے بڑا دعویٰ کردیا

    کیمبرج : کورونا ویکسین بنانے والی امریکی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی ویکسین کورونا کی نئی قسم کیخلاف بھی موثر ثابت ہوگی، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

    یہ بات امریکی دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک کے سی ای او اُور ساہن نے اپنے ایک بیان میں کہی، غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بائیو این ٹیک کے سی ای او نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے زیادہ آبادی کو ویکسین لگانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

    مغربی میڈیا کے مطابق اُور ساہن کا کہنا تھا کہ کورونا کی نئی قسم کی وجہ سے وسیع تر مدافعاتی عمل کا حصول بھی مزید وقت طلب ہو سکتا ہے۔ بائیو این ٹیک کے سی ای او نے سائنسی اعتماد ظاہر کیا کہ فائزر بائیو این ٹیک کی موجودہ ویکسین کورونا کی نئی قسم کے خلاف مؤثر رہے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کی نئی قسم میں 9 ڈی این اے تبدیلیاں ہیں لیکن ویکسین میں 1270 امائینو ایسڈ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ویکسین کی لحمیاتی ترکیب 99 فیصد برقرار ہے۔

  • یورپی یونین نے کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا

    یورپی یونین نے کورونا ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا

    ویکسین لگانے کے انتظامات پہلے ہی کئی ملکوں نے ترتیب دے رکھے ہیں

    برسلز : یورپی یونین نے امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے، یورپین میڈیسنز ایجنسی کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ یہ نئے متغیر وائرس کیخلاف بھی مؤثر ثابت ہوگی۔

    یورپی کمیشن کے دواؤں کے ریگولیٹرز نے بائیو این ٹیک اور فائزر ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی ہے اس منظوری کے بعد رواں برس کے اختتام پر ویکسین لگانی شروع کر دی جائے گی۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی میڈیسین ایجنسی اور یورپی کمیشن نے فائزر بائیو این ٹیک کی تیار کردہ انسداد کورونا وائرس کی ویکسین کے استعمال کی باضابطہ منظوری گشتہ روز21 دسمبر کو دی۔

    اس منظوری کے بعد براعظم یورپ کے چار سو ملین افراد کے لیے ویکسین لگانے کا وسیع پروگرام شروع ہو سکے گا۔ ویکسین لگانے کے انتظامات پہلے ہی کئی ملکوں نے ترتیب دے رکھے ہیں جن میں خاص طور پر جرمنی اور اسپین نمایاں ہیں۔

    یورپی یونین میں یہ پہلی کووِڈ 19 ویکسین ہے جس کی منظوری دے گئی ہے۔ یہ ویکسین برطانیہ اور امریکہ میں پہلے ہی لگائی جا رہی ہے۔ یورپی کمیشن کے حکام نے کہا ہے کہ پوری یورپی یونین میں آئندہ اتوار اور منگل کے روز کے درمیان کسی وقت اسے لگانا شروع کر دیا جائے گا۔

    یورپی یونین میں ادویات کے نگران ادارے، یورپین میڈیسنز ایجنسی نے مذکورہ ویکسین فراہم کرنے کا مشروط اجازت نامہ قبل ازیں پیر کے روز جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ویکسین کے فوائد خطرات سے زیادہ ہیں۔ اس کے بعد یورپین کمیشن نے تیزی کے ساتھ حتمی منظوری دے دی۔

    مذکورہ ایجنسی کے ایک عہدیدار نے ایک اخباری کانفرنس میں برطانیہ جیسے ملکوں میں پائی گئی کورونا وائرس کی نئی متغیر قسم کا ذکر کیا۔

    اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے عندیہ ملتا ہو کہ یہ ویکسین وائرس کی نئی متغیر قسم کے خلاف کام نہیں کرے گی۔

  • کورونا ویکسین وبا پر کتنا قابو پاسکتی ہے؟َ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    کورونا ویکسین وبا پر کتنا قابو پاسکتی ہے؟َ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    جینیوا : عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ کورونا ویکسین کوئی چاندی کی گولی نہیں جو وبائی بیماری کا خاتمہ کر دے گی، ہمیں بدترین صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

