Tag: ARTIST

  • فنکار نے رنگین پینسلوں سے گٹار بنا لیا

    فنکار نے رنگین پینسلوں سے گٹار بنا لیا

    رنگ بھرنے والی رنگ برنگی پینسلیں تصاویر میں رنگ بھرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام آسکتی ہیں، جس کی تازہ مثال ایک فنکار نے گٹار بنا کر پیش کی ہے۔

    برلز نامی یہ امریکی فنکار ایک گٹارسٹ ہے، اس کا کہنا تھا کہ اس نے بہت سی اشیا دیکھی تھیں جو رنگین پینسلوں سے بنائی گئی تھیں، جیسے زیورات، سجاوٹ کی اشیا یا برتن۔

    وہ کوئی ایسی چیز بنانا چاہتا تھا جو اس کے روزمرہ معمول میں استعمال ہو، اور ایک گٹارسٹ کے لیے گٹار سے بہتر بھلا کیا چیز ہوسکتی ہے۔

    مختلف مراحل سے گزر کر برلز نے ایک گٹار بنایا جو بظاہر تو بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے پیچھے اس کی کئی دن کی محنت تھی۔

    گٹار بنانے کے دوران برلز کو کئی مشکلات بھی پیش آئیں، بعض دفعہ اسے ایسا بھی لگا کہ وہ یہ گٹار نہیں بنا سکے گا، لیکن وہ اپنے کام میں جتا رہا اور بالآخر اس نے اپنا کام کرکے دم لیا۔

    برلز نے گٹار بنانے کے لیے 12 سو پینسلز کا استعمال کیا، اس سارے عمل کی اس نے ویڈیو بھی بنائی کہ کس طرح مختلف رنگین پینسلیں گٹار میں بدل گئیں۔

  • استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    ہم میں سے تقریباً ہر دوسرا شخص سیاحت کا شوقین ہوتا ہے۔ سیاحت کے لیے بذات خود سفر کرنا تو عام ہے تاہم بعض اوقات آپ تصاویر اور فن پاروں کے ذریعے بھی کسی مقام کی سیر کرسکتے ہیں۔

    ترکی کا فنکار حسن کال بھی ایسا ہی فنکار ہے جو اپنے فن پاروں کی مدد سے آپ کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول کی سیر کروا سکتا ہے۔

    اور مزے کی یہ بات ہے کہ یہ سیر نہایت ہی ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کی جائے گی۔

    حسن دراصل منی ایچر تخلیق کار ہیں یعنی ننھی منی اشیا پر اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔ انہیں سولہویں صدی کے معروف اطالوی مصور مائیکل انجیلو کی نسبت سے ’مائیکرو اینجلو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    حسن پھلوں کے ننھے منے بیجوں سے لے کر بوتل کے ڈھکنوں اور بلیڈ تک کو خوبصورت رنگوں سے سجا کر اسے فن پارے میں تبدیل کردیتے ہیں۔

    آئیں ان کے تخلیق کردہ خوبصورت فن پارے دیکھتے ہیں۔

  • مختلف اشیا کے سائے فن پاروں میں تبدیل

    مختلف اشیا کے سائے فن پاروں میں تبدیل

    فن یا آرٹ پرواز تخیل کو پیش کرنے کا نام ہے، اور اس کی کوئی سرحد، کوئی حد نہیں۔

    تصورات، خیالات، اور تخیل ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، لیکن فنکار کے اندر یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں تصویر ہوتے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت دکھانے جارہے ہیں جس کی تخلیقی اڑان نے سایوں کو فن پاروں میں تبدیل کردیا۔

    ونسنٹ بال نامی یہ فنکار روزمرہ استعمال کی اشیا کے سایوں کو فن پاروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ اشیا بذات خود کچھ بھی نہیں دکھائی دیتیں لیکن ان کا سایہ نہایت خوبصورت تصویر بن جاتا ہے۔

    ونسنٹ مختلف انداز سے بنتے ابھرتے سایوں کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں جس کے بعد یہ شاندار سی ڈرائنگ معلوم ہوتے ہیں۔

