Tag: ARTIST

  • رنگین جگمگاتے مچھلی گھروں میں سنہری مچھلیوں کی نمائش

    رنگین جگمگاتے مچھلی گھروں میں سنہری مچھلیوں کی نمائش

    ٹوکیو: آپ نے آرٹ کی بے شمار نمائشیں دیکھی ہوں گی جن میں مختلف تصاویر، مجسموں یا ایسی اشیا کی نمائش کی جاتی ہے جنہیں رنگوں کی مدد سے کسی فن پارے میں تبدیل کردیا گیا ہو۔

    تاہم ایک جاپانی فنکار نے نہایت ہی منفرد خیال کے ساتھ ایسی نمائش منعقد کر ڈالی جس میں رنگین جگمگاتے مچھلی گھروں میں سنہری مچھلیوں کو پیش کیا گیا۔

    آرٹ ایکوریم نامی اس نمائش میں فنکار نے 5 ہزار گولڈ فش اور سی ہارس فش سمیت 3 ہزار دیگر آبی جانداروں کو نمائش کے لیے رکھا۔

    جن ایکوریمز میں انہیں رکھا گیا انہیں رنگ برنگی ایل ای ڈی لائٹس کے ذریعے نہایت خوبصورت بنا دیا گیا۔

    ان جگمگاتی روشنیوں کی بدولت پانی اور بلبلے بھی اسی رنگ میں رنگے دکھائی دینے لگے اور یہ نمائش آرٹ کی ایک منفرد ترین نمائش کی حیثیت اختیار کر گئی۔

    جاپانی فنکار کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فنکارانہ صلاحیت کا اظہار کسی جیتی جاگتی شے کے ذریعے کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے اسے بے جان اشیا کا استعمال سخت ناپسند ہے۔

    وہ اس سے قبل بھی اس قسم کی نمائشوں کا انعقاد کر چکا ہے تاہم یہ نمائش سب سے بڑی تھی جن میں ہزاروں فن پارے رکھے گئے جو رنگین مچھلی گھر تھے۔

    یہ نمائش ٹوکیو میں 2 ماہ تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص گھر اور اس کی چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی زندگی اور معمول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    جب کسی شے کی عادت ہوجائے تو عموماً ہم اسے نئے زاویوں سے دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ بدلتے اس کے حسن کو نہیں دیکھ پاتے۔

    اندرونی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی وہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے مناظر، صبح و شام کا ڈھلنا، مختلف لوگ، جانور وغیرہ سب کچھ ان کے لیے یکساں حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور وہ اس میں نئی جہت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن یہ نیا پن اس شخص کو دکھائی دے جاتا ہے جو پہلی بار ان علاقوں میں جائے، یا ایک عرصے پہلے ان گلیوں کو چھوڑ آیا ہو اور پھر لوٹ کر وہاں جائے۔

    در وسیم بھی ایسی ہی مصورہ ہیں جو امریکا سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف آئیں تو انہیں پرانی یادوں کے ساتھ بہت سی نئی جہتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔

    لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جا بسیں جہاں انہوں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کی اور مختلف اداروں میں کام بھی کیا۔

    اب اپنی وطن واپسی کے بعد اس کی تصویر کشی کو انہوں نے وزیٹنگ ہوم کا نام دیا ہے، اور اس میں پاکستان کو انہوں نے جس طرح پیش کیا، یقیناً وہ رخ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا جو ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

    آئیں آج ان کی نگاہ سے مختلف گلی کوچوں کو دیکھیں۔

    مری کا ایک منظر

    لاہور کی تاریخی ٹولنگٹن مارکیٹ

    اسلام آباد میں واقع گاؤں سید پور کی محرابی گزر گاہیں

    لاہور کا بھاٹی گیٹ

    ڈھلتی شام میں رکشے پر سواری

    سید پور کا ایک منظر

    اندرون لاہور میں ایک سرد سہ پہر

    ریلوے کا پھاٹک

    ٹھیلے پر فروخت ہوتے کیلے

    سید پور کا ایک اور منظر

    مری میں قائم ایک کھوکھا

    خزاں کی ایک شام

    پاکستان کے گلی کوچوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی آرٹ کی یہ نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں 13 جولائی تک جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    لیکن اس انوکھے فن کو تخلیق کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

