Tag: APS

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرہ طالب علم کی لیڈز میں پاکستانی لیجنڈز سے ملاقات

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرہ طالب علم کی لیڈز میں پاکستانی لیجنڈز سے ملاقات

    رپورٹ :شاہد ہاشمی

    ہیڈنگلے: آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے طالب علم نے لیڈز میں پاکستانی کرکٹ لیجنڈز سے ملاقات کی۔

    تفصیلات کے مطابق نوجوان ولید خان نے لیڈز میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز معروف پاکستانی کھلاڑیوں سے ملاقات کی ہے۔

    یاد رہے کہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ٹوٹنے پر قیامت میں 150 بچے شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، ان زخمیوں میں ولید خان بھی شامل تھے۔

    اس حملے میں ولید خان کو متعدد گولیاں لگیں، وہ ایک طویل عرصے زیر علاج رہے۔ اب ولید انگلینڈ کے علاقے برمنگھم میں زیر تعلیم ہیں اور کرکٹ کھیل کرمحظوظ ہوتے ہیں۔

    ٹیسٹ میچ کی کمنٹری ٹیم کی جانب سے ولید کو مدعو کیا گیا تھا، جہاں وہ وقاریونس، وسیم اکرم اور رمیز راجا جیسے لیجنڈ کھلاڑیوں سے ملے۔

    اس موقع پر ولید خان نے اس ہولناک واقعے، اس کے اثرات اور اس سے نبردآزمانے ہونے کے تجربات بانٹے۔ ولید نے کہا کہ اس سانحے کے بعد میں آپ کے سامنے ہوں اور زندگی سے محظوظ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پاکستان کے عظیم کھلاڑیوں سے ملاقات میرے لیے ایک اعزاز ہے۔

    پاکستان کے متاز کھلاڑیوں نے ولید کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں ایک مثال قرار دیا۔


    اسلام آباد کے اسکول اورکالج شہدائے آرمی پبلک اسکول سے منسوب کردئیے گئے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • پیپلزپارٹی کی تحریک کا مقصد اپنی بدترین کرپشن کو بچانا ہے، فاروق ستار

    پیپلزپارٹی کی تحریک کا مقصد اپنی بدترین کرپشن کو بچانا ہے، فاروق ستار

    کراچی : ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرنے والے پہلے سندھ میں کرپشن ختم کریں۔ پیپلز پارٹی صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کر رہی ہے۔ تحریک چلانے کا مقصد اپنی بدترین کرپشن کو بچانا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے تحت سانحہ قصبہ علی گڑھ، سانحہ مشرقی پاکستان اور سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    ڈاکٹر فاروق ستار نے شہدائے اے پی سی، سقوط ڈھاکہ اور سانحہ علی گڑھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ شہداء کی قربانیوں کو مشن کے طور پر یاد رکھنا ہے، شہدا ء نے ملک میں امن کے قیام کیلئے قربانیاں دیں۔

    اے پی ایس کے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے پیپلز پارٹی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ کرپشن کے خلاف اصل تحریک ایم کیو ایم چلا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو چاہئیے کہ وہ ایم کیو ایم کا ساتھ دے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آگے لے کر جائیں گے، ملک کو مضبوط بنانے کیلئے کراچی میں امن قائم کریں گے، عوام کے بنیادی مسائل حل، سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کریں گے، بنیادی مسئلہ بیروزگاری ہے، لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ تب ہو گا جب انتہا پسندی کا خاتمہ ہو گا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد پر ناکام نظر آئی ہیں۔ پلان پر عمل نہ ہونا سب سے بڑی کمزوری ہے۔

  • سانحہ آرمی پبلک، 13 سالہ گل شیر شہید کی زندگی پرمبنی ویڈیو

    سانحہ آرمی پبلک، 13 سالہ گل شیر شہید کی زندگی پرمبنی ویڈیو

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو سال بیت گئے تاہم آج بھی یہ المناک حادثہ لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے کہ جب مسلح دہشت گردوں نے پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 140 بچوں کو ابدی نیند سلادیا تھا۔

