Tag: ARTIST

  • فانوس نما بالیاں جو کانوں میں پہننے کے بعد روشن ہوجائیں گی

    دنیا بھر میں یوں تو فیشن کے نت نئے اور انوکھے ٹرینڈز اپنائے جاتے ہیں، تاہم کچھ انداز ایسے ہوتے ہیں جو نہایت ہی اچھوتے اور منفرد ہوتے ہیں۔

    امریکا کی ایک نوجوان خاتون آرٹسٹ نے حقیقتاً روشن ہونے والی فانوس کی شکل کی بالیاں تخلیق کی ہیں۔

    نیویارک شہر کی رہائشی ڈیانا کلڈرسیکو ایک باصلاحیت ٹیکنیکل ڈیزائنر اور فیشن پر مبنی تصاویر اور خاکے بناتی ہیں جبکہ انہیں فانوس نما ایئر رنگز (کانوں کی بالیاں) بنانے میں خصوصی مہارت حاصل ہے، یہ ایئر رنگز حقیقتاً فانوس کی طرح ہی روشن ہوتی ہیں۔

    ان چھوٹی سی فانوس نما بالیوں میں سے ایک عجیب سی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔

    ڈیانا نے یہ حیرت انگیز دھاتی زیور پیتل، اسٹرلنگ سلور، 14 قیراط سونا اور گلاس کرسٹل سے تخلیق کیا ہے اور اس میں ایک جادوئی تاثر پیدا کرنے کے لیے روشنی خارج کرنے والی لیڈ کا استعمال کیا ہے جسے ایک چھوٹی سی بیٹری سے توانائی فراہم کی جاتی ہے۔

    یہ بیٹری ایئر رنگز پہننے والی خاتون کے کانوں کے پیچھے چھپی ہوتی ہے، ڈیانا کے تیار کردہ اس منفرد انداز کی بالیوں کی اس وقت قیمت 128 سے 158 امریکی ڈالر فی جوڑی ہے۔

    یہ قیمت ان شاندار اور پرکشش بالیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے، ڈیانا نے اس کی ایک سال کی وارنٹی کی بھی پیشکش کی ہے۔

  • نوشہرہ کے آرٹسٹ حامد علی کی پینٹنگ عالمی نمائش کے لیے منتخب

    نوشہرہ کے آرٹسٹ حامد علی کی پینٹنگ عالمی نمائش کے لیے منتخب

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے فنکار پیر حامد علی کے فن پارے کو اٹلی میں ہونے والی ایک نمائش کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے حامد علی مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور آرٹ پڑھاتے ہیں۔

    وہ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 10 سال کی عمر میں پہلا پورٹریٹ بنایا تھا جو ان کے والد صاحب کا تھا۔

    حامد علی اب تک اپنے آرٹ پر ایک درجن سے زائد ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں جبکہ اٹلی میں منعقدہ نمائش کے لیے ان کا فن پارہ تیسری بار منتخب ہوا ہے۔

    اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر موجود مختلف آرٹ گروپس کا حصہ ہیں، وہیں پر انہوں نے اپنا فن پارہ بھیجا تھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اٹلی میں نمائش کے لیے منتخب کرلیا گیا۔

  • فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    فریڈا کاہلو: درد اور اذیت کو رنگوں میں ڈھالنے والی مصور

    امریکی مصنفہ مشل سی ہل سٹورم نے لکھا ہے، درد یا تکلیف، تخیل اور فن کو بڑھاوا دیتا ہے، جو اپنے درد کو گلے لگاتا ہے، وہ اپنے فن کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

    دنیا میں جتنے بھی فنکار گزرے، ان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی دکھ ایسا ضرور تھا جس نے پوری زندگی انہیں بے چین اور مضطرب رکھا، اور اسی درد، بے چینی اور اضطراب نے انہیں فن کی کسی نہ کسی جہت کی عروج پر پہنچا دیا۔