    اب نیدر لینڈز کی اس باصلاحیت فنکارہ کو ہی دیکھ لیں جو صرف 2 سینٹی میٹر کے ننھے منے فن پارے تخلیق کر رہی ہے۔

    آلما نامی یہ فنکارہ گھریلو استعمال کی روز مرہ کی اشیا تخلیق کرتی ہے، اور ایسا تخلیق کرتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں۔

    Hand soap

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #cupcakes for breakfast #miniature #dollhouse #handmade #oneinchscale

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    I am working on @domestikatethis cheese board but i got hungry and eat the epoisses

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    Itty bitty jam #miniature #dollhouseminiatures #dollhouse #oneinchscale #handmade #fimo

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #miniature #cupcakes #dollhouse #handmade #fimo #oneinchscale #polymerclay

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #lavender is ❤️ #miniature #shabbychicbathroom #oneinchscale #handmade #dollhouseaccessories

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    کیسا لگا آپ کو یہ انوکھا فن؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کا سب سے بڑا میورل

    دنیا کا سب سے بڑا میورل

    برازیل: جنوبی امریکی ملک برازیل میں ایک فنکار نے سڑک پر دنیا کا سب سے بڑا میورل (قد آدم تصویر) تخلیق کر ڈالا۔

    ایڈارڈو کوبرا نامی یہ فنکار تاحال اپنے شاہکار پر کام کرہا ہے، تاہم تکمیل سے قبل ہی اس کا بنایا ہوا میورل دنیا کے سب سے بڑے میورل کا اعزاز اپنے نام کر چکا ہے۔

    کوبرا نے اس سے قبل بھی دنیا کی سب سے بڑی اسپرے کے ذریعے تخلیق کی گئی پینٹنگ بنائی تھی جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔

    اسپرے پینٹ سے بنایا گیا یہ فن پارہ ریو ڈی جنیرو میں 61 ہزار 354 اسکوائر فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔

    اپنے موجودہ میورل میں کوبرا نے مزدوروں اور دریا کو دکھایا ہے جس میں مزدور کافی کے کوکوا بیج کشتیوں پر منتقل کر رہے ہیں۔

    اس میورل کا مقصد ان مزدوروں اور محنت کشوں کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے۔

    دنیا کے سب سے بڑے اس میورل کو بنانے میں 4 ہزار اسپرے کی بوتلیں، اور 300 گیلن کا پینٹ استعمال ہوا ہے۔

    فن اور فنکاروں سے متعلق مزید دلچسپ مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

    لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

    کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

    یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

    لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

    اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

    ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

    یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

    تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

    صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

    عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

    سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

    فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

    مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

    عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

    وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

    خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

    ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

    عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

    لاشعور کی رنگین دنیا

    خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

    وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

    دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

    اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

    لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

    گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

    لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

    ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

    منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

    ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

    اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

    ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

    کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

    ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

    شہر در شہر

    صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

    لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

    سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

    لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

    اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

    اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

    چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

    جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

    نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

    نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔

  • تصویر میں چھپا جہاز تلاش کریں

    تصویر میں چھپا جہاز تلاش کریں

    کراچی: سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ ایسی تصاویر کا سلسلہ جاری ہے جن میں کوئی نہ کوئی خاصیت چھپی ہوتی ہے اور صارفین کو اس تصویر کی خصوصیت جاننے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔

    گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک تصویر نے صارفین کو چکرا کے رکھ دیا، بظاہر عام سی نظر آنے والی اس تصویر میں ایک جہاز چھپایا گیا ہے جسے تلاش کرنے میں بہت کم لوگ کامیاب ہوئے۔

    اس تصویر میں گلابی اور سرخ رنگ کی اسٹار فش بنائی گئی ہیں جبکہ لوگوں کو چکرانے کے لیے اس میں گھاس بھی بنائی گئی ہے تاہم اس تصویر میں جہاز بناکر اُسے بہت خوبی سے چھپایا گیا ہے۔

    اس تصویر میں آرٹسٹ نے چھپے جہاز کو تلاش کرنے کا چیلنج دیا ہے، اگر آپ بھی تصویر میں چھپی چیز تلاش کرنے لگیں گے تو گھنٹوں اسکرین پر موجود تصویر کو گھورتے رہیں گے مگر جہاز ڈھونڈنے میں ناکام نظر آئیں گے، اب تک اس تصویر میں چھپے جہاز کو ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 10 فیصد افراد ہی کامیاب نظر آئے۔

