Tag: army public school

  • سانحہ اے پی ایس: ایک ماں کے آنسوؤں سے لکھی تحریر

    سانحہ اے پی ایس: ایک ماں کے آنسوؤں سے لکھی تحریر

    تحریر: شازیہ عابد


    صبح ساڑھے دس بجے کا وقت تھا جن فون کی گھنٹی بجی۔ وہ منگل کا دن تھا۔ میں اس دن بہت بے چین تھی‘ جب بچے اسکول کے لیے روانہ ہوئے تو میں چائے بنائی لیکن میرے ہاتھ سے کپ گر گیا اور فرش پر ٹوٹ کر بکھر گیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے‘ میں کاؤچ پر جاکر آرام کرنے لگی۔ شاید مجھے اس ہولناک کال کا انتظار تھا۔ اچانک میرا فون بجا اور مجھے خبر دی گئی کہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کردیا ہے۔ ہائے! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہاں ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ میں نے سوچا کہ نہیں وہ آرمی پبلک اسکول ہے وہاں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ میں ابھی تذبذب کا شکار ہی تھی کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بجی جس نے میری دنیا ہی اندھیر کردی اور میں سراسیمگی کی حالت میں اپنی والدہ کے ہمراہ اسکول کی جانب چل پڑی۔

    پورا راستہ میں اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اے میرے پالنے والے! میرے بچے کی حفاظت کرنا ۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اسکول پہنچتی بڑا نقصان ہوچکا تھا۔ میری والدہ میرے ساتھ تھیں ہم ٹیکسی سے بڑا گیٹ کےپاس اترے کیونکہ راستے بند کیے جاچکے تھے‘ یم پیدل ہی سی ایم ایچ کی طرف بھاگے کہ مجھے وہاں پہنچنے کو کہا گیا تھا۔ میتیں وہاں لے جائی گئیں تھیں اور اسکول جانے کے تمام راستے بند کیے جاچکے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ میں کیسے وہاں تک پہنچی کہ یہ میری زندگی کہ مشکل ترین لمحات تھے۔ میری والدہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور وہ میرے ساتھ ہی تھیں مجھے ان کی بھی فکر ہورہی تھی۔ میں عجیب کشمکش میں تھی کہ اپنے بچے کو ڈھونڈوں یا ماں کو دیکھوں لیکن ان کی ہمت اور رفیق کے لیے ان کی محبت قابلِ ذکر ہے۔ آخر کو وہ ان کا پہلا نواسا تھا۔

    [bs-quote quote=” شازیہ عابد سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے رفیق بنگش کی والدہ ہیں اور ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ‘ سولہ دسمبر کا دن ان کے لیے ایک قیامت خیز دن تھا اوران کی یہ تحریر اسی دن کے محسوسات کی ترجمانی ہے” style=”style-5″ align=”center”][/bs-quote]

    وہ پورا راستہ رفیق کی باتیں کرتی رہیں کہ وہ مجھ سے یہ کہتا ہے ‘ وہ مجھ سے وہ کہتا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ امی آپ سے کام نہیں ہوتا اب آپ آرام کریں اور زندگی کو انجوائے کریں، ایسا لگتا تھا کہ انہیں ادراک ہوگیا تھا رفیق نہیں رہا۔ ہم اسپتال پہنچے تو ہر طرف سائرن کا شور تھا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی کچھ لمحوں کے لیے میں اپنے حال سے غافل ہوگئی تھی سب کچھ دیکھ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا ہورہا ہے۔ چند لمحوں بعد جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے پوچھنا شروع کیا کہ رفیق کہا ں ہے؟ امی نے بتایا کہ انہوں نے سارے زخمی بچے دیکھ لیے لیکن رفیق ان میں نہیں ہے‘ دریں اثنا ایک ایمبولنس اندر داخل ہوئی جس میں ایک طالب علم کی میت تھی‘ میں نے اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیے‘ وہ بچہ بہت خوبرو بالکل رفیق جیسا تھا لیکن میرا رفیق نہیں تھا۔ میر ی ہمت بندھی کہ شاید میرا رفیق زندہ ہے‘ شاید وہ اسکول میں ہو۔ لوگ یہاں وہاں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے ایسے میں میری نظر ایک باریش بزرگ پر پڑی جو اپنی بیٹی کو تلاش کررہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا ! تم نے میری بینش کو دیکھا ہے ‘ وہ آرمی پبلک اسکول میں ٹیچر ہے۔ اوہ خدا ! 16 دسمبر کو سی ایم ایچ بالکل کربلا کا سا منظر پیش کررہا تھا۔

    میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ یاسین اور مبین کے ڈرائیوروں کو فون کرکے معلوم کرے ۔ اس پورے عرصے میں ‘ میں یہی سوچ رہی تھی کہ میرا رفیق سمجھدار ہے وہ کہیں چھپ گیا ہوگا‘اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ جان بچا کر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیا ہوگا‘ لیکن میں غلط تھی‘ میں نہیں جانتی تھی کہ میں ہمیشہ کے لیے رفیق کو کھوچکی ہوں۔

    میں اسپتال میں ہی تھی کہ میرے فون پر میرے شوہر کا میسج آیا کہ ’مجھے رفیق مل گیا ہے لیکن اب وہ ہم میں نہیں رہا‘‘۔ میں کیا بتاؤں میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی قدموں میں گویا جان ہی نہ رہی کہ میں اسپتال کی دوسری منزل تک جاپاتی جہاں میرے پیارے رفیق کی میت رکھی تھی۔ میں نہیں جانتی میں نے کیسے اپنے بچے کو اس نازک حال میں دیکھا‘ اس کے ماتھے اور گالوں کے بوسے لیے اور اسے کہا کہ میرے بچے اٹھ جاؤ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے لیکن اس نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ ہم اس کی میت ایمبولینس میں گھر لے آئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک دن تھاکہ جب معصوم فرشتوں کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ اساتذہ کو زندہ جلایا ‘ بچوں کے گلے بے رحم خنجروں سے کاٹے گئے‘ بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ ڈاکٹروں نے کچھ بچوں کے گلے پر ٹانکے لگاتے ہوئے ٹائی بھی ساتھ سی دی‘ ہائے!۔

    بحیثیت مسلمان ہمارا یمان ہے کہ ایک دن سب کو جانا ہے لیکن جس طرح سےان معصوم فرشتوں کو قتل کیا گیا‘ وہ برداشت نہیں ہوتا۔ایسا لگتا ہے کہ ہر دن ہی سولہ دسمبر کا دن ہے۔ مجھے آج بھی اپنی اور اپنی جیسی کتنی ہی ماؤں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو اپنےجگر کے ٹکڑوں کو بین کررہی تھیں‘ کچھ بچوں کو سبزہلالی پرچم سے ڈھانپا گیا تھا اور ان کے یونی فارم پر خون جو داغ تھے وہ کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے‘ وہ مائیں جو اپنے بچوں کے لیے سینہ کوبی کررہی تھیں۔

    کسی بھی ماں کے لیے شاید یہ اس کی زندگی کا سخت ترین مرحلہ ہوگا کہ وہ بیچارگی کے عالم میں اپنے بچے کی تلاش میں اسپتال میں رکھی میتوں کے چہروں سے کفن ہٹا کردیکھے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ اندوہناک سانحہ آج سے دو سال قبل ہم پر گزرا اور پوری قوم نے ہمارے اس غم کو محسوس کیا اور اس غم میں شریک ہوئے۔

    ہم جانتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت معین نہیں ہے اور یہ زندگی کی تلخ ترین حقیقت کا نام ہے۔ کچھ اس سے بہت کم خوفزدہ ہوتے ہیں تو کچھ کے لیےیہ دہشت کی علامت ہے] کچھ کے لئے یہ مشکل تو کچھ کے لیے آسان بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے جذبات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ موت ایک تلخ حقیقت ہے ۔ دنیا جہاں ہم رہتے ہیں یہاں حالات روز تبدیل ہوتے ہیں او ر بالاخر سب کا خاتمہ موت پر ہی ہوتا ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے موت کا سامنا کرنا ہے جیسا کہ اللہ نے کہا کہ ’ ہرنفس نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے‘‘ ( 3:186) تو پھر جب موت آنی ہی ہے تو پھر شہادت کی موت کیوں نہ آئے کہ یہ سب سے بہتر موت ہے ۔ اللہ نے قرآن میں کہا ہے کہ شہید زندہ رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو‘ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس بات کا شعور نہیں۔

