Tag: Anti Corona Vaccine

  • کورونا ویکسین سب پر اثر کرے گی یا نہیں، برطانوی سائنسدان کا خدشہ

    کورونا ویکسین سب پر اثر کرے گی یا نہیں، برطانوی سائنسدان کا خدشہ

    لندن : برطانیہ کی ویکسین ٹاسک فورس چیف نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کورونا ویکسین سب پر اثرانداز نہ ہو، یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ویکسین بن بھی پائے گی یا نہیں۔

    ٹاسک فورس چیف کیٹ بنگھم نے کہا کہ فی الحال تو ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ویکسین کب تک بنے گی یا یہ کہ کبھی بن بھی پائے گی یا نہیں، ہمیں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نجات پانے کے لیے پوری دنیا کو ویکسین کا شدت سے انتظار ہے اس سلسلے میں سائنسدان بھی دن رات اپنی تگ و دو میں لگے ہوئے ہپں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق  ا س سلسلے میں برطانیہ کی ویکسین ٹاسک فورس چیف کیٹ بنگم نے یہ کہہ کر سب کو حیرت اور مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے کہ ممکن ہے کورونا ویکسین سبھی عمر کے لوگوں پر اثرانداز نہ ہو۔

    انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پہلے مرحلہ میں جو ویکسین لوگوں تک پہنچے گی وہ مکمل پرفیکٹ نہیں ہوگی، اس میں خامیاں ہوں گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ سبھی لوگوں کے لیے کارگر ثابت نہ ہو۔

    دوسری جانب آکسفورڈ ایسٹراجینیکا ویکسین نے گزشتہ منگل کو کہا تھا کہ ابتدائی نتائج میں ان کی ویکسین بزرگوں پر بھی اثر دکھا رہی ہے جو خوشی کی بات ہے۔

    لینسٹ جنرل سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پہلی جنریشن کی ویکسین میں یقیناً کچھ خامیاں ہوں گی، ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ یہ ویکسین علامتوں کو گھٹانے کے معاملے میں بھی شاید ہر عمر کے لوگوں کے لیے کارگر ثابت نہ ہو۔

    کیٹ کے مطابق65 سال سے زیادہ کی عمر کے اشخاص کے لیے ابھی پرفیکٹ ویکسین کا انتظار اور طویل ہوسکتا ہے۔
    آکسفورڈ یونیورسٹی نے منگل کو بتایا کہ ٹیسٹنگ کے لیے جن لوگوں کو بھی اس کی کورونا ویکسین کی خوراک دی گئی ہے، ان میں مضبوط قوت مدافعت پیدا ہوئی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ کی دوا کمپنی ایسٹراجنیکا کے ساتھ مل کر کورونا ویکسین تیار کر رہی ہے حالانکہ ٹیسٹنگ کے شروعاتی نتائج کو آفیشیل طور پر ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے حال ہی میں ایک ریسرچ کانفرنس میں کہا کہ مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی کی کوویڈ 19 ویکسین کے مثبت نتائج آنا شروع

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی کوویڈ 19 ویکسین کے مثبت نتائج آنا شروع

    لندن : ایسٹرا، زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کوویڈ19 کی ویکسین کی آزمائش کا مرحلہ کچھ عرصے توقف کے بعد دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔

    اس ویکسین کو برطانیہ میں ایک رضاکار میں منفی اثرات سامنے آنے کے بعد روک دیا گیا تھا، اس حوالے سے مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کورونا ویکسین کامل طور پر کام کرتی ہے اور وائرس کا مقابلہ مؤثر انداز میں کرتی ہے، محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ انفیکشن کی شدت کو کافی حد تک کم کرسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی کورونا ویکسین سے وائرس کو پہچاننے اور اس سے لڑنے کے لیے اس شخص کے مدافعتی نظام کو فروغ ملتا ہے اگرچہ اس وقت دنیا اس کے آزمائشی نتائج کی منتظر ہے کہ یہ ویکسین کام کرتی ہے یا نہیں؟ اس بات کا پتہ آزمائش کے مراحل مکمل ہونے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے فعال مدافعتی نظام کا مقصد یہ ہے کہ وہ بیماری کو پہچانے اور بغیر کسی بیماری کے اس کا مقابلہ کرے۔

    اس ویکسین کی آزمائش پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں اور عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مغربی ممالک میں آکسفورڈ اور آسٹرازینیکا کے اشتراک سے ہونے والی آزمائش عالمی طور پر استعمال ہونے والی ویکسین کے لیے ایک مضبوط امید ہے۔

