Tag: ARTIST

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    ساون کے اس قدر حسین رنگ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    بارش، برکھا رت، ساون، برسات۔۔ یہ الفاظ خود اپنے اندر ایک سحر انگیزی اور رومانویت سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ موسم آتے ہی ماحول نہایت خوبصورت ہوجاتا ہے اور ہمیں عام سی چیزوں میں وہ خوبصورتی نظر آنے لگتی ہے جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتی۔

    تاہم ایک مصور کی نظر اور اس کا برش اس حسن کو دوبالا کردیتا ہے، جب وہ چند لمحوں پر محیط ان خوبصورت دھلے دھلائے مناظر کو اپنے کینوس میں ہمیشہ کے لیے قید کریتا ہے۔

    امریکی مصور جیف رولینڈ بھی ایسا ہی ایک مصور ہے جس کے آرٹ کی سب سے بڑی تحریک بارش کے حسین مناظر ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والا جیف رولینڈ آرٹ اور تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں آیا اور آہستہ آہستہ اس کا فن مقبول ہوتا چلا گیا۔

    جیف کہتا ہے، ’میں نے سینما کے پردے پر بارش کو نہایت مسحور کن اثر انداز میں دیکھا ہے۔ بارش اور بارش کے بعد خوبصورت دھلی دھلائی سڑکوں نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے اور اسی خوبصورتی کو میں نے اپنے کینوس پر اتارنے کی کوشش کی ہے‘۔

    جیف کی اب تک امریکا اور برطانیہ میں کئی نمائشیں منعقد ہو چکی ہیں جنہیں بے حد تعریف اور پذیرائی ملی۔

    آئیں آپ بھی ان کی خوبصورت تصاویر دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دلربا آئینہ رو تصویر ہے

    دلربا آئینہ رو تصویر ہے

    آپ نے مختلف ماہر فوٹوگرافرز کو دیکھا ہوگا جو مختلف زاویوں سے تصویریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ماہر تصویریں کھینچنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔

    ایک معروف طریقہ گلاس یا کسی شیشے کے پار سے تصویریں کھینچنے کا بھی ہے۔ لیکن آپ نے یہ طریقہ پہلی بار دیکھا ہوگا جس میں انگوٹھی پر عکسی تصویر کھینچی جارہی ہے۔

    اس طریقے کا بانی آسٹریلیا کا پیٹر ایڈمز شان ہے جو اس سے پہلے آنکھ کی پتلی پر عکسی تصاویر کھینچ چکا ہے۔ اس بار وہ صرف نئے شادی شدہ جوڑوں کی تصاویر کھینچ رہا ہے۔

    اس کا کہنا ہے وہ تصویر کھینچنے سے پہلے انگوٹھی پر فوکس کرتا ہے اور جوڑے کو ایسے کھڑا کرتا ہے کہ وہ انگوٹھی میں نظر آئیں۔

    مستقبل میں ایڈمز کا ارادہ ہے وہ پانی کے بلبلے پر عکسی تصاویر کھینچے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    فرانس میں نہ ختم ہونے والی انوکھی آرٹ پرفارمنس

    پیرس: یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آرٹ کے شائقین ایک انوکھی نمائش دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں چند ڈانسرز ایک ترپال سے چھلانگ کر گردش کرنے والی سیڑھی پر چڑھ اور اتر رہے تھے۔

    پیرس میں پینٹھون تھیٹر میں ایک انوکھی آرٹ کی نمائش پیش کی گئی۔

    اس میں ایک ترپال کے گرد گردش کرتی ہوئی سیڑھیاں نظر آرہی ہیں جن پر کچھ ڈانسرز کھڑے ہیں۔ یہ ڈانسرز ترپال پر گرتے ہیں اور اچھل کر واپس سیڑھیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

    سیڑھیوں کی گردش کے ساتھ ان ڈانسرز کا مقام بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ترپال سے سیڑھی تک کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    یہ آرٹ پرفارمنس اس قدیم یونانی بادشاہ سسیفس کی یاد دلاتی ہے جو ایک دھوکے کے آسرے میں ایک بڑے گول پتھر کو لڑھکا کر پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتا اور جب وہ وہاں سے واپس پلٹ کر لڑھکتا ہوا آتا تو اس سے خود کو زخمی کرتا۔

