Tag: Article 63A

  • آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام  5بجے سنایا جائے گا

    آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام 5بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج شام پانچ بجےسنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے اور سوشل میڈیا کی شکایت کرتے ہوئے کہا عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل میں سوال کیا کیا آرٹیکل 63اےایک مکمل کوڈ ہے، کیا آرٹیکل 63اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سےانحراف کر کےووٹ شمار ہو گا؟

    اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ عدالت ایڈوائزی اختیارمیں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس اورقانونی سوالات پرعدالت کی معاونت کروں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا اپ کہہ رہے ہیں۔کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا۔ بطور اٹارنی جنرل اپ اپنا موقف لے سکتے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعطم کی ایڈوائس پر فائل ہوا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کاموقف ہے؟ تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے بتایا کہ
    میراموقف بطور اٹارنی جنرل ہے ، سابق حکومت کامؤقف پیش کرنے کےلیے وکلاموجود ہیں، صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرناچاہیے تھا،انونی ماہرین کی رائےمختلف ہوتی توصدر ریفرنس بھیج سکتے تھے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے اور سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے، ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن در تسلیم خم کرتا ہوں، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ ہر رائے مانگی جاسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، ارٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں، کیا اپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملی، اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں اچکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا، جو پہلے تھا، میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کےحقوق کو بھی دیکھنا ہے، انحراف پررکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انخراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئے گی۔

    اشتر اوصاف نے کہا کہ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کاروایی پر اثر پڑے گا، آرٹیکل 63ون کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا، انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں یہ معاملہ کبھی اٹھایا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے کبھی کسی جماعت نے کوئی اقدام اٹھایا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے تریسٹھ اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی اقدام اٹھایا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی، عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ ہدایات جاری کریں یا نہ کریں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی وہی وزیراعظم تھے، سابق وزیر اعظم نے اپنے پہلے موقف سے قلا بازی لی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتا؟ کیا وزیراعظم کے لیے اپنی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے، وزیر اعظم اپنی بات سے پھر نہیں سکتا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید استفسار کیا کہ کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے؟ کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا؟ کیا انخراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62( 1) ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہوگا۔ ان سوالات کے برائے راست جواب دیں۔

    اشتراوصاف نے کہا عدالت کےسوال کا جواب نہ دے پاؤں لیکن گزارشات دےسکتا ہوں، عوام کے سامنے ارکان جوابدہ ہیں، قانون میں 7سال سزا لکھی ہے تو سزائےموت نہیں دی جاسکتی۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیامنحرف کی سزا کے لیے قانون نہیں بنایاجاسکتا؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نےقانون نہیں بنایا ؟

    جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کس بنیاد پر کہتے ہیں آرٹیکل 63اے کا اطلاق نہیں ہوتا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا آئین میں ترمیم تک آرٹیکل باسٹھ63 کااطلاق نہیں کرسکتے ، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک آپ کہہ رہے ہیں قانون بن سکتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر سے مکالمے میں کہا عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، آئین پنالٹی فراہم کرتا ہے،ترمیم کےبغیراضافہ نہیں کیا جاسکتا،اٹارنی جنرل

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آئین کی فراہم پنالٹی کوقانون سے بڑھایا جاسکتا ہے۔

    سماعت کے اختتام پر عدالت کی پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی سرزنش

    ریفرنس کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کےوکیل بابر اعوان کی سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں سب برابر ہیں، عدالت بات کر رہی ہو تو مداخلت مت کریں ،بات سنیں ۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا مت بتائیں عدالت کو کہ کونسی بڑی پارٹی سے ہیں ، عدالت نےکیس پارٹی سائز نہیں بلکہ آئین کی تشریح کے لیےسنا ہے، آپ کا موقف ہم نے 2مرتبہ سنا آپ کےنکات ہمیں سمجھ گئے ہیں، اب آپ دو منٹ میں کیا کہنا چاہتےہیں ہم 2منٹ اوربیٹھ جاتے ہیں۔

    وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں 10منٹ لوں گا ، عدالت نےبابر اعوان کو10منٹ دیے جانے کی استدعا مسترد کر دی۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا آرٹیکل 63 اے ووٹنگ سے متعلق ارکان کو پابند بناتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ووٹ کے لیے پابند کیا جائے تو تحریک عدم اعتماد پر آرٹیکل 95غیر مؤثر ہو جائے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیاہارس ٹریڈنگ کے بغیر عدم اعتماد ہو سکتی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت اپنےبنائےوزیر اعظم کوہٹا کر نیالا سکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آرٹیکل 63 اے کی پیروی سے آرٹیکل 95 کیسے غیر مؤثر ہوگا؟ ایسی صورت میں صدر مملکت وزیر اعظم کواعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتےہیں، جس پر اشتراوصاف کا کہنا تھا کہ صدراسی جماعت کا ہو، جس کا وزیراعظم ہے تو اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہے گا۔

    عدالت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، صدارتی ریفرنس پر شام 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔

  • آرٹیکل 63اے : لگتا ہے کہ آپ معاملے میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

    آرٹیکل 63اے : لگتا ہے کہ آپ معاملے میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : آرٹیکل 63اےکی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ میں سماعت کی گئی، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں5رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو لاہور سے روانگی میں تاخیر ہوگئی ہے، اشتر اوصاف لاہور سے اسلام آباد اسلام آباد آرہے ہیں3 بجے تک پہنچ جائیں گے۔

    اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ اٹارنی جنرل آرہے ہیں یا جارہے ہیں، یہ سنتے ہوئے 2ہفتے ہوگئے ہیں۔

    اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے کوئی اور تاثر ملے، اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کی بات خود کی تھی، مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل کیلئے پابند کیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی ہمیں اطلاع ملی ہے مخدوم علی خان بیرون ملک سے وطن واپس نہیں آئے، یہ دونوں وکلاء صاحبان ایک فریق کے وکیل ہیں، ایک سرکار کے وکیل ہیں دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اب لگتا ہے کہ آپ اس معاملےمیں تاخیر کرناچاہتے ہیں، ساڑھے 11بجے دیگر مقدمات پس پشت ڈال کر سماعت کے لیے کیس مقرر کیا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63اے کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں، یہ اہم ایشو ہے، اٹارنی جنرل 3بجے پہنچ رہے ہیں تو 4بجے تک سن لیتے ہیں، رات تاخیر تک اس مقدمے کو سننے کے لیے تیار ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ خدمت کا کام ہے ہم کرنا چاہتے ہیں، عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے، عدالت تو 24گھنٹے دستیاب ہے، اٹارنی جنرل کو 3بجے سن لیں گے۔

    معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ مخدوم علی خان 17مئی کو وطن آپس آجائیں گے، وہ بیرون ملک کسی مقدمے کی سماعت میں مصروف ہیں،18مئی کے بعد ہوسکتا ہے بینچ دستیاب نہ ہو۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ پورا ہفتہ دستیاب ہے، معذرت کےساتھ مخدوم علی خان نے مایوس کیا ہے، مخدوم علی خان بڑے وکیل ہیں، وہ تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں۔

     

  • ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ممکن ہےکہ ریفرنس واپس بھیج دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    آج اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس سے متعلق اپنے دلائل دئیے اس دوران انہیں ججز صاحبان کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63اے نشست خالی ہونےکاجواز فراہم کرتا ہے، کیا آرٹیکل 63اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگےگا؟

    جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنےکےبعد استعفیٰ دیدے تو کیاہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت میں ایک رکن نےپارٹی کےخلاف ووٹ دیکراستعفیٰ دیاتھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیاتھا، پارٹی سےانحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

    جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوٹوں کی سپورٹ کرنےوالا میں آخری شخص ہوں گا، پارٹی سےانحراف کرنے والےکےخلاف الیکشن کمیشن موجودہے،کوئی چوری کرنے والےکا ساتھ جائےتو کیاہوگا؟صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیاہےجو رائےمانگ رہےہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہےجس پر سوال پوچھے؟۔

     

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ صدر پاکستان نےآئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سےادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں، بعد ازاں کیس کی سماعت پیر کی دوپہر 1 بجے تک ملتوی کردی گئی، اٹارنی جنرل پیر کو اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل اور معزز ججز صاحبان کے ریمارکس