    سوئٹزرلینڈ کے جینیوا میں واقع عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک اعلی عہدیدار نے کوویڈ 19 وبا کے درمیان زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کورونا ویکسین سے زیادہ امید نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مغربی بحر الکاہل میں واقع عالمی ادارہ صحت کے علاقائی دفتر کے ریجنل ڈائریکٹر تاکیشی کسائی نے کہا ہے کہ جو بھی تم ہو، جہاں بھی ہو، جب تک کورونا وائرس موجود ہے، ہم سب کو خطرہ لاحق ہے اور ہمیں بدترین صورتحال کے لیے تیاری کرتے رہنا چاہئے۔

    کسائی نے 40 برس سے کم عمر نوجوانوں اور معاشرتی طور پر سرگرم لوگوں سے اپیل کی ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود اپنے اور اپنے آس پاس کے ہر فرد کو انفیکشن سے بچنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو۔

    اعلی عہدیدار نے کہا کہ ‘صحت کے حکام کے مشورے پر عمل کرکے آپ اپنے معاشرے کے لوگوں کی زندگیوں کی تحفظ کر سکتے ہیں اور سال 2021 میں اپنے معاشرے کی معاشیات کی بحالی کے لیے حصہ بن سکتے ہیں۔

    تاکیشی کسائی نے مزید کہا کہ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جن کو کورونا وائرس سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

    انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ ڈاکٹروں اور کارکنان کے بارے میں سوچیں جو تقریباً ایک برس سے مریضوں کے علاج کیلیے دن رات کام کررہے ہیں جو اب کام کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔

    ریجنل ڈائریکٹر نے کہا کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کوئی چاندی کی گولی نہیں ہیں جو مستقبل قریب میں وبائی بیماری کا خاتمہ کر دے گی۔

    ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین تیار کرنا ایک الگ چیز ہے لیکن اس کو مناسب مقدار میں پیدا کرنا اور اس کی ضرورت ہر ایک مریض تک پہنچنا ایک اور بات ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہاتھوں کو بار بار دھونا، ماسک پہننا، سماجی دوری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن کا خطرہ زیادہ ہونے والی جگہوں سے گریز کرنا چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ہمیں انفرادی طور پر لازمی احتیاط کرتے رہنا چاہئیے جس سے وائرس کی منتقلی میں کمی آئے گی، اپنے اہل خانہ اور اپنی برادریوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ایسا کرنے سے ہم امید کے ساتھ 2021 میں جاسکتے ہیں۔

  • کورونا ویکسین کتنی کارآمد ہے؟ امریکہ نے آزمائشی نتائج کی تفصیل جاری کردی

    کورونا ویکسین کتنی کارآمد ہے؟ امریکہ نے آزمائشی نتائج کی تفصیل جاری کردی

    نیو ہمپشائر : امریکی ادارے ایف ڈی اے نے کورونا ویکسین کے آزمائشی نتائج کے بارے میں کہا ہے کہ مذکورہ ویکسین مریضوں کیلئے94فیصد سے زائد مؤثر ہے، ویکسین کی تیس ہزار سے زائد افراد پر تحقیق کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ کے خوراک اور دواؤں کے انتظامی ادارے ایف ڈی اے نے امریکی دوا ساز کمپنی موڈرنا کی تیار کردہ کورونا ویکسین کے آزمائشی نتائج کا تفصیلی تجزیہ جاری کیا ہے۔

    ایف ڈی اے کے مطابق تجزیے میں تحفظ سے متعلق ایسے کوئی خاص خدشات نہیں پائے گئے جو ای یُو اے یعنی ہنگامی استعمال کی منظوری کے اجراء میں رکاوٹ ہوں۔

    گزشتہ روز ایف ڈی اے کی جاری کردہ دستاویز میں ویکسین کا جائزہ تقریباً 30 ہزار افراد پر آزمائش کے نتائج کے حوالے سے لیا گیا ہے، موڈرنا نے گزشتہ ماہ ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دی تھی۔

