Tag: art

  • گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    لیکن اس انوکھے فن کو تخلیق کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

    اب نیدر لینڈز کی اس باصلاحیت فنکارہ کو ہی دیکھ لیں جو صرف 2 سینٹی میٹر کے ننھے منے فن پارے تخلیق کر رہی ہے۔

    آلما نامی یہ فنکارہ گھریلو استعمال کی روز مرہ کی اشیا تخلیق کرتی ہے، اور ایسا تخلیق کرتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں۔

    Hand soap

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #cupcakes for breakfast #miniature #dollhouse #handmade #oneinchscale

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    I am working on @domestikatethis cheese board but i got hungry and eat the epoisses

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    Itty bitty jam #miniature #dollhouseminiatures #dollhouse #oneinchscale #handmade #fimo

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #miniature #cupcakes #dollhouse #handmade #fimo #oneinchscale #polymerclay

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #lavender is ❤️ #miniature #shabbychicbathroom #oneinchscale #handmade #dollhouseaccessories

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    کیسا لگا آپ کو یہ انوکھا فن؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کا سب سے بڑا میورل

    دنیا کا سب سے بڑا میورل

    برازیل: جنوبی امریکی ملک برازیل میں ایک فنکار نے سڑک پر دنیا کا سب سے بڑا میورل (قد آدم تصویر) تخلیق کر ڈالا۔

    ایڈارڈو کوبرا نامی یہ فنکار تاحال اپنے شاہکار پر کام کرہا ہے، تاہم تکمیل سے قبل ہی اس کا بنایا ہوا میورل دنیا کے سب سے بڑے میورل کا اعزاز اپنے نام کر چکا ہے۔

    کوبرا نے اس سے قبل بھی دنیا کی سب سے بڑی اسپرے کے ذریعے تخلیق کی گئی پینٹنگ بنائی تھی جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔

    اسپرے پینٹ سے بنایا گیا یہ فن پارہ ریو ڈی جنیرو میں 61 ہزار 354 اسکوائر فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔

    اپنے موجودہ میورل میں کوبرا نے مزدوروں اور دریا کو دکھایا ہے جس میں مزدور کافی کے کوکوا بیج کشتیوں پر منتقل کر رہے ہیں۔

    اس میورل کا مقصد ان مزدوروں اور محنت کشوں کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے۔

    دنیا کے سب سے بڑے اس میورل کو بنانے میں 4 ہزار اسپرے کی بوتلیں، اور 300 گیلن کا پینٹ استعمال ہوا ہے۔

    فن اور فنکاروں سے متعلق مزید دلچسپ مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

    لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

    کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

    یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

    لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

    اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

    ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

    یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

    تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

    صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

    عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

    سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

    فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

    مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

    عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

    وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

    خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

    ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

    عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

    لاشعور کی رنگین دنیا

    خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

    وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

    دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

    اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

    لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

    گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

    لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

    ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

    منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

    ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

    اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

    ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

    کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

    ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

    شہر در شہر

    صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

    لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

    سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

    لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

    اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

    اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

    چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

    جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

    نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

    نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔

  • زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک منفرد نمائش مصوری منعقد کی جارہی ہے جس میں 11 فنکاروں نے اپنے فن پارے پیش کیے ہیں۔

    زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی اس نمائش میں اپنے فن پارے پیش کرنے والے تخلیق کار نو آموز بھی ہیں، اور تجربہ کار بھی، جو اپنے اندر کے احساسات و خیالات کو پیش کر رہے ہیں۔

    ان فنکاروں نے ایسی ہی ایک نمائش سنہ 2012 میں بھی پیش کی تھی۔ اب یہ فنکار اپنی سوچ کے ارتقا کو پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے ہیں۔

    ان فنکاروں میں عبداللہ قمر، اسد حسین، فہیم راؤ، فراز متین، نبیل مجید، محمد اسمعٰیل، نعمان صدیقی، رابعہ شعیب، راحیلہ ابڑو، سعدیہ جمال اور ایس ایم رضا شامل ہیں۔

    آرٹسٹ ۔ نعمان صدیقی
    آرٹسٹ ۔ محمد اسمعٰیل
    آرٹسٹ ۔ ایس ایم رضا

    ایس ایم رضا اپنی تخلیقات کے بارے میں بتاتے ہیں،  ’ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ اس شے کے بارے میں جو سوچتے ہیں وہ دھوکہ ہوتا ہے۔ دراصل اس شے کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں پیش کیا ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ فہیم راؤ
    آرٹسٹ ۔ سعدیہ جمال