    میکسیکن آرٹسٹ فریڈا کاہلو کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی گزری جس نے اسے برش اور رنگوں سے جوڑ دیا، اور آج اسے ایک ایسی مصورہ قرار دیا جاتا ہے، جس نے مصوری میں نئی جہت پیش کی۔

    فریڈا 6 جولائی 1907 کو میکسیکو میں پیدا ہوئی، 6 برس کی عمر میں وہ پولیو وائرس کا شکار ہوگئی اور بیماری کے حملے کے باعث وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی۔ پولیو نے اسے کم عمری میں معذوری کا شکار بنا دیا۔

    ایک یہی بیماری کافی نہ تھی کہ سنہ 1925 میں 18 برس کی عمر میں فریڈا بس میں سفر کے دوران ایک ہولناک حادثے کا شکار ہوئی، اس حادثے میں وہ مرتے مرتے بچی لیکن اس کی ریڑھ، کولہے، کندھے اور پاؤں کی ہڈیاں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ساری عمر ان کے درد میں مبتلا رہی۔

    اس ایکسڈنٹ کے بعد بھی وہ کئی ماہ تک بستر پر رہی، اس دوران اس نے مصوری کے لیے ایک ایزل اپنے بستر کے قریب رکھ لیا اور مصوری کی مختلف تکنیکوں پر کام کرنے لگی۔

    پہلا سیلف پورٹریٹ ۔ سنہ 1926

    صحت یابی کے بعد اس نے باقاعدہ مصوری شروع کردی، اور وہ کہتی تھی کہ مصوری نے میری زندگی کو مکمل کیا۔ اس نے اپنے قریبی دوستوں، اہل خانہ اور مختلف اشیا کی تصاویر بنانی شروع کیں لیکن جس چیز نے دنیا کی توجہ حاصل کی، وہ اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    فریڈا نے نہ صرف زندگی کے ہر رنگ، اور خود پر گزرنے والے ہر غم، دکھ درد اور خوشی کے جذبے میں اپنی تصویر کشی کی بلکہ لاشعور سے شعور میں آنے والے ہر بے ربط خیال میں بھی خود کو پیش کیا۔

    اپنے پہلے سیلف پورٹریٹ میں فریڈا نے خود کو سرخ مخملی لباس میں ملبوس دکھایا۔

    19 سال کی عمر میں فریڈا کے پہلے پورٹریٹ کو ایک عام سی نوعمر لڑکی کا شوخ و چنچل تخیل تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس کم عمری میں وہ بہت سی تکالیف جھیل چکی تھی لیکن اس کا مخملی سرخ لباس نوعمری کی خواہشات کا جھلک ضرور دکھاتا ہے۔

    فریڈا زندگی بھر جسمانی تکالیف کا شکار رہی، اور اس سے عارضی نجات کے لیے اس نے آرٹ میں پناہ ڈھونڈ لی تھی۔ اس نے 200 کے قریب پینٹنگز بنائیں، جن میں سے 55 اس کے سیلف پورٹریٹس تھے۔

    وہ کہتی تھی کہ میں خود کو اس لیے پینٹ کرتی ہوں کہ کیونکہ میں تنہا ہوں، کیونکہ یہ وہ واحد انسان ہے جسے میں سب سے اچھی طرح جانتی ہوں۔

    دو فریڈا ۔ سنہ 1939

    اس کی تصاویر میں ایک طرف تو عام زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نہایت شوخ رنگوں میں دیکھنے کو ملتیں، (غالباً اپنی تکلیف دہ زندگی کو رنگین اور خوبصورت بنانے کی خواہش اس نے اپنی پینٹنگز میں پوری کی)، تو دوسری طرف اس نے غیر حقیقی خیالات یا سریئلزم بھی اپنی تصاویر میں پیش کیا۔

