Tag: Aqeel Abbas jaffery

  • پاکستان کرونیکل – ایک ایسی کتاب جو ہر کتب خانے میں ہونا لازمی ہے

    پاکستان کرونیکل – ایک ایسی کتاب جو ہر کتب خانے میں ہونا لازمی ہے

    کیا آپ نے کبھی پاکستان کرونیکل کا نام سنا ہے ، اگر آپ نے آج تک اس نادر و نایاب کتاب کے بارے میں نہیں سنا تھا تو جان لیجیے کہ آپ کا کتب خانہ مکمل نہیں ہے۔

    پاکستان کرونیکل ایک ریفرنس بک ہے جس کی اشاعت کا مقصد پاکستان کے تمام اہم حالات و واقعات کو ایک مقام پر جمع کرنا ہے تاکہ حال او ر مستقبل کے تحقیق کرنے والوں کے لیے معاون رہے ، اور یہ عظیم الشان کارنامہ معروف محقق عقیل عباس جعفری نے انجام دیا ہے۔

    حال ہی میں اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے اور موجودہ ایڈیشن میں قیام ِ پاکستان سے لے کر 31 مارچ 2018 تک پاکستان کے تمام اہم حالات و واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے ، کتاب کی تدوین اتنے عمدہ آسان انداز میں کی گئی ہے کہ ایک عام قاری بھی سینکڑوں صفحات کی اس کتاب میں سیکنڈوں کے اندر اپنی ضرورت کے مواد تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

    پاکستان کرونیکلزاس ایڈٰیشن میں 6 ہزار واقعات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور ان کے ساتھ پانچ ہزار ایسی نادر و نایاب تصاویر بھی شایع کی گئی ہیں کہ انٹرنیٹ چھان ماریں، تب بھی وہ آپ کو کہیں نہیں ملیں گی۔ ایک ایک واقعے کے لیے ملک بھر کے اخباروں کے دفاتر اورکئی شہروں کی لائبریریوں کی خاک چھانی گئی ہے ، بلاشبہ یہ ایک مکمل ادارے کے کرنے کا کام ہے جسے عقیل عباس جعفری نے تنِ تنہا انجام دیا ہے۔

    اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام ورثہ پبلیکیشن کراچی نے کیا ہے ۔ اے فور سائز کےمعیاری کاغذ سے مزین اس کتاب کے کل صفحات کی تعداد 1332 ہے۔ طباعت اعلیٰ اور مضبوط جلد بندی کی گئی ہے اور ستر سال سے زائد عرصے پر محیط اس تاریخ ساز دستاویز کی قیمت 5 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

    پاکستان کرونیکل میں شامل نادر و نایاب تصاویر میں پاکستان کی پہلی کابینہ کے ارکان کی ایک نادر تصویر بھی موجود ہے۔ اس طرح کی نادرو نایاب تصاویراس دستاویز میں کثرت سے موجود ہیں مثلاً پاکستان کے اولین گزٹ کا عکس جس میں محمد علی جناح کو پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کرنے کا حکم درج ہے۔ سردار عبدالقیوم خان کی نوجوانی کی ایک تصویر جس میں وہ ایک مسلح مجاہد کے روپ میں نظر آ رہے ہیں۔

    کراچی میں قیامِ پاکستان کے بعد ریلیز ہونے والی پہلی فلم کا پوسٹر، ہندوستان کے ڈاک ٹکٹ جن پر پاکستان کی مہر لگا کر انہیں نئی سرکاری حیثیت دی گئی۔ جوناگڑھ کے آخری نواب مہابت خان جی کی شبیہ، معروف امریکی جر یدے ’لائف‘ کے 5 جنوری 1948ء کے شمارے کا سرِ ورق جس پر قائدِ اعظم کی تصویر ہے۔ 1948ء کے اولمپک کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ہاکی ٹیم کا گروپ فوٹو اور قائدِ اعظم کے لکھے ہوئے آخری خط کا عکس شامل ہیں۔

    عقیل عباس جعفری کے بارے میں


    اب بات کرتے ہیں کچھ کتاب کے محقق عقیل عباس جعفری کے بارے  میں، ان دنوں وہ اردو لغت بورڈ سے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کی سربراہی میں اردو زبان کی سب سے مستند اور ضخیم لغت کو عوام الناس کے لیے آن لائن کرچکے ہیں اور ساتھ ہی  کئی منصوبےاوربھی جاری ہیں۔

