Tag: Anxiety

  • ایک چمچ کھوپرے کے تیل میں یہ ملائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !! گھبراہٹ اور بے چینی دور

    ایک چمچ کھوپرے کے تیل میں یہ ملائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !! گھبراہٹ اور بے چینی دور

    انزائٹی یا بے چینی بنیادی طور پر شدید گھبراہٹ، فکرمندی، پریشانی اور ڈر کو کہا جاتا ہے، معمولی گھبراہٹ یا ڈر تو نقصان دہ نہیں ہوتا مگر جب کیفیات کی شدت زیادہ ہوجائے تو یہ پریشانی والی بات ہے۔

    انزائٹی پر توجہ نہ دی جائے تو معیار زندگی بہت بری طرح متاثر ہوسکتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ چند آسان اور حیرت انگیز طریقوں سے اس پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں معروف ہربلسٹ ڈاکٹر عیسیٰ نے اضطراب، ذہنی دباؤ اور تناؤ کی کیفیت سے محفوظ رہنے کیلئے ایک نہایت آسان اور کم قیمت نسخہ بتایا جسے پی کر آپ اپنے اندر سکون اور اطمینان محسوس کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ آدھی پیالی دودھ میں ایک چمچ کھوپرے کا تیل (ورجن کوکونٹ آئل) اور ایک چٹکی زعفران ملا کر پی جائیں، 5سے دس منٹ کے اندر آپ خود کو تمام اقسام کی الجھنوں سے دور محسوس کریں گے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔

    کھوپرے کی تیل کی مزید افادیت بتاتے ہوئے ڈاکٹر عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ کی طبیعت بوجھل ہورہی ہے اور قے کی کیفیت ہے تو کھوپرے کے ایک کپ پانی کے اندر ایک چمچ اورنج جوس، شہد، لیموں اور ایک چٹکی نمک ڈال کر پی لیں الٹی آنا بند ہوجائے گی۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا کہ ہماری روزمرہ کی غذا نہ صرف ہماری جسمانی صحت بلکہ، ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اور غیر متوازن غذائیں دماغی صحت کو ابتر بنا سکتی ہیں۔

    ہماری ذہنی صحت اور ہماری خوراک کے درمیان گہرا تعلق ہے، دراصل ہماری خوراک ہماری ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جس میں بے چینی بھی شامل ہے۔

    کچھ کھانے ہماری بے چینی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق جن کھانوں میں ٹرپٹوفان ہوتا ہے وہ بے چینی سے نمٹنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

    ٹرپٹوفان امینو ایسڈ ہے جو جسم میں سیروٹونن پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، یہ وہ کیمیکل ہے جو موڈ اور جذبات کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    اسی طرح جن کھانوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں وہ بے چینی کو کم کرنے میں کافی مددگار ہوتے ہیں، یہ جسم میں سوزش بھی کم کرتے ہیں جس کا تعلق بے چینی سے
    ہے۔

    آئیں جانتے ہیں وہ کون سے کھانے ہیں جو بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    سالمن

    اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھرپور سالمن مچھلی دماغ میں سوزش کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور دماغ کو صحت مند رکھتی ہے، یہ موڈ اور جذبات کو ٹھیک کرنے اور بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    ڈارک چاکلیٹ

    ڈارک چاکلیٹ میں فلیوونائیڈز ہوتے ہیں جو دماغ کو ٹھیک طرح سے کام کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سوزش کو کم کرتے ہیں، اس میں میگنیشیئم بھی ہوتی ہے جو کہ بے چینی کی سطح کو کم کرتی ہے۔

    بلو بیریز

    بلو بیریز اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ دباؤ کو کم کرتے اور سکون کو بڑھاتے ہیں۔

    ہلدی

    ہلدی میں کرکیومن ہوتی ہے جس میں سوزش کم کرنے والی خصوصیات ہوتی ہیں جس سے دماغ بہتر انداز میں کام کرتا ہے اور اس سے بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    بادام

    بادام میگنیشیئم کا بہترین ذریعہ ہیں، جس سے مزاج میں بہتری اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے، یہ فائدہ مند چربی اور پروٹین سے لبریز ہوتے ہیں جس سے خون میں شوگر کی سطح برقرار رہتی ہے اور سکون ملتا ہے۔

    گل بابونہ کی چائے

    گل بابونہ کی چائے سے بے چینی کم ہونا ثابت ہے اور اس سے بہتر نیند آتی ہے، اس میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جس سے سوزش میں کمی ہوتی ہے اور دماغ بہتر کام کرتا ہے۔

    پالک

    پالک میں غذائی اجزا ہوتے ہیں جیسا کہ میگنیشیئم، وٹامن سی اور فولیٹ جن سے مزاج میں بہتری آتی ہے اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    کیفیر

    کیفیر ڈیری مشروب ہے جس میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جس سے جسم کی طاقت بہتر ہوتی ہے اور بے چینی میں کمی آتی ہے۔ اس میں سیروٹونن ہوتا ہے جو مزاج کو بہتر بناتا ہے اور جسم میں سکون پیدا کرتا ہے۔

  • کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات کی اصل وجہ کیا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات کی اصل وجہ کیا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

    واشنگٹن : امریکی محققین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات کا تعلق ویکیسن سے ہرگز نہیں بلکہ یہ انسان کے اضطراب کی وجہ سے ہے۔

    اس حوالے سے امریکا کی صحت کی نگرانی کرنے والی ایجنسی مرکز برائے امراض کنٹرول اور روک تھام (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19کی ویکسی نیشن کے بعد سامنے آنے والے اثرات، بےہوش ہونا، چکر آنا اور متلی، اضطراب کی وجہ سے ہیں اور ان کا تعلق ویکسین سے نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری امریکا میں پانچ بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کرنے والے مقامات سے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے اور اسے گزشتہ روز سہ پہر کو جاری کیا گیا۔

    مراکز نے اضطراب سے متعلق 64 کیسز کی اطلاع دی جن میں اپریل کے اوائل میں جانسن اور جانسن ویکسن کی پہلی خوراک ملنے کے بعد بے ہوش ہونے کے17 کیسز بھی شامل ہیں۔

    امریکی صحت کے اداروں نے 6 افراد کے خون کے جمنے کی غیر معمولی شکایت پیدا ہونے کے بعد اس ویکسین کی فراہمی کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔

    23 اپریل کو سی ڈی سی اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے رپورٹ ہونے والے کیسز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ پابندی ختم کردی تھی اور تمام صحت مراکز کو اس ویکسین کا استعمال دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

    تاہم اس کے حالیہ ایڈوائزری میں سی ڈی سی نے ویکسین فراہم کرنے والوں پر زور دیا کہ وہ ‘ویکسینیشن کے بعد اضطراب سے متعلقہ کیسز سے آگاہ رہیں اور ویکسین لگانے کے بعد کم از کم 15 منٹ تک کسی بھی منفی رد عمل کے لیے کووڈ 19 کے تمام ویکسین وصول کنندگان کا مشاہدہ کریں۔

    ویکسین کے اثرات کی شکایت کرنے والوں میں اکثریت، 61 فیصد خواتین تھیں جن کی اوسط عمر 36 سال تھی۔ اس کے علاوہ 20 فیصد مریضوں نے ویکسینیشن سائٹ کے عملے کو بتایا کہ وہ انجکشن لگنے یا سوئی لگنے سے بیہوش ہوجاتے ہیں۔

    ایسی زیادہ تر علامات کھانے/پینے اور آرام کرنے سے ہی 15 منٹ کے اندر حل ہوگئیں جبکہ 20 فیصد مریض مزید تشخیص کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئے، ان مراکز میں سے 4 نے ان رد عمل کی تحقیقات کے لیے ویکسینیشن معطل کردی۔

    سی ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویکسینیشن کے بعد اضطراب سے متعلقہ کیسز کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ویکسینیشن فراہم کرنے والوں کو ویکسینیشن جاری رکھنے کے بارے میں فیصلے کرنے کے قابل بنائے گا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اضطراب کے دورے جانسن اور جانسن کی ویکسین سے مخصوص نہیں اور کسی بھی ویکسین لگوانے کے بعد ہو سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق اضطراب کے حملے فلو سے وابستہ افراد کے مقابلے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔

    ویکسین کے اثرات میں کمی

    سی ڈی سی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جیفری گیلر نے ویکسین لگوانے کے بعد گہری سانس لینے اور آرام کرنے کا مشورہ دیا۔

    انہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب آپ اس مرکز پر پہنچ گئے، خاص طور پر بڑے ویکسینیشن مرکز تو یہ آپ کا ذہن تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، لوگ اگر اضطراب کا شکار ہیں تو انہیں میڈیکل ٹیم کو بتانا چاہیے، اسے خود تک محدود نہ رکھیں۔

    جانسن اینڈ جانسن ویکسین پر پابندی کو ختم کرنے والے ایف ڈی اے اور سی ڈی سی کے ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کے رکنے سے پہلے ہی68لاکھ خوراک پہلے ہی استعمال کی جاچکی تھیں اور ان68 لاکھ میں سے15 وصول کنندگان نے خون کے جمنے اور کم پلیٹلیٹ کی شکایت کی۔

    انہوں نے تجویز پیش کی کہ ویکسین فراہم کرنے والوں اور معالجین کو وسیع پیمانے پر تعلیم فراہم کی جائے تاکہ وہ ان کیسز کو صحیح طور پر پہچانیں اور ان کا انتظام کریں اور درکار علاج کا بندوبست کریں۔

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • ذہنی تناؤ ہڈیوں کی کمزوری کا سبب