    تاہم اس کا سریئلزم دیگر مصوروں کی طرح بالکل ہی غیر حقیقی اور بے ربط نہیں تھا، بلکہ اس کی زندگی کے تجربات پر ہی مشتمل تھا۔

    اس بارے میں وہ کہتی تھی، کہ مجھے سریئلسٹ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ میں نہیں ہوں، میں خواب پینٹ نہیں کرتی، میں اپنی حقیقت پینٹ کرتی ہوں۔

    فریڈا کو اپنی میکسیکن شناخت اور ثقافت سے بے حد محبت تھی، چنانچہ اس نے اپنی ہر پینٹنگ میں میکسیکن ثقافت کو، اور اپنے ہر سیلف پورٹریٹ میں خود کو روایتی میکسیکن لباس میں پینٹ کیا۔

    سنہ 1929 میں فریڈا نے اس وقت کے معروف میکسیکن مصور ڈیاگو رویرا سے شادی کی۔ یہ تعلق فریڈا کے لیے نہایت ہنگامہ خیز اور اونچ نیچ کا شکار رہا۔ ڈیاگو، فریڈا سے عمر میں خاصا بڑا تھا لیکن دونوں کے نظریات و خیالات ملتے تھے۔

    دونوں نے ایک ساتھ دنیا کا سفر کیا اور اس دوران بہترین پینٹنگز تخلیق کیں، دونوں کمیونسٹ سیاست میں بھی خاصے سرگرم تھے، لیکن ڈیاگو ایک مشکل شخص تھا۔

    فریڈا کاہلو اور ڈیاگو رویرا ۔ ڈیاگو کی بے وفائی فریڈا کی زندگی کا ایک اور دکھ تھا

    دونوں کی شادی 10 سال کا عرصہ چلی جس کے بعد دونوں الگ ہوگئے، لیکن ایک سال بعد ہی دونوں نے دوبارہ شادی کرلی اور پھر یہ تعلق فریڈا کی موت تک قائم رہا، تاہم اس دوران ڈیاگو کی بے وفائی اور بے التفاتی نے فریڈا کو بے حد جذباتی نقصان پہنچایا۔

    اس کے پورٹریٹس، جو اس کے دکھوں کا آئینہ ہیں، اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ڈیاگو سے محبت نے اسے توڑ دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اس سے محبت کیے جارہی تھی۔

    وہ کہتی تھی، ڈیاگو کی بیوی ہونا ایک حیرت انگیز تجربہ ہے، اگرچہ وہ کسی ایک کا ہو کے نہیں رہ سکتا، پھر بھی وہ بہت اچھا ساتھی ہے۔

    اس کی دا ٹو فریڈاز نامی پینٹنگ اسی دکھ کی جھلک دکھلاتی ہے جو اس نے اپنی طلاق کے بعد بنائی۔

    اس پینٹنگ میں 2 فریڈا موجود ہیں، ایک فریڈا کا دل زخمی ہے جس سے رستا خون اس کے روایتی لباس کو رنگین کر رہا ہے، یہ فریڈا ایک تکلیف دہ ماضی کا اشارہ ہے۔ دوسری فریڈا جدید لباس میں صحت مند حالت میں ہے جس کے ہاتھ میں ڈیاگو کی ننھی سی تصویر ہے۔

    یہ تصویر اس کی شخصیت اور اس کی خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ڈیاگو سے محبت کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک دیکھنا چاہتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس محبت سے نہایت اذیت میں ہے۔

    یہ پینٹنگ اس کی انفرادیت، خود مختاری اور جذباتی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش، اور اصل میں اس کے ٹوٹ جانے اور محبت میں کسی پر منحصر ہوجانے کی حقیقت کی تصویر ہے۔

    ود آؤٹ ہوپ ۔ سنہ 1945

    فریڈا کی جسمانی خستہ حالی نے اسے زندگی بھر اذیت میں رکھا، 47 سال کی عمر میں موت تک اس کے 30 آپریشن ہوچکے تھے۔ سنہ 1944 میں وہ ایک نہایت تکلیف دہ آپریشن سے گزری جس کی کامیابی سے اس کی صحت یابی کی کچھ امید تھی، لیکن یہ آپریشن ناکام ہوگیا۔