    عقیل عباس جعفری کا نام تحقیق کے شعبے میں نیا نہیں۔ انہوں نے ابتدا معلومات عامہ کے شعبے سے کی اور اس حوالے سے کئی کتابیں تحریر کیں جن میں366 دن، صفر سے 100 تک، جہان معلومات، ہے حقیقت کچھ، ایک سال پچاس سوال، کون بنے گا کروڑ پتی اور قائد اعظم معلومات کے آئینے میں شامل ہیں۔

    پاکستان کے سیاسی وڈیرے سیاست کے موضوع پران کی پہلی کتاب تھی جس نے شائع ہوتے ہی تہلکہ مچا دیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس نے سیاست کی دنیا میں سیاسی وڈیرے کی اصطلاح کو متعارف کروایا۔ پاکستان کے سیاسی وڈیرے کے علاوہ عقیل عباس جعفری نے سیاست ہی کے موضوع پر کئی اور کتابیں بھی لکھیں جن میں پاکستان کی ناکام سازشیں، پاکستان کی انتخابی سیاست اور تاریخ پر قائد اعظم کی ازدواجی زندگی، لیاقت علی خان قتل کیس، پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت، کیا ہے فسانہ؟ اور سوانح و تنقید پر میر باقر علی داستان گو شامل ہیں۔

    انہوں نے موسیقی کے موضوع پر لکھے گئے شاہد احمد دہلوی کے نادر و نایاب مضامین کو بھی مضامین موسیقی کے نام سے مدون کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب علی سردار جعفری شخصیت و فن اپنے موضوع پر مستند حوالہ مانی جانی ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب 2016ء میں شائع شدہ چراغ روشن ہیں ہے جس میں عصمت چغتائی کے مختلف شاہکار خاکوں کو بہت خوبصورتی سے مرتب و مدون کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں 12 خاکے وہ ہیں جنہیں عصمت چغتائی نے مختلف ادبی شخصیات پر لکھا ہے۔

    بلاشبہ عقیل عباس جعفری اپنی ذات میں ایک نابغہ ہیں اور اس ملک کا انتہائی اہم سرمایہ ہیں جن کی علمی خدمات سے آنے والی کئی نسلیں فیض یاب ہوں گی۔

  • قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کو گزرے آج 89 برس بیت گئے

    قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کو گزرے آج 89 برس بیت گئے

    کراچی: آج بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوسری زوجہ مریم جناح المعروف رتی جناح کی 118 ویں سالگرہ اور89 ویں برسی ہے‘ آپ بیماری کے سبب کم عمری میں انتقال کرگئی تھیں۔

    پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی رتن بائی 20 فروری 1900کو پیدا ہوئی تھیں اورقائداعظم محمد علی جناح کی دوسری بیوی تھیں۔ شادی سے ایک دن قبل انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔

    رتی جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔

    رتی جناح شاعری اورسیاست میں انتہائی شغف رکھتی تھیں اور ان کے انہی مشاغل کی وجہ سے ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔

    قائد اعظم اور رتی جناح کی شادی 19 اپریل 1918 کو بمبئی میں ہوئی جس میں صرف قریبی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کی انگوٹھی راجہ صاحب محمودآباد نے تحفے میں دی تھی۔


    قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر

    برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال نے قائداعظم کی سیاسی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا اور اکثر انہی مصروفیات کی وجہ سے شہر سے باہر بھی رہا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میاں بیوی میں اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ آیا جب رتی اپنا گھر چھوڑ کر ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئیں۔ 1928ء میں وہ شدید بیمار پڑیں اور علاج کے لیے پیرس چلی گئیں۔

    قائداعظم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی ان کی تیمارداری کے لیے پیرس پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ یوں ان دونوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہوگئے۔ چند ماہ بعد رتی جناح وطن واپس آ گئیں مگر ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور 20 فروری 1929ء کو انکی 29 ویں سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔

    قائد اعظم ایک انتہائی مضبوط اعصابی قوت کے مالک شخصیت تھے اورانہیں عوام میں صرف دو مواقع پرروتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک بارتب جب انہیں ان کی چہیتی زوجہ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا‘ اور ایک باراگست 1947 میں کہ جب وہ آخری مرتبہ اپنی شریکِ حیات کی قبر پر تشریف لائے تھے۔