    ذہنی تناؤ ہڈیوں کی کمزوری کا سبب

    کیا آپ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہوجاتے ہیں؟ تو پھر آپ کے لیے بری خبر ہے کہ یہ عمل آپ کی ہڈیوں کو کمزور بنا رہا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق مستقل ذہنی تناؤ میں مبتلا رہنا جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کو کم کردیتا ہے جس سے ہڈیاں کمزوری کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہوتی ہیں لہٰذا ان میں ہڈیوں کی کمزوری کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ 3 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک ذہنی تناؤ میں مبتلا رہنا جسم میں مختلف مادوں کی مقدار کو غیر متوازن کردیتا ہے۔ اس کے اثرات جوڑوں اور ہڈیوں پر بھی پڑتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ذہنی تناؤ، تھکاوٹ کا احساس اور تنہائی ہڈیوں میں مختلف معدنیات کی مقدار کو کم کردیتی ہے جس سے ان کی کارکردگی میں فرق آجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی تناؤ کا شکار افراد اپنی غذا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈ کی مقدار بڑھا دیں۔ اس سے ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوگا جبکہ ذہنی تناؤ میں بھی کمی واقع ہوگی۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • شام پرکیمیائی حملے قابل مذمت ہیں، دفترخارجہ کا اظہارتشویش

    شام پرکیمیائی حملے قابل مذمت ہیں، دفترخارجہ کا اظہارتشویش

    اسلام آباد : پاکستان نے شام کی موجودہ صورتحال اور حالیہ امریکی حملے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہیں، تمام قوتیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کارروائی کریں۔

    یہ بات ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے اپنے بیان میں کہی،  شام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کیمیائی میزائل حملے کے بعد باقاعدہ بیان جاری کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان شام کی سنگین صورتحال پر گہری نظررکھے ہوئے ہے اور تمام فریقین سے پورزور مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے خلاف کسی قسم کے اقدامات سے اجتناب کریں۔

    ان کا کہنا تھا کہ مشکل گھڑی میں شامی عوام کےدکھ میں برابر کے شریک ہیں، امید ہے تمام فریقین شام کے مسئلےکا جلد حل نکال لیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ  کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں حقائق کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے کام کر نے والے ادارے کے ذریعے تحقیقات سے سامنے لانا انتہائی ضروری ہے،  دفترخارجہ کا مزید کہنا ہے کہ تمام قوتیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کارروائی اور او پی سی ڈبلیو کے تحت معاہدہ طے کریں۔

    مزید پڑھیں:  سعودی عرب نے امریکی اتحادیوں کے شام پر حملوں کی حمایت کردی

    خیال رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون سے شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    آج کل کے دور میں بے چینی یا اینگزائٹی کا مرض عام ہوگیا ہے۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ماہرین اس کی چند بنیادی وجوہات پیش کرتے ہیں۔

    دراصل بے چینی ایک کیفیت کا نام ہے جو گھبراہٹ، بہت زیادہ خوف اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام مسائل کو اینگزائٹی ڈس آرڈرز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ذہنی مرض ہے اور دنیا بھر میں ہر 100 میں سے 4 افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

    بے چینی کے مرض میں مبتلا افراد کام کی طرف کم دھیان دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

    کیمبرج یونیورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی کہ معلوم کیا جاسکے اس مرض سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں یا مرد۔ نتائج سے پتہ چلا کہ جتنے مرد اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں اس سے دگنی تعداد میں خواتین اس سے متاثر ہوتی ہیں۔

    طبی محققین نے معلوم کرنے کی کوشش کہ خواتین کیوں اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    خواتین اور مردوں کی ذہنی بناوٹ میں فرق ہوتا ہے جبکہ خواتین ہارمونل اتار چڑھاؤ کا بھی شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کی زندگی میں آنے والی مختلف تبدیلیوں کا اثر ان کے ہارمونز پر بھی پڑتا ہے جس سے ان میں بے چینی اور اس سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

    جسمانی ساخت کے علاوہ مرد و خواتین کے رویے بھی اس مرض کا سبب بنتے ہیں۔ خواتین ہر مسئلہ کو سر پر سوار کرلیتی ہیں اور پریشان ہوتی رہتی ہیں جبکہ مرد عموماً اس مسئلہ کا حل سوچ کر اس سے چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں یا پھر نظر انداز کردیتے ہیں۔

    health-2

    خواتین اپنی زندگی میں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں جس کا اثر ان پر ساری زندگی قائم رہتا ہے۔ اسی طرح بچپن میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کا اثر بھی تادیر رہتا ہے اور جسمانی حیاتیات پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں ’ہپوکیمپس‘ کی طرف خون کا بہاؤ غیر معمولی طور پر بڑھ جاتا ہے یا گھٹ جاتا ہے۔ ’ہپوکیمپس‘ ہمارے دماغ کا ایک حصہ ہے جو جذبات سے تعلق رکھتا ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے اور ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی اس کا علاج کروایا جائے۔ دوسری صورت میں یہ شدید ڈپریشن کی شکل اختیار کرسکتا ہے جس میں انسان خود کو یا دوسروں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

    بے چینی کی صورت میں طبی ماہر کے مشورے سے دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں، بات چیت کے ذریعہ اسے ختم کیا جاسکتا ہے یا طرز زندگی بدل کر بھی اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