    اس تکلیف کا اظہار فریڈا نے دا بروکن کالم نامی ایک پورٹریٹ پینٹ کر کے کیا، اس پینٹنگ میں فریڈا کے جسم میں جابجا میخیں گڑی ہوئی دکھائی گئیں جو اس کے درد اور اذیت کی طرف اشارہ ہے۔

    ایک اور پینٹنگ ود آؤٹ ہوپ میں اس نے خود کو ہر امید سے مایوس قرار دیا۔ اس پینٹنگ میں وہ اسپتال کے بستر پر ہے جو اس کا تکلیف دہ ساتھی بن چکا ہے۔

    وہ کہتی تھی، تکلیف، خوشی اور موت، کسی وجود کے نمو پاتے رہنے کا حصہ ہے۔ اس عمل سے جدوجہد کرتے اور گزرتے رہنا عقل و خرد کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔

    فریڈا سنہ 1954 میں 47 سال کی عمر میں چل بسی، زندگی بھر جس طرح وہ غم و اندوہ اور تکلیف کا شکار رہی، موت یقیناً اس کے لیے جائے پناہ تھی، اور خود اس نے موت کے لیے کہا تھا، مجھے امید ہے کہ روانگی کا سفر خوش کن ہو، اور مجھے امید ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی واپسی نہ ہو۔


    مواد اور تصاویر بشکریہ:
    www.fridakahlo.org

  • مردہ لال بیگوں پر مصوری کے شاہکار

    مردہ لال بیگوں پر مصوری کے شاہکار

    فلپائن میں  ایک  مصورہ  نے  اچھوتے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مردہ لال بیگوں پر خوبصورت پینٹگز کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    ایک اچھے فنکار کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر دم کچھ نیا کرنے کی جستجو میں رہتا ہے اور اسی کوششوں میں ایسے فن پارے تخلیق پاجاتے ہیں جنہیں دنیا سراہتی ہے۔

    آپ کا اپنی زندگی میں بہت ساری ایسی خواتین سے واسطہ پڑتا ہوگا جو گھروں، دفاتر میں پائے جانے والے لال بیگ سے انتہائی خوفزدہ ہوتی ہیں اور وہاں قدم بھی نہیں رکھتیں جہاں یہ حشرات الارض نظر آجائے، مگر ہم آپ کو ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتارہے ہیں جنہوں نے ڈرنے کے بجائے اپنے فن کو اچھوتے انداز میں پیش کرنے کے لیے مردہ لال بیگوں کا انتخاب کیا۔

    غیرملکی نیوز ایجنسی کے مطابق فلپائن کے دارالحکومت منیلا کی رہائشی برینڈا ڈیلگاڈو نامی فنکارہ مردہ لال بیگوں پر اب تک ہالینڈ کے مصور ونسینٹ وین، افسانوی کردار مارول وینم، تاروں بھری رات، سرسبز نظارے ودیگر پینٹ کرچکی ہیں۔

    اس حوالے سے برینڈا کا کہنا ہے کہ اسے یہ اچھوتا خیال اس وقت آیا جب وہ اپنے کام کی جگہ مرے ہوئے لال بیگ ہٹا رہی تھی، اسی دوران میری نظر انکے چمکدار اور ہموار پروں پر پڑی۔

    برینڈا نے  بتایا کہ مردہ لال بیگوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ اسے اپنا کینوس بنایا جائے  اور یہ بہت ہی انوکھا آئیڈیا تھا۔

    فنکارہ نے مردہ لال بیگوں پر آئل پینٹ کا استعمال کرتے ہوئے کئی شاہکار تخلیق کیے جن میں پورٹریٹ، افسانوی کردار، سینریز، تاروں بھری رات کا دلفریب منظر شامل ہیں۔