    اُن کی واحد اولاد‘ دینا جناح کی پیدائش 15 اگست 1919ء کو لندن میں ہوئی اور انہوں نے گزشتہ سال 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں وفات پائی ۔

    رتی جناح پر لکھی جانے والی کچھ اہم کتابیں

    تصاویر بشکریہ : معروف محقق اور اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری


    بر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • صدر ممنون نے سب سے بڑی’ آن لائن اردو لغت‘ کاباضابطہ افتتاح کردیا

    صدر ممنون نے سب سے بڑی’ آن لائن اردو لغت‘ کاباضابطہ افتتاح کردیا

    اسلام آباد: صدر ِ پاکستان ممنون حسین نے اردو کی جامع ا ور جدید ترین اردو لغت کے آئن لائن ایڈیشن کاباضابطہ افتتاح کردیا ہے‘ 22 جلدوں پر مشتمل اردو ڈکشنری بورڈ کی اس لغت کا مفت آن لائن ورژن دنیا بھر میں اردو کے مداحوں کے لیے خوش خبری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 22 جنوری 2018 کو ایوانِ صدر میں ہونےو الی ایک پروقار تقریب میں اس عظیم ای لغت کا افتتاح کیا گیا۔ کئی عشروں کی محنت سے تیار ہونے والی 22 جلدوں پر مشتمل اردو لغت کے آن لائن ایڈیشن کے ذریعے 22 ہزار صفحات اورتقریباً 2 لاکھ 64 ہزار الفاظ پر مشتمل علمی خزانہ اب انٹرنیٹ پردستیاب ہو گا‘ موبائل سے آسان رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص ’’ایپ‘‘ بھی تیار کی گئی ہے۔

    اس موقع پر صدر مملکت ممنو ن حسین کا کہنا تھاکہ ثقافتی یلغارمنظم تہذیبوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اردو لغت کے ایک ہزار سال کی ثقافتی روایت کو محفوظ کر دیا جس سے مستقبل میں اردو کے قدردان جدید تقاضوں کے مطابق بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔

     

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ آج ہماری زبان تہذیبی جاہ وجلال کے ساتھ بڑی عالمی زبانوں کی صف میں شامل ہو گئی ہے۔ کامیابیوں کا یہ سفرمستقبل میں بھی جاری رہے گا اور ادب و ثقافت کا یہ پرچم پوری دنیا میں آب و تاب سے لہراتا رہے گا‘ اپنی ثقافت مضبوط ہو تو بیرونی ثقافتوں کی یلغار کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔

    online Urdu Lughat

    انہوں مزید کہا کہ اردو لغت کے آن لائن ایڈیشن کے ذریعے پوری دنیا میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر نے یقین دلایاکہ حکومت لغت کے حوالے سے کام کرنے والوں کی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔

    اردو لغت کے انٹرنیٹ ایڈیشن کے اجرا کی تقریب میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویڑن عرفان صدیقی اور چیف ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ عقیل عباس جعفری نے    بھی خطاب کیا جن کی محنت ِ شاقہ کے نتیجے میں یہ ڈکشنری آن لائن کی دنیا میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔عقین عباس جعفری کے مطابق اردو لغت بورڈ نے  اس عظیم الشان لغت کی بائیس جلدیں دو سی ڈیزمیں  بھی منتقل کردیں ہیں ۔ ایک سی ڈی میں گیارہ جلدیں محفوظ کی گئی ہیں۔ یہ سی ڈیز کا سیٹ ان افراد کے لیے کارآمد ثابت ہوگا جو ہر وقت آن لائن نہیں رہ سکتے۔عنقریب انہیں بھی اہلِ علم کی خدمت پیش کردیا جائے گا ۔

    انہوں نے مسرت کا اظہار کیا کہ بائیس جلدوں پر مشتمل اردولغت نہ صرف زبان کی تاریخ اور اس کی دیگر تمام نزاکتوں کا پوری جامعیت سے احاطہ کرتی ہے بلکہ ہماری ایک ہزار برس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت کو بھی سامنے لاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 11ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے و محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اورکراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