    ” style=”style-2″ align=”center” author_name=”القرآن”][/bs-quote]

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    پشاورمیں آرمی پبلک اسکول کے ہولناک سانحے کو دو برس بیت گئے تاہم اس واقعے کی المناک یادوں کی کسک آج بھی دل میں محسوس ہوتی ہے کہ جب مسلح دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014 کو 145 معصوم اور بے گناہ افراد کو خون میں نہلادیا تھا جن میں سے 132 معصوم بچے تھے۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھاجس نے ساری دنیا کوششدرکرکے رکھ دیا۔ اس غم انگیزدن کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل تبدیلیاں کی گئیں اوردہشت گردی میں ملوث ملزمان کوسزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    سانحے کے وقت آرمی پبلک اسکول میں گیارہ سو سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم تھے اور ان میں سے زیادہ ترملٹری افسران کے بچے تھے جس کے سبب اس حملے کو ملٹری کے دل پرحملہ تصورکیاگیا تھا۔

    حملہ شروع ہوتے ہی پاک فوج نے ردعمل ظاہرکرتے ہوئےدہشت گردوں کوگھیرے میں لینا شروع کیا، آرمی پبلک اسکول وسیع عریض رقبے پرواقع ہے لہذا پاک فوج کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں آٹھ گھنٹے لگے تاہم جب تک کل نو دہشت گرد مارے گئے بچوں سمیت 145 معصوم جانوں کا ضیاع ہوچکا تھا۔

    اسکول سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے تک شام درآئی تھی، آرمی نے اسکول سے اسٹاف اورطلبہ سمیت کل 960 افراد کوبچا کرباہرنکالا۔

    واقعے کے فوراً بعد حکومت کے خلاف برسرِ پیکارگروہ طالبان نے بربریت سے بھرپوراس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

    تحریک طالبان کے ترجمان محمدعمرخراسانی نے حملے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’’ہم نے آرمی پبلک اسکول پرحملہ اس لئے کیا کہ حکومت ہمارے خاندان اورعورتوں کو نشانہ بنارہی ہے‘‘۔

    آرمی پبلک اسکول میں جاری کلیئرینس آپریشن کےدوران ہیلی کاپٹرفضا میں گردش کرتے رہے اورپولیس نے نہ صرف پورے علاقے کو گھیرے میں لئے رکھا بلکہ غم واندوہ میں ڈوبے والدین کو اسکول میں جانے سے روکنے کاناخوشگوار فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔

    اسکول میں موجود بچوں کے مطابق پاکستانی فوج کی وردی میں ملبوس حملہ آورغیرملکی زبان میں بات کررہے تھے جوکہ ممکنہ طورپرعربی تھی۔

     – سابق آرمی چیف کا غم و غصے کا اظہار –

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان میں غم و غصے کا عنصرنمایاں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے قوم کے دل پرحملہ کیا ہے تاہم ان کے اس حملے سے دہشت گردی کی اس لعنت کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے عزم کو نئی زندگی عطاکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان درندوں اوران کے سہولت کاروں کو اس قوم کی بھلائی کے لئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

      – وزیراعظم کا سخت ردعمل –

    وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکولپر انتہائی غم وغصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔

    – حملہ آوروں کا انجام –

    گزشتہ دنوں آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار افراد کو تختۂ دار کے حوالے کیاگیا ہے اس موقع پرمعصوم بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد کسی قسم کے رحم اورمعافی کے مستحق نہیں ہیں۔

    خیبر پختونخواہ کی کوہاٹ جیل میں 2 دسمبر کوپشاور آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار دہشتگرد اپنے منطقی انجام کو پہنچے، دو روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملوں میں ملوث چار مجرمان مولوی عبدالسلام ، علی ، مجیب الرحمان اور سبیل عرف یحییٰ کے بلیک وارنٹ پر دستخط کئے تھے۔

    اس موقع پرشہداء کے پسماندگان نے انتہائی مسرت کا اظہارکیا اور ایک والد نے کہا کہ’’ان دہشت گردوں کو جیل کے بجائےمجمع عام میں پھانسی دی جائے‘‘۔

    مسلح افواج نے پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقے میں کئی فضائی حملے کئےجن میں افغانستان کے راستے پاکستان میں آنے والے دہشت گردوں کونشانہ بنایاگیا۔

     – ملٹری کورٹس کا احیاء –

    سانحہ اے پی ایس کے ردعمل میں ملک بھرمیں شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاوٗن آپریشن شروع کیا گیا جس کے تحت ملٹری کورٹس کا قیام امن میں لایا گیااورملک بھرمیں چھ سال سے سزائے موت پرعائد پابندی کا خاتمہ کیاگیا۔

    اگست 2015 میں ملٹری کورٹس میں سانحہ اے پی ایس میں ملوث چھ افراد کوسزائے موت جبکہ ایک شخص کو عمرقید کی سزادی۔

    دو دسمبر کو سانحہ اے پی ایس میں ملوث ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ پہلے چار دہشت گردوں کو کیفرکردارتک پہنچایاگیا۔

     – تحفظ کا احساس –

    ملک کے طول وعرض میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے ثمرات موصول ہوناشروع ہوگئے ہیں تاہم نقادوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کی لعنت کے سدباب کے لئے طویل المدتی اقدامات نہیں کئے ہیں۔

    پاکستان نے دہشت گردی اورشدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے سبب رواں سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

    اعدادوشمارکے مطابق سال 2013 میں پاکستان میں دہشت گردحملوں کے 170 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بارہ سو سے زائد افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ 2014 میں دہشت گردحملوں کی تعداد 110 تھی جن کے نتیجے میں 644افراد نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    رواں سال اعدادوشمارکے مطابق ماہ اکتوبر تک ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد 36 تھی جن میں 211 افراد شہید ہوئے۔

  • شہدا کا خون ہم پر قرض ہے‘ جنگ جلد ختم کریں گے: آرمی چیف

    شہدا کا خون ہم پر قرض ہے‘ جنگ جلد ختم کریں گے: آرمی چیف

    پشاور: آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہدا کی یاد میں مرکزی تقریب کا آغاز ہوگیا ہے‘ تقریب میں آرمی چیف قمر باجوہ بھی شریک ہیں۔

    آج سے دوسال قبل پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول کے سانحے کی یاد میں پورے ملک میں ہر آنکھ اشکبار ہے اور دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے ‘ مرکزی تقریب متاثرہ اسکول میں ہورہی ہے ۔


    آرمی چیف قمر باجوہ کا خطاب


    آرمی چیف قمرباجوہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچے کے خون کے حساب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ شہید بچوں کی تصاویر اپنے دفتر میں رکھی ہوئی ہیں ‘ ان پھول جیسے معصوم بچوں کو بھلایا نہیں جا سکتا‘ آرمی چیف نے لواحقین سےاظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک شوہر ہوں‘ بھائی اور والد بھی ہوں‘ آپ کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں۔

    جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ مسلح افواج آپ کی حفاظت کی ضامن ہیں‘ کوشش ہے کہ اس جنگ کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

    آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید ہونے والے شہداء کا خون ہم پر قرض ہے‘ تقریب کے انعقاد کا مقصد بچوں کی قربانی کو یاد رکھنا ہے۔

    آخر میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان لواحقین کوجن کے بچے ، بہن بھائی اس حملے میں شہید ہوئے‘ حوصلہ دے اور انھیں صبر و جمیل عطا فرمائے۔


    اس سے قبل آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل نے تقریب کے آغاز میں 2014 میں شہید ہونے والے طلبا سمیت 140 سے زائد افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسز طاہرہ قاضی، اساتذہ اور بچوں کی شہادت نے قوم کو مضبوط اور متحد کردیا، ہم عہد کرتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کی شہادت کو اپنے لیے بہادری اور عظمت کا نشان بنا کر رکھیں گے’۔

    آج پشاور شہر میں سوگ کا عالم ہے‘ اسکولوں میں تعطیل ہے اور لوگ شہدا کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔

    peshawar-3


    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے


     مرکزی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ‘ کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمن اور لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ سمیت اہم شخصیات موجود ہیں۔