    برسٹل اسکول آف سیلولر اینڈ مالیکیولر میڈیسن (سی ایم ایم) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز جو تحقیق کی رہنمائی کرتے ہیں نے کہا کہ اب تک ٹیکنالوجی اس طرح کے وضاحت کے ساتھ جوابات فراہم نہیں کر سکی ہے لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ ویکسین وہ سب کچھ کر رہی ہے جس کی ہمیں توقع تھی اور وہ بیماری کے خلاف ہماری لڑائی میں کامیابی کی خوشخبری ہے۔

  • کورونا وائرس : سائنسدان سو سال پرانی ویکسین سے پر امید

    کورونا وائرس : سائنسدان سو سال پرانی ویکسین سے پر امید

    دنیا بھر میں پھیلی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے طبی ماہرین پر امید ہیں ان کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ایک صدی پرانی ویکسین مریضوں کی صحتیابی کیلئے کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔

    طبی ماہرین کو لگتا ہے کہ سو سال قبل بنائی گئی ویکسین نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ19سے کچھ تحفظ فراہم کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے سائنسدانوں نے 1921 میں تیار ہونے والی بی سی جی ویکسین کی آزمائش شروع کردی ہے۔

    برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی کے اس ٹی رائل میں ایک ہزار افراد کو شامل کیا جارہا ہے جن میں اکثریت طبی عملے کی ہوگی۔ بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ویکسین اب بھی ترقی پذیر ممالک میں عام استعمال ہوتی ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ٹی بی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یہ دیگر امراض کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہورہی ہے۔

    یہ ویکسین نومولود بچوں کی اموات کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی روک تھام میں بھی مدد دے رہی ہے اور اس سے نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔

    عام طر پر ویکسینز کو کسی مخصوص بیماری سے تحفظ کے لیے مدافعتی نظام کو ایک مخصوص انداز سے تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

    مگر اس عمل کے نتیجے میں مدافعتی نظام میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور وہ دیگر بیماریوں کے خلاف بھی کردار ادا کرنے لگتی ہیں اور سائنسدانوں کو توقع ہے ایک صدی پرانی یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف جسم کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    2011میں مغربی افریقی ملک گنی بساؤ میں ڈھائی ہزار بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس ویکسین کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اس ویکسین کے نتیجے میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح میں ڈرامائی طور پر نمایاں کمی آئی۔

    اس کی فالو اپ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں وبائی امراض سے اموات کی شرح 40 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی۔

    ایکسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر جان کیمبل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویکسین عالمی سطح پر اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

    اہوں نے کہا ‘اگرچہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، مگر یہ کسی حد تک اس بیمااری سے بچا کر کووڈ ویکسینز اور علاج کی تیاری تک لوگوں کی مدد کرسکتی ہے۔

    برطانیہ میں اس ویکسین پر ٹرائل بین الاقوامی تحقیق کا حصہ ہے جو آسٹریلیا، نیدرلینڈز، اسپین اور برازیل میں جاری ہے جس کے لیے 10 ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

    تحقیق میں طبی ورکرز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ وہ کورونا وائرس کا زیادہ سامنا کرتے ہیں تو محققین کو جلد علم ہوجائے گا کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔

    ڈاکٹر سام ہلٹن برطانوی ٹرائل میں شامل ہونے والے رضاکاروں میں سےس ایک ہیں اور ان کا کہنا تھا ‘یہ ایک اچھا خیال ہے کہ بی سی جی کووڈ 19 کے شکار ہونے پر آپ کو زیادہ بیمار نہیں ہونے دے گی، تو میں اسے اپنے لیے تحفظ کا ذریعہ سمجھتا ہوں، کیونکہ مجھے سردیوں میں بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔

    حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ متعدد اقسام کے انفیکشنز کے خلاف اس ویکسین کے اثرات پر مزید ٹرائلز ہونے چاہیے تاہم بی سی جی ویکسین طویل المعیاد حل نہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں اس ویکسین کا استعمال برسوں سے نہیں ہورہا جبکہ بچپن میں جن لوگوں کو اس کا استعمال کرایا جاتا ہے، اس کا اثر ایک مخصوص عمر میں کم ہوجاتا ہے۔

