Tag: Anwar Sajjad

  • انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    ہر شخص کو موت آ لے گی، سوائے آرٹسٹ کے۔

    آرٹسٹ اپنے آرٹ کے وسیلے زندہ رہتا ہے۔ آرٹ ہی آب حیات ہے، یہی صدیوں تک جینے کا نسخہ ہے۔ یہی باقی رکھتا ہے۔

    انور سجاد اپنی اساس میں ایک آرٹسٹ تھے، ایک مکمل آرٹسٹ۔ چاہے وہ فکشن لکھ رہے ہوں، یا ہاتھ میں برش ہو، یا رقص میں ان کے پاؤں تھرکتے ہوں، یا ان کی باکمال آواز  ہماری سماعتوں میں اترتی ہو، ہمیشہ ایک آرٹسٹ ہمارے روبرو ہوتا۔

    جدید افسانے کے اس سرخیل، اس باکمال فکشن نگار سے متعلق، اس دل پذیر شخص سے متعلق اردو کے چند اہم ادیبوں سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا: مستنصر حسین تارڑ

    اردو کے ہر دل عزیز  ادیب، ممتاز فکشن نگار اور سفر نامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر کہا، انتظار حسین، عبداللہ حسین، یوسفی صاحب اور اب انور سجاد؛ بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد ادب کے باغ کی (خوشیوں کا باغ کی) آخری بہار تھی، آخری خوش نوا، خوش آثار، خوش کمال آخری بلبل تھی جو، نغمہ سنج ہوتی  رخصت ہوگئی، اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔

    تارڑ صاحب کے مطابق انور سجار، سریندر پرکاش اور بلراج من را کے ساتھ جدید افسانے کے بانیوں‌ میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ہاں ایک خاص ردھم تھا، زبان پر بڑی گرفت تھی. انور سجاد نے جدید اردو افسانے پر دیرپا اثرات مرتب کیے، 90 فی صد جدید کہانی کار ان ہی کے انداز کی پیروی کرتے ہیں، البتہ ان کے ہاں وہ ردہم مفقود ہے.

    ان کے مطابق انور سجاد کی مثال اس ماڈرن آرٹسٹ کی تھی، جو کلاسیکی آرٹ پر بھی گرفت رکھتا ہے، جو تجریدی اسٹروک سے پہلے سیدھی لکیر کھینچا جانتا ہے، بعد والوں میں یہ فن کم  دکھائی دیا. اللہ  مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سفرِ آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے.

    وہ علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ نئی تحریک کے بانی تھے: محمد حمید شاہد

    ممتاز نقاد اور فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ان افراد میں‌ سے تھے، جنھوں نے اردو فکشن کا مزاج بدلا، انتظار حسین نے ماضی  میں اپنا تخلیقی جوہر ڈھونڈا، انور سجاد نے حال اور لمحہ موجود سے جڑ کر اپنا ادب تخلیق کیا، علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ وہ نئی تحریک کے بانی تھے.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد نے اپنے معاصرین پر گہرے اثرات مرتب کیے. ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منفرد شے ہے، انھوں نے زندگی کو الگ انداز میں محسوس کیا، نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے، البتہ فکشن میں‌اپنی راہ الگ بنائی. ڈرامے بھی خوب لکھے، صدا کاری کی رقص کیا، مصوری کی.

    فکری طرح پر بہت واضح تھے، بڑے انسان تھے، لکھنا ترک کر دیا، مگر اپنا کام کر گئے. لکھنایوں  چھوڑا کہ انھیں لگا کہ وہ خود کو دہرا رہے ہیں، ایک بار انتظار حسین سے بھی کہہ دیا کہ اب آپ بھی لکھنا چھوڑ دیں۔ المختصر انھوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا.

    انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے: رفاقت حیات

    معروف فکشن نگار رفاقت حیات کے مطابق منٹو کے بعد جن افراد نے فکشن میں‌نئی جہت متعارف کروانے کی کوشش کی، ان میں‌انتظار حسین اور انور سجاد کا نام اہم ہے. منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘‘ ان کے سامنے ایک مثال تھا.

    انور سجاد منٹو کی حقیقت نگاری کے بجائے علامت کی طرف گئے، گو وہ کچھ جلدی چلے گئے، ابھی حقیقت نگاری میں بہت کام باقی تھا، مگر انھوں نے معیاری فکشن لکھا.

    ان کا سب سے اچھا کام ان کے افسانوں میں سامنے آیا. انتظار حسین اور انور سجاد نے آدمی کے اندر کی دنیا، ٹوٹ پھوٹ کو منظر کیا، خارج سے ہٹ کر اس کے باطن کی طرف متوجہ کیا. اس کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت نگار  بھی اِس سمت متوجہ ہوئے، انھوں‌نے توازن قائم کیا.

    رفاقت حیات کے مطابق  آج ناول میں‌ جو تجربات ہورہے ہیں، زبان اور پلاٹ کے حوالے سے، ان کی ابتدائی مثالوں‌ میں ان کا ناول "خوشیوں کا باغ” اہم ہے. انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے.