    تقریب میں شہدا کے لواحقین بھی شریک ہیں ‘ تلاوتِ قرآن ِ پاک کے بعد جنرل قمر باجوہ نے یادگارِ شہدا ٔ پر پھول چڑھائے ‘ اس موقع پر پاک فوج کے دستے نے سلامی بھی دی۔

    peshawar-1

    آج سے دو سال قبل دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے 134 بچوں سمیت 145 معصوم اور بے گناہ افراد کو خون میں نہلادیا تھا۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھاجس نے ساری دنیا کوششدرکرکے رکھ دیا۔ اس غم انگیزدن کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل تبدیلیاں کی گئیں اوردہشت گردی میں
    ملوث ملزمان کوسزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

  • سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں پشاور میں مرکزی تقریب جاری

    سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں پشاور میں مرکزی تقریب جاری

    پشاور : سانحہ پشاور کی یاد میں آرمی پبلک اسکول میں شہدا وں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مرکزی تقریب جاری ہے، تقریب میں وزیرِاعظم ،آرمی چیف سمیت اعلِی عسکری اور سول قیادت شریک ہیں.

    سانحہ اے پی سی کی مرکزی تقریب آرمی پبلک اسکول پشاور میں منعقد کی گئی ، تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس سے قبل سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہدا کے اہل خانہ اور دیگر لواحقین اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے تقریب شریک ہوئے تو ہر آنکھ آشک بار ہوگئی۔

    وزیراعظم ،آرمی چیف اور ان کی اہلیہ نے شہداء کے لواحقین کا استقبال کیا، تقریب میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ،امیر جماعت اسلامی سراج الحق ،اے این پی کے رہنما غلام بلورسمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما شریک ہیں۔

    تقریب میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار ،وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان،وزیر دفاع خواجہ آصف ،وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ،وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ،گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب ،وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شریک ہیں۔

    تقریب میں بچوں نے شہیدوں کی یاد مِیں گیت گائے، جنرل راشد محمود شہید اسٹاف کے لواحقین میں میڈلز، طلباء کو اسناد تقسیم کررہے ہیں۔

  • سانحہ پشاورکو ایک سال مکمل، ہرآنکھ اشکبار، ہردل بوجھل

    سانحہ پشاورکو ایک سال مکمل، ہرآنکھ اشکبار، ہردل بوجھل

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کو ایک بیت گیا، سانحہ پشاور ہر ذہن میں نقش ہے، شہیدبچوں کی یاد آج بھی دماغ کے دروازوں پر دستک کر رہی ہے،
    شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ملک بھر میں آج پہلی برسی کی تقریبات منعقد ہونگی، بچوں کے والدین کے ساتھ پورا ملک سوگوار ہے، آج قومی یوم سوگ ہوگا اور قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔

    سولہ دسمبر 2014 کی صبح جب مسلح دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حیوانیت کی انتہا کر ڈالی، دہشتگردوں کے اس حملے میں ایک سو بتیس بچوں سمیت ایک سو اکتالیس افراد شہید ہوئے جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے، معصوم بچوں کی اس قربانی نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور قوم دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی۔

    سانحہ پشاور ایک ایسا دلخراش واقعہ تھا، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، پاکستان میں ابتک ہونیوالا دہشتگردی کا یہ سب سے بھیانک اور المناک سانحہ ہے۔


    سانحہ پشاور کے شہداء برسی کی مرکزی تقریب بھی آرمی پبلک اسکول میں ہی منعقد ہوگی، مرکزی تقریب میں پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور برّی فوج کے سربراہ کے علاوہ اہم سیاسی شخصیات، غیر ملکی سفیر اور ہلاک شدگان کے لواحقین شرکت کریں گے۔ہلاک شدگان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے صوبے کے دیگر شہروں کے علاوہ ملک بھر میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

    پہلی برسی کے موقع پر آرکائیوز لائبریری کو آرمی پبلک سکول کے شہداء کے نام سے منسوب کیاجائے گا جبکہ شہدا ءکو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے وہاں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے، جس پر سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوںکی تصاویر لگائی گئی ہیں۔

    اس موقع پر خیبر پختونخوا کی حکومت نے ضلع پشاور کے تمام تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان کیا ہے جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں گے۔

    آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کی پہلی برسی کی مناسبت سے ملک بھر میں شہداء کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی ،فاتحہ خوانی اور تعزیتی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا اور مختلف شہروں میں ریلیاں منعقد ہوں گی، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں سمیت مختلف مقامات پر شہدائے آرمی پبلک اسکول پشاور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔

    اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے بچوں کو بتایا جائے، دہشت گردی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔اسلام میں بے گناہ کی جان لینے کی سزا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ملے گی، ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو سانحہ اے پی ایس کے شہداء کی قربانیوں کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

    وفاقی حکومت نے پہلے ہی دارالحکومت اسلام آباد کے 122 سکولوں اور کالجوں کو ان طلباء سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ہے جو 16 دسمبر کے سانحہ میں شہید ہوئے تھے۔

  • جہلم: آرمی پبلک اسکول کا مغوی طالبعلم12روز بعد بازیاب

    جہلم: آرمی پبلک اسکول کا مغوی طالبعلم12روز بعد بازیاب

    جہلم : پولیس نے تاوان کے لئے اغواء کئے گئے طالبعلم کو بازیاب کراکر دو ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے، ڈی پی او کی پریس کانفرنس کے کچھ دیر بعد ہی مرکزی ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔

    جہلم آرمی پبلک اسکول دسویں جماعت کے طالبعلم علی ظفر کو ملزمان نے بارہ روز پہلےاسکول سے گھر آتے ہوئے اغواء کرلیا تھا، جس کی رہائی کے بدلے اہلخانہ سے ایک کروڑ روپے تاوان طلب کیا تھا۔

    پولیس نے اغواء کا مقدمہ تھانہ سول لائن میں درج کرکے تفتیش کا آغاز کیا اور خفیہ اطلاع پر جادہ کےعلاقے میں کارروائی کرتے ہوئے دو اغوا کاروں کو گرفتار کرکے مغوی کو بازیاب کرالیا ہے۔

    ڈی پی او سرفراز خان نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عوام کے جان و مال کےتحفظ کو یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کارلایا جائے گا۔

    پریس کانفرنس کےکچھ گھنٹوں بعداغوا کے مرکزی ملزم قیصر محمود کی نشاندہی پر دیگرملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا گیا، جہاں، پولیس کے مطابق ملزم قیصر محمود اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔

  • فوجی عدالتوں کودہشتگردی کے12کیسزموصول، آئی ایس پی آر

    فوجی عدالتوں کودہشتگردی کے12کیسزموصول، آئی ایس پی آر

    راولپنڈی: دہشتگردی کےبارہ مقدمات فوجی عدالتوں کوموصل ہوگئے، صوبائی حکومتوں نےفوجی عدالتوں کےلئےکیسزوزارت داخلہ کوبھجوائےتھے۔

    آئی ایس پی آرکےمطابق آئینی ترمیم کےبعدفوجی عدالتوں کووزارت داخلہ کی جانب سےبارہ مقدمات موصول ہوگئے، صوبائی ایپکس کمیٹیوں نےمقدمات وزارت داخلہ کوبھجوائےتھے،جن کی چھان بین کےبعدانہیں فوج کوبھجوایاگیا۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ایک ٹوئٹ کے مطابق یہ تمام کیس ایپکس کمیٹی نے چھان بین کے بعد وزارت داخلہ کو بھجوائے ہیں جس نے ان مقدمات کو فوجی عدالتوں کو بھجوا دیا ہے۔ ابتدائی طور پر بارہ مقدمات فوجی عدالتوں کو ارسال کردیے گئے ہیں۔

     

    ذرائع کےمطابق پہلےمرحلےمیں39مقدمات فوجی عدالتوں کےلئےمنتخب ہوئےہیں، جن کیلئےقانونی عمل شروع کردیاگیاہے، فوجی عدالتوں کےقیام کافیصلہ اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیرصدارت کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں اورعسکری قیادت نےمتفقہ طور پر2جنوری کوآرمی ایکٹ میں ترمیم کرکےفوجی عدالتوں کےقیام کافیصلہ کیاتھا۔

     جس کےبعدپارلیمنٹ میں21ویں ترمیم کی منظوری متفقہ طور پردی گئی تھی، ملک میں 9فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جن میں پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوامیں تین تین، سندھ میں دوجبکہ بلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم کی گئی ہے۔