    مزید براں یہ ویکسین مدافعتی نظام کو تربیت دے کر ایسے اینٹی باڈیز اور خون کے سفید خلیاات تیار کرنے میں مدد نہیں دیتی جو کورونا وائرس کو شناخت کرکے اس کے خلاف لڑسکیں۔

    اس وقت دنیا بھر میں 10 کورونا ویکسینز انسانی آزمائش کے حتمی مرحلے سے گزر رہی ہیں مگر ان کی عام دستیابی کب تک ممکن ہوسکے گی، یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔

    مارچ میں میں ایک تحقیق میں متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک میں نئے کورونا وائرس کے اثرات اور بی سی بی ویکسین کے

    درمیان ایک تعلق کو دریافت کیا گیا۔

    یعنی ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال نہیں ہورہا، وہاں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح زیادہ ہے، کم آمدنی والے ممالک کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ کووڈ 19 کے ناقابل اعتبار ڈیٹا اور ناقص طبی نظام قرار دی گئی۔

    ڈاکٹر ڈینس کا کہنا ہے ‘آپ ایک نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں، ہم واقعی اسمارٹ ہیں اورر ہم ایسا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے 2سال لگ سکتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ ان 2 برسوں میں بہت تاخیر ہوجائے۔

    ان کا کہنا تھا ‘اگر ہمارے دنیا بھر میں دستیاب ایک چیز موجود ہو جسے استعمال کرکے ہم انسانوں کو مضبوط بناسکتے ہیں، تو یہ ہر ایک کی ہی کامیابی ہوگی۔

  • روسی کورونا ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز

    روسی کورونا ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز

    ماسکو : روسی انویسٹمنٹ فنڈ (آر ڈی آئی ایف) کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف روسی ویکسین کی پہلی کھیپ اسپتنک وی بیلاروس کو کلینکل ٹرائلز کیلئے پہنچادی گئی ہے۔

    اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بیلا روس میں رضاکاروں پر ویکسی نیشن کے کلینکل ٹرائلز یکم اکتوبر سے شروع ہوں گے۔

    آر ڈی آئی ایف بیلا روس میں ان کلینکل ٹرائلز کو سو افراد شراکت میں مالی اعانت فراہم کررہی ہے جنہیں روس کی وزارت صحت کے گامالیہ نیشنل ریسر انسٹئی ٹیوٹ آف آمیو لوجی اور مائیکرو بیالوجی کی جانب سے تیار کردہ ایک ویکسین کے ذریعے کورونا وائرس سے بچاؤ کا موقع ملے گا۔

    اس حوالے سے آر ڈی ائی ایف نے بتایا ہے کہ بیلا روس روسی ساختہ اسپتنک ویکسین کے کلینکل ٹرائلز شروع کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، بیلا روس میں تحقیقی مراکز کے طور پر منتخب ہونے والے آٹھ طبی اداروں میں کلینکل ٹرائلز کیے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ 11 اگست کو روسی حکومت نے سرکاری طور پر دنیا کے پہلے کورونا وائرس ویکسین کی رجسٹریشن کی تھی جسے اسپوتنک وی کہا گیا۔

    روس اب تک 20 سے زائد ممالک کے ساتھ ایک ارب سے زیادہ ویکسین کی خوراک دینے اور پانچ ملکوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بنانے کے لیے معاہدوں تک پہنچ چکا ہے۔

    روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روسی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ 15 اکتوبر تک روس کے اسپوتنک وی کورونا وائرس ویکسین کے نظام الاوقات کو بیلاروس کو حتمی طور پر دے دے۔

    مزید پڑھیں : کورونا ویکسین ، روس نے آئندہ سال تک بڑے منصوبے کی تیاری کرلی

    واضح رہے کہ جیسے جیسے کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے تو روس اس وبا سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ملک بن رہا ہے، امریکا کے بعد روس میں سب سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔

    روس میں اب تک 3 لاکھ سے زائد کورونا کے مصدقہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جب کہ مہلک وبا سے ہونے والی اموات کی تعداد 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

  • سعودی عرب میں کرونا ویکسین سے متعلق بڑی پیش رفت

    سعودی عرب میں کرونا ویکسین سے متعلق بڑی پیش رفت

    ریاض : سعودی عرب میں کنگ عبد اللہ انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ سینٹر کورونا وائرس کے لیے ایک یا دو ویکسینز کی آزمائشی تیاری میں حصہ لے رہا ہے۔