    اسکول کے بچے روزانہ کی  طرح 16 دسمبر 2014 کو تیار ہوکر گھروں سے اسکول روانہ ہوئے تاہم 140 چالیس خاندان ایسے تھے جن کے پھول ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں کو الوداع کہہ گئے‘ دوسال گزر جانے کے بعد سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے اہل خانہ سمیت پوری قوم کے زخم بھی تازہ ہیں۔


    مزید پڑھیں: ’’ شہدا کا خون ہم پر قرض ہے‘ جنگ جلد ختم کریں گے: آرمی چیف ‘‘


    سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک کے لوگوں نے طلباء کو مختلف اندازوں میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا کہ من الحیث القوم ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں اور ہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دے سکتے ہیں۔

    ویڈیو دیکھنے کے لیے اسکرول نیچے کریں

    آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو گزرے دو سال مکمل ہونے پر تہذیب فاؤنڈیشن نے ایک میوزک البم جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اس سانحے میں شہید ہونے والے 13 سالہ طالب علم گل شیرکی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔

    یہ کہانی گل شیر کی حقیقی زندگی پرمبنی ہے، ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ گل شیر کس طرح اپنے گھر کی رونق تھا اور سب کی آنکھوں کا تارہ تھا اور اُس کے دنیا سے گزر جانے کے بعد خاندان والوں کو کن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تاہم اہل خانہ نے جوش و جذبے کے ساتھ چھوٹے بھائی گل شمشیر کی تعلیم کو کیوں جاری رکھوایا۔


    مزید پڑھیں: ’’ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے‘‘


    یہ گانا شریف اعوان نے پروڈیوس کیا جس کی موسیقی ارشد محمود نے ترتیب دی جبکہ گانے کی شاعری حارث خلیق نے تحریر کی اور اس میں ذونی ویکاجی نے اپنے آواز کا جادو جگایا جبکہ اردو کی خدمت کرنے والی معروف شخصیت ضیاء محی الدین کی آواز کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔

     

  • سانحہ اے پی ایس: ایک ماں کے آنسوؤں سے لکھی تحریر

    سانحہ اے پی ایس: ایک ماں کے آنسوؤں سے لکھی تحریر

    تحریر: شازیہ عابد


    صبح ساڑھے دس بجے کا وقت تھا جن فون کی گھنٹی بجی۔ وہ منگل کا دن تھا۔ میں اس دن بہت بے چین تھی‘ جب بچے اسکول کے لیے روانہ ہوئے تو میں چائے بنائی لیکن میرے ہاتھ سے کپ گر گیا اور فرش پر ٹوٹ کر بکھر گیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے‘ میں کاؤچ پر جاکر آرام کرنے لگی۔ شاید مجھے اس ہولناک کال کا انتظار تھا۔ اچانک میرا فون بجا اور مجھے خبر دی گئی کہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کردیا ہے۔ ہائے! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہاں ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ میں نے سوچا کہ نہیں وہ آرمی پبلک اسکول ہے وہاں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ میں ابھی تذبذب کا شکار ہی تھی کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بجی جس نے میری دنیا ہی اندھیر کردی اور میں سراسیمگی کی حالت میں اپنی والدہ کے ہمراہ اسکول کی جانب چل پڑی۔

    پورا راستہ میں اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اے میرے پالنے والے! میرے بچے کی حفاظت کرنا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اسکول پہنچتی بڑا نقصان ہوچکا تھا۔ میری والدہ میرے ساتھ تھیں ہم ٹیکسی سے بڑا گیٹ کےپاس اترے کیونکہ راستے بند کیے جاچکے تھے‘ یم پیدل ہی سی ایم ایچ کی طرف بھاگے کہ مجھے وہاں پہنچنے کو کہا گیا تھا۔ میتیں وہاں لے جائی گئیں تھیں اور اسکول جانے کے تمام راستے بند کیے جاچکے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ میں کیسے وہاں تک پہنچی کہ یہ میری زندگی کہ مشکل ترین لمحات تھے۔ میری والدہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور وہ میرے ساتھ ہی تھیں مجھے ان کی بھی فکر ہورہی تھی۔ میں عجیب کشمکش میں تھی کہ اپنے بچے کو ڈھونڈوں یا ماں کو دیکھوں لیکن ان کی ہمت اور رفیق کے لیے ان کی محبت قابلِ ذکر ہے۔ آخر کو وہ ان کا پہلا نواسا تھا۔