    سسیفس کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ ہمیشہ زندہ رہ سکے گا تاہم اس کے اس گمراہ کن خیال کی وجہ سے اسے سزاوار قرار دیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • الفریڈ ہچکاک کی فلموں کی ننھی منی تخلیق

    الفریڈ ہچکاک کی فلموں کی ننھی منی تخلیق

    آپ نے یوں تو آرٹ کے کئی نمونے دیکھے ہوں گے لیکن آج جو نمونہ ہم آپ کو دکھانے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کا منفرد آرٹ ہے۔

    یہ کارنامہ ایک چھوٹے سے آرٹسٹ کا ہے جو نہ صرف معروف فلم ساز الفریڈ ہچکاک کا دیوانہ ہے بلکہ یہ ان کی 70 اور 80 کی دہائی میں آنے والے فلموں کے کاغذی منی ایچرز بنا رہا ہے۔

    وہ نہ صرف فلموں کے سین بلکہ اپنے آس پاس کے مختلف مناظر، خواب اور اپنے تصورات کو بھی منی ایچرز کی شکل میں ڈھالتا ہے۔

    یاد رہے کہ الفریڈ ہچکاک ہالی ووڈ کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار تھے جو پراسراریت پر مبنی اور پر تجسس فلمیں بنانے کے لیے مشہور تھے۔


    سائیکو

    الفریڈ ہچکاک کی فلم سائیکو 60 کی دہائی میں آئی جو سسپنس سے بھرپور ہے۔

    اس میں ایک ذہنی مریض کی کہانی بیان کی گئی ہے، لیکن وہ کون ہوتا ہے، اس کا اندازہ سب کو آخر میں جا کر ہوتا ہے۔


    ورٹیگو

    ہچکاک کی ایک اور فلم ورٹیگو پراسراریت پر مبنی ہے اور یہ فلم ہر دور کی بہترین فلم مانی جاتی ہے۔

    اس میں ایک جاسوس کا واسطہ ایک ایسے دولت مند سے پڑتا ہے جو اپنی بیوی کو اس کے ذریعے مرواتا ہے، لیکن آخر میں کھلتا ہے کہ اس دولت مند شخص نے اپنی مردہ بیوی کی موت کو باقاعدہ منظر عام پر لانے کے لیے کسی دوسری عورت کی شکل میں یہ سارا ڈرامہ رچایا۔


    ریئر ونڈو

    یہ فلم بھی الفریڈ ہچکاک کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے جسے اس آرٹسٹ نے منی ایچر میں ڈھالا۔

    اس فلم میں ٹانگوں سے معذور ایک فوٹو گرافر اپنے پڑوسیوں کی کھڑکی سے نظر آنے والے مختلف مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتا ہے۔ تاہم اس وقت فلم میں ایک ڈرامائی موڑ آجاتا ہے جب وہ ایک قتل کی واردات کو عکس بند کر لیتا ہے۔


    دی برڈز

    ہچکاک کی فلم دی برڈز پرندوں کے تباہ کن حملے پر مبنی ہے۔

    اس میں 2 معصوم سے پرندے اچانک خونخوار ہوجاتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ حملہ آور پرندے پورے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    معروف مصور، قصہ گو اور افسانہ نگار تصدق سہیل انتقال کر گئے

    کراچی: پاکستان کے ممتاز مصور اور افسانہ نگار تصدق سہیل کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی کے علاقے کلفٹن کے ایک اسپتال میں کافی عرصے سے زیر علاج تھے۔

    تصدق سہیل سنہ 1930 میں بھارتی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے وقت وہ لاہور آبسے، بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہوگئے۔

    کراچی اس وقت فن و ادب کا مرکز تھا۔ جا بجا فن و ادب اور شاعری کی محفلیں سجتی تھیں۔ تصدق سہیل نے ان محفلوں میں جانا شروع کیا اور یہیں سے ان کا فن قصہ گوئی سامنے آیا۔

    سنہ 1961 میں وہ لندن چلے گئے اور یہاں سے انہوں نے مصوری کا آغاز کیا۔

    غالب کے مصرعے ’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‘ کے مصداق شروع میں انہوں نے اپنے دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے مصوری شروع کی، بعد ازاں مصوری ان کا جنون بن گئی۔

    انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ فن پارے تخلیق کیے اور ان کی بے شمار نمائشیں منعقد ہوئیں، تاہم ان کے فن پاروں کا باقاعدہ ریکارڈ نہ رکھا جاسکا۔