    عرب نیوز کے مطابق اب تک تقریبا 40 ویکسین کا مختلف طریقے سے انسانوں پر تجربہ کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 9 کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں ہیں تاکہ انسانوں کو کورونا وائرس سے بچانے میں ان کی حفاظت اور تاثیر کا اندازہ کیا جاسکے۔

    واضح رہے کہ کورونا وائرس کے باعث سال رواں کے آغاز سے اب تک پوری دنیا میں 31 ملین سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

    کنگ عبد اللہ انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ سینٹر نے سعودی عرب کی وزارت صحت اور سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایس ایف ڈی اے) کے ساتھ تعاون کرنے اور کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں موجود 9 میں سے ایک یا دو ٹیسٹوں میں حصہ لینے کی تیاری کی تصدیق کی ہے۔

    ریسرچ سینٹر کے ڈرگ ڈویلپمنٹ یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر نایف الحربی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے وجود میں آنے کے بعد سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں 9 ویکسین غیرمعمولی بات ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کسی بھی دوا کی منظوری یا نامنظوری عام طور پر اس کے کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کے بعد ہوتی ہے جو آخری مرحلہ ہے۔

    ان چار ممالک جہاں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری پر کام ہو رہا ہے ان کے ساتھ کنگ عبد اللہ انٹرنیشنل میڈیکل
    ریسرچ سینٹر مستقل رابطے میں ہے۔

    ڈاکٹر نایف نے بتایا کہ کنگ عبد اللہ سنٹر خاص طور پر چین کی ایک دواساز کمپنی کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ اس کی ویکسین کی تشخیص اور تیاری میں تیزی لائی جا سکے۔

    الحربی نے بتایا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران ہم جانوروں سے متعلق ٹیسٹ اور انسانوں پر کئے گئے ایک یا دو مراحل کے نتائج کا مطالعہ کیا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مملکت کی وزارت صحت مختلف چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس تحقیق کی کامیابی پر کام کررہی ہے، اس کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل بہت سارے عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

    الحربی نے مزید بتایا کہ جب بھی کسی ویکسین کی جانچ کی جاتی ہے تو ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ انسانوں پر آزمائش کے بعد اس کے مضر اثرات سامنے نہ آئیں اور اگرکوئی نتائج سامنے آئیں تو ان سے بہتر اثرات مرتب ہوئے ہوں۔

    اس کے ساتھ ساتھ دوا ساز کمپنی کے پروفائل کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ کمپنی کی مصنوعات کے معیار اور مستقل طور پر تیاری میں کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی بھی اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اہم کردار ادا کررہی ہے کہ مملکت میں رہنے والوں کی صحت کو کسی بھی مضر اثرات سے بچانے کے لئے آنے والی ویکسین محفوظ ہو۔

    کنگ عبد اللہ انٹرنیشنل میڈیکل ریسرچ سینٹر نے ٹویٹر پر جاری اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ کچھ ممالک جیسے روس ، چین اور متحدہ عرب امارات نے ڈاکٹروں کو صرف ایمرجنسی کی صورت میں تیارکردہ ویکسین جس کی ابتدائی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ویکسین محفوظ ہے مریضوں پر اس کے تجربات کی اجازت دی ہے۔

  • امریکہ : اینٹی کورونا ویکسین تیاری کے آخری مرحلے میں

    امریکہ : اینٹی کورونا ویکسین تیاری کے آخری مرحلے میں

    واشنگٹن : امریکہ میں اس وقت ایسٹرازینیکا، مارڈرنا اور فیزر نامی تین کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے ویکیسن کے تیسرے مرحلے کا کلینکل ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    امریکہ کی فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سربراہ اسٹیفن ہون نے کہا ہے کہ اگر تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل کے بہتر نتائج آئے تو امید ہے کہ اس کی تکیمل سے قبل ہی کورونا کے کسی ویکسین کو رجسٹرڈ کیا جاسکتا ہے۔

    امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کی گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مسٹر ہان نے یہ بات ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اس وقت ایسٹرازینیکا، مارڈرنا اور فیزر نامی تین کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کے ویکیسن کے تیسرے مرحلے کا کلینکل ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    مسٹر ہان نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ3 نومبر کے صدارتی انتخابات سے قبل کسی ویکسین کی منظوری دی جاسکتی ہے، اگر ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل سے پہلے ہمیں لگتا ہے کہ یہ محفوظ اور کارگر ہیں تو اسے منظوری دی جاسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ امریکہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 61 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور اب تک 1,82,786 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • کورونا ویکسین : برطانوی یونیورسٹی نے وبا کے خاتمے کی امید دلادی