    [bs-quote quote=” شازیہ عابد سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے رفیق بنگش کی والدہ ہیں اور ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ‘ سولہ دسمبر کا دن ان کے لیے ایک قیامت خیز دن تھا اوران کی یہ تحریر اسی دن کے محسوسات کی ترجمانی ہے” style=”style-5″ align=”center”][/bs-quote]

    وہ پورا راستہ رفیق کی باتیں کرتی رہیں کہ وہ مجھ سے یہ کہتا ہے ‘ وہ مجھ سے وہ کہتا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ امی آپ سے کام نہیں ہوتا اب آپ آرام کریں اور زندگی کو انجوائے کریں، ایسا لگتا تھا کہ انہیں ادراک ہوگیا تھا رفیق نہیں رہا۔ ہم اسپتال پہنچے تو ہر طرف سائرن کا شور تھا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی کچھ لمحوں کے لیے میں اپنے حال سے غافل ہوگئی تھی سب کچھ دیکھ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا ہورہا ہے۔ چند لمحوں بعد جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے پوچھنا شروع کیا کہ رفیق کہا ں ہے؟ امی نے بتایا کہ انہوں نے سارے زخمی بچے دیکھ لیے لیکن رفیق ان میں نہیں ہے‘ دریں اثنا ایک ایمبولنس اندر داخل ہوئی جس میں ایک طالب علم کی میت تھی‘ میں نے اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے‘ وہ بچہ بہت خوبرو بالکل رفیق جیسا تھا لیکن میرا رفیق نہیں تھا۔ میر ی ہمت بندھی کہ شاید میرا رفیق زندہ ہے‘ شاید وہ اسکول میں ہو۔ لوگ یہاں وہاں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے ایسے میں میری نظر ایک باریش بزرگ پر پڑی جو اپنی بیٹی کو تلاش کررہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا ! تم نے میری بینش کو دیکھا ہے ‘ وہ آرمی پبلک اسکول میں ٹیچر ہے۔ اوہ خدا ! 16 دسمبر کو سی ایم ایچ بالکل کربلا کا سا منظر پیش کررہا تھا۔

    میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ یاسین اور مبین کے ڈرائیوروں کو فون کرکے معلوم کرے ۔ اس پورے عرصے میں ‘ میں یہی سوچ رہی تھی کہ میرا رفیق سمجھدار ہے وہ کہیں چھپ گیا ہوگا‘اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ جان بچا کر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیا ہوگا‘ لیکن میں غلط تھی‘ میں نہیں جانتی تھی کہ میں ہمیشہ کے لیے رفیق کو کھوچکی ہوں۔

    میں اسپتال میں ہی تھی کہ میرے فون پر میرے شوہر کا میسج آیا کہ ’مجھے رفیق مل گیا ہے لیکن اب وہ ہم میں نہیں رہا‘‘۔ میں کیا بتاؤں میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی قدموں میں گویا جان ہی نہ رہی کہ میں اسپتال کی دوسری منزل تک جاپاتی جہاں میرے پیارے رفیق کی میت رکھی تھی۔ میں نہیں جانتی میں نے کیسے اپنے بچے کو اس نازک حال میں دیکھا‘ اس کے ماتھے اور گالوں کے بوسے لیے اور اسے کہا کہ میرے بچے اٹھ جاؤ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے لیکن اس نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ ہم اس کی میت ایمبولینس میں گھر لے آئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک دن تھاکہ جب معصوم فرشتوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ اساتذہ کو زندہ جلایا ‘ بچوں کے گلے بے رحم خنجروں سے کاٹے گئے‘ بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ ڈاکٹروں نے کچھ بچوں کے گلے پر ٹانکے لگاتے ہوئے ٹائی بھی ساتھ سی دی‘ ہائے!۔