    دستاویز کے مطابق ویکسین کی دوسری خوراک کے کم از کم دو ہفتے بعد ویکسین بحیثیت مجموعی 94.1 فیصد مؤثر پائی گئی۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی تاثیر عمر کے لحاظ سے مختلف ہے۔

    آزمائشی تحقیق کے مطابق18 سے64 سال تک کے مریضوں میں اس کی افادیت95.6 فیصد تھی جبکہ65 سال یا اس سے زائد عمر کے مریضوں کے لیے یہ84.4 فیصد مؤثر پائی گئی۔

    یاد رہے کہ ویکسین پر مزید بحث و مباحثے کے لیے ایف ڈی اے کے ایک مشاورتی پینل کا اجلاس جمعرات کے روز ہوگا،توقع ہے کہ ایف ڈی اے اس پینل کی سفارشات کی بنیاد پر ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دینے یا نہ دینے کا جلد فیصلہ کرے گی۔

  • کویت میں کورونا ویکیسن کب آئے گی؟ عوام کیلئے خوشخبری

    کویت میں کورونا ویکیسن کب آئے گی؟ عوام کیلئے خوشخبری

    کویت سٹی : ملک میں کورونا ویکسین کی آمد سے متعلق کویتی عوام کو خوشخبری مل گئی، مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین دس روز تک آجائے گی۔

    اس حوالے سے کویتی ذرائع ابلاغ میں کہا گیا ہے کہ وزارت صحت نے گزشتہ روز کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے امریکی کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ ویکسین کے استعمال کرنے کے لائسنس کا اعلان کیا ہے۔

    اس حوالے سے ایک اخبار کے مصدقہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا ویکسین کو ملک میں آنے میں صرف دس دن اور لگیں گے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ رواں ماہ دسمبر کے آخری ہفتے تک ویکیسین پہنچ جائے گی۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ وزارت صحت ویکسین کی آمد پر حفاظتی ٹیکوں کے مراکز کو لیس کرنے اور اس کو ذخیرہ کرنے کے محفوظ کرنے کے طریقہ کار کو مکمل کرنے پر بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسینیشن کے یقیناً کچھ مضر اثرات بھی مرتب ہوں گے تاہم کسی بھی ویکسین میں ایسے تضادات پائے جاتے ہیں جو دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف ڈاکٹروں اور مشیروں کا کہنا ہے کہ کورونا ویکیسینیشن کروانے میں کچھ بنیادی رکاوٹوں کا تعلق ادویات کے استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء کی حساسیت سے ہے۔

    واضح رہے کہ کویت میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد میں کمی آئی ہے، انڈیکس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین روز میں کیسوں میں دوسری بار ریکارڈ کمی دیکھی گئی جو پچھلے سات ماہ کی سب سے کم ترین سطح ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا ویکسین لگوانے سے انکار کردیا

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا ویکسین لگوانے سے انکار کردیا

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ فی الحال ان کا کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین انجکشن لگوانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ وہائٹ ​​ہاؤس میں کام کرنے والوں کو جب تک خاص طور سے ضروری نہ ہو تو کچھ عرصے بعد انجکشن لگوانا چاہئیے۔

    انہوں نے کہا کہ میں نے یہ ایڈجسٹمنٹ کرنے کو کہا ہے تاہم فی الحال میرا ویکسین لگوانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن میں منتظر ہوں کہ مناسب وقت پر ویکسین لگواؤں گا۔

    واضح رہے کہ امریکی میڈیا میں گزشتہ روز یہ خبر آئی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہی نائب صدر مائیک پینس اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو کورونا ویکیسن کا انجکشن لگایا جائے گا۔

    یاد  رہے کہ امریکہ میں بیماریوں پر کنٹرول اور روک تھام کرنے والی سی ڈی سی کمیٹی نے سب سے پہلے ہیلتھ ورکروں اور نرسنگ ہوم کے ملازمین کو ٹیکہ لگانے کی سفارش کی تھی۔