    سعدیہ جمال اپنے فن پارے کے بارے میں کہتی ہیں، ’ہمارے ارد گرد بہت سی اشیا موجود ہیں جنہیں ہم سرسری سی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی ان کی معنویت پر غور نہیں کرتے۔ ہر خوبصورت شے کے اندر بدصورتی اور ہر بدصورت شے کے اندر کچھ خوبصورتی چھپی ہوتی ہے جو نظر انداز ہوجاتی ہے۔ میں نے اسی معنویت و گہرائی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ عبداللہ قمر
    آرٹسٹ ۔ راحیلہ ابڑو

    راحیلہ ابڑو کا فن پارہ دراصل پانی ہے جو فرش پر پینٹ کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اس فن پارے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ پانی زندگی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا وجود نہیں۔

    آرٹسٹ ۔ اسد حسین
    آرٹسٹ ۔ نبیل مجید

    نبیل مجید کہتے ہیں، ’ہم نے یہ تو سنا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اس جملے کی معنویت پر غور نہیں کیا۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ ’ہاتھ‘ کس شکل میں اور کس کس طرح مرد کو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے‘۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش 7 فروری تک جاری رہے گی۔

  • موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    ٹوکیو: جاپان کے سائنس دان نے ایسا کوٹ تیار کیا ہے جو شمسی توانائی سے بجلی بنا کر اسمارٹ فون، ٹیبلٹ سمیت دیگر آلات کو  بیٹری ختم ہونے کے باوجود کبھی بند نہیں ہونے دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سائنسی دنیا میں نت نئی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے، جس تیزی کے ساتھ دنیا کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اُسی تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی نئی نئی ایجادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    انسانی زندگی کو آسان کرنے اور ہروقت رابطہ رکھنے کے لیے پہلے پہل موبائل فون ایجاد کیا گیا تاہم ٹیکنالوجی کی دنیا نے ترقی کرتے ہوئے اسے جدید سے جدید ترین سہولیات سے آراستہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب اسمارٹ فون صارف صرف ایک کلک پر دنیا بھر میں رہنے والے کسی بھی شخص سے انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی رابطہ کرسکتا ہے۔

    charging-1

    اسمارٹ فونز کی ایجادات کے ساتھ ہی صارفین کو اس کی چارجنگ جلد ہونے کی شکایات کا سامنا ہے، اس ضمن میں دنیا بھر کے سائنس دان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں جس کے لیے وہ نت نئے تجربات بھی کرتے رہتے ہیں۔

    charging-2

    جاپان کے ایک سائنس دان نے ایسا کوٹ ایجاد کیا ہے جو سورج کی روشنی کو جذب کر کے  موبائل فون و دیگر برقی آلات چارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کوٹ میں 2 عدد سیل لگائے گئے ہیں جو سولر سسٹم کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

    charging-3

    شمسی توانائی سے برقی آلات کو چارج کرنے والے اس کوٹ کو جونیا وٹنا نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا ہے جو اچھوتے اور غیر معمولی لباس تیار کرنے کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں، اس کوٹ کو ایف ڈبلیو 16 کا نام دیا گیا ہے۔

    کوٹ میں خصوصی طور پر ایک مائیکرو یو ایس بی پورٹ نصب کی گئی ہے جو موبائل فون کی چارجنگ کے لیے کارآمد ہے جب کے اس کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

  • عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

    مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

    خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

    ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


    مصورہ کے بارے میں

    سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


    سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

    سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

  • پی‌ ٹی آئی کی رہنما عندلیب عباس کو رہا کردیا

    پی‌ ٹی آئی کی رہنما عندلیب عباس کو رہا کردیا

    اسلام آباد ِ: پولیس نے بنی گالہ کے باہر سے تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ متعدد کارکنان کو گرفتار کرلیا جبکہ کورنگ روڈ پر پولیس نے دوبارہ شیلنگ شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس نے بنی گالہ کے باہر سے تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس کو گرفتار کرکے گھسیٹتے ہوئے لے گئی عندلیب عباس دیگر کارکنوں کے ساتھ بنی گالہ کی جانب کی کوشش کررہی تھیں لیکن تھوڑی دیر بعد انکو رہا کردیا گیا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کوئی خواتین پولیس کی حراست میں نہیں، صرف کارکنان زیرِ حراست میں ہیں۔

    بنی گالہ کے باہر پولیس کی شیلنگ ایک بار پھر شروع

    کورنگ روڈ پر پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان آمنے سامنے آگئے ، بنی گالہ کے باہر قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں پہنچا دی گئی اور متعدد کارکنان کو بھی حراست میں لے لیا۔

    andleeb-post-1

    بنی گالہ کے باہر کارکنان کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے شیلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے، پولیس اور کارکنان کی آنکھ مچولی  جاری ہے ، ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے، جس سے کئی کارکنان زخمی بھی ہوئے۔