    ان کی مصوری متنوع موضوعات پر مشتمل تھی اور انہوں نے برہنہ اجسام سے لے کر فطرت کے مناظر تک تخلیق کیے۔

    تصدق سہیل مصوری میں مغربی مصوروں پکاسو اور وان گوگ سے متاثر تھے جبکہ پاکستانی مصوروں میں کولن ڈیوڈ، صادقین اور بھارتی مصورہ امرتا شیر گل سے متاثر تھے۔

    تصدق سیل نے تجرد کی زندگی گزاری۔ وہ اس سے قبل اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں سے ان کی حالت مزید خراب ہونے پر انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ کل شام 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پینٹنگز سے بنائی جانے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم

    پینٹنگز سے بنائی جانے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم

    کیا آپ جانتے ہیں کہ چند دہائی قبل تک شوق سے دیکھے جانے والے کارٹونز جنہیں 2 ڈی اینی میشن کہا جاتا ہے، کیسے بنائے جاتے تھے؟

    آج کل تو 3 ڈی اینی میٹڈ کارٹونز کا زمانہ ہے جو کمپیوٹر سے تخلیق کرنا بے حد آسان ہے۔ لیکن چند دہائی پہلے تک بنائے جانے والے کارٹونز کو پہلے کاغذ پر بنایا جاتا تھا، اس کے بعد کاغذوں پر بنائی گئی مختلف تصاویر کو اکٹھا کر کے انہیں فلم کی شکل دی جاتی تھی۔

    مثال کے طور پر مشہور زمانہ ٹام اینڈ جیری کارٹون میں جب ٹام جیری کا پیچھا کرتا ہے تو اس بھاگ دوڑ کے لیے تخلیق کاروں کو ٹام کی مختلف حرکات پر مبنی سینکڑوں تصاویر بنانی پڑتی تھیں تب کہیں جا کر ایک منظر مکمل ہوتا تھا۔

    اب اسی تکنیک کو آزماتے ہوئے ایک اور منفرد فلم بنائی گئی ہے جو پینسل سے تیار شدہ تصاویر پر مبنی نہیں، بلکہ انیسویں صدی کے مشہور مصور وان گوگ کی شاہکار پینٹنگز کو دوبارہ تخلیق کر کے بنائی جارہی ہے۔

    اور پینٹنگز میں موجود کرداروں کو حرکت کرتا دکھانے کے لیے، کیا آپ جانتے ہیں کتنے فن پارے تخلیق کیے گئے؟ 65 ہزار فن پارے، جی ہاں جنہیں دنیا بھر کے 100 مختلف مصوروں نے تخلیق کیا۔

    فلم کا نام لونگ ونسنٹ ہے جو دراصل انیسویں صدی کے مصور وان گوگ کا اصل نام تھا۔

    اس آئیڈیے کی خالق اور فلم کی پروڈیوسر ڈوروٹا کوبیلیا کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام اکیلی سرانجام نہیں دے سکتی تھیں ورنہ اس میں انہیں 80 سال لگ جاتے۔

    ابتدا میں 7 منٹ کی شارٹ فلم کے آئیڈیے پر مبنی یہ فلم فیچر فلم میں تبدیل ہوگئی ہے جس میں مصور وان گوگ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جائے گا۔

    پروجیکٹ پر کام کرنے والے مصوروں کے مطابق فلم کا ایک ایک شاٹ اور ایک ایک فریم، آئل پینٹ سے تخلیق کی گئی پینٹنگ پر مشتمل ہے اور ان کا انداز ہو بہو وان گوگ کی پینٹنگز جیسا ہے۔

    مرینہ جوپک بھی پروجیکٹ میں شامل مصوروں میں سے ایک ہیں۔

    وہ ایک گھر کا منظر دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے یہاں ایک عورت کو حرکت کرتے ہوئے دکھانا تھا۔ ’اس عورت کی حرکت کے لیے مجھے 12 مختلف مراحل میں لاتعداد پینٹنگز اس طرح بنانی پڑیں کہ آہستہ آہستہ عورت کا ایک کندھا غائب ہوتا اور دوسرا دکھائی دیتا نظر آئے‘۔

    فلم کی باقاعدہ تخلیق سے قبل اصل اداکاروں کو بھی لیا گیا اور ان سے اداکاری کروائی گئی، بعد ازاں ان کے ریکارڈڈ مناظر کو پینٹنگز کی شکل میں ڈھالا گیا۔