    آئیں ونسنٹ بال کے فن پاروں سے لطف اندوز ہوں۔

  • ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیاں خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    ڈزنی شہزادیوں کی کارٹونز سب ہی شوق سے دیکھتے ہیں خصوصاً بچے ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان ہی کے جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک امریکی فنکارہ نے اپنے پسندیدہ ڈزنی کرداروں کو خوبصورت آئل پینٹنگز میں تبدیل کردیا جو نہایت دیدہ زیب معلوم ہو رہے ہیں۔

    ہیتر ٹائرر نامی یہ فنکارہ کہتی ہے کہ ڈزنی کے کرداروں کو بہت سے دیگر فنکاروں نے بھی اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    وہ کہتی ہیں کہ وہ ان فنکاروں یا خود ڈزنی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتیں بلکہ پہلے سے بنے ہوئے ان خوبصورت کرداروں کو مزید نئے مطالب کے ساتھ پیش کرنا چاہتی ہیں۔

    اب یہ فنکارہ اپنی اس کوشش میں کتنی کامیاب رہیں، یہ ان کی تخلیق کردہ تصاویر دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔

    مولان

    بریو کی میریڈا

    فروزن کی ایلسا اور انا

    بیوٹی اینڈ بیسٹ کی بیلے

    ریپونزل

    سنڈریلا

    کیسی لگیں آپ کو یہ تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • سالگرہ کی خوشی، ماورا حسین کا ایک لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں دینے کا اعلان

    سالگرہ کی خوشی، ماورا حسین کا ایک لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں دینے کا اعلان

    کراچی: پاکستانی فلم و ڈرامہ انڈسٹری کی اداکارہ ماورا حسین نے اپنی سالگرہ کے موقع پر ڈیم فنڈ میں ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اور وزیراعظم عمران خان کے قائم کردہ ڈیم فنڈ میں ملک بھر کے عوام اور اداروں کی جانب سے عطیات جمع کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کیے جانے والے ڈیم فنڈ میں اب تک پاک فوج کی جانب سے سب سے زیادہ 58 کروڑ سے زائد کی رقم جمع کرائی گئی جبکہ دیگر نجی و سرکاری اداروں کے ملازمین اور سمندر پار پاکستانی بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

    قومی بینک دولت (اسٹیٹ بینک) کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ڈیم فنڈ میں اب تک 4 ارب چودہ کروڑ چالیس لاکھ 8 ہزار اور ایک روپیہ عطیہ کیے۔

    ماورا حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی سالگرہ کے موقع پر ایک لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں دے رہی ہیں ساتھ ہی انہوں نے چیک کی کاپی بھی شیئر کی۔

    اداکارہ نے لکھا کہ ‘یہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ سالگرہ کے روز ڈیم فنڈ میں ایک لاکھ روپے جمع کراؤں‘ انہوں نے مزید لکھا کہ یہ میرے وزیراعظم عمران خان کے لیے ہے۔

    ماورا نے اپیل کی کہ پاکستان کے مستقبل کی خاطر تمام لوگ ڈیم فنڈ میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ ڈیموں کی تعمیرکے حوالے سے بھی اداکارہ نے چیف جسٹس کے اقدام کو بھی سراہا۔

    مزید پڑھیں: گلوکارعاطف اسلم نے چیف جسٹس کو ڈیمز فنڈ کے لیے 25 لاکھ روپے کا چیک پیش کردیا

    چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت پر کھولے جانے والے ڈیم فنڈ میں ہر پاکستانی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے رہا ہے جبکہ بہت سے صارفین موبائل میسج کے ذریعے 10 روپے کی رقم بھی عطیہ کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ 6 جولائی کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے احکامات اور فنڈز قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