    تیس  سالہ مصورہ کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ کو کوئی اچھوتا آئیڈیا آئے تو اپنے چھپے ہوئے ہنر کے اظہار کے لیے گھبرائیں نیہں، کیونکہ آپ ناممکن بھی ممکن بناسکتے ہیں۔

  • ڈنمارک کے مصور کا آرٹ، پیسے لو اور بھاگ جاؤ

    ڈنمارک کے مصور کا آرٹ، پیسے لو اور بھاگ جاؤ

    ڈنمارک میں ایک فنکار نے نمائش میں فن پارے جمع کروانے کا معاہدہ دستخط کر کے پیسے لیے اور اس کے بعد میوزیم کو خالی کینوس بھجوا دیے، فنکار کا کہنا ہے کہ یہ بھی آرٹ ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈنمارک میں ایک فنکار نے جنہیں ایک میوزیم نے فن پارے تیار کرنے کے لیے ایک خطیر رقم ادا کی تھی، نے ‘پیسے لو اور بھاگو’ کے عنوان سے 2 خالی کینوس جمع کروا دیے۔

    ڈنمارک کے شہر آلبو میں کنسٹن میوزیم آف ماڈرن آرٹ کی جانب سے جینس ہیننگ کو ڈینش کرونر اور یورو بینک نوٹ کی صورت میں لگ بھگ 84 ہزار ڈالر دیے گئے تھے۔

    مزدوری کے حالات اور پیسوں سے متعلق 24 ستمبر سے شروع ہونے نمائش کے لیے انہیں میوزیم نے اپنے 2 نمونوں کو دوبارہ بنانے کا کہا تھا جن میں ڈنمارک اور آسٹریا میں اوسط سالانہ اجرت کی نمائندگی کرنے والے بینک نوٹس کیونس سے منسلک تھے۔

    میوزیم نے انہیں رقم دینے کے ساتھ ساتھ اس کام کے لیے 25 ہزار کرونر (3900 ڈالر) بھی ادا کیے تھے، تاہم جب میوزیم کے عہدیداروں کو مکمل فن پارے موصول ہوئے تو وہ خالی تھے۔

    جیمس ہیننگ نے ایک ریڈیو شو میں بتایا کہ آرٹ ورک یہ ہے کہ میں نے پیسے لیے ہیں، تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ وہ رقم کہاں ہے؟

    جینس ہیننگ نے کہا کہ فن پارے نے ان کے کام کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کی۔

    انہوں نے کہا کہ میں دیگر افراد کو ترغیب دیتا ہوں کہ جن کے کام کرنے کے حالات اتنے ہی دگرگوں ہیں جتنے میرے ہیں اور اگر انہیں پیسوں کے عوض کام کرنے کا کہا جائے تو وہ پیسے لیں اور بھاگ جائیں۔

    میوزیم کے مطابق انہوں نے رقم سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

    تاہم، ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ اگر جنوری میں نمائش ختم ہونے سے پہلے پیسے واپس نہیں کیے گئے تو پولیس کو جینس ہیننگ کے خلاف رپورٹ کی جائے گی یا نہیں۔

    تاہم وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے آرٹ ورک کیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ چوری نہیں ہے، یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور معاہدے کی خلاف ورزی کام کا حصہ ہے۔

  • سترہویں صدی کی پینٹنگ بیچنے والے مصور کی جعلسازی کیسے ناکام ہوئی؟

    سترہویں صدی کی پینٹنگ بیچنے والے مصور کی جعلسازی کیسے ناکام ہوئی؟

    جھوٹ پکڑنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر کامن سینس سے کام لیا جائے اور بغور مشاہدے کی عادت ڈال لی جائے تو کسی کا بھی جھوٹ باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک مصور کے جھوٹ کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو اگر اپنے مقصد میں کامیاب رہتا تو کسی شخص کو بھاری مالی نقصان پہنچا سکتا تھا، آپ کو اس مصور کا جھوٹ پکڑنے کی کوشش کرنی ہے۔