    فلم میں مرکزی کردار وان گوگ کا کردار ادا کرنے والے اداکار رابرٹ گل زک کا کہنا ہے کہ جب وہ ان مصوروں سے ملے تو انہوں نے کہا، ’اوہ! ہم تمہیں گزشتہ 6 ماہ سے پینٹ کر رہے ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس منفرد ترین فلم کا حصہ بننا ان کی زندگی کا شاندار اور یادگار ترین تجربہ ہے۔

    پینٹنگز پر مشتمل دنیا کی پہلی فیچر فلم اگلے ماہ ریلیز کردی جائے گی۔

    فلم کا ٹریلر دیکھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ آپ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے

    زمین ہماری ماں ہے جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح اپنی گود میں سمیٹ رکھا ہے۔ ہماری فطرت بھی اسی ماں کا دیا ہوا خوبصورت تحفہ ہے جس سے جتنا زیادہ جڑا جائے یہ ہماری ذہنی و طبی صحت پر اتنے ہی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

    فرناز راحیل بھی فطرت سے جڑی ہوئی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے کینوس پر صرف فطرت کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہیں۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم یافتہ فرناز کا ماننا ہے کہ فطرت جہاں ایک طرف بہت خوبصورت ہے، وہیں دوسری طرف بہت خوفناک بھی ہوجاتی ہے، جیسے کسی بڑے جانور کا کسی ننھے جانور کو اپنے جبڑوں میں جکڑ لینا، یا سمندر کی پرشور لہروں کا کنارے سے باہر نکل آنا، یا کسی آتش فشاں کا پھٹنا اور اس سے ہونے والی تباہی۔

    یہ سب فطرت کے ہی مظاہر ہیں اور ہم انسانوں کی طرح جہاں اس میں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں کئی خامیاں بھی موجود ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں فطرت کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ فطرت کی خوفناکی دکھانے کے لیے وہ گہرے شوخ رنگ، جبکہ پرسکون فطرت دکھانے کے لیے ہلکے رنگوں کا استعمال کرتی ہیں۔

    فرناز اپنی تصاویر میں جس فطرت کو دکھاتی ہیں وہ انسانوں کی مداخلت سے آزاد دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت یہ انسان ہی ہے جو فطرت کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اس کی خوبصورتی چھین کر اس کی بدصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔

    کسی قدر تجریدی نوعیت کی یہ تصاویر اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کی دعوت تو دیتی ہیں، تاہم پہلی نظر میں یہ بہت خوبصورت تاثر چھوڑتی ہیں اور فطرت سے دور رہنے والوں کو بھی فطرت کے قریب جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

    فار دی لو آف نیچر کے نام سے فرناز کی ان تصاویر کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    مختلف ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے خوبصورت نقش تخلیق کرنا جنوبی چین کا نہایت خوبصورت فن ہے جسے چینی ثقافت میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

    اس خوبصورت دستکاری کا آغاز 17 ویں صدی کے وسط سے ہوا تھا اور یہ چین کے جنوبی صوبوں ژائی من، کانگ ژو اور فیوجان میں نہایت مقبول ہے۔

    چین میں 300 سال قبل کے گوتم بدھ کے ایسے مجسمے موجود ہیں جنہیں دیدہ زیب بنانے کے لیے ان پر خوبصورت رنگین نقش نگاری کی گئی تھی۔

    مزید آگے جا کر اس فن میں جدت پیدا ہوئی۔ اب بدھا کے مجسموں پر کپڑے کے ٹکڑوں یا دھاگوں کو خوبصورت انداز میں جوڑ کر نہایت دلکش فن پارے تیار کیے جانے لگے۔

    ان میں بعض اوقات سونے کی تاروں یا سونے سے رنگے دھاگوں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    جدید چین میں اب یہ فن صرف بدھا کے مجسموں تک محدود نہیں رہا۔ اب مختلف اقسام کے برتن، گلدان اور آرائشی اشیا بھی اس دستکاری میں ڈھال کر پیش کی جاتی ہیں جو بیش قیمت ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔

    خوبصورت ہونے کے ساتھ یہ نقش نگاری نہایت محنت اور وقت طلب بھی ہے اور ایک فن پارے کی تکمیل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