Tag: Archaeologists

  • مصر : 26 ہزار سال قدیم ’’پنیر‘‘ کے ٹکڑے دریافت

    مصر : 26 ہزار سال قدیم ’’پنیر‘‘ کے ٹکڑے دریافت

    قاہرہ : ماہرین آثار قدیمہ نے نوادراتِ سقرہ کے قبرستان میں کھدائی کے دوران 26 ہزار سال قدیم پنیر کے ٹکڑے دریافت کرلیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ پنیر کے یہ ٹکڑے 664-525قبل مسیح کے درمیان کے ہیں۔

    رپورٹ میں مصری نوادرات کی وزارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کی ایک ٹیم کو مٹی کے کئی برتن ملے ہیں جن میں پنیر کو ڈیموٹک رسم الخط سے سجایا گیا ہے، یہ ایک قدیم مصری تحریری شکل ہے۔

    ماہرین کی ٹیم نے نوادراتِ سقرہ کے قبرستان میں کھدائی کے دوران اس کے علاوہ اور بھی کنٹینرز دریافت کیے ہیں جو جلد ہی کھولے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اسی مقام پر کھدائی کے دوران سقرہ کے مقبرے سے 100 سے زیادہ سرکوفگی (sarcophagi)دریافت کیے گئے تھے۔

  • غار سے لاکھوں سال پرانی شے دریافت، دیکھنے والے حیرت زدہ

    غار سے لاکھوں سال پرانی شے دریافت، دیکھنے والے حیرت زدہ

    ماہرین آثار قدیمہ نے جنوبی افریقہ کے ایک غار سے انتہائی قدیم مکان دریافت کیا ہے، اس نادر دریافت سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ یہ مکان تقریباً 20لاکھ سال پرانا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اور کینیڈین تحقیق دانوں نے جنوبی افریقہ کے ایک غار سے تقریباً دو ملین سال قبل پتھری آلات سے تیار کی جانے والی بعض اشیاء کا پتہ لگایا ہے۔

    تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت جنوبی افریقہ میں انسانوں کے ابتدائی دور سے متعلق بعض معلومات تک رسائی میں معاون ثابت ہوں گی، اس کے علاوہ یہ دریافت تاریخ کے طالب علموں کیلیے بھی بہترین رہنمائی فراہم کرے گی۔

    اسرائیلی اور کینیڈین تحقیق دانوں نے اس غار میں موجود دنیا کے قدیم ترین گھر کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے 1.8 ملین سال قدیم پتھری آلات سے بنائی جانے والے آثار قدیمہ کو دریافت کیا ہے۔

  • مصر : تاریخ میں پہلی بار سب سے بڑا اور قدیم سنہری شہر دریافت

    مصر : تاریخ میں پہلی بار سب سے بڑا اور قدیم سنہری شہر دریافت

    قاہرہ : مصر میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے تین ہزار سال قدیم سب سے بڑے شہر کی باقیات دریافت کی ہیں۔ توتن خامون کے مقبرے کے بعد یہ دوسری اہم دریافت ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرعونوں کے سنہری دور کی یہ باقیات لکسور شہر کے باہر ایک صحرا میں ملی ہیں۔ یہ مصر کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے۔

    مصری آثار قدیمہ کے مشہور ماہر زاہی حواس نے "گمشدہ سنہری شہر” کی دریافت کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مقام بادشاہوں کی مشہور وادی کے گھر لکسور کے قریب دریافت ہوا ہے۔

    کھدائی کرنے والی ٹیم نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر زاہی حواس کے ماتحت مصری مشن نے یہ شہر دریافت کیا جو ریت کے نیچے کھو گیا تھا۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ شہر تین ہزار سال پرانا ہے، جہاں امنحتب سوم حکمرانی کرتے تھے اوران کے بعد توتن خامون اور ایی کے بھی استعمال میں رہا۔

    ٹیم نے اس دریافت کو مصر کی تاریخ میں دریافت ہونے والا اب تک کا "سب سے بڑا” قدیم شہر قرار دیا ہے۔

    ٹیم کے بیان کے مطابق جان ہوپکنز یونیورسٹی میں مصری آرٹ اور آثار قدیمہ کے پروفیسر بیٹسی برائن نے تقریباً سو سال پہلے دریافت ہونے والے توتن خامون کے مقبرے کے بعد اسے دوسری سب سے اہم دریافت قرار دیا ہے۔

    کھدائی کے دوران یہاں سے زیورات، مٹی کے رنگین برتن اور دوسری اشیا ملی ہیں۔ زاہی حواس جو سابق وزیر نوادرات بھی ہیں کا کہنا ہے کہ بہت سے غیر ملکی مشنز نے اس شہر کی تلاش کی اور انہیں یہ کبھی نہ ملا۔

    اس شہر کے لیے گذشتہ سال ستمبر میں لکسور کے قریب رمسس سوم اور امنتحتب سوم کے مندروں کے درمیان کھدائی شروع کی گئی تھی۔