    بحیثیت مسلمان ہمارا یمان ہے کہ ایک دن سب کو جانا ہے لیکن جس طرح سےان معصوم فرشتوں کو قتل کیا گیا‘ وہ برداشت نہیں ہوتا۔ایسا لگتا ہے کہ ہر دن ہی سولہ دسمبر کا دن ہے۔ مجھے آج بھی اپنی اور اپنی جیسی کتنی ہی ماؤں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو اپنےجگر کے ٹکڑوں کو بین کررہی تھیں‘ کچھ بچوں کو سبزہلالی پرچم سے ڈھانپا گیا تھا اور ان کے یونی فارم پر خون جو داغ تھے وہ کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے‘ وہ مائیں جو اپنے بچوں کے لیے سینہ کوبی کررہی تھیں۔

    کسی بھی ماں کے لیے شاید یہ اس کی زندگی کا سخت ترین مرحلہ ہوگا کہ وہ بیچارگی کے عالم میں اپنے بچے کی تلاش میں اسپتال میں رکھی میتوں کے چہروں سے کفن ہٹا کردیکھے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ اندوہناک سانحہ آج سے دو سال قبل ہم پر گزرا اور پوری قوم نے ہمارے اس غم کو محسوس کیا اور اس غم میں شریک ہوئے۔

    ہم جانتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت معین نہیں ہے اور یہ زندگی کی تلخ ترین حقیقت کا نام ہے۔ کچھ اس سے بہت کم خوفزدہ ہوتے ہیں تو کچھ کے لیےیہ دہشت کی علامت ہے] کچھ کے لئے یہ مشکل تو کچھ کے لیے آسان بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے جذبات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ موت ایک تلخ حقیقت ہے ۔ دنیا جہاں ہم رہتے ہیں یہاں حالات روز تبدیل ہوتے ہیں او ر بالاخر سب کا خاتمہ موت پر ہی ہوتا ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے موت کا سامنا کرنا ہے جیسا کہ اللہ نے کہا کہ ’ ہرنفس نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے‘‘ ( 3:186) تو پھر جب موت آنی ہی ہے تو پھر شہادت کی موت کیوں نہ آئے کہ یہ سب سے بہتر موت ہے ۔ اللہ نے قرآن میں کہا ہے کہ شہید زندہ رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو‘ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس بات کا شعور نہیں۔

    ” style=”style-2″ align=”center” author_name=”القرآن”][/bs-quote]

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    پشاورمیں آرمی پبلک اسکول کے ہولناک سانحے کو دو برس بیت گئے تاہم اس واقعے کی المناک یادوں کی کسک آج بھی دل میں محسوس ہوتی ہے کہ جب مسلح دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014 کو 145 معصوم اور بے گناہ افراد کو خون میں نہلادیا تھا جن میں سے 132 معصوم بچے تھے۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھاجس نے ساری دنیا کوششدرکرکے رکھ دیا۔ اس غم انگیزدن کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل تبدیلیاں کی گئیں اوردہشت گردی میں ملوث ملزمان کوسزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    سانحے کے وقت آرمی پبلک اسکول میں گیارہ سو سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم تھے اور ان میں سے زیادہ ترملٹری افسران کے بچے تھے جس کے سبب اس حملے کو ملٹری کے دل پرحملہ تصورکیاگیا تھا۔

    حملہ شروع ہوتے ہی پاک فوج نے ردعمل ظاہرکرتے ہوئےدہشت گردوں کوگھیرے میں لینا شروع کیا، آرمی پبلک اسکول وسیع عریض رقبے پرواقع ہے لہذا پاک فوج کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں آٹھ گھنٹے لگے تاہم جب تک کل نو دہشت گرد مارے گئے بچوں سمیت 145 معصوم جانوں کا ضیاع ہوچکا تھا۔

    اسکول سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے تک شام درآئی تھی، آرمی نے اسکول سے اسٹاف اورطلبہ سمیت کل 960 افراد کوبچا کرباہرنکالا۔

    واقعے کے فوراً بعد حکومت کے خلاف برسرِ پیکارگروہ طالبان نے بربریت سے بھرپوراس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