    اس مصور کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیا کہ اس کے پاس سترہویں صدی کی ایک پینٹنگ ہے جو وہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے فروخت کرنا چاہتا ہے۔

    اخبار میں اشتہار شائع ہونے کے بعد کئی افراد نے اس سے رابطہ کیا جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔

    پولیس افسر نے اس پینٹنگ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور جب وہ اس فن پارے کو دیکھنے کے لیے پہنچا تو اس نے چند لمحوں میں جان لیا کہ مصور جھوٹ بول رہا ہے۔ پینٹنگ سترہویں صدی کی نہیں تھی بلکہ خود مصور کی بنائی ہوئی تھی جو وہ جھوٹ بول کر فروخت کرنا چاہ رہا تھا۔

    کیا آپ جانتے ہیں پولیس افسر نے مصور کا جھوٹ کیسے پکڑا؟

    اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ پینٹنگ میں الیکٹرک پولز اور تاریں موجود ہیں، سترہویں صدی میں بجلی کی تاروں تو کیا بجلی کا ہی وجود نہیں تھا۔ پولیس افسر کے بغور دیکھنے کے بعد مصور کے جھوٹ کا پول کھل گیا اور وہ ایک بڑی رقم لوٹنے میں ناکام رہا۔

  • خوفناک میک اپ کرنے کی ماہر 13 سالہ ہدیٰ

    خوفناک میک اپ کرنے کی ماہر 13 سالہ ہدیٰ

    کراچی: پشاور کی 13 سالہ ہدیٰ سیٹھی الیوژن میک اپ کرنے میں مہارت رکھتی ہیں، وہ اپنے اس فن سے سب کو حیران کردیتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 13 سالہ ہدیٰ سیٹھی نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور میک اپ میں اپنی مہارت کے بارے میں بتایا۔

    ہدیٰ مختلف قسم کے تھری ڈی الیوژن میک اپ آرٹ میں مہارت رکھتی ہیں، کبھی وہ چہرے پر چار آنکھیں سجا لیتی ہیں، تو کبھی دو ہونٹ۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Huda Sethi (@hudasethii)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Huda Sethi (@hudasethii)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Huda Sethi (@hudasethii)

    ہدیٰ نے بتایا کہ انہیں میک اپ کا شروع سے ہی بہت شوق تھا، گزشتہ برس لاک ڈاؤن میں وہ بور ہورہی تھیں تو انہوں نے میک اپ کی یہ منفرد قسم آزمانا شروع کی اور اسے انسٹاگرام پر اپ لوڈ کیا۔

    وہ اس وقت اے لیولز کر رہی ہیں، ہدیٰ کا کہنا ہے کہ انہیں گھر والوں کی جانب سے بے حد حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں لیکن وہ مثبت خیالات پر یقین رکھتی ہیں۔

  • دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    دیواروں پر جیتی جاگتی تصاویر نے لوگوں کو حیران کردیا

    فرانس میں ایک مصور کی حقیقت سے قریب ترین پینٹنگز نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مصور نے تھری ڈی تصاویر بنا کر متروکہ اور ویران مقامات میں پھر سے نئی زندگی جگا دی۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں نرمی کیے جانے کے بعد لوگوں نے پھر سے گھروں سے نکلنا شروع کردیا ہے، ایسے میں ایک مصور نے متروک شدہ اور ویران مقامات پر اپنے ہنر کا جادو جگانا شروع کردیا۔

    فرانس سے تعلق رکھنے والے اس مصور کی مہارت، صفائی اور خوبصورتی سے بنائی اس کی پینٹنگز میں جھلکتی ہے جس میں سبجیکٹ کی ایک ایک شے نہایت تفصیل سے بیان کی جاتی ہے۔