    کچھ ہی ہفتوں میں کھدائی کرنے والی ٹیم کو ایک بڑا تحفہ ملا اور تمام سمتوں میں مٹی کی اینٹوں کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے۔

  • پاکستان کا وہ قدیم ترین جانور جو آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    پاکستان کا وہ قدیم ترین جانور جو آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    اٹک : آج سے تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے جہاں اٹک و فتح جنگ شہر کے درمیان "کالا چٹا پہاڑ” نامی سلسلہ کوہ واقعہ ہے۔ لاکھوں سال قبل ان میں سے بیشتر علاقے سمندر کا حصہ تھے اور یہیں یہ حیرت انگیز جانور گہرے پانیوں میں شکار کیا کرتا تھا۔

    وہیل کو عام طور پرمچھلی لکھ دیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ وہیل کا شمار دودھ پلانے والے جانوروں یعنی ممالیہ میں ہوتا ہے جبکہ وہیل کے ارتقائی آباؤ اجداد آج سے کروڑوں سال پہلے خشکی پر اُن علاقوں میں رہا کرتے تھے جو آج پاکستان کا حصہ ہیں۔

    یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ آج سے کروڑوں سال پہلے، خشکی پر رہنے والے، وہیل کے یہ آبا و اجداد اپنی جسامت اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے کتوں/ بھیڑیوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔

    پاکی سیٹس Pakicetus : کا تعارف:

    یہ ایک گوشت خور شکاری جانور تھا جو کہ لمبوترے جسم، لمبی تھوتھنی، مظبوط جبڑوں اور تیز دانتوں کے ساتھ ساتھ ایک لمبی دم رکھتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ خشکی کا جانور تھا لیکن شکار کے لیے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ پانی میں بھی گزارا کرتا تھا۔

    اس کے لمبے شکل کی جسامت اسے تیرنے اور غوطہ لگانے میں مدد دیتی تھی جیسے کچھ مچھلیاں لمبے جسم کی حامل ہوتی ہیں۔

    سائز:

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پاکی سیٹس کی جسمانی لمبائی 7 فٹ تک ہوا کرتی تھی جبکہ اس کے وزن کا اندازہ 50 پاؤنڈ تک لگایا گیا ہے۔

    خوراک:

    بنیادی طور پر اس کی خوراک مچھلی اور آبی جانوروں پر مشتمل ہوتی تھی تاہم اس کی خوراک میں کچھ زمینی جانور بھی شامل ہوسکتے تھے۔

    ڈھانچہ اور تحقیقات:

    پاکی سیٹس کا پہلا ڈھانچہ سال1981 میں اٹک میں کالا چٹا پہاڑ سے برآمد ہوا تھا۔ یہ جانور ماہرین آثار قدیمہ کے لیے ایک معمہ تھا کیونکہ اس کا جسم زمینی جانوروں سے ملتا جلتا تھا جبکہ کھوپڑی کسی وہیل جیسی تھی اور اس کے گھٹنے کی ہڈیاں سبزی خور جانوروں سے مشابہہ تھیں۔

    سال2001 میں اس کے مزید ڈھانچے برآمد کیے گئے جو کہ کافی حد تک مکمل تھے۔ طویل تحقیقات کے بعد 2009میں اس جانور کو آج کی وہیل کا جد امجد قرار دیا گیا تاہم اس پر تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں، مزید انکشافات کی بھی گنجائش ہے۔

    معدومی:

    کہا جاتا ہے کہ پاکی سیٹس کی معدومی کا اندازہ 4 کروڑ 10 لاکھ سال قبل کا ہے، معدومی کی کوئی کنفرم وجوہات کا اندازہ تو نہیں مگر غالب امکان یہی ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں اس کی معدومی کا سبب بنی ہوں گی۔

  • پیرو میں دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائے گئے 227 بچوں کی قدیم قبریں دریافت

    پیرو میں دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائے گئے 227 بچوں کی قدیم قبریں دریافت

    لیما:جنوبی امریکی ملک پیرو میں چیموز دیوتاؤں کے لیے بھینٹ چڑھائے جانے والے بچوں کی قدیم اجتماعی قبریں دریافت ہوگئیں، رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ قبریں کم از کم 500 سال پرانی ہیں جن میں سے 227 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم امریکا کے جنوب میں واقع ملک پیرو کے دارالحکومت لیما کے ساحلی علاقے ہونیچوکو میں 227 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی عمریں 5 سے 14 برس تھیں،آثار قدیمہ ماہرین کے مطابق دریافت کی گئی قبریں کم از کم 500 سال پرانی ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس پیرو کے دو مختلف مقامات پر مجموعی طور پر 200 بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں،ماہرین نے بتایا تھا کہ جب کھدائی کی گئی تو بعض بچوں کی لاشوں کے بال اور کھال موجود تھی۔