  • دو قدم بڑھائے جا:جل بینڈ کاپشاورکے شہید بچوں کوخراجِ تحسین

    دو قدم بڑھائے جا:جل بینڈ کاپشاورکے شہید بچوں کوخراجِ تحسین

    آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے کے ایک مہینے بعد پاپ میوزک بینڈ ’جل‘نے اپنا نیا گانا’دو قدم بڑھائے جا‘ سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے نام کیا ہے۔

    فیس بک پرجل بینڈ کے آفیشل پیج پرگلوکاراوراداکار گوہر ممتاز کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے گانا اپ لوڈ کردیا گیا ہے۔

    آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کی یاد میں بہت سے گانے بنائے گئے ہیں لیکن اس گانے کی خاصیت یہ ہے کہ اسمیں افسردہ دھنوں کے بجائے جذبات کو جوش دیتی دھنیں استعمال کی گئی ہیں۔

    جل بینڈ 2002 میں گوہرممتازاورعاطف اسلم کے اشتراک سے عمل میں آیا تھا اور’عادت‘نامی گاانے نے اسے شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیاتھا۔

  • شہدائے پشاورکا چہلم، خیبرپختونخوا اورفاٹا میں عام تعطیل کا اعلان

    شہدائے پشاورکا چہلم، خیبرپختونخوا اورفاٹا میں عام تعطیل کا اعلان

    پشاور: شہدائے آرمی پبلک اسکول کا چہلم آج منایا جا رہاہے خیبرپختونخوا اورفاٹا میں عام تعطیل کااعلان کیاگیاہے، چہلم کی مرکزی تقریب وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوگی۔

    گرفتہ دلوں، نمناک آنکھوں، آہوں اورسسکیوں میں سانحہ پشاورکے شہدا کاچہلم آج منایاجائےگا، معصوم شہداکے والدین سےاظہاریکجہتی کیلئے خیبرپختونخوا اورفاٹامیں عام تعطیل ہوگی۔

     تعلیمی ادارے اورسرکاری دفاتربند رہیں گے وزیراطلاعات خیبرپختونخوا کہتے ہیں شہدا کی مغفرت کیلئےہرضلع میں قرآن خوانی کااہتمام کیاجائےگا۔

    چہلم کی مرکزی تقریب وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوگی جس میں شرکت کیلئےوالدین کودعوت نامے جاری کردیئے گئے ہیں ،وزیراطلاعات خیبرپختونخوا نےعمران خان کی پشاورآمد پراحتجاج کرنے والے والدین سے معذرت بھی کی ہے،جس کے بعد شہید طلبہ کے ورثہ نے تقریب میں شرکت کی حامی بھرلی ہے۔

    عمران خان بھی چہلم کی تقریب میں شریک ہوں گے اورشہدا کے والدین سے ملاقات کریں گے۔ خیبرپختونخوا کے سینتیس اسکولوں کو شہدا کے نام سے منسوب کردیاگیاجن کاباقاعدہ اعلان تقریب میں کیاجائےگا۔

  • سانحہ پشاور:شہداء کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی

    سانحہ پشاور:شہداء کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی

    پشاور: حکومت نے سانحہ پشاور کے چھیاسی شہدا کے لواحقین کو معاوضہ ادا کر دیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گرد حملے میں شہید ہونیوالے بچوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی جاری ہے۔

    اب تک سانحہ پشاور کے چھیاسی شہدا کے لواحقین کو حکومت نے معاوضہ ادا کر دیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سڑسٹھ شہدا کے لواحقین کو بھی جلد ہی معاوضے کی ادائیگی کر دی جائیگی۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہید ہونےوالے بچوں کے لواحقین کو پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کو دو لاکھ روپے دیئے جارہے ہیں۔ حکومت کیجانب سے باقی شہدا کے لواحقین کو بھی جلد معاوضے کی ادائیگی کر دی جائے گی۔

    گذشتہ سال سولہ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گرد حملے میں ایک سو چالیس سے زائد بچے، اسکول اسٹاف اور اساتذہ بے رحمی سےقتل کردیئےگئےتھے،جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئےتھے۔