    تحریک طالبان کے ترجمان محمدعمرخراسانی نے حملے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’’ہم نے آرمی پبلک اسکول پرحملہ اس لئے کیا کہ حکومت ہمارے خاندان اورعورتوں کو نشانہ بنارہی ہے‘‘۔

    آرمی پبلک اسکول میں جاری کلیئرینس آپریشن کےدوران ہیلی کاپٹرفضا میں گردش کرتے رہے اورپولیس نے نہ صرف پورے علاقے کو گھیرے میں لئے رکھا بلکہ غم واندوہ میں ڈوبے والدین کو اسکول میں جانے سے روکنے کاناخوشگوار فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔

    اسکول میں موجود بچوں کے مطابق پاکستانی فوج کی وردی میں ملبوس حملہ آورغیرملکی زبان میں بات کررہے تھے جوکہ ممکنہ طورپرعربی تھی۔

     – سابق آرمی چیف کا غم و غصے کا اظہار –

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان میں غم و غصے کا عنصرنمایاں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے قوم کے دل پرحملہ کیا ہے تاہم ان کے اس حملے سے دہشت گردی کی اس لعنت کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے عزم کو نئی زندگی عطاکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان درندوں اوران کے سہولت کاروں کو اس قوم کی بھلائی کے لئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

      – وزیراعظم کا سخت ردعمل –

    وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکولپر انتہائی غم وغصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔

    – حملہ آوروں کا انجام –

    گزشتہ دنوں آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار افراد کو تختۂ دار کے حوالے کیاگیا ہے اس موقع پرمعصوم بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد کسی قسم کے رحم اورمعافی کے مستحق نہیں ہیں۔

    خیبر پختونخواہ کی کوہاٹ جیل میں 2 دسمبر کوپشاور آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار دہشتگرد اپنے منطقی انجام کو پہنچے، دو روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملوں میں ملوث چار مجرمان مولوی عبدالسلام ، علی ، مجیب الرحمان اور سبیل عرف یحییٰ کے بلیک وارنٹ پر دستخط کئے تھے۔

    اس موقع پرشہداء کے پسماندگان نے انتہائی مسرت کا اظہارکیا اور ایک والد نے کہا کہ’’ان دہشت گردوں کو جیل کے بجائےمجمع عام میں پھانسی دی جائے‘‘۔

    مسلح افواج نے پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقے میں کئی فضائی حملے کئےجن میں افغانستان کے راستے پاکستان میں آنے والے دہشت گردوں کونشانہ بنایاگیا۔

     – ملٹری کورٹس کا احیاء –

    سانحہ اے پی ایس کے ردعمل میں ملک بھرمیں شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاوٗن آپریشن شروع کیا گیا جس کے تحت ملٹری کورٹس کا قیام امن میں لایا گیااورملک بھرمیں چھ سال سے سزائے موت پرعائد پابندی کا خاتمہ کیاگیا۔

    اگست 2015 میں ملٹری کورٹس میں سانحہ اے پی ایس میں ملوث چھ افراد کوسزائے موت جبکہ ایک شخص کو عمرقید کی سزادی۔

    دو دسمبر کو سانحہ اے پی ایس میں ملوث ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ پہلے چار دہشت گردوں کو کیفرکردارتک پہنچایاگیا۔

     – تحفظ کا احساس –

    ملک کے طول وعرض میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے ثمرات موصول ہوناشروع ہوگئے ہیں تاہم نقادوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کی لعنت کے سدباب کے لئے طویل المدتی اقدامات نہیں کئے ہیں۔

    پاکستان نے دہشت گردی اورشدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے سبب رواں سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

    اعدادوشمارکے مطابق سال 2013 میں پاکستان میں دہشت گردحملوں کے 170 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بارہ سو سے زائد افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ 2014 میں دہشت گردحملوں کی تعداد 110 تھی جن کے نتیجے میں 644افراد نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    رواں سال اعدادوشمارکے مطابق ماہ اکتوبر تک ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد 36 تھی جن میں 211 افراد شہید ہوئے۔