    فنانس ڈویژن نے ایک قدم مزید اور بڑھاتے ہوئے دیامربھاشا ڈیم فنڈز قائم کرنے کیلئے مختلف اداروں کو خط ارسال کیا تھا، جس میں آڈیٹر جنرل، کنٹرولرجنرل اکاؤنٹس، اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان اور دیگر اداروں کے حکام سے لوگوں کی رقوم اسٹیٹ بینک اورنیشنل بینک کی برانچزمیں جمع کرانے کا انتظامات کے حوالے سے اقدامات کرنے کا کہا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم کے لیے فنڈ کا نیا نام ’سپریم کورٹ / پی ایم ‘ ہوگا

    اسے بھی پڑھیں: ڈیم فنڈز : پاک فوج عطیات دینے والوں میں سرِ فہرست

    سیکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان نے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے 14 جولائی کو اہم فیصلہ کرتے ہوئے سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام رجسٹرڈ کمپنیوں کو کمرشل سماجی ذمہ داری کے تحت ڈیموں کی تعمیر میں عطیات دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    دیامربھاشا اورمہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے قائم  فنڈ میں اب اسٹیٹ بینک و دیگر و نجی بینکوں سمیت دیگر سرکاری و پرائیوٹ اداروں کے ملازمین اور عوام نے کروڑوں روپے عطیہ کیے جس کا سلسلہ جاری ہے۔

  • عرفان خان نے کینسر کے خلاف آدھی جنگ جیت لی، ڈاکٹرز

    عرفان خان نے کینسر کے خلاف آدھی جنگ جیت لی، ڈاکٹرز

    ممبئی: کینسر کے موذی مرض سے لڑنے والے بالی ووڈ اداکار کے ڈاکٹرز نے نوید سنائی ہے کہ عرفان خان نے کینسر کے خلاف آدھی جنگ جیت لی وہ جلد مکمل صحت یاب ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بالی ووڈ اداکار کینسر کی تشخیص کے بعد سے لندن کے اسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں اُن کی گزشتہ دنوں پانچویں کیمو تھراپی کی گئی۔

    عرفان خان کے ڈاکٹرز نے نوید سنائی ہے کہ نیورو انڈرو کرائن ٹیومر میں مبتلا اداکار نے کینسر کے خلاف آدھی جنگ جیت لی اور اس میں مکمل فتح کا صرف ایک مرحلہ باقی ہے جسے وہ آئندہ چند روز میں عبور کرلیں گے۔

    مزید پڑھیں: کینسر سے لڑتے عرفان خان اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے

    ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ’اداکار  جان لیوا مرض کا زندہ دلی اور ہمت سے مقابلہ کررہے ہیں، اُن کا چھٹا کیمو 2 سے تین روز میں کردیا جائے گا کیونکہ گزشتہ تھراپی کے بعد عرفان خان کو اندرونی طور پر بہت زیادہ کمزوری محسوس ہونے لگی‘۔

    طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ ‘چھٹے کیمو کے بعد اداکار  کا ایک ٹیسٹ کیا جائے گا جس کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئے گی کہ کینسر کا مرض کس حد تک ختم ہوا‘۔

    قبل ازیں چار اگست کو عرفان خان کی چوتھی کیمو تھراپی ہوئی تھی جس کے بعد وہ اپنی زندگی سے مایوس نظر آئے ، اُن کا کہنا تھا کہ ’میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ لوگوں کو بتاؤں میں چند ماہ میں دنیا چھوڑ سکتا ہوں‘۔

    عرفان خان کا کہنا تھا کہ میری کیمو تھراپی کے چھ سیشن ہیں جس میں سے چار سیشن مکمل ہوگئے جبکہ تھراپی مکمل ہوجائے گی تو ڈاکٹرز ایک ٹیسٹ کر کے نتیجہ دیکھیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: کینسر سے لڑنے والے اداکارعرفان خان کس حال میں ہیں؟ تصویر سامنے آگئی

    واضح رہے کہ زندگی کی جنگ لڑنے والے بالی ووڈ اداکار عرفان خان نے مداحوں کے نام کھلا خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے  خوف کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی نہیں اتنی جلدی سفر ختم نہیں ہوسکتا۔