    اس حوالے سے ماہرینِ آثار قدیمہ نے بتایا کہ بچوں کو برسات کے موسم میں قتل کیا گیا اور دفن کرتے وقت ان کے چہرے سمندر کی جانب موڑ دیے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو چیموز کے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھینٹ چڑھایا گیا تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان بچوں کو کس سال قتل کیا گیا۔

    واضح رہے کہ چیموز کے باشندے پیرو کے شمالی ساحلی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور خطے کی انتہائی طاقتور ثقافت کے حامل ہیں۔

    اس حوالے سے بتایا گیا کہ چیموز باشندوں نے 1200 سے 1400 کے درمیانی عرصے میں مقبولیت حاصل کی اور انکائی باشندوں پر قبضہ کرلیا جس کے بعد اسپین نے حملہ کرکے خطے کو فتح کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چیموز چاند کو خدا مانتے تھے اور اسے شی پکارتے تھے جبکہ انکائی کے باشندے سورج کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھےعلاوہ ازیں ماہر آثار قدیم کے مطابق کھدائی کا عمل جاری ہے تاہم مزید قبریں دریافت ہوسکتی ہیں۔

  • چودہ ہزار سال قبل انسان روٹی کھاتے تھے، حیران کُن شواہد دریافت

    چودہ ہزار سال قبل انسان روٹی کھاتے تھے، حیران کُن شواہد دریافت

    عمان: محکمہ آثار قدیمہ نے دنیا کا سب سے قدیم تندور اور روٹی کا ٹکڑا دریافت کرنے کا دعویٰ کردیا جو تقریبا 14ہزار سال قبل انسانوں کے استعمال میں تھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اردن کے سیاہ صحرا میں محکمہ آثار قدیمہ کو زمین کی کھدائی کے دوران پرانی اشیاء ملیں جنہیں دیکھ کر ماہرین خود بھی حیران رہ گئے۔

    محکمے کے ماہرین نے مشاہدے کے بعد بتایا کہ صحرا سے ملنے والی اشیاء دراصل ’روٹی‘ اور تندور ہے جسے انسان ہزاروں سال قبل اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 14 ہزار سال قبل انسان جنگلی گندم میں کچھ پودوں کی جڑیں ملا کر آٹا تیار کرتے اور پھر اس کی روٹی اپنی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کرتے تھے، یہ دراصل آج استعمال ہونے والی ‘ڈبل روٹی‘ کی طرح ہے جس کی شکل گول نہیں بلکہ چوکور ہے۔

    آثار قدیمہ کی ٹیم کے ماہرین کا کہنا تھا کہ روٹی کا ذائقہ مختلف اجناس کی طرح تھا جسے مختلف کھانوں، سالن وغیرہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا اس کے ساتھ ہی دو ممکنہ تندور بھی موجود تھے جہاں یقینی طور پر آٹے کو پکا کر روٹی بنائی جاتی ہوگی۔

    ماہرین حالیہ  دریافت کو اہم اور قیمتی قرار دے دیا کیونکہ اس سے قبل سیاہ صحرا کے مقام سے جو شواہد ملے تھے وہ 5 ہزار سال پرانی تھے۔

    حیران کُن طور پر تندور کے پاس ایسے شواہد بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قبل مسیح میں انسان کو نہ صرف اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کا شعور تھا بلکہ وہ آگ کا استعمال کرتے ہوئے کھانا بھی بناتے تھے۔

    محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت ہونے والی چیزوں پر تحقیق کا آغاز کردیا جس میں کچھ نئے اشارے ملنے کی توقع بھی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فرعون کے مجسمے کا تین ٹن وزنی دھڑنکال لیا گیا

    فرعون کے مجسمے کا تین ٹن وزنی دھڑنکال لیا گیا

    قاہرہ : مصرمیں ’فرعون رعمسیس دوئم‘ کے مجسمے کا دھڑ نکال لیا گیا. مصری اور جرمن ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے گذشتہ ہفتے یہ مجسمہ دریافت کیا تھا، جس کا وزن تین ٹن ہے۔

    مصر میں ممکنہ طور پر تین ہزار سال قدیم ایک بڑے مجسمے کا دھڑ کیچڑ سے کرینوں کی مدد سے نکالا گیا، مجسمے کے بارے خیال ہے کہ یہ فرعون کا مجسمہ ہے۔

    mumy-post-01

    اس مجسمے کا سر اور دیگر حصے گذشتہ ہفتے نکالے گئے تھے، یہ باقیات شمال مشرقی قاہرہ میں رعمسیس دوئم جو عظیم رعمسیس کےمندر کے پاس سے نکالی گئیں۔

    mumy-post-02

    ماہرین کو لگتا ہے کہ یہ مجسمہ رعمسیس کا ہو سکتا ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ مجسمے کے ٹکڑوں کو مرکزی قاہرہ میوزیم میں لے جا کر جوڑا جائے گا۔

    mumy-post-03