  • شہدا کا خون ہم پر قرض ہے‘ جنگ جلد ختم کریں گے: آرمی چیف

    شہدا کا خون ہم پر قرض ہے‘ جنگ جلد ختم کریں گے: آرمی چیف

    پشاور: آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہدا کی یاد میں مرکزی تقریب کا آغاز ہوگیا ہے‘ تقریب میں آرمی چیف قمر باجوہ بھی شریک ہیں۔

    آج سے دوسال قبل پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول کے سانحے کی یاد میں پورے ملک میں ہر آنکھ اشکبار ہے اور دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے ‘ مرکزی تقریب متاثرہ اسکول میں ہورہی ہے ۔


    آرمی چیف قمر باجوہ کا خطاب


    آرمی چیف قمرباجوہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچے کے خون کے حساب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ شہید بچوں کی تصاویر اپنے دفتر میں رکھی ہوئی ہیں ‘ ان پھول جیسے معصوم بچوں کو بھلایا نہیں جا سکتا‘ آرمی چیف نے لواحقین سےاظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک شوہر ہوں‘ بھائی اور والد بھی ہوں‘ آپ کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں۔

    جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ مسلح افواج آپ کی حفاظت کی ضامن ہیں‘ کوشش ہے کہ اس جنگ کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

    آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید ہونے والے شہداء کا خون ہم پر قرض ہے‘ تقریب کے انعقاد کا مقصد بچوں کی قربانی کو یاد رکھنا ہے۔

    آخر میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان لواحقین کوجن کے بچے ، بہن بھائی اس حملے میں شہید ہوئے‘ حوصلہ دے اور انھیں صبر و جمیل عطا فرمائے۔


    اس سے قبل آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل نے تقریب کے آغاز میں 2014 میں شہید ہونے والے طلبا سمیت 140 سے زائد افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسز طاہرہ قاضی، اساتذہ اور بچوں کی شہادت نے قوم کو مضبوط اور متحد کردیا، ہم عہد کرتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کی شہادت کو اپنے لیے بہادری اور عظمت کا نشان بنا کر رکھیں گے’۔

    آج پشاور شہر میں سوگ کا عالم ہے‘ اسکولوں میں تعطیل ہے اور لوگ شہدا کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔

    peshawar-3


    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے


     مرکزی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ‘ کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمن اور لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ سمیت اہم شخصیات موجود ہیں۔

    تقریب میں شہدا کے لواحقین بھی شریک ہیں ‘ تلاوتِ قرآن ِ پاک کے بعد جنرل قمر باجوہ نے یادگارِ شہدا ٔ پر پھول چڑھائے ‘ اس موقع پر پاک فوج کے دستے نے سلامی بھی دی۔

    peshawar-1

    آج سے دو سال قبل دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے 134 بچوں سمیت 145 معصوم اور بے گناہ افراد کو خون میں نہلادیا تھا۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھاجس نے ساری دنیا کوششدرکرکے رکھ دیا۔ اس غم انگیزدن کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل تبدیلیاں کی گئیں اوردہشت گردی میں
    ملوث ملزمان کوسزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

  • سانحہ پشاور کے بعد آرمی پبلک اسکول میں داخلوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا، پرنسپل

    سانحہ پشاور کے بعد آرمی پبلک اسکول میں داخلوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا، پرنسپل

    پشاور: دہشت گردوں کا خیال تھا کہ وہ بچوں پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے والدین کو خوفزدہ کر دیں گے لیکن اسکے برعکس ہوا، دہشتگردوں کے حملے کے بعد آرمی پبلک اسکول میں داخلوں میں کمی کے بجا ئے اضا فہ ہوا۔

    جونئیر سیکشن کی پرنسپل سائرہ داؤد آفریدی نے کہا کہ شدت پسندوں کے حملے کے بعد آرمی پبلک اسکول پشاور میں حیران کن طور پر ریکارڈ داخلے ہوئے ہیں.

