Tag: ARY Blogs

  • سب اچھا ہے، آئین کی نظرمیں

    آج سیاستدان ، وکلاءسب یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اگر آئین کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو ملک تقسیم ہو جائے گا خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے اور مارشل لا سے تباہی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔

    سب سے پہلے تو قارئین گرامی آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ اب وکلاءوہ نہیں ہیں جو آج سے چالیس سال قبل صرف انسان اورانسانیت کا درس دیا کرتے تھے، آج وکلاءسیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں لہٰذا اب عوام کی نظر میں ان کے بیانات کی اہمیت ختم ہوگئی ہے پاکستان میں سیکڑوں وکیل تو وہ ہیں جو صرف ایک کیس کی فیس بیس لاکھ یااس سے بھی زیادہ لے رہے ہیں، اب ان جیسے وکیلوں کا غریبوں سے کوئی واسطہ نہیں سیاستدانوں کی طرف دیکھو تو مایوسی کے بادل عوام کے چہروں پر سجے نظر آتے ہیں۔

     ماضی سے آج تک آئین کی حدود کا ہمیں پتہ نہیں چل سکا کبھی یہ خانہ جنگی کی باتیں کرتے ہیں کبھی ملک کی تقسیم کی باتیں کرتے ہیں یہ سب بناؤٹی ادا کارہیں ،جتنا ساتھ اس عوام کا فوج نے دیا ہے اس کی مختصر تاریخ ہے، ایوب خان مرحوم نے مارشل لاءلگایا صرف چینی کی قیمتیں معمولی سی بڑھائی گئیں عوام نے انہیں اتار دیا وہ خود بھلادشخص تھا چلا گیا۔

    اس کے بعد کیا ہوا؟ خوب سیاسی جھگڑے ہوئے ان سیاستدانوں نے پاکستان کے ایک بازو کو تن سے جدا کر دیا اور ہم صرف مغربی پاکستان کے ہو کررہ گئے، پربھٹو مرحوم نے اقتدار سنبھالا جمہوریت کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو،ا 1977ءمیں جب الیکشن ہوا تو اس میں کھل کر دھاندلی ہوئی ،قومی اتحاد بنا اور پھر ان کے مطالبات نہ مانے گئے اور ضیاءالحق مرحوم نے ملک کی باگ دوڈ سنبھال لی، نہ آئین ختم ہوا نہ ملک ٹوٹا اور ان کا دور سنہری دور تھا.

    پھر اس ملک میں نواز شریف نے طیاروں کا رخ موڑنے کا فیشن روشناس کرایا ابھی گذشتہ دنوں بھی انہوں نے طاہرالقادری کو اسلام آباد کے بجائے لاہور ائیر پورٹ پر اتارا، اس طرح انہوں نے پرویز مشرف کو بھی آسمانوں کی سیرکروائی اورپھرنواز شریف نا کام سیاست کی طویل سپرپرنکل گئے۔

    پرویز مشرف نے ملک کی با گ دوڈ سنبھال لی یہ بھی فوجی جنرل تھے، انہوں نے ایک خوبصورت دور جو مہنگائی سے پاک تھا قوم کو دیا نہ آئین ختم ہوا نہ ملک تقسیم ہوا یہ سیاست دان عوام کو ڈراتے اور خوفزدہ کرتے ہیں کہ اگر فوج آئی تو ملک ختم ہوجائے گا ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ فوج ہی تو وہ ادارہ ہے جو تمہاری نا کامیوں جھگڑوں ، مفادات ، کرپشن ،نا جائز قرضے ، بد معاشیاں ان سب کولپیٹ کر اپنے بوٹو ں تلے کچلتا ہے اورعوام کو نئی روشنی دکھاتا ہے.

    سیاست دانوں نے آئین کوہوّا بنا رکھا ہے قرآن پاک کے حوالے سے تو ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتانہ جانے یہ اس اسلامی ملک میں آئین کو کیا بنانا چاہتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ آئین میں تمام مسائل کا حل موجود ہے،اور آئین بالاتر ہے۔

    قارئین گرامی میں اپنے آرٹیکل میں آپ کے حقوق جو آئین نے دیئے ہیں اس پر تبصرہ ضرور کروں گا تاکہ آپ کو احساس ہو کہ یہ چندگھٹیا سیاست دان آئین کا نام لے کر آپ کو کتنا بیوقوف بنا رہے ہیں گذشتہ دنوں ماڈل ٹاﺅن میں قتل و غارت کی وجہ سے دو خواتین سمیت 14افراد شہید ہوئے اور بیسیوں افراد زخمی ہوئے، کیا آئین اس بات کی اجازت دیتاہے؟