    کورونا ویکسین : برطانوی یونیورسٹی نے وبا کے خاتمے کی امید دلادی

    لندن : کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے بنائی گئی کورونا وائرس کی ویکسین کے لیے کلینکل ٹرائلز کا آغاز جلد کیا جائے گا، اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے خصوصی فنڈ بھی جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف کیمبرج رواں برس کے آخر تک کورونا وائرس کی ویکسین کے لیے کلینکل ٹرائلز کا آغاز کرے گی، اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے ایک اعشاریہ نو ملین پونڈز بطور فنڈ اجراء کیا ہے۔

    یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی نے کورونا وائرس کے لیے ویکسین تیار کر دی ہے اور رواں برس کے آخر یا آئندہ برس کے اوائل میں اس کا کلینکل ٹرائلز کا آغاز کیا جائے گا۔

    یونیورسٹی نے حکومت برطانیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے اس مشن کی تکمیل کے لیے انہیں ایک اعشاریہ نو ملین پونڈز کی رقم فراہم کی تھی۔

    یونیورسٹی انتظامیہ کے بیان کے مطابق اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہو گا اور اس ویکسین کو کم لاگت سے تیار اور مارکیٹ میں باآسانی فروخت جاسکے گا۔

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بالآخر ہمارا مقصد ایک ایسی ویکسین بنانا ہے جو نہ صرف ایس اے آر ایس کوویڈ ٹو سے محفوظ رکھ سکے گا بلکہ جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والی وائرس کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔

  • کورونا ویکسین کی تیاری، روس سے اچھی خبر آگئی

    کورونا ویکسین کی تیاری، روس سے اچھی خبر آگئی

    ماسکو : کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے سائنسدانوں نے کوششیں تیز کر دی ہیں اور اسی سلسلے میں روس کی سیکنوو یونیورسٹی میں اینٹی کورونا ویکسین کے طبی تجربات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، سائنسدان اس وبا سے نمٹنے کے لیے ویکسین بنانے کی تیاریوں میں دن رات مصروف عمل ہیں۔

    اس حوالے سے روس سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے، یہاں ایک یونیورسٹی میں کورونا وائرس کے ویکسین کا ٹرائل مکمل کر لیا گیا ہے۔

    روس کی سیکنوو یونیورسٹی کی جانب سے کوویڈ19 کی ویکسین کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، یونیورسٹی کے محکمہ کلینیکل ریسرچ اینڈ میڈیکیشنز کے اہم محقق الینا سمولیاروچک نے بتایا ہے کہ اس کی تحقیق مکمل ہوچکی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ ویکسین مکمل طور پر محفوظ ہے۔

    ویکسین کے سلسلے میں بھارت میں واقع روسی سفارت خانے نے کہا ہے کہ یہ کورونا انفیکشن کے خلاف تیار کی جانے والی پہلی کامیاب ویکسین ہے۔

    مزید پڑھیں : کرونا وائرس کی ویکسین کا تجربہ کامیاب، اطالوی محققین کا دعویٰ

    قابل ذکر بات ہے کہ کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے بھارت میں بنی ویکسین کے بھی کلینکل ٹرائل چل رہے ہیں، اس کے علاوہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی جانے والی ویکسین کا بھی ٹرائل کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: چین کرونا ویکسین بنانے کے قریب پہنچ گیا

    دوسری جانب جرمنی میں بھی کورونا وائرس ویکسین کے پہلے تجربےکی اجازت دے دی گئی ہے، ویکسین 200 صحت مند رضاکاروں پر آزمائی جائے گی۔

  • کورونا وائرس ویکسین اسی سال بن جائے گی، امریکہ کا دعویٰ

    کورونا وائرس ویکسین اسی سال بن جائے گی، امریکہ کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکہ میں وائٹ ہاؤس کورونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے کمشنر اسٹیفن ہان نے کہا ہے کہ امریکہ رواں برس کے آخر یا اگلے سال کے شروع میں ویکسین بنا لے گا۔

    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسٹیفن ہان نے جمعرات کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایف ڈی اے نے چار مختلف ویکسینز کے لیے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے۔

    اسٹیفن ہان نے کہا کہ دو ویکسینز کے ٹرائلز جولائی میں شروع ہو جائیں گے، ہمارا ٹارگٹ ہے کہ اس سال کے آخر یا اگلے برس کے آغاز میں ویکسین بن جائے۔‘

