Tag: Arctic

  • زمین کے ایک حصے پر غیر معمولی گرمی: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    زمین کے ایک حصے پر غیر معمولی گرمی: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرہ ارض پر آرکٹک کا حصہ 4 گنا رفتار سے گرم ہو رہا ہے، یہ تحقیق حال ہی میں کی گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 40 سالوں میں زمین کے شمالی حصے آرکٹک میں گرمی کی شرح میں تقریباً 4 گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ موسمیاتی ماڈل قطبی درجہ حرارت کی شرح کے حوالے سے غلط اندازے لگا رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے موسمیاتی سائنس پینل نے 2019 میں ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ آرکٹک ایمپلی فکیشن کے نام سے مشہور عمل کی وجہ سے شمالی علاقے عالمی اوسط سے دگنا رفتار سے گرم ہو رہے ہیں۔

    یہ اس وقت ہوتا ہے جب برف اور گلیشیئرز، سورج کی روشنی اور حرارت سے پگھل کر پانی کی شکل میں سمندر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے اتفاق رائے ہے کہ شمالی علاقے تیزی سے گرم ہو رہے ہیں تاہم اس حوالے سے ٹائم فریم پر سب کے اندازے مختلف ہیں جبکہ اس بات پر بھی اختلاف ہے کہ آرکٹک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ناروے اور فن لینڈ میں مقیم محققین کی ایک ٹیم نے 1979 سے آرکٹک سرکل کے سیٹیلائٹ اسٹڈیز کے ذریعے جمع کیے گئے درجہ حرارت کے ڈیٹا کے چار سیٹ کا تجزیہ کیا۔

  • کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    گزشتہ چند روز سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں قطب شمالی میں چاند کو ابھرتا اور پھر ڈوبتا ہوا دکھایا گیا ہے، متعدد فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس نے اسے جعلی ثابت کردیا۔

    فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہونے والی 30 سیکنڈز کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند طلوع ہورہا ہے اور اس کا حجم بہت بڑا ہے، ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ روس اور کینیڈا کے درمیان قطب شمالی کی ویڈیو ہے جہاں سے چاند اتنا ہی بڑا دکھائی دیتا ہے۔

    اسے پوسٹ کرنے والے ایک صارف نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب شمالی میں 30 سیکنڈز کے لیے چاند اتنا بڑا دکھائی دیتا ہے، اس کے بعد 5 سیکنڈز کے لیے سورج کے سامنے آ کر اسے گرہن لگا دیتا ہے اور پھر غروب ہوجاتا ہے۔

    تاہم جلد ہی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معلوم ہوگیا کہ یہ ویڈیو اینی میشن کا کمال ہے، اسے ایک ٹاک ٹاکر نے بنایا تھا جو اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کی اینی میٹڈ ویڈیوز بناتا رہا ہے۔

    البتہ اس سے پہلے ہی اس ویڈیو کی حقیقت کسی فیکٹ چیک کے بغیر کامن سینس کے ذریعے پہچانی جاسکتی ہے۔

    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چاند اور زمین ایک دوسرے سے اس قدر فاصلے پر یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلومیٹر دور واقع ہیں کہ زمین کے کسی بھی حصے سے چاند کا اتنا بڑا دیکھا جانا ممکن نہیں۔ ویڈیو میں چاند اتنا قریب دکھائی دے رہا ہے جیسے ایک جست لگا کر اس تک پہنچا جاسکے۔

    ماہرین نے اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی چند مزید غیر معمولی چیزوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اس ویڈیو کو جعلی ثابت کرتی ہیں۔ جیسے کہ زمین پر گھاس کا ہونا، جبکہ قطب شمالی برفانی علاقہ ہے جہاں سال کے 12 ماہ زمین پر برف رہتی ہے۔

    علاوہ ازیں ویڈیو میں دکھائی دینے والی جھیل میں چاند کا سایہ بھی نہیں پڑ رہا جبکہ چاند بھی بہت تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کے گرد گھومنے والا چاند کا مدار اس قدر مکمل دائرے میں نہیں جیسے کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند پرفیکٹ دائرے کی صورت میں حرکت کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا مدار کسی حد تک بیضوی ہے۔

    اس جعلی ویڈیو کو گزشتہ چند روز میں لاکھوں صارفین نے شیئر کیا –

  • روسی بحریہ کی آرکٹک میں فوجی مشقیں جاری

    روسی بحریہ کی آرکٹک میں فوجی مشقیں جاری

    ماسکو: روسی صدر کا کہنا ہے کہ روسی بحریہ آرکٹک کے سخت ترین حالات میں بھی وہاں فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہے، انہوں نے زور دیا کہ ان مشقوں کو جاری رکھنا چاہیئے۔

    روسی ویب سائٹ کے مطابق روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے روسی بحریہ کے کمانڈر ان چیف نکولائی یویمانوف کے ساتھ مشترکہ آرکٹک ویڈیو کانفرنس کی رپورٹ سنی۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ آرکٹک میں روسی بحریہ نے شمالی عرض البلد کے انتہائی سخت موسم میں حالیہ مشقوں سے وہاں کے بدترین حالات میں بھی کام کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

    انہوں نے زور دیا کہ ان مشقوں کو جاری رکھنا چاہیئے۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ بہترین جنگی تربیت اور سائنسی تحقیق کی بدولت اس تمام صورتحال کے باوجود روسی بحریہ نے شمالی آرکٹک میں کام کرنے کی صلاحیت حاصل کی ہے۔

    انہوں نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ روس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے آرکٹک میں فوجی مہمات کے ساتھ ساتھ ایکسٹریم شمالی آرکٹک میں وسائل کی تلاش جاری رکھیں۔

  • اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا

    اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا

    کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کا سب سے بڑا شگاف بھر گیا، 11 میل طویل یہ شگاف قطب شمالی کے اوپر تھا۔

    کوپرینکس ایٹموسفرک مانیٹرنگ سروس کے مطابق آرکٹک کے اوپر بننے والا یہ شگاف رواں برس کے آغاز میں بنا تھا اور مارچ تک یہ 11 میل تک پھیل گیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق آرکٹک کے اوپر اوزون میں شگاف پڑنا معمول کا عمل ہے تاہم یہ شگاف اب تک کا ریکارڈڈ سب سے بڑا شگاف تھا، اور جتنی جلدی یہ تشکیل پایا اتنی ہی جلدی یہ رفو بھی ہوگیا۔

    مانیٹرنگ سروس کا کہنا ہے کہ یہ شگاف پولر وورٹیکس کی وجہ سے بنا۔ اس عمل میں موسم سرما کے دوران بلند و بالا کرنٹ کی لہریں وسیع بھنور کی صورت گھومنے لگتی ہیں جس کے بعد برفانی خطے کی ٹھنڈی ہوائیں بھی بھنور کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

    اس کے بعد جب درجہ حرارت بالکل نیچے چلا جاتا ہے تو ایسے بادل بنتے ہیں جن سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے۔

    اس سے قبل کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران فضائی آلودگی میں کمی کی وجہ سے اوزون کے شگاف بھرنا شروع ہوگئے تھے اور حالیہ شگاف کی رفو گری کو بھی اسی سے جوڑا جارہا ہے تاہم ماہرین نے اس خیال کو مسترد کیا ہے۔

    ان کے مطابق جس طرح پولر وورٹیکس کی وجہ سے آرکٹک کے مذکورہ حصے کا موسم غیر معمولی طور پر سرد ہوا اسی طرح اس ٹھنڈک میں کمی بھی آگئی جس کے بعد مختلف گیسوں کے ردعمل سے اوزون کا شگاف بھر گیا۔

    اوزون تہہ کی حفاظت کے لیے آج سے 3 دہائیاں قبل سنہ 1987 میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔

    اس معاہدے میں اوزون کے لیے نقصان دہ گیسز کے کم استعمال کا عزم کیا گیا، اب 3 دہائیوں بعد اس معاہدے کے 99 فیصد اہداف کو حاصل کرلیا گیا ہے۔

  • روس نے تیرتا ہوا نیوکلیئر ری ایکٹر لانچ کردیا

    روس نے تیرتا ہوا نیوکلیئر ری ایکٹر لانچ کردیا

    ماسکو: روس نے ماحولیاتی ماہرین کے تمام تر انتباہات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے دنیا کا پہلے تیرتا ہوا جوہری ری ایکٹر لانچ کردیا جسے برف پر چرنوبل قرار دیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق شمال مشرق سائیبیریا میں جوہری ایندھن سے بھرے ہوئے اکادمک لومونسوف نے مرمنسک کی آرکیٹک بندرگاہ سے پیوک کے لیے 5 ہزار کلومیٹر طویل سفر کا آغاز کیا۔

    روس کی سرکاری نیوکلیئر ایجنسی روساتم کا کہنا تھا کہ یہ ری ایکٹر ایسے مقامات پر روایتی پلانٹ تعمیر کرنے کا آسان متبادل ہے جہاں تقریباً پورے سال زمین منجمد رہتی ہو، اس کے ساتھ انہوں نے اسے فروخت کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

    اس سلسلے میں جاری کردہ بیان میں روساتم کا کہنا تھا کہ یہ ری ایکٹر توانائی کے نئے تیرنے والے پلانٹ کا حصہ ہے جو شمالی سمندری راستے کی ترقی میں انتہائی اہم عنصر ثابت ہوگا جبکہ اس سے روس کو خطے میں انفرا اسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کا ادراک کرنے میں مدد ملے گی۔

    تاہم اس سلسلے میں خدشات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب روس کے شمال میں دور دراز مقام پر قائم ایک فوجی ٹیسٹنگ سائٹ پر خطرناک دھماکے سے ریڈیو ایکٹو شعاؤں کا بے پناہ اخراج ہوا،مذکورہ جوہری ری ایکٹر کا سفر 4 سے 6 ہفتے پر محیط ہوگا جس کا انحصار راستے میں موجود برف کی مقدار اور موسمیاتی صورتحال پر ہے۔

    خیال رہے کہ 144 میٹر طویل اکادمک لونوسوف پر سال 2006 میں روس کےساحلی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں کام کا آغاز ہوا تھا۔

    سائیبیریائی خطے میں 5 ہزار افراد کی آبادی والے علاقے پیوک میں پہنچ کر یہ جوہری ری ایکٹر مقامی نیوکلیئر پلانٹ کی جگہ لے لیگا جسے آئندہ برس سے بند کردیا جائے گا۔

    مذکورہ ری ایکٹر رواں سال کے آخر میں فعال ہوگا جس میں وہ بنیادی طور پر خطے میں تیل کے پلیٹ فارمز کے لیے کام کرے گا کیوں کہ روس آرکیٹک میں ہائیڈرو کاربن استحصال کو فروغ دیتا ہے۔

    اس ضمن میں عالمی ماحولیاتی مہم گرین پیس رشیا کے شعبہ توانائی کے سربراہ راشد الیموف نے کہا کہ ماحولیاتی تنظیمیں تیرتے ہوئے ری ایکٹر کے خیال کی 1990 سے مخالفت کررہی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ریڈیو ایکٹو کچرا پیدا کرتا ہے جس سے کوئی حادثہ ہوسکتا ہے لیکن اکادمک لومونسوف اسلیے بھی زیادہ خطرہ ہے کہ اس کا سامنا طوفان سے ہوسکتا ہے۔