    یاد رہے کہ بالی ووڈ کے ورسٹائل اداکارعرفان خان نے 16 مارچ کو مداحوں کو آگاہ کیا تھا کہ اُن کو نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی مرض ( دماغ کے کینسر) کی تشخیص ہوئی۔

    شعبہ طب سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ کیمرتھراپی کینسر سے نجات کا طریقہ علاج ہے، چھ مراحل سے گزرنے کے بعد مریض کے 70 سے 80 فیصد طبیعت ٹھیک ہونے کی امید ہوتی ہے۔

  • صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    آج پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کی سالگرہ ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    19

    17

    16

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے‘۔

    post1

    post2

    14

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    10

    11

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    1

    2

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    18

    8

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    3

    5

    6

    4

    7

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    معروف جادوئی فلم سیریز ہیری پورٹر بچوں اور بڑوں سب ہی کو یکساں طور پر پسند ہے اور اس کی مقبولیت دنیا کے ہر شعبے کے افراد میں ہے۔

    فرانس کی ایک مصورہ شارلٹ لبرٹن بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ شارلٹ بچپن ہی سے اپنی پسندیدہ فلم کے کرداروں کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں ڈھالنے کی عادی ہے۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں جدت اور نکھار آتا گیا۔ اب شارلٹ اپنے پسندیدہ کرداروں کو ڈیجیٹل 2 ڈی اور 3 ڈی پورٹریٹ میں ڈھال دیتی ہے۔

    اس نے اسی تکنیک سے ہیری پوٹر فلم کے کرداروں کو بھی تبدیل کردیا ہے جو نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    ہیری پوٹر کے علاوہ اس نے اور بھی کئی کرداروں کا ڈیجیٹل پورٹریٹ بنایا ہے جیسے ونڈر ویمن اور اوینجرز سیریز کی کردار گمورا۔

    اس نے اپنی پسندیدہ میکسیکن مصورہ فریڈا کاہلو کا پورٹریٹ بھی بنایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک فنکار کسمپرسی کے باعث اپنے اعزازات بیچنے پر مجبور

    صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک فنکار کسمپرسی کے باعث اپنے اعزازات بیچنے پر مجبور

    کوئٹہ: پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے سینکڑوں گانے ریکارڈ کرانے والا صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک فنکار محمد بشیر بلوچ آج کسمپرسی کے باعث اپنے اعزازات بیچنے پر مجبور ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چالیس سال تک اپنی آواز کا جادو جگانے والا لوک فنکار محمد بشیر بلوچ جس نے لوک گلوکاری کے میدان میں صوبے اور ملک کی خدمت کی لیکن اب وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے، جس کے باعث اس کے گھر میں شدید تنگ دستی ہے اسی لیے وہ اپنے اعزازت فروخت کرنے پر تیار ہے۔

    محمد بشیر نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری مالی مدد کی جائے، میرے دو بیٹے ہیں جنہیں میں پڑھانے کی سکت نہیں رکھتا، کوئی میرے یہ ایوارڈ لے کر میرے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کردے، اس عمر میں بھیک مانگ کر دیگر فنکاروں کو بدنام نہیں کرنا چاہتا۔

    ماضی کے مشہور مزاحیہ اداکار ماجد جہانگیر کسمپرسی کا شکار

    لوک فنکار نے اپنے کیریئر میں صدارتی ایوارڈ کے علاوہ ایک سو بتیس اعزازات حاصل کئے مگر حالات کا جبر دیکھیں کہ یہ تمام ایوارڈز آج اس کے کسی کام کے نہیں، وہ تنگدستی کے باعث اپنے اعزازات تک فروخت کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔

    لاہور،ممتازاداکارلاڈلہ کسمپرسی کےعالم میں انتقال کرگئے

    بشیر بلوچ نے براہوی، بلوچی، پشتو کے علاوہ اردو سمیت آٹھ زبانوں میں اپنے فن کا جادو جگایا علاوہ ازیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک اور بلوچستان کی ثقافت کو اجاگر کیا، ان کا شمار صوبے اور ملک کا نام روشن کرنے والے چند فنکاروں میں شمار ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