    سی ڈی سی کے مطابق دسمبر کے آخر تک ایجنسی کو تقریباً 4 کروڑ کوویڈ۔19 ویکسین کی خوراک کے تیار کرنے کی امید ہے۔ کورونا وائرس سے اب تک 6.64ملین سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ اس وبا کی وجہ سے 15.28 لاکھ سے زیادہ افراد کی اموات ہوچکی ہیں۔

  • کورونا ویکسین کے بعد ماسک لگانے کی ضرورت ہے؟ ماہرصحت نے بتادیا

    کورونا ویکسین کے بعد ماسک لگانے کی ضرورت ہے؟ ماہرصحت نے بتادیا

    ریاض : سعودی عرب کے شہری اس بات پر شش و پنج کا شکار ہیں کہ کیا کورونا ویکسین کے استعمال کے بعد بھی ماسک پہننا بھی لازمی ہوگا یا اس کی ضرورت باقی رہے گی؟

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق طیبہ یونیورسٹی میں وائرس کے علوم کے ماہر ڈاکٹر یاسرالقرشی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے بعد بھی ماسک پہننا جاری رہے گا۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب میں فائزر کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کا اندراج ہوگیا ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی کامیابی کی شرح90 فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ ویکسین لگانے والے90 فیصد افراد کو کورونا سے تحفظ حاصل ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ باقی رہ جانے والے دس فیصد لوگ وہ ہوں گے جنہیں ویکسین سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا، اس بات کی وجہ سے بعد میں بھی سب کو ماسک پہننا ضروری ہے۔

    علاوہ ازیں ویکسین سے تحفظ حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ویکسین لگانے والوں کورونا وائرس دوبارہ لاحق نہیں ہوسکتا، ویکسین لگانے والے شخص کو کورونا لاحق ہوسکتا ہے مگر وائرس کی وجہ سے وہ بیمار نہیں ہوگا، ایسا شخص کورونا کا حامل ہوگا اور دوسروں کو بھی منتقل کرتا رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین اگر تمام افراد کو لگا بھی دیا جائے تو اسے فعال ہونے کے لیے بھی وقت چاہئے، اس لیے فیس ماسک طویل عرصے تک پہننا لازمی ہے۔

  • ترکی کا روسی کورونا ویکسین سے متعلق اہم فیصلہ

    ترکی کا روسی کورونا ویکسین سے متعلق اہم فیصلہ

    انقرہ : ترکی نے روسی ویکسین کی خریداری کا ارادہ ترک نہیں کیا بلکہ ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی ویکسین مطلوبہ معیار پورا اترتی ہے۔

    دنیا بھر کی طرح ترکی بھی اپنے شہریوں کی کرونا وائرس سے حفاظت کے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے اور اب ترکی نے روس کی تیار کردہ کرونا ویکسین خریدنے کا اٹل فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے روس سے باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا۔

    اس حوالے سے ترکی کے وزیر صحت فرحتین کوکا نے میڈیا کی ان خبروں سے متعلق سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نے روس کی کورونا ویکسین خریدنے کے ارادے کو مسترد نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر روسی ویکسین ہمارے معیار پر پورا اترتی ہے تو ترکی روس کی کورونا ویکسین خریدنے کے لیے تیار ہے،
    یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ روز ایک خبر رساں ادارے نے اس حوالے سے خبر جاری کی تھی کہ ترکی نے روسی کورونا ویکسین کو خریدنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق روسی ویکسین میں کلینکل ٹرائلز کی شرائط کو پورا نہیں کیا گیا تاہم اس کے جواب میں ترک وزیر صحت نے اس خبر کے رد عمل میں بیان جاری کرکے اس کو مسترد کردیا اور ایسی خبروں کو من گھڑت قرار دیا ہے۔

    خیال رہے کہ ترک سائنسدانوں کی جانب سے 16 کرونا ویکسینوں کی تیاری جاری ہے تاہم اس سے قبل ترکی سنوویک اور فائزر سے کرونا ویکسین خریدنا چاہتا ہے۔