    پی ٹی آئی کے کارکنان کا حکومت کے خلاف احتجاج ، پولیس کا دھاوا

    دوسری جانب بنی گالہ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنان حکومت کے خلاف اور گرفتاریوں کے احتجاج کررہے تھے اور حکومت مخالف نعرے بازی کررہے تھے کہ پولیس نے دوبارہ دھاوا بول دیا ، کارکنان کو پکڑ کر گھسٹتے ہوئے گرفتار کر کے لے گئے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ رات بھی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں ہارون آباد پل سے رکاوٹوں کو ہٹاکر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور پولیس برہان انٹرچینج پر آمنے سامنے آگئے تھے، جہاں پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔


    مزید پڑھیں : تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی اور عمران اسماعیل گرفتار


    یاد رہے گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی کے رکن عارف علوی اور رہنما عمران اسماعیل کو بھی بنی گالہ جانے سے روکنے کی کوشش میں پولیس نے گرفتار کرلیا تھا ، جس کے بعد دونوں رہنماؤں کو وین میں ڈال کر تھانہ سیکریٹرٹ منتقل کردیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : کوئی طاقت 2 نومبر اسلام آباد کے احتجاج کو نہیں روک سکتی، عمران‌ خان


    اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیری مزاری کو بھی بنی گالہ جاتے ہوئے روکنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے شدید مزاحمت کی اور گاڑی سے اتر کر بیریئر ہٹانے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے بالآخر انہیں بنی گالہ جانے دیا تھا۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کوئی طاقت 2 نومبر اسلام آباد کے احتجاج کو نہیں روک سکتی، 2 نومبر کو تاریخی اور فیصلہ کن اجتماع ہوگا۔


    مزید پڑھیں : بدھ 2 نومبر کو اسلام آباد بند کردیں گے،عمران خان


    عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو 2 نومبر کو دوپہر 2 بجے سے لاک ڈاؤن کرنا شروع کردیں،دھرنا وزیر اعظم کے استعفیٰ تک جاری رہے گا،کوئی ہمارے پُرامن احتجاج کے سامنے نہ آئے ورنہ نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔

  • پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    آپ کو وہ زمانہ یقیناً یاد ہوگا جب بڑے بڑے گھروں میں خوبصورت دالان ہوا کرتے تھے۔ دالان وہ کشادہ اور وسیع راہداریاں ہوتی ہیں جو آج کل کی تنگ راہداریوں کی طرح صرف گزرنے کے کام نہیں آتیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا سامان رکھ کر اکثر محفلیں سجائی جاتی تھیں اور بچے ان دالانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دالانوں پر چھت بھی ہوتی ہے جو عموماً محراب دار ہوتی ہے۔

    ایران کے کئی شہروں میں ایسے بازار موجود ہیں جو محراب دار دالانوں کی شکل میں ہیں یعنی وسیع اور چوڑی راہداریوں میں دکاندار اپنا خوانچہ سجائے بیٹھے ہیں۔

    لیکن اب یہ مقام شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے طرز زندگی اور کم جگہ کے باعث رہائش کے لیے فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی تعمیر نے صرف ایک دالان تو کیا ہمارے رہنے کے لیے مناسب کھلی جگہ بھی چھین لی۔ ایک گنجان آباد شہر میں رہنے والا شخص شاید ہی بتا سکے کہ اس نے آخری بار آسمان پر چاند کب دیکھا تھا؟ یا وہ کون سا دن تھا جب اس نے آخری بار سورج ڈھلتے دیکھا؟ یا جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو اسے ابلتے گٹروں، جا بجا کھڑے پانی اور لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو بھی محسوس ہوئی جو بارش کا پہلا قطرہ زمین پر پڑتے ہی چہار سو پھیل جاتی ہے؟

    آپ سمیت یقیناً بہت سے افراد ان سوالات پر تذبذب کا شکار ہوجائیں گے۔

    تو چلیں پھر آپ کو ان لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے شاید ان سب کو محسوس کیا ہو تب ہی ان چیزوں کو یاد کروانے کے لیے انہوں نے اپنا تصوراتی اور تخیلاتی دالان تشکیل دے ڈالا۔

    چھ افراد پر مشتمل پاکستانی تخلیق کاروں کی تخلیق ‘دالان‘ آج کل لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں ہونے والی لندن ڈیزائن بینالے 2016 میں جلوہ گر ہے جو مشرقی و مغربی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

     یہ ڈیزائن کراچی کے کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کے تخلیق کاروں نے تشکیل دیا ہے جس میں ایک تخیلاتی دالان کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسٹوڈیو اس سے قبل بھی ’نروان‘ اور ’زاویہ‘ نامی ڈیزائن تشکیل دے چکا ہے جو ادب اور مصوری کی سرحدوں کو ملا کر تشکیل دیے گئے ہیں۔