    یہ تصویر پزل ٹریول بیگ کی جانب سے تیار کی گئی جس سے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’یہ تصویر اُن لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جنہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے اور وہ اپنے آپ کو بہت ذہین سمجھتے ہیں‘‘۔

    تصویر کو تلاش کرنے کے لیے آپ کے پاس 20 سیکنڈ کا وقت ہے۔

    11

     دیکھیں:  کیا آپ اس تصویر میں موجود خوبی تلاش کرسکتے ہیں؟

    یہ بھی دیکھیں: اس تصویر میں ایک اورجانور چھپا ہے‘ کیا آپ ڈھونڈ سکتے ہیں؟

  • بیک وقت دو ہاتھوں سے مصوری کرنے والا نوجوان

    بیک وقت دو ہاتھوں سے مصوری کرنے والا نوجوان

    ٹوکیو: جاپان کے ایک مصور نے دونوں ہاتھوں سے بیک وقت مصوری کر کے لوگوں کو حیرانی میں مبتلا کردیا، مصور کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھ کر لوگ اُس کے فن سے بے حد متاثر ہوئے۔

    ایک وقت میں دونوں ہاتھوں سے کام کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے، اگر مصوری کا سوچا جائے تو یہ کسی صورت ممکن نہیں لگتا تاہم جاپان کے ایک مصور نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے لوگوں کے دل موہ لیے۔

    دونوں ہاتھوں سے بیک وقت تحریر لکھنے یا مصوری کرنے والے افراد ڈیکسٹرس کہلاتے ہیں، پوری دنیا کی آبادی میں صرف ایک فیصد ہی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قدرت کی طرف سے دی گئی اس صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مصور کتنی تیزی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے تصاویر بنارہا ہے، کسی ایک تصویر میں کوئی ایسی خامی سامنے نہیں آئی جس کو دیکھ کر آپ کوئی شکایت کر سکیں۔

    مصوری کی دنیا میں اب تک ایسے تین لوگ گزرے ہیں جنہوں نے دو ہاتھوں سے پیٹنگ کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

  • عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

    مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

    خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

    ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


    مصورہ کے بارے میں

    سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


    سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

    سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

  • سکندر صنم کو بچھڑے چار برس گزر گئے

    سکندر صنم کو بچھڑے چار برس گزر گئے

    کراچی: خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف پاکستانی کامیڈین سکندر صنم کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے آج 5 نومبر کو اُن کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔

    غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سکندر صنم نے گھریلو حالات کے باعث بہت کم عمری میں ایک فیکٹری میں مزدوری شروع کی تاہم بعد ازاں انہیں اپنے اندر چھپی صلاحیتیں دکھیں اور انہوں نے شوبز کا انتخاب کیا۔

    کراچی کے علاقے کھارادر میں 1960ء میں پیدا ہونے والے سکندر صنم نے 1981ء میں اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر آخری ایام تک اُسی سے وابستہ رہے، آپ نے کیرئیر کا آغاز بطور گلوکار کیا تاہم عمر شریف سے دوستی ہونے کے بعد دونوں فنکاروں نے مختلف تقریبات میں اسٹیج کامیڈی کا آغاز کیا۔

    دو مسخروں کی اس جوڑی سے لوگ اتنا محظوظ ہوئے کہ اگر کسی ڈرامے میں کوئی ایک فرد کم ہوتا تو عوام کی دلچسپی اُس میں کم ہی ہوتی۔ سکندر صنم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے پہچانے جانے لگے۔

    sikandar1

    سکندر صنم کو اُس وقت زیادہ پذیرائی ملی جب انہوں نے بھارتی فلموں کی پیروڈی کو مزاحیہ انداز میں تیار کیا جن میں کھل نائیک، تیرے نام 2، گجنی 2، منا بھائی وغیرہ جیسی فلمیں بنائیں اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔

    دنیا بھر میں غموں کو دور اور اُن میں مسکراہٹیں بانٹنے والا یہ فنکار جگر کے کینسر میں مبتلا ہوا اور 5 نومبر 2012 کو مداحوں کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ گیا۔

    اسٹیج ڈراموں میں آج بھی سکندر صنم کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