  • "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    اردو کا منفرد  تخلیق کار رخصت ہوا، ایک  عہد تمام ہوا، آدمی چلا گیا، اب صرف کہانی باقی ہے۔

    بیماری سے جوجھتے، سماج سے نالاں  اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور، رقاص، صدا کار، انور سجاد جہان فانی سے کوچ کر گئے.

    یہ سانحہ لاہور میں پیش آیا، وہ ہی شہر جہاں تقسیم سے قبل اس انوکھے کلاکار نے آنکھ کھولی تھی۔  ڈاکٹر انور سجاد گزشتہ چند برس سے علیل اور شدید کسمپرسی کا شکار تھے۔

    کلاکار کی ادب کہانی

    انور سجاد اردو افسانے میں ایک رجحان کا نام ہے. انھوں نے کہانی کے روایتی اسلوب اور سانچے کو شعور ی طور پر توڑ کر اپنے عصر کی پیچیدہ صورت حال کے اظہار کے لیے نئے وسائل، نئے استعارے تراشے، ان کا منفرد اسلوب اور تجریدی تجربات ابتدا ہی سے زیر بحث رہے.

    ان کے افسانوی مجموعے "چوراہا”، "استعارے”، "آج” اور "پہلی کہانیاں” کے زیر عنوان شایع ہوئے. تین ناولز "رگ سنگ”، خوشیوں کا باغ” اور جنم روپ”۔ انھوں نے اردو ادب کو دیے. یوں تو ہر تخلیق اہم، البتہ خوشیوں کا باغ خصوصی طور  پر زیر بحث آیا۔

    انجمن ترقی پسند مصنفین سے ان کی گہری وابستگی رہی. "آرٹسٹ ایکویٹی” نامی ایک تنظیم بھی بنائی. حلقہ ارباب ذوق، لاہور کے عہدے دار رہے. پاکستان آرٹس کونسل، لاہور کے چیئرمین بھی رہے.

    اوائل میں شاعری بھی کی، مگر کلی طور پر فکشن کی سمت آگئے. پہلا افسانہ ’’ہوا کے دوش‘‘ پر نقوش میں شایع ہوا.

    پرفارمنگ آرٹ ابتدا ہی سے دل چسپی کا محور تھا. ڈراما نگاری کا سفر پی ٹی وی سے شروع ہوا. "رات کا پچھلا پہر”، "پک نک”، "کوئل”، صبا اور سمندر”، ــیہ زمین میری ہے‘‘، ’’روشنی روشنی‘‘ اور ’’جنم دن‘‘ سمیت کئی کام یاب کھیل لکھے. کئی ڈراموں اداکاری بھی کی.

    واجد علی شاہ کا کردار نبھانے کے لیے مہاراج غلام حسین کتھک سے رقص سیکھا.

    دوستوں کے حلقے اور رنگوں میں دل چسپی مصوری کی جانب لائی. ان کے فن پارے تاثراتی اور تجریدی رنگوں‌ سے مزین ہوتیں.

    فکشن نگار کار کی کہانی اور سیاست

    ڈاکٹر انور سجاد 27مئی 1935میں‌لاہور کے علاقے چونا منڈی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ڈاکٹر سید دلاور علی شاہ اپنے شعبے کی معروف شخصیت تھے.

    سن 1948 میں انھوں نے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج میں زیر تعلیم رہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج، لاہور سے طب کی تعلیم مکمل کی۔ 1964میں لیورپول یونیورسٹی، انگلینڈ سے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کی ڈگری لی.

    سن 2002 تک اپنا کلینک چلاتے رہے. اسی دوران ڈراما نگاری بھی کی۔  پھر کراچی میں‌ ایک ٹی وی چینل میں‌ اسکرپٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہوگئے اور وہیں سے بیماری کے باعث الگ ہوئے.

    سیاست ابتداسے ان کی دل چسپی کا محور تھا. طلبا سیاست کے زمانے میں جھکاؤ لیفٹ کی جانب تھا. لیفٹ کو مرکزی دھارے میں‌ لانے کے ارادے سے عملی سیاست میں آئے.

    ان کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکار میں‌ہوتا ہے. پارٹی انھیں الیکشن کا ٹکٹ دینا چاہتی تھی، مگر یہ انھیں منظور نہیں تھا. ان کی نظریاتی سوچ کے باعث اختلافات بھی پیدا ہوئے.

    مارشل لا کے نفاذ کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا. بعد میں‌ بھی احتجاجی سرگرمیوں‌ میں حصہ لیا، مگر پیپلز پارٹی کے مزاج کی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے اور کنارہ کش ہوگئے.

    ایک بار عمران خان کی درخواست پر پی ٹی آئی کے ایک جلسے میں بھی شرکت کی، مگر عملی سیاست سے دور رہے.

    آخر دنوں کا غم ناک تذکرہ

    انور سجاد صاحب گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے. وہ ان اداروں اور افراد سے بھی شاکی تھے، جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا.

    حالات سے مجبور کر انھوں نے امداد کی اپیل بھی کی. حکومت پنجاب کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کی داد رسی کی گئی ہے، مگر بعد میں اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا.