Tag: art

  • ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیوں کی کارٹونز سب ہی شوق سے دیکھتے ہیں خصوصاً بچے ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان ہی کے جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک امریکی فنکارہ نے اپنے پسندیدہ ڈزنی کرداروں کو خوبصورت آئل پینٹنگز میں تبدیل کردیا جو نہایت دیدہ زیب معلوم ہو رہے ہیں۔

    ہیتر ٹائرر نامی یہ فنکارہ کہتی ہے کہ ڈزنی کے کرداروں کو بہت سے دیگر فنکاروں نے بھی اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    وہ کہتی ہیں کہ وہ ان فنکاروں یا خود ڈزنی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتیں بلکہ پہلے سے بنے ہوئے ان خوبصورت کرداروں کو مزید نئے مطالب کے ساتھ پیش کرنا چاہتی ہیں۔

    اب یہ فنکارہ اپنی اس کوشش میں کتنی کامیاب رہیں، یہ ان کی تخلیق کردہ تصاویر دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔

    مولان

    بریو کی میریڈا

    فروزن کی ایلسا اور انا

    بیوٹی اینڈ بیسٹ کی بیلے

    ریپونزل

    سنڈریلا

    کیسی لگیں آپ کو یہ تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    فن یا آرٹ پرواز تخیل کو پیش کرنے کا نام ہے، اور اس کی کوئی سرحد، کوئی حد نہیں۔

    تصورات، خیالات، اور تخیل ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، لیکن فنکار کے اندر یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں تصویر ہوتے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت دکھانے جارہے ہیں، جس کی تخلیقی اڑان نے آسمان اور زمین کو یکجا کردیا اور اس آمیزش سے جو فن پارے سامنے آئے وہ دنگ کردینے والے ہیں۔

    ان تصاویر کو دیکھ کر آپ ایک لمحے کو بھول بیٹھیں گے کہ زمین کی حد کہاں ختم ہوئی اور آسمان کہاں شروع ہوا۔

    سیاہ و سفید رنگ کی آمیزش سے تخلیق کی گئی ان تصاویر میں پہاڑ بھی ہیں، بادل بھی، سمندر بھی، عمارتیں بھی اور طوفان بھی۔

    یہ تصاویر ابتداً کیمرے سے کھینیچی گئی ہیں، تاہم ماہر فنکار نے مہارت سے انہیں فن پاروں میں تبدیل کردیا ہے۔

    To the mind that is still, the whole universe surrenders. – Lao Tzu #CoastalFlorida Collection – "Palm Pilots”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Gratitude is the sign of noble souls. – Aesop #Pacifico Collection – "Looking Glass”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Next Stop – Cuba

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Things do not change; we change. Henry David Thoreau #Pacifico Collection :::: Spotlight ::::

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on


    کیسی لگیں آپ کو تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    آج پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کی سالگرہ ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    19

    17

    16

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے‘۔

    post1

    post2

    14

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    10

    11

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    1

    2

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    18

    8

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    3

    5

    6

    4

    7

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    معروف جادوئی فلم سیریز ہیری پورٹر بچوں اور بڑوں سب ہی کو یکساں طور پر پسند ہے اور اس کی مقبولیت دنیا کے ہر شعبے کے افراد میں ہے۔

    فرانس کی ایک مصورہ شارلٹ لبرٹن بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ شارلٹ بچپن ہی سے اپنی پسندیدہ فلم کے کرداروں کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں ڈھالنے کی عادی ہے۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں جدت اور نکھار آتا گیا۔ اب شارلٹ اپنے پسندیدہ کرداروں کو ڈیجیٹل 2 ڈی اور 3 ڈی پورٹریٹ میں ڈھال دیتی ہے۔

    اس نے اسی تکنیک سے ہیری پوٹر فلم کے کرداروں کو بھی تبدیل کردیا ہے جو نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    ہیری پوٹر کے علاوہ اس نے اور بھی کئی کرداروں کا ڈیجیٹل پورٹریٹ بنایا ہے جیسے ونڈر ویمن اور اوینجرز سیریز کی کردار گمورا۔

    اس نے اپنی پسندیدہ میکسیکن مصورہ فریڈا کاہلو کا پورٹریٹ بھی بنایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ فارغ بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا دماغ میں شیطانی خیالات کو جنم دیتا ہے اور دماغ مختلف منفی منصوبے بناتا ہے۔

    لیکن قازقستان سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اس مقولے کو غلط ثابت کردیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کے رہائشی کانت نامی اس شخص کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود اس نے آرٹ کے شاہکار تخلیق کر ڈالے۔

    بقول کانت، اس نے کبھی آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار تھا تب ہی اسے کچھ نیا سیکھنے اور کچھ مختلف کرنے کا خیال آیا۔

    پہلے اس نے سیب پر مختلف اشکال تخلیق کر ڈالیں۔ اس کے لیے اسے کافی محنت اور پریکٹس کرنی پڑی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس فن میں طاق ہوتا گیا۔

    1

    5

    2

    3

    اس کے بعد اس نے کاغذ پر مختلف شکلیں بنا کر انہیں مختلف طرح سے ترتیب دے ڈالا جس کے بعد وہ نہایت خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں تبدیل ہوگئیں۔

    9

    10

    11

    12

    13

    7

    تو پھر کیا خیال ہے؟ اگر آپ بھی بے روزگار ہیں تو اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور اس فنکار کی طرح آپ بھی کچھ نیا تخلیق کر ڈالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں طیبیل میں یوں تو لوگ عام سے مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن ان گھروں کی دیواروں پر نہایت دیدہ زیب اور انوکھی نقش نگاری کر کے انہیں نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

    برکینا فاسو کا یہ گاؤں دنیا بھر میں اپنے ان خوبصورت منقش گھروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کو 15 صدی عیسوی میں بسایا گیا تھا۔

    یہاں کے لوگ گھر کی دیواروں پر نقش نگاری کے لیے مٹی اور چونے میں مختلف رنگوں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کے لیے مخصوص مقام بھی اسی طرح کی نقش و نگاری سے آراستہ ہے۔

    دیواروں پر بنائے جانے والے یہ نقش، اشکال اور پیٹرنز قدیم افریقی ثقافت و مصوری کا حصہ ہیں۔ یہاں موجود افراد کے مطابق گھروں کی بیرونی دیواروں کو اس طرح رنگوں سے آراستہ کرنے کی روایت کا آغاز 16 صدی عیسوی سے ہوا۔

    ان گھروں کی ایک اور خاص بات ان کے چھوٹے دروازے ہیں۔ گھروں کا داخلی دروازہ نہایت مختصر سا ہوتا ہے جو دراصل دشمنوں سے بچنے کے مقصد کے پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

    یہاں ایک اور روایت ہے کہ کسی گھر کے مکمل ہونے کے بعد گھر کا مالک رہائش اختیار کرنے سے قبل 2 دن تک انتظار کرتا ہے۔ اگر ان 2 دنوں میں گھر میں کوئی چھپکلی نظر آئے تو ایسے گھر کو قابل رہائش سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن اگر گھر میں کوئی چھپکلی نہ دکھے تو اسے بدشگونی قرار دے گھر کو ڈھا دیا جاتا ہے۔

    اس گاؤں کے ثقافتی ورثے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اسے سیاحتی مقام کا درجہ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    بارش، برکھا رت، ساون، برسات۔۔ یہ الفاظ خود اپنے اندر ایک سحر انگیزی اور رومانویت سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ موسم آتے ہی ماحول نہایت خوبصورت ہوجاتا ہے اور ہمیں عام سی چیزوں میں وہ خوبصورتی نظر آنے لگتی ہے جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتی۔

    تاہم ایک مصور کی نظر اور اس کا برش اس حسن کو دوبالا کردیتا ہے، جب وہ چند لمحوں پر محیط ان خوبصورت دھلے دھلائے مناظر کو اپنے کینوس میں ہمیشہ کے لیے قید کریتا ہے۔

    امریکی مصور جیف رولینڈ بھی ایسا ہی ایک مصور ہے جس کے آرٹ کی سب سے بڑی تحریک بارش کے حسین مناظر ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والا جیف رولینڈ آرٹ اور تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں آیا اور آہستہ آہستہ اس کا فن مقبول ہوتا چلا گیا۔

    جیف کہتا ہے، ’میں نے سینما کے پردے پر بارش کو نہایت مسحور کن اثر انداز میں دیکھا ہے۔ بارش اور بارش کے بعد خوبصورت دھلی دھلائی سڑکوں نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے اور اسی خوبصورتی کو میں نے اپنے کینوس پر اتارنے کی کوشش کی ہے‘۔

    جیف کی اب تک امریکا اور برطانیہ میں کئی نمائشیں منعقد ہو چکی ہیں جنہیں بے حد تعریف اور پذیرائی ملی۔

    آئیں آپ بھی ان کی خوبصورت تصاویر دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    کیا آپ جانتے ہیں فن مصوری ایک تھراپی یا علاج کی صورت میں بھی استعمال ہوتا ہے؟

    جی ہاں، ماہرین کا کہنا ہے چونکہ آرٹ یا کوئی بھی تخلیقی کام جیسے شاعری، مصنفی، موسیقاری یا مصوری وغیرہ کے لیے مخصوص ذہنی رجحان چاہیئے اور یہ دماغی کیفیت سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان فنون سے ہم اپنے دماغ کی کیفیات کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا علاج کر سکتے ہیں۔

    مصوری میں مختلف اشکال بنانا اور رنگوں سے کھیلنا آپ کی ذہنی کیفیت میں فوری طور پر تبدیلی کرسکتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو مصوری کے کچھ ایسے طریقہ بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اعصابی و ذہنی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔

    art-3

    اگر آپ تھکے ہوئے ہیں، تو کسی کاغذ پر پھولوں کی تصویر کشی کریں۔ پھولوں کی تصویر کشی آپ کے دماغ کو توانائی فراہم کرے گی اور آپ کے دماغ پر چھائی دھند ختم ہوجائے گی۔

    اگر آپ کسی جسمانی تکلیف کا شکار ہیں تو کوئی پزل حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ تکلیف کی طرف سے ہٹ کر اس پزل کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔

    اگر آپ غصہ میں ہیں تو لکیریں کھینچیں۔ یہ کسی بھی قسم کی لکیریں ہوسکتی ہیں، سیدھی، آڑھی ترچھی ہر قسم کی۔

    اگر آپ خوفزدہ ہیں تو کاغذ پر کسی ایسی چیز کی تصویر کشی کریں جس سے آپ کو تحفظ کا احساس ہو۔

    بور ہورہے ہیں تو تصویروں میں رنگ بھریں۔ رنگ آپ کے دماغ کو ہلکا پھلکا کرتے ہیں۔

    اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مختلف اشکال بنائیں۔

    اگر آپ پریشان ہیں تو کاغذ پر گڑیا بنائیں۔

    art-1

    اگر آپ کسی معاملہ پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں تو رنگین جیومیٹری پیٹرن بنائیں۔

    اگر آپ کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مشکل کا سامنا ہے تو کاغذ پر لہریں اور گول دائرے بنائیں۔ یہ آپ کے ذہن کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مدد دیں گی۔

    اگر آپ اداس ہیں تو قوس قزح بنائیں اور اس میں رنگ بھریں۔

    اگر آپ مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہیں تو کسی کا پورٹریٹ یا کوئی پینٹنگ بنائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