    یہاں کی سب سے منفرد چیز گھومنے والے اسٹولز ہیں جنہیں لٹو کا نام دیا گیا ہے۔ چھت سے اسکرین پرنٹ (ڈیجیٹل سطح پر سیاہی یا دھات سے تصویر کشی) کے ذریعہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت سے جڑے بچوں کے مختلف کھیلوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

    لندن میں ہونے والی اس نمائش کا مرکزی خیال آرٹ کے ذریعہ یوٹوپیا (خیالی دنیا) تشکیل دینا ہے جہاں فنکار اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت میں ڈھال کر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک فنکار کے تصور کی کوئی سرحد نہیں لہٰذا یہاں پیش کیے گئے نمونہ فن ایسے ہیں جو عام افراد کی سوچ و ادراک سے بالکل بالاتر ہے۔

    دالان کے تخلیق کاروں کی ٹیم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی ثقافت کو بیرون ملک پیش کرتے ہوئے نہایت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ’لوگ یہاں آتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تشکیل دیا گیا نمونہ فن دراصل پاکستانی ثقافت و روایت کا حصہ ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں‘۔

    سلمان جاوید، فائزہ آدم جی، علی حسین، مصطفیٰ مہدی، حنا فینکی، اور زید حمید پر مشتمل یہ تمام فنکار انڈس ویلی اسکول آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں اور چونکہ اس ٹیم میں ماہر تعمیرات (آرکیٹیکچر)، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اور گرافک ڈیزائنر شامل ہیں لہٰذا ان تمام علوم کی آمیزش سے تخلیق کیا ہوا فن پاکستانی فن و مصوری کو نئی جہتیں عطا کررہا ہے۔

    لندن میں جاری اس 10 روزہ نمائش میں ’دالان‘ کو یہاں پیش کی گئی بہترین 6 تخلیقات میں سے ایک کا اعزاز مل چکا ہے۔ کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کی ٹیم اس سے قبل گذشتہ برس بھی دبئی ڈیزائن ویک میں پاکستانی پویلین کے ذریعہ اپنا فن پیش کر چکی ہے جسے بہترین پویلین کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    دالان کی روایت و رومانویت نے دراصل اردو شاعری کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔

    کئی شاعر اپنی شاعری میں محبوب کے ہجر و فراق میں دالان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
    ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

    ۔ جون ایلیا

    دالان کے تخلیق کاروں کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان کے فن کو دیکھیں تو وہ اس بھولے بسرے وقت کو یاد کریں جب لمبی دوپہریں اور ٹھنڈی شامیں دالانوں کے سائے میں گزرتی تھیں اور انہیں احساس ہو کہ زندگی کی تیز رفتار چال کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں وہ اپنی ثقافت کے خوبصورت پہلوؤں کو بھی بھلا بیٹھے۔

    برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر سید ابن عباس نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور پاکستانی تخلیق کاروں سے ملاقات کی۔ ان کے حیرت انگیز فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آپ لوگ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں اور دراصل آپ ہی پاکستان کی درست اور حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ جس طرح ان فنکاروں نے پاکستانی ثقافت اور طرز زندگی کو اجاگر کیا ہے یہ کوشش نہایت قابل تعریف ہے۔

    پاکستان کی دم توڑتی روایات کو زندہ کرنے کی کوششوں کی اس مثال کا اب تک کئی ہزار افراد دورہ کر چکے ہیں اور وہ اس اچھوتے اور سادہ ڈیزائن کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

    لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں جاری یہ نمائش مزید ایک روز تک جاری رہے گی اور ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے۔

  • راحت فتح علی خاں چالیس برس کے ہوگئے

    راحت فتح علی خاں چالیس برس کے ہوگئے

    کراچی: کنگ آف میلوڈی استاد راحت فتح علی خاں چالیس برس کے ہوگئے،رواں سال بھی سالگرہ کے موقع پراے آروائی اور پرستاروں کیلئے سروں کا جادو جگائیں گے۔

    لازوال گیتوں کے خالق استاد راحت فتح علی خاں زندگی کی چالیسویں بہار میں داخل ہوگئے ماضی کی طرح رواں سال بھی وہ اپنی سالگرہ ملک کے سب سے مقبول چینل اے آروائی نیوز اور پروستاروں کے ہمراہ منارہے ہیں۔

    اپنی رواں سالگرہ پر راحت فتح علی خاں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے ہر سر کے ذریعے دنیا بھر میں وطن عزیز کی مٹی کی خوشبو پھیلانا چاہتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ثقافت کے میدان میں پاکستان کا کوئی ثانی نہیں ہوگا۔

    راحت فتح علی خان ایک روز بعد اوسلو میں ہونیوالے دنیا کے سب سے بڑے نوبل پیس ایوارڈزمیں ہیڈ لائن پرفارمنس دیں گے اور یہ ایوارڈ ملالہ یوسفزئی کو دیا جائے گا۔