      اس سے قبل سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ  پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پرملتی ہیں، ان ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفاداررہنا ہے یا نہیں تاہم خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کاپابند رہے گا؟۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کیاممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتاہےکہ ڈسپلن کا پابند رہےگا، اگرپارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہےتوخلاف ورزی خیانت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہناہےیا نہیں لیکن خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا گیا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم نےاپنےعہدےکاحلف اٹھایاہوتاہے، کیا کوئی رکن وزیراعظم پرعدم اعتمادکا اظہارکرسکتا ہے؟ اگروزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا رکن قومی اسمبلی پھرساتھ دینےکاپابندہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے جبکہ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ووٹرانتخابی نشان پرمہرلگاتےہیں کسی کےنام پرنہیں، پارٹی نشان پر الیکشن لڑنےوالےجماعتی ڈسپلن کےپابند ہوتے ہیں۔

  • سپریم کورٹ نے  آرٹیکل63 اے  کی تشریح کیلئے  صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا

    سپریم کورٹ نے آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا، 5رکنی بینچ 24 مارچ کوسماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بینچ 24 مارچ کوسماعت کرے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہرعالم خان،جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ میں اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی ، جس میں عدالت نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،عوام کا کاروبار زندگی بھی کسی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ ہم پروسیجر کے اندرنہیں جائیں گے ، ہم پارلیمانی پروسیجنگ کے اندر مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

  • سپریم کورٹ کا  آرٹیکل63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا آرٹیکل63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سسپریم کورٹ میں اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ بارکے وکیل منصورعثمانی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا ریکوزیشن کے بعد 14روز کے اندر اجلاس بلانے کا کہتا ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم پروسیجر کے اندرنہیں جائیں گے ، ہم پارلیمانی پروسیجنگ کے اندر مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

    وکیل منصورعثمانی نے بتایا کہ 8 مارچ کو ریکوزیشن جمع کرائی، ریکوزیشن کے اندر تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرائی، تحریک عدم اعتماد پر نوٹس بھی جاری ہوچکا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے، 22 مارچ کو 14روز مکمل ہوتے ہیں، موجودہ حالات میں مروجہ طریقہ کارپرعمل نہیں ہو رہا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اجلاس 22مارچ کی جگہ 25 مارچ کو بلایا گیا ہے، جس پر وکیل نے کہا عدم اعتماد اجلاس میں پیش ہونے کے 3 دن بعد اور 7 روز سے قبل ووٹنگ ہونی ہے، تمام اراکین کونوٹس جاری ہونےہیں، اسمبلی اجلاس عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اسمبلی کااندرونی معاملہ ہے،آپ یہ معاملہ اسمبلی کےاندرلڑیں، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    فاروق نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کر دیا اور کہا اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی ، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن پر آرٹیکل 6لگا ہے پہلے ان پر عمل کرا لیں۔

    آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات چیف جسٹس مسکرا دیئے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، آرٹیکل 17کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں اور آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 95 ٹو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ نواز شریف ، بینظیربھٹو کیس میں عدالت آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالے، بار زیادہ تفصیلات میں گئی توجسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بنےگی، سوال یہی ہے ذاتی چوائس پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟

    وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پرووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہا آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے مزید بتایا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر و دیگرعہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے پھر سوال کیا سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ توبتا دیں؟

    وکیل سپریم کورٹ بار کی جانب سے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا ، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، ارٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت اسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپ تو بار کے وکیل ہیں آپکا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،عوام کا کاروبار زندگی بھی کسی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار کو کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس منیب اختر نے بھی استفسار کیا کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟

    سندھ ہاؤس سے متعلق چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا بار بارپوچھ رہےہیں سندھ ہاؤس میں کیاہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کرانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار کو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں،بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی اسلام آباد صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے۔

    آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کےاطراف دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا
    رپورٹ کےمطابق5.42 بجے 35سے40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے تو آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، 2 اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی، بلوچستان ہاؤس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا گیا، سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پرماضی قریب میں کچھ ہوا تھاجس کے تاثرات سامنےآئے، ہفتےکو کیس سننے کا مقصد سب کوآئین کےمطابق کام کرنے کا کہنا تھا۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت میں یقین دہانی کرائی کہ کوئی رکن پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالنے جائے تو اسے روکا نہیں جائے گا اور قومی اسمبلی اجلاس میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ، تمام اجلاسوں کوبھی بلارکاوٹ کراناوفاق کی ذمہ داری ہے، سیاسی بیانات اپنی جگہ مگرعملی طورپرکوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوگی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی کارروائی پرعدالت بات نہیں کررہی ورنہ تاخیرکی وجہ بتاتا، بارنےتمام اداروں کوقانون کےمطابق اقدامات کی استدعا کی ہے، بارکی دوسری استدعا امن و امان اور جلسے جلوس کےحوالے سے ہے۔

    اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہوگا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کواسمبلی اجلاس کے دوران ریڈزون میں داخلےکی اجازت نہیں ہو گی، سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں۔

    عدالت نے سوال کیا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکے اور اسکا رکن چلا جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کوروکا نہیں جاسکتا، اس نکتے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پرآرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہوگی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نےسیاسی قیادت میں ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سندھ ہاؤس پرحملےکا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شکایت ہےمتعلقہ فورم سےرجوع کرے، سندھ ہاوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے۔

    عدالت نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجربینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ کو کریں گے۔

  • آرٹیکل 63 اے کی تشریح : صدارتی ریفرنس کا مکمل متن

    آرٹیکل 63 اے کی تشریح : صدارتی ریفرنس کا مکمل متن

    اسلام آباد : آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ریفرنس تیار ہوگیا ہے جو آج پیش کیا جائیگا، صدارتی ریفرنس کے مسودے میں منحرف رکن کو تاحیات نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    آرٹیکل63اے کی تشریح اور صدارتی ریفرنس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ضمیر بیچنے والوں پر آرٹیکل 63 کے ساتھ 62 ون ایف لاگو کیا جائے، ماضی کی طرح آج پھر فلور کراسنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت عروج پر ہے۔

    مسودے کے متن کے مطابق کئی ارکان نے میڈیا پر فخریہ انداز میں اپنے انحراف کا اعتراف کیا ہے، آئین کے تحت منتخب نمائندے ذاتی مفاد کی تکمیل کیلئے آزاد نہیں۔

    سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ منحرف رکن کو کسی بھی مرحلے پر ووٹ کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے، منحرف رکن مستعفی نہ ہوتو اسے تاحیات نااہل اور اپیل کےحق سے محروم کیا جائے۔

    مسودے میں کہا گیا ہے کہ منتخب اسمبلی نمائندوں کو پارٹی پالیسی سے اختلاف کا حق ہے لیکن انحراف کا نہیں، منحرف رکن کیخلاف 63اےکی تشریح تک اس کا ووٹ متنازع قرار دیا جائے۔،

    صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل63اے کی”امانت اورخیانت”کے تناظر میں قانونی تشریح کی درخواست کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بارہا فلور کراسنگ کو ناسور قرار دے چکی ہے۔

    مسودے کے متن کے مطابق آرٹیکل62 ،63اے کی واضح تشریح ووٹوں کی خریدوفروخت بند کردے گی، آرٹیکل63اےکے تحت عبوری نااہلی نظام کیلئے زیادہ نقصان دہ ہے۔

    منتخب نمائندے کیلئے انحراف پر تاحیات نااہلی کی سزا ہونی چاہیے، آرٹیکل63اےمیں منحرف رکن کو صرف نشست سے محروم کیا جاسکتا ہے، منحرف رکن پر دوبارہ الیکشن لڑنے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی۔

    تاحیات نااہلی نہ ہونے کے باعث یہ ارکان انحراف پر ڈھٹائی دکھا رہے ہیں، عدالت کو آئینی شقوں کی قوی اور بامقصد تشریح کرنا ہوگی، سپریم کورٹ آرٹیکل63،62اور17اے کی دوٹوک تشریح کرے۔

    فلور کراسنگ، انحراف، ووٹ کی خرید وفروخت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جائے، فلور کراسنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی مثالیں ریفرنس کا حصہ ہیں۔

    پارٹی منشور پر منتخب رکن کا انحراف جمہور کےاعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، سیاسی جماعتیں منتخب نمائندوں کے مفاد میں قانون سازی کرتی ہیں۔