    سائرہ داؤ نے کہا کہ اس سال آرمی پبلک سکول پشاور میں ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ طلبا ایک ایسے تعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے آئیں گے، جہاں ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہوچکا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ داخلہ لینے والوں میں بیشتر ان بچوں کے چھوٹے بہن بھائی یا رشتہ دار ہیں جو اس سانحے میں شہید ہوئے تھے۔

    پرنسپل کا کہنا تھا کہ طلبا اور والدین میں ایک نیا حوصلہ آیا ہے اور وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط ہوگئے ہیں، بچوں کے والدین نے اس سانحے کو ہی ہتھیار بنا لیا ہے، طالبعلم اب تعلیم کے زریعے دشمن کو شکست دینے کا عزم رکھتے ہیں۔

  • صدرمملکت نے سانحہ پشاور میں ملوث 4دہشتگردوں کی رحم کی اپیلیں مستردکردیں

    صدرمملکت نے سانحہ پشاور میں ملوث 4دہشتگردوں کی رحم کی اپیلیں مستردکردیں

    اسلام آباد: صدرمملکت نے سانحہ پشاور میں ملوث چار دہشتگردوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کردیں.

    صدرممنون حسین نے حملے میں ملوث فوجی عدالت سے سزایافتہ چار دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کردیں، رحم نہ کھانے کی اپیل کی سفارش وزیراعظم نوازشریف نے کی تھی.

    صدر مملکت ممنون حسین کے فیصلے پر شہید بچوں کے والدین نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے.

    شہید بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ بے رحم قاتلوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے ، معصوم بچوں کی جانوں سے کھیلنے والے دہشت گرد صرف عبرت ناک سزاکے مستحق ہیں.

  • اے پی ایس شہداء کے لواحقین کے اعزاز میں افطار ڈنر، آرمی چیف کی شرکت

    اے پی ایس شہداء کے لواحقین کے اعزاز میں افطار ڈنر، آرمی چیف کی شرکت

    پشاور : پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کور ہیڈ کوراٹر پشاور کا دورہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق  آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کے لواحقین کے اعزاز میں دئیے گئے افطار ڈنر میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ شرکت کی اور ہر شہید کے خاندان سے فرداً فرداً ملاقات کر کے اظہار یکجہتی کیا ۔

    بعد ازاں اسکول اسٹاف کے لواحقین سے گفتگو میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سولہ دسمبر کے سانحے کے زخم مندمل نہیں ہو سکتے ۔

    پوری قوم مادر وطن کے دفاع کے لئے جانیں قربان کر نے والوں کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کمسن شہداء نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر قوم کو متحد کیا ۔

    ان معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہے ان دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پیہنچایا جائے گا اور پاک سرزمین سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک پاک فوج کا آپریشن جاری رہے گا۔

    اس موقع پر سانحہ کے شہدا ء کیلئے خصوصی فاتحہ خوانی کی گئی۔ کور کمانڈر پشاور لیفٹینیٹ جنرل ہدایت الرحمن بھی اس موقع پر موجود تھے۔

  • عمران خان 35 پنکچروالا ٹائر ٹریبونل میں پیش نہ کر سکے، پرویز رشید

    عمران خان 35 پنکچروالا ٹائر ٹریبونل میں پیش نہ کر سکے، پرویز رشید

    اسلام آباد : وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان پینتیس پنکچر والا ٹائر ٹریبونل میں پیش نہ کر سکےاب کسی پپو کا نام لے رہے ہیں جس کی سب کو تلاش ہے ۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاو ر کے حوالے سے تصویری نمائش میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    پرویز رشید کاکہنا تھا کہ عمران خان الیکشن ٹریبونل میں دھاندلی کے حوالے سے آڈیو ٹیپ سمیت ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔

    عمران خان ٹریبونل میں وہ ٹیوب ہی نہیں لا سکے جس کو پینتیس پنکچر لگے۔ اب عمران خان ایک پپو کا نام لے رہے ہیں جس نے انتخابی نتائج تبدیل کئے جس کی سب کو تلاش ہے ۔

    پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی سازش اندرونی ہو یا بیرونی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ۔اقتصادی راہداری منصوبہ کسی ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا ہے۔

    روٹ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے روٹ چاروں صوبوں سے گذرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الزامات کی سیاست سے انتشار بڑھے گا ۔