    آئین کی مختصر تشریح یہ ہے کہ جب سیاست دانوں کے مفادات ہوتے ہیں تو یہ ایک ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور وہ وکلاءجو لاکھوں میں معاوضہ لیتے ہیں وہ اخبارات اور ٹی وی میں دلائل دیتے ہوئے سیاستدانوں کا ساتھ دے کرکہتے ہیں کہ واقعی آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور جہاں بھوک ،پیاس سے مرتی عوام کا معاملہ آئے وہاں یہ وکیل نظر نہیں آئیں گے،بلکہ سیاسی جماعتوں کے ترجمان اخبارات میں بیان دیتے ہیں کہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا،

    جیتے ہوئے سیاستدان نواز شریف کا ساتھ دے رہے ہیں آئین کی بقاء اورجمہوریت کی سلامتی کی باتیں کررہے ہیں کیونکہ ان کے دال دلیے چل رہے ہیں، لیکن دھرنے دینے والوں سے کیسے نمٹا جائے اس کا حل ان کے پاس نہیں ہے۔

    ملک کی بہتری کے لئے ہمارے لیڈروں کے پاس کوئی حل نہیں بس ان کا کہنا ہے جمہوریت قائم رہے اس لئے کہ جب پاک فوج آتی ہے اور ملک کا اقتدار سنبھالتی ہے تو ان کی کرپشن اقرباءپروری لوٹ مار سب کی چھٹی ہوجاتی ہے اوریہ عوا م کی لوٹی ہوئی دولت سے گزاراکرتے ہیں پھر نئے الیکشن کی بات کرتے ہیں تاکہ اسمبلیوں میں آکر دوبارہ اپنے پیٹ کی دوزخ کو ٹھنڈا کر سکیں کیونکہ پاک فوج کی موجودگی میں تو یہ اپنے بلوں میں چلے جاتے ہیں.

    لہٰذا اس سے پہلے کہ فوج اس ملک کے تباہ شدہ سسٹم کو سنبھالے اوردھاندلی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے سنبھالنے کے لئے نواز شریف اور ان کے رفقاءعمران خان اور طاہرالقادری کے کہنے کے مطابق سیاسی نظام میں تبدیلی لائیں،جلد از جلد شفاف انتخابات کرائیں نگراں حکومت قائم کی جائے اور فوج کی نگرانی میں شفاف الیکشن کرائے جائیں .

    اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر آپ کو یہ الفاظ سننے پڑیں گے کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا جان دے دیں گے جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیںگے لہٰذا عدالتوں اور پاک فوج سے بھی درخواست ہے کہ برائے مہربانی اس ملک میں شفاف الیکشن کروادیں تاکہ یہ جمہوریت اور آئین کے نام نہاد چمپیئن مستقبل میں یہ نہ کہہ سکیں کہ 18کڑوڑ عوام ہمارے ساتھ ہے ہم آئین اور جمہوریت کے لئے جان تو کیا سر کٹوا سکتے ہیں تاکہ ہمارے دال اور دلیے چلتے رہیں۔

  • اور پھر جیل ٹوٹ گئی

     

    7 جون کا سورج پاکستان میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی پرجوش آواز کے ساتھ طلوع ہوا. آواز کا آنا تھا کہ پانچ دن سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم کارکنوں میں جیسے  زندگی کی ایک  نئی لہر سی دور گئی.  کراچی، حیدرآباد، سکھر، پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ امریکا اور برطانیہ کئی شہر الطاف حسین اور  ایم کیو ایم کے نعروں سے گونچ اٹھے  .کوئی خوشی سے رو رہا تھا تو کوئی الله کے حضور سجدے کر رہا تھا تو کوئی اپنا اور دوسرے کا منہ میٹھا کروا رہا تھا، جوشیلے جوان مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین کے ترانے پر جھوم رہے تھے، غرض یہ کے ہر کوئی اپنے انداز میں خوشی منا رہا تھا مگر ان سب میں ایک مشترکہ عزم تھا کہ ان کے اور الطاف حسین کے درمیاں انے والی ہر دیوار اور سازش کا انجام " ناکامی " ہی ہو گا

    1987 میں بھی الطاف حسین پر فرضی الزامات لگا کر کراچی کی سینٹرل جیل میں قید کردیا گیا تھا. ایم کیو ایم کے کارکنوں اور  ہمدردوں نے اپنےقائد کی رہائی کے لیےعوامی مہم اور احتجاج کا آغاز کیا، بلاآخر حکومت وقت نے الطاف حسن پر تمام جھوٹے مقدمات ختم کر کے ان کو بری کرنے کا حکم دیا، جیل انتظامیہ نے رہائی میں تاخیر کی تو عوام نے جیل کی دیوارتوڑ کر اپنے محبوب قائد الطاف حسین کو آزاد کروایا.  یہ واقعہ میرا آنکھوں دیکھا ہے  ، گھرآکر والد صاحب کو بتایا تو والد صاحب نے فرمایا " بھٹو صاحب نے پھانسی سے پہلے کہا تھا کے کاش میں کراچی والوں کے ساتھ دیتا تو وہ مجھے پھانسی کے پھندے سے بچا لیتے

