Tag: Antibodies

  • ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورزش نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر فٹ رکھتی ہے بلکہ کووڈ ویکسینز لگوانے کے بعد اس کی افادیت کو بھی زیادہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنے کی عادت فلو اور کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ان کے اینٹی باڈی ردعمل کو بڑھاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد ورزش کرنے سے مضر اثرات کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ تحقیق میں ویکسینشن کرانے کے فوری بعد 90 منٹ تک ورزش کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں ویکسینشن کے 4 ہفتوں بعد سیرم اینتی باڈی کا تسلسل بڑھ گیا۔ اسی طرح جو بالغ افراد ورزش کو معمول کے مطابق جاری رکھتے ہیں ان میں فلو یا کووڈ ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل تھے مگر ورزش کے دوران انہوں نے دھڑکن کی رفتار صحت مند سطح پر برقرار رکھی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہوئے۔

    درحقیقت ورزش کرنے کی عادت صرف ویکسینز کی افادیت میں ہی اضافہ نہیں کرتی بلکہ ویکسینیشن نہ کرانے پر بھی کوویڈ سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    گزشتہ سال مئی2021 میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو ڈیلا لانا اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کارڈیو ریسیپٹری (دل اور تنفس کے نظام) فٹنس کوویڈ19 سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ جسمانی طور پر فٹ افراد میں کوویڈ19 سے موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج میں ایک اور زبردست بات یہ سامنے آئی کہ ایسے تمام افراد جو جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں انہیں کوویڈ سے زیادہ بہتر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق کے دوران یوکے بائیو بینک اسٹڈی کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں 2690 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ساری توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ کووڈ سے متاثر ہونے اور موت کا خطرہ جسمانی فٹنس سے کس حد تک کم ہوسکتا ہے۔

    محققین نے جسمانی فٹنس اور کووڈ سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تو کوئی نمایاں تعلق دریافت نہیں کیا، تاہم موت کے خطرے میں کمی واضح تھی۔

    تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 49 سے 80 سال کے درمیان تھیں اور ڈیٹا میں ان افراد کی فٹنس کی درجہ بندی بھی کی گئی تھی۔ محققین نے دریافت کیا کہ معتدل ورزش سے بھی کووڈ سے موت کے خطرے میں کمی آجاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمر کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں، تاہم اگر اپنی عمر کے گروپ کے مطابق فٹ ہیں تو آپ کو اس وبائی بیماری کے خلاف فائدہ ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس کسی جسم پر حملہ آور ہونے کے بعد جہاں اسے مختلف نقصانات پہنچاتا ہے وہیں اس حوالے سے ایک اور اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس جسم میں ایسے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے جو بیماری اور ریکوری کے بعد بھی برقرار رہتا ہے اور ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جب لوگ کسی وائرس یا دیگر جراثیموں سے بییمار ہوتے ہیں تو ان کا جسم اینٹی باڈیز نامی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے تاکہ حملے کو روکا جاسکے، مگر کچھ کیسز میں لوگوں میں آٹو اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ جسم کے اپنے اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر رہنے والے افراد میں متعدد اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز مکمل صحت یابی کے 6 ماہ بعد بھی موجود ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق سے قبل محققین کو معلوم تھا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر اتنا زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ آٹو اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ معمولی بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں بھی آٹو اینٹی باڈیز کی سطح وقت کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیز کووڈ 19 کو ایک منفرد بیماری بناتی ہے، مدافعتی نظام کے افعال متاثر ہونے کے ایسے رجحانات طویل المعیاد علامات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں جس کو لانگ کووڈ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 177 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ماضی میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی تھی۔

    ان افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ ایسے صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا گیا جن کو وبا سے قبل جمع کیا گیا۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے متاثر تمام افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ ہوچکا تھا اور ان میں سے کچھ آٹو اینٹی باڈیز ایسے افراد میں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے آٹو اینٹی باڈی سرگرمیوں کے سگنلز کو دریافت کیا جو عموماً دائمی ورم سے جڑے ہوتے ہہیں اور اعضا کے مخصوص نظاموں اور ٹشوز جیسے جوڑوں، جلد اور اعصابی نظام میں انجری کا باعث بنتے ہیں۔

    اب وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کون سی اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والی افراد میں موجود ہوتی ہیں۔

    چونکہ اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ویکسینز کی تیاری سے قبل کووڈ سے متاثر ہوئے تھے تو اب محققین ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔

  • فائزر ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    فائزر ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کہا گیا کہ فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین دیگر 3 ویکسینز کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہے۔

    اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں فائزر، ایسٹرا زینیکا، اسپوٹنک وی اور سائنو فارم ویکسینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے انسانی خلیات کو متاثر ہونے سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح چاروں ویکسینز میں مختلف ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنو فارم اور اسپٹنک وی ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز کی تعداد کم ہوتی ہے، ایسٹرا زینیکا میں یہ شرح معتدل جبکہ فائزر ویکسین سے سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

    ویکسینز کی اقسام کے مختلف مدافعتی ردعمل کی وجوہات پر کچھ عرصے سے کافی تحقیق کام کیا جارہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ہر خوراک میں موجود متحرک اجزا اور پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ وغیرہ۔

    یہ تحقیق جولائی میں ہوئی تھی جس میں منگولیا سے تعلق رکھنے والے 196 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی۔

    ان افراد میں چاروں ویکسینز کا استعمال کیا گیا تھا اور اس وقت منگولیا میں 89.2 فیصد بالغ افراد کو سائنو فارم ویکسین استعمال کروائی گئی تھی۔

    اسی طرح کچھ افراد کو اسپٹنک وی یا ایسٹرا زینیکا ویکسینز کا استعمال کرایا گیا۔

    ماہرین کے مطابق ان تینوں ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان فائزر ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اضافی طبی اقدامات جیسے بوسٹر ڈوز زیادہ بہتر ویکسین کی استعمال کروانی چاہیئے تاکہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا کو کنٹرول کیا جاسکے۔

    تحقیق میں ویکسینز کی خوراکوں کے دورانیے اور دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ 2021 کے موسم گرما میں منگولیا میں کرونا وائرس کی لہر ایلفا قسم کا نتیجہ تھی اور بریک تھرو انفیکشن کے بعد تمام ویکسین گروپس میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ دریافت کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز اور زیادہ مؤثر ویکسینز کی محدود دستیابی کے پیش نظر اس وقت کم افادیت والی ویکسینز بیماری، اسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح میں کمی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 کی وبا کو 2 سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے، ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔

    انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔

  • اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    لندن: برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ لاما اور اونٹ کے ذریعے انسانوں سے کرونا وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ لاما اور اونٹ میں بننے والی مختصر اینٹی باڈیز یعنی نینو باڈیز کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔

    روزالن فرینکلن انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے سائنسدانوں نے ابتدائی طور پر تجربہ گاہ میں رکھے گئے ایک لاما میں کرونا وائرس داخل کیا تو لاما کے جسم میں موجود ایک خاص نینو باڈی نے وائرس کو جکڑ کر مزید پھیلنے سے روک دیا۔

    لاما میں سے یہ نینوباڈی الگ کی گئی اور اگلے مرحلے میں اسے ہیمسٹرز پر آزمایا گیا جو وائرس سے متاثر کیے گئے تھے۔ ہیمسٹرز میں بھی اس نینو باڈی نے وہی کارکردگی دکھائی جس کا مظاہرہ یہ لاما میں کرچکی تھی۔

    لاما سے حاصل شدہ نینو باڈی کو اسپرے کی شکل میں براہ راست ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچایا جاسکتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام اینٹی باڈیز کے مقابلے میں نینو باڈیز کی جسامت بہت کم ہوتی ہے لیکن اب تک کی تحقیق میں انہیں ایسے کئی وائرسز اور جرثوموں کے خلاف بھی مؤثر پایا گیا جن پر روایتی اینٹی باڈیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

  • موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    بیلجیئم میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موڈرنا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی تعداد فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں موڈرنا اور فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ کیا گیا تھا، تحقیق میں بیلجیئم ہاسپٹل سسٹم کے لگ بھگ ڈھائی ہزار کے قریب ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد میں کووڈ ویکسین کے استعمال سے اوسطاً 2881 یونٹس فی ملی لیٹر اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    اس کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح 1108 یونٹ فی ملی لیٹر رہی۔ تحقیق میں اینٹی باڈیز کے فرق کی وضاحت کی چند وجوہات بھی بیان کی گئی۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین میں متحرک جز کی شرح 100 مائیکرو گرامز جبکہ فائزر میں 30 مائیکرو گرامز تھی، اسی طرح موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکوں میں 4 ہفتے جبکہ فائزر ویکسین کی خوراکوں میں 3 ہفتے کا فرق تھا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

  • کورونا سے صحتیاب افراد سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف

    کورونا سے صحتیاب افراد سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف

    کورونا وائرس کی نئی قسم کوویڈ 19سے متاثر ہوکر صحت یاب ہونے والے افراد کئی ماہ تک اس بیماری کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وائرس کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ سکتا ہے، جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔

    تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کوویڈ 19 سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے، جس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا، بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی علامت کے 11 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا، یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی باڈیز بناتے ہیں، جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافعتی خلیات بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور

    اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں، بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔

    اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے 77 افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔

    پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر 3، تین ماہ کے وقفے سے ایسا کیا گیا۔ تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ نہیں تھی اور صرف 6 کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے 18 ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے یا ابتدائی بیماری کو 9 ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ موازنے کے لیے محققین نے ایسے 11 افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو کبھی کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

    توقع کے مطابق کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی، تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے 11 ماہ بعد بھی موجود تھیں۔

    کووڈ 19 کے شکار 15 افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود تھے، یہ خلیات 4 ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں موجود تھے۔

    تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس بیماری کے 2 سے 3 ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے، تو ان میں بیماری کے 7 یا 11 ماہ بعد متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا۔

    یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے ہیں، یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت تک ایسا کرتے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے، تاہم اس حوالے سے وہ مزید تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط مدافعتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو فروری سے اپریل 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی، جبکہ سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100 فیصد تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں 6 ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90 فیصد تک تھی۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی، ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6 بعد گھٹ کر 85 فیصد اور ایک سال بعد 79 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا، ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    تحقیق میں صرف 3 مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے خوشخبری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو اس مرض کے خلاف تحفظ مل جاتا ہے، جسم میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز آئندہ 6 ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک لوگوں کو اس بیماری کا دوبارہ شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی 2 نئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز آئندہ 6 ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک لوگوں کو اس بیماری کا دوبارہ شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔

    یہ نتائج ویکسینز کے لیے اچھی خبر ہیں جو اینٹی باڈیز بناکر مدافعتی نظام کو متحرک کر سکیں گی۔

    یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے محققین نے دریافت کیا کہ بیماری کے نتیجے میں جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز سے لوگوں کے لیے خطرہ کم ہوتا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح کا تحفظ ایک مؤثر ویکسین سے بھی مل سکے گا۔

    یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار اس بیماری کے شکار ہونے کے بعد ری انفیکشن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ان دونوں تحقیقی رپورٹس میں 2 اقسام کے ٹیسٹوں کو استعمال کیا گیا تھا، ایک میں خون میں اینٹی باڈیز کو ٹیسٹ کیا گیا، جو بیماری کے کی ماہ بعد جسم میں موجود ہوتی ہیں۔

    دوسرے ٹیسٹ میں پی سی آر یا دیگر کے ذریعے نمونے حاصل کر کے جسم میں وائرس کی موجودگی کو جاننے کی کوشش کی گئی۔

    پہلی تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسپٹلز کے 12 ہزار سے زائد طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں سے 1265 میں کرونا وائرس اینٹی باڈیز کو 6 ماہ بعد دریافت کیا گیا جبکہ صرف 2 میں وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا، تاہم ان میں بھی علامات سامنے نہیں آئیں۔

    دوسری تحقیق میں 30 لاکھ سے زائد افراد کو شامل کیا تھا، جن کی جانب سے امریکا کی 2 پرائیویٹ لیبارٹریز سے اینٹی باڈی ٹیسٹ کروائے گئے تھے۔ ان میں سے صرف 0.3 فیصد ایسے تھے جن میں ابتدا میں اینٹی باڈیز کو دیکھا گیا مگر بعد میں کرونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی۔

    ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس کا کہنا ہے کہ یہ بہت اطمینان بخش ہے کہ ہماری طرح آکسفورڈ کے محققین نے بھی دوبارہ بیماری کے خطرے میں اتنی ہی کمی کو دریافت کیا، درحقیقت اگر اینٹی باڈیز موجود رہیں تو ری انفیکشن کا خطرہ 10 گنا کم ہوجاتا ہے

    امریکا کے سینٹ جوڈ چلڈرنز ریسرچ ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا وولف کا کہنا ہے کہ اینٹی باڈیز بذات خود تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں، مگر اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام کے دیگر حصے جیسے ٹی سیلز وائرس کے کسی بھی نئے حملے سے لڑنے کے کے قابل ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ وائرس کے خلاف مدافعت کب تک برقرار رہتی ہے، تاہم دوبارہ کووڈ 19 کے شکار ہونے کے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے، تو بیماری سے صحتیابی کے بعد لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل جاری رکھنا چاہیئے۔