Tag: Art Exhibition

  • کمسن بیٹی کو سبق سکھانے کیلئے ماں کی انوکھی حرکت سوشل میڈیا پر وائرل

    کمسن بیٹی کو سبق سکھانے کیلئے ماں کی انوکھی حرکت سوشل میڈیا پر وائرل

    ایک خاتون نے اپنی دس سالہ بیٹی کو صفائی کی عادت سکھانے کئلیے انوکھا طریقہ اختیار کیا، بچی کے گندے موزے "آرٹ نمائش” میں رکھ دیے۔

    گھر میں چاروں طرف پڑے بچوں کے گندے کپڑے اٹھانے میں والدین کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک ایسی ہی دلچسپ صورتحال زیپ کیمبل نامی خاتون کو ان کی دس سالہ بیٹی کسٹریل کے ساتھ پیش آئی۔

    On the evening of Thanksgiving when I went to bed I noticed one of Kestrel’s socks on the bathroom floor. I decided not…

    Posted by Xep Campbell on Wednesday, 2 December 2020

    ان کے ذہن میں ایک مزاحیہ اور دلچسپ طریقہ آیا جس پر انہوں نے عمل کرتے ہوئے باتھ روم میں پڑے موزوں کی تصویریں بنائیں اور فیس بک پر پوسٹ کردیں، ان کی یہ پوسٹ اب 1.4 لاکھ سے زیادہ شیئرز کے ساتھ وائرل ہوگئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خاتون ایک مزاحیہ اور تخلیقی آئیڈیا لے کر آئیں تاکہ اپنی بیٹی کو یہ سمجھا سکے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ خود ہی کام کاج کرے، اس نے بچی کے گندے موزوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک آرٹ نمائش تشکیل دی۔

    فیس بک پر کی گئی پوسٹ خاتون نے بتایا کہ گزشتہ شام جب میں نے باتھ روم کے فرش پر کیسٹرل کے موزے پڑے دیکھے تو میں نے اس کو اٹھانے کے بجائے یہ دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ یہ وہاں کب تک پڑے رہیں گے، یہ کام میں نے ایک تجربہ کے طور پر کیا۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی وہ موزے وہیں پائے جہاں اسے آخری بار دیکھے تھے۔

    خاتون نے ان موزوں کی تصاویر بنائیں اور علامتی طور پر کچھ جانور نما کھلونے بھی ان موزوں کے پاس رکھ دیئے، سوشل میڈیا پر صارفین نے اس پوسٹ پر دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ماں بیٹی کے رشتے کی خوبصورتی کو اجاگر کیا۔

  • ابوظہبی میں پاکستانی آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش

    ابوظہبی میں پاکستانی آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں ایک آرٹ ایگزیبیشن کا اہتما م کیا گیا، نمائش میں پاکستانی نژاد برطانوی مونا نقش کے فن پارے رکھے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹ کی یہ نمائش پاکستانی سفارت خانے اور ’پوئٹک اسٹروک‘ کے اشتراک سے منعقد کی گئی اور اس کا عنوان ’ میڈیٹی ایٹو ٹرانس‘ رکھا گیا تھا۔

    تقریب میں پاکستانی سفیر معظم احمد خان نے خلیجی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں مونانقش کے رنگوں کو منتخب کرنے اور روشنیوں کے استعمال سے بے پناہ متاثر ہوا ہوں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ یواے ای آرٹ اور کلچر کا حب ہے اوریہ نمائش یو اے ای کے قومی دن کی تقریبات کے سلسلے کی کڑی ہے‘‘۔

    مونا نقش پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور نمائش میں ان 32 فن پارے رکھے گئے ہیں۔ان کی تصویروں میں پھولوں کی نزاکت ایک خاص انداز لیے ہوتی ہے جو کہ انہی کا خاصہ ہے۔ اس شو کا اہتمام پوئٹک اسٹروک کی عائشہ امتیاز نے کیا ہے۔

    مونا نقش اور ان کے کام کے حوالے سے گفتگو کرتے عائشہ کا کہنا تھا کہ ’’ یہ پہلی بار ہے کہ ابوظہبی میں مونا کے کام کی نمائش ہورہی<

    ہے۔ ان کا کام آرٹ گیلریوں میں دستیاب نہیں ہے ۔ یہ ابو ظہبی کے آرٹ لوورز کے لیے ایک انتہائی خاص موقع ہے کہ وہ مونا اور ان کے فن پاروں کو ایک ساتھ دیکھ پائیں گے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ مونا کے فن پاروں کی پیچیدگی اور بے ساختگی مداحوں کو اپنی گرفت میں لے لے گی۔

  • دنیا تاریخ دانوں کی نظرسے دیکھیں

    دنیا تاریخ دانوں کی نظرسے دیکھیں

    کراچی: جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کی جانب سے چار روزہ ہسٹری آرٹ ایگزیبیشن کا انعقاد کیا ہے جس میں شہر قائد سے تعلق رکھنے والے تاریخ اور ویژول آرٹس کے مداح شریک ہورہے ہیں۔

    شعبہ تاریخ کے طلبہ کی جانب سے منعقد کی جانے والی اس آرٹس ایگزیبیشن کا عنوان ’دنیا! تاریخ دانوں کی نظر سے دیکھیں‘ رکھا گیا ہے ، اور یہ روزانہ دوپہر ایک بجے سے شام چار بجے تک شعبہ تاریخ میں 26 اکتوبر تک جاری رہے گ

    ایونٹ کا افتتاح جامعہ کراچی کے شعبہ ویژول اسٹڈیز کی چیئر پرسن ’دُریہ قاضی‘ نے کیا اور اس موقع پر طلبہ طالبات کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک تھے۔اس ایگزیبیشن میں شعبے کے طلبہ و طالبات کی جانب سے تاریخ کو آرٹ کے ذریعے پیش کرنے کے لیے اسکیچز، پینٹنگز، ماڈلز اور نقشہ جات کی مدد لی گئی ہے۔

    مجموعی طور اس ایگزیبیشن کو 4 ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلا حصہ اس دنیا کی قدیم تاریخ کی منظر کشی کرتا ہے ، دوسرے حصے میں مسلم سلطنت اور یورپ کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے ، تیسرے حصے میں جنوبی ایشیا اور یورپ کے قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کو اجاگر کیا گیا ہے جبکہ چوتھا حصہ جدید نیوکلیائی دور کا نقشہ بھی آرٹ ہی کے ذریعے پیش کررہا ہے۔

    روم کے کلوزیم کا ماڈل جاپان پر ایٹمی حملے کے مناظر میکاولی کا مجسمہہمایوں کا مقبرہ
    دہلی سلطنت دور کے سکے چتورگڑھ کا قلعہ توانگ چائلڈ -ایک قدیم کھوپڑی کی نقل

    کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات اور ساتھ ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اس ایگزیبیشن سے لطف اندوز ہونے کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کررہے ہیں۔

  • فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    زمین ہماری ماں ہے جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح اپنی گود میں سمیٹ رکھا ہے۔ ہماری فطرت بھی اسی ماں کا دیا ہوا خوبصورت تحفہ ہے جس سے جتنا زیادہ جڑا جائے یہ ہماری ذہنی و طبی صحت پر اتنے ہی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

    فرناز راحیل بھی فطرت سے جڑی ہوئی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے کینوس پر صرف فطرت کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہیں۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم یافتہ فرناز کا ماننا ہے کہ فطرت جہاں ایک طرف بہت خوبصورت ہے، وہیں دوسری طرف بہت خوفناک بھی ہوجاتی ہے، جیسے کسی بڑے جانور کا کسی ننھے جانور کو اپنے جبڑوں میں جکڑ لینا، یا سمندر کی پرشور لہروں کا کنارے سے باہر نکل آنا، یا کسی آتش فشاں کا پھٹنا اور اس سے ہونے والی تباہی۔

    یہ سب فطرت کے ہی مظاہر ہیں اور ہم انسانوں کی طرح جہاں اس میں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں کئی خامیاں بھی موجود ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں فطرت کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ فطرت کی خوفناکی دکھانے کے لیے وہ گہرے شوخ رنگ، جبکہ پرسکون فطرت دکھانے کے لیے ہلکے رنگوں کا استعمال کرتی ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں جس فطرت کو دکھاتی ہیں وہ انسانوں کی مداخلت سے آزاد دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت یہ انسان ہی ہے جو فطرت کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کی خوبصورتی چھین کر اس کی بدصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔

    کسی قدر تجریدی نوعیت کی یہ تصاویر اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی دعوت تو دیتی ہیں، تاہم پہلی نظر میں یہ بہت خوبصورت تاثر چھوڑتی ہیں اور فطرت سے دور رہنے والوں کو بھی فطرت کے قریب جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

    فار دی لو آف نیچر کے نام سے فرناز کی ان تصاویر کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص گھر اور اس کی چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی زندگی اور معمول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    جب کسی شے کی عادت ہوجائے تو عموماً ہم اسے نئے زاویوں سے دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ بدلتے اس کے حسن کو نہیں دیکھ پاتے۔

    اندرونی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی وہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے مناظر، صبح و شام کا ڈھلنا، مختلف لوگ، جانور وغیرہ سب کچھ ان کے لیے یکساں حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور وہ اس میں نئی جہت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن یہ نیا پن اس شخص کو دکھائی دے جاتا ہے جو پہلی بار ان علاقوں میں جائے، یا ایک عرصے پہلے ان گلیوں کو چھوڑ آیا ہو اور پھر لوٹ کر وہاں جائے۔

    در وسیم بھی ایسی ہی مصورہ ہیں جو امریکا سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف آئیں تو انہیں پرانی یادوں کے ساتھ بہت سی نئی جہتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔

    لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جا بسیں جہاں انہوں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کی اور مختلف اداروں میں کام بھی کیا۔

    اب اپنی وطن واپسی کے بعد اس کی تصویر کشی کو انہوں نے وزیٹنگ ہوم کا نام دیا ہے، اور اس میں پاکستان کو انہوں نے جس طرح پیش کیا، یقیناً وہ رخ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا جو ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

    آئیں آج ان کی نگاہ سے مختلف گلی کوچوں کو دیکھیں۔

    مری کا ایک منظر

    لاہور کی تاریخی ٹولنگٹن مارکیٹ

    اسلام آباد میں واقع گاؤں سید پور کی محرابی گزر گاہیں

    لاہور کا بھاٹی گیٹ

    ڈھلتی شام میں رکشے پر سواری

    سید پور کا ایک منظر

    اندرون لاہور میں ایک سرد سہ پہر

    ریلوے کا پھاٹک

    ٹھیلے پر فروخت ہوتے کیلے

    سید پور کا ایک اور منظر

    مری میں قائم ایک کھوکھا

    خزاں کی ایک شام

    پاکستان کے گلی کوچوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی آرٹ کی یہ نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں 13 جولائی تک جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