    واضح رہے کہ امریکہ میں 27 لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں جبکہ ایک لاکھ 28 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ ٹرائلز سے جو ڈیٹا حاصل ہوگا وہ اس کے بارے میں پرامید ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ وبا شروع ہونے کے بعد کورونا کا علاج کرنے والی دوائیں جیسے ریمیڈیسویر، ڈیکسامیتھازون یا کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریض کے خون سے حاصل کیا گیا پلازمہ مہیا نہیں تھا، لیکن اب یہ دوائیں مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں۔

    سٹیفن ہان نے لیڈرز سے اپیل کی وہ وائٹ ہاؤس کورونا وائرس ٹاسک فورس کی طرف سے ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ قائم کرنے جیسی ہدایات پر عمل کریں۔

    دوسری طرف دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سات لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اب تک اس مرض کے باعث پانچ لاکھ 17 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں وبا سے لوگ صحتیاب بھی ہو رہے ہیں اور اب تک تقریباً پچاس فیصد یعنی 55 لاکھ سے زیادہ لوگ شفایاب بھی ہوئے ہیں۔
    امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کے مطابق امریکہ کے بعد وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں برازیل کا نمبر ہے جہاں اب تک 14 لاکھ 48 ہزار افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ برازیل میں کورونا سے اموات کی تعداد 60 ہزار 632 ہے۔

    تیسرے نمبر پر روس ہے جو وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے جہاں چھ لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد میں وائرس پایا گیا ہے،کیسز کی تعداد کے لحاظ سے متاثرہ ممالک میں انڈیا چوتھے نمبر پر ہے جہاں اب تک چھ لاکھ سے زیادہ متاثرین ہیں اور 17 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

    اموات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکہ اور برازیل کے بعد برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے جہاں اب تک 43 ہزار 991 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، برطانیہ میں اب تک کورونا کے تین لاکھ 14 ہزار 991 کیسز سامنے آئے ہیں۔

  • پہلی کورونا ویکسین کی دستیابی : فرانسیسی ماہرین کا اہم انکشاف

    پہلی کورونا ویکسین کی دستیابی : فرانسیسی ماہرین کا اہم انکشاف

    پیرس : کورونا وائرس کے علاج اور اس وبا سے بچاؤ کے لیے جہاں دنیا بھر میں مختلف تجربات ہو رہے ہیں وہیں فرانس کی مشہور  دوا ساز کمپنی سنوفی بھی ویکسین بنا رہی ہے جس کی منظوری 2021 کے پہلی ششماہی میں متوقع ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سنوفی یہ ویکسین برطانوی کمپنی گلیکسو سمتھ کلائین (جی ایس کے) کے ساتھ مل کر بنا رہی ہے۔

    سنوفی اور جی ایس کے نے اپریل میں کہا تھا کہ اگر ان کی بنائی ہوئی ویکسین کامیاب رہی تو وہ 2021 کی دوسری ششماہی میں استعمال کے لیے دستیاب ہوگی تاہم اب انہوں نے کہا ہے کہ ویکسین اگلے سال کے شروع میں ہی دستیاب ہو سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ اس وقت کورونا وائرس کے لیے کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اور اس وبا سے اب تک دنیا بھر میں 90 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ چار لاکھ 73 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

    صرف کچھ ادویات کے اسپتالوں میں موجود کووڈ 19 کے مریضوں پر کلینیکل ٹرائلز میں اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ سنوفی کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر پول ہڈسن کا کہنا ہے کہ ویکسین بنانے کے لیے کچھ کمپنیاں تیزی سے کام لے رہی ہیں لیکن اس کے تین نقصانات ہیں۔

    ان کے بقول ایسی کمپنیاں پہلے سے موجود تحقیق استعمال کر رہی ہیں اور ان میں بہت سی تحقیقات وہ ہیں جو سارس کے لیے کی گئیں تھی۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ ایسی ویکسین کے مؤثر ہونے کے کم امکانات ہیں اور تیسرا یہ کہ اس کی وافر تعداد میں سپلائی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔

    تاہم انہوں نے کہا کہ سنوفی جو ویکسین بنائے گی، اس کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس سے قبل، جمعے کو جی ایس کے کے چیف میڈیکل آفیسر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کی کمپنی جلد بازی کے بجائے معیار پر دھیان دے رہی ہے۔