    مصور نے شہر کی دیواروں پر جا بجا اپنے فن کا جادو جگایا ہے جو دیواروں سے زندہ ہو کر باہر آتا محسوس ہوتا ہے اور راہ چلتے افراد اسے داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

    آپ بھی اس باکمال مصور کی شاندار تصاویر دیکھیں۔

  • پھولوں اور ستاروں کے رنگوں سے آراستہ زلفیں

    پھولوں اور ستاروں کے رنگوں سے آراستہ زلفیں

    آج کل زلفوں کو مختلف رنگوں سے رنگنا خواتین میں نہایت مقبول ہے، اور ہر عمر کی خواتین مختلف انداز سے اپنے بالوں کو رنگتی نظر آتی ہیں۔

    یہ فیشن پاکستان میں تو دو چار رنگوں تک ہی محدود نظر آتا ہے تاہم پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں خواتین اپنے بالوں پر ہر طرح کے رنگ آزماتی ہیں۔ بعض اوقات بالوں میں مختلف رنگ بھی کیے جاتے ہیں جس سے زلفیں قوس قزح معلوم ہونے لگتی ہیں۔

    اس انداز کو بھی ایک امریکی فنکارہ نے مختلف جہت دی ہے۔ وہ زلفوں کو اس انداز میں رنگتی ہیں کہ ان پر قدرت کے کسی خوبصورت منظر کا گماں ہونے لگتا ہے۔

    بادلوں کے مختلف رنگ، سمندر کی نیلاہٹ، کہکہشاں کی جھلملاہٹ غرض ہر طرح کے رنگ وہ گیسوؤں میں قید کردیتی ہیں۔

    آئیں ان کے اس انوکھے فن کے نمونے دیکھتے ہیں۔

    آپ کو ان میں سے کون سی زلفیں سب سے زیادہ پسند آئیں؟

  • ایلس کے ننھے سے ونڈر لینڈ کی سیر کرنا چاہیں گے؟

    ایلس کے ننھے سے ونڈر لینڈ کی سیر کرنا چاہیں گے؟

    بعض اوقات فلموں اور ڈراموں میں ایک الگ ہی دنیا دکھائی جاتی ہے، جسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ بس کسی طرح اس دنیا میں پہنچا جائے اور وہیں رہ لیا جائے۔

    ایسی ایک مثال ’لارڈ آف دی رنگز‘ سیریز کی ہے جس کا سیٹ نیوزی لینڈ میں موجود ہے جہاں دنیا بھر کے سیاح اور مقامی افراد جاتے ہیں اور دنیا سے الگ اس جہان میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔

    لیکن نکولس بش نامی ایک فوٹو گرافر نے ایسی دنیا اپنے گھر میں ہی تخلیق کرڈالی۔

    نکولس ایک فنکار ہے جو مختلف مناظر کو ایک چھوٹی سی میز پر تشکیل دیتا ہے۔ یہ فنکار اپنی پسندیدہ فلموں اور اپنے دماغ میں موجود سحر انگیز مناظر کو منی ایچر کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیتا ہے۔

    اس کے بنائے ہوئے فن پاروں میں لارڈ آف دی رنگز، ایلس ان ونڈر لینڈ، گیم آف تھرونز اور جراسک پارک سمیت بہت سی فلموں کے مناظر شامل ہیں۔ کچھ مناظر اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔

    کچھ ایسے بھی ہیں جن میں کوئی شخص کھڑا نظر آرہا ہے، اس شخص کو الگ سے کسی اور مقام پر شوٹ کیا گیا اور پھر اس کی تصویر نکولس کے تخلیق کردہ منظر کے ساتھ جوڑی گئی جس کے بعد ایک مسحور کن منظر نئے سرے سے سامنے آیا۔

    آئیں آپ بھی نکولس کا تخلیق کردہ فن دیکھیں۔