    خیر بات ہو رہی تھی ایم کیو ایم دھرنوں کی، میری نظر میں ان کو دھرنا کہنا غلط ہو گا. یہ  دھرنے نہیں بلکہ  صبر، نظم و ضبط ، عقیدت، احترم اور اتحاد کے میلے تھے. جہاں دودھ پیتے بچوں سے لے کر  90 سال کے بزرگ شریک تھے. خواتین بلا خوف خطر اپنے الطاف بھائی کے لے دعا اور یا سلامُ  کا ورد کر رہی تھیں. نہ کسی کو بھوک کی فکر تھی نہ ہی دھوپ کی، نہ دن کی نہ رات کی. چھوٹی چھوٹی بچیاں ہاتھ جوڑ کر الطاف حسین کی امان کی دعائیں مانگ رہیں تھیں. مائیں اپنا آنچل پھیلا پھیلا  کر اپنے بیٹے کے لیے دعا کر رہیں تھیں,  بھائیوں کے غصے کی شدت، سورج کی شدت کو ماند کر رہی تھی.  گو ہر شخص کھلے آسمان تلے سڑک پر صبر  سے بیٹھا تھا  

    ایم کیو ایم کے کارکن اور لیڈرز کے ساتھ ساتھ  سول سوسائٹی ، کاروباری برادری، مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماوں بھی دن اور رات ان دھرنوں میں عوام کے ساتھ شریک تھے. ان دھرنوں میں ایک بڑی تعداد  ان کم عمر نوجوان اور بچوں کی تھی جو کبھی بھی الطاف حسن سے اپنی زندگی میں نہیں ملے. الطاف حسین کی 34 سال کی تربیت کا کمال تھا کہ پانچ دن میں عوام اور کارکنان کا صبر اور نہ ہی کسی درخت کا ایک پتہ بھی ٹوٹا .

    سازشیں اور مشکلات ایم کیو ایم کارکنوں اور الطاف حسین کے چاہنے والوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں. پچھلے  کئی  سالوں سے روزانہ بلا ناغہ شام آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک  ٹی وی پر  بیٹھ کر، لال پیلی ٹائی پہن کر، نام نہاد اینکرز –  ایم کیو ایم، اور الطاف حسین کے خلاف اپنے من کا میل نکالتے ہیں، کبھی الطاف حسین کے چیپٹر ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، کبھی گروپنگ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے  تو کبھی مہاجروں کو بھوکا ننگا بولا جاتا ہے تو کبھی قرآن پاک کو سر پر رکھ کر جھوٹ کو سچ کروانے کی  کوشش کی جاتی ہے. مگر ہر بار عوام نے اپنی محبت اور ہمت  سے ہر سازش اور مشکل کو اس کے منطقی انجام تک پہونچایا .

    طوفان کر رہا ہے میرے عزائم کا طواف

    دنیا سمجھ  رہی ہے کہ کشتی بھور میں ہے

    یہ کہنا غلط نہ ہو گا کے کہ ایک بار پھر الطاف حسین کے ماننے  والوں نے 6 اور 7 جون کی درمیانی شب  اپنے صبر، حوصلے، اور  نظم و ضبط  سے جیل توڑ کر اپنے محبوب قائد کو جھوٹے  مقدمات سے بری کروایا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ پہلی بار ایم کیو ایم کے مضبوط ہاتوں نے کراچی جیل کی اور اس بار ایم کیو ایم کے مصبوط ارادوں نے برطانوی جیل دیواریں گرا دیں 

    یہاں یہ بات قبل غور ہے کہ الطاف حسین پولیس اسٹیشن سے رہائی کے بعد جب باہر آئے تو ان کو برطانوی حکومت نے سرکاری  پولیس پروٹوکول دیا. پولیس کی گاڑیاں نے الطاف حسین کی کار کو اپنی سیکورٹی میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پہونچایا . پولیس نے سرکاری طور پر اعلان بھی کیا کہ الطاف حسین پر کوئی مقدمہ نہیں ہے. یہاں مجھے الطاف حسین کے یہ الفاظ یاد آگے " میں نے کبھی اپنی قوم کا سر نہیں جھکنے دیا اور نا کبھی جھکنے دوں گا "

    میں ایک بات بار بار سوچتا ہوں، جو لوگ الطاف حسین کی  محبت میں صبر اور  نظم و ضبط  سے دھرنوں میں بیٹھے تھے اگر یہی لوگ الطاف حسین کی محبت میں اٹھ کھڑے ہوتے تو ؟

    تم گرانے میں  لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

    میں گرا تو, مسلہ بن کر کھڑا ہو جاؤنگا