Tag: ARY Sar e aam

  • کیا ہوٹلوں میں گدھے کا گوشت کھلایا جارہا ہے؟ کھانے والے تذبذب کا شکار

    کیا ہوٹلوں میں گدھے کا گوشت کھلایا جارہا ہے؟ کھانے والے تذبذب کا شکار

    راولپنڈی : گزشتہ دنوں ملک کے مختلف شہروں کے غیر قانونی سے ذبح خانوں سے بڑی مقدار میں گدھے کا گوشت برآمد ہونے کی خبروں کے بعد لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان امڈ آیا جس میں کہا گیا کہ اب لاہور کے بعد اسلام آباد کے شہری بھی گدھے کے گوشت سے ’لطف اندوز‘ ہورہے ہیں۔

    اس کے علاوہ شہر کے معروف ریستورانوں اور ڈھابوں سے کھانا کھانے والے شہری اسی تذبذب کاشکار ہیں کہ کیا انہیں بھی یہ گوشت کھلا دیا گیا ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے پنجاب فوڈ اتھارٹی راولپنڈی کے عملے کے ساتھ مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں کا معائنہ کیا اور حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

    اس موقع پر ٹیم سرعام اور پی ایف اے نے باری باری ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جاکر مالکان اور کھانا کھانے کیلیے وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کی اور ان کے خیالات جاننے کوشش کی۔

    اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ خوش قسمتی سے کسی ہوٹل پر گدھے کے گوشت کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس موقع پر وہاں موجود گوشت کی خریداری کی رسیدیں بھی چیک کی گئیں، البتہ کچھ ہوٹلوں پر گندگی اور صفائی کے ناقص انتظامات ضرور دیکھنے میں آئے۔

    ہوٹلوں میں موجود شہریوں سے بات کی گئی تو کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم پہلے پوچھ کر پھر کھانا کھاتے ہیں، تاہم لوگوں میں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں دھوکے سے گدھے کا گوشت نہ کھلا دیا جائے اس لیے وہ دال سبزی کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

    رنگون بیف پلاؤ کی شاپ کے معائنے کے دوران وہاں حفظان صحت کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی دیکھنے میں آئی جہاں صفائی ستھرائی کا شدید فقدان تھا، کھانوں میں استعمال ہونے والے مسالہ جات اور انہیں رکھنے کی جگہیں غلاظت سے اٹی ہوئی تھیں۔

    یاد رہے کہ اسلام آباد کے ملحقہ علاقے ترنول کے ایک فارم ہاؤس میں قائم غیر قانونی ذبح خانے سے 900کلو گدھے کا گوشت برآمد ہوا ہے جبکہ 50 زندہ گدھے بھی تحویل میں لیے گئے تھے۔

    پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے مکورہ دھندے میں ملوث ایک غیر ملکی باشندے کو گرفتار کیا ہے۔

  • ویڈیو : غلیظ گالیاں اور مکے : رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر راشی پولیس افسر کی ڈھٹائی

    ویڈیو : غلیظ گالیاں اور مکے : رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر راشی پولیس افسر کی ڈھٹائی

    پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورا محکمہ بدنام ہے اور آئی جی پنجاب کی طرف سے دیے جانے والے بے پناہ ترقیاتی فنڈز اور ویلفئیر بھی ان راشی پولیس افسران کے رویے تبدیل نہیں کرا سکے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام میں ایک ایسے ہی پولیس افسر کو بے نقاب کیا گیا ہے جو ایک شہری کو بے گناہ تسلیم کرنے کے باجود مقدمے سے اس کا نام نکالنے کیلیے 3 لاکھ روپے رشوت طلب کررہا تھا۔

    یہ راشی پولیس افسر شفیق نہ صرف بھاری رقم طلب کررہا تھا بلکہ لاکھوں روپے مالیت کے تیتر بھی مانگ رہا تھا، حد تو یہ تھی کہ تھانے میں موجود مسروقہ موٹر سائیکل ٹیم سرعام کے ممبر کو بیچنے پر بھی آمادہ تھا۔

    تھانہ مامونکانجن کے رشوت خور پولیس افسر شفیق نے دوران گفتگو ٹیم سرعام سے انتہائی بدتمیزی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کیا ٹیم سرعام کو نہ صرف غلیظ گالیاں دیں بلکہ مکے اور دھکے دیتے ہوئے رشوت کی رقم برآمد کرنے کے دوران ڈھٹائی سے اپنے جرم کا انکار بھی کرتا رہا۔

    بعد ازاں ساری صورتحال جاننے کے بعد سی پی او فیصل آباد صاحبزادہ بلال عمر نے اس رشوت خور افسر شفیق کو معطل کرتے ہوئے اس کیخلاف مزید قانونی کارروائی کا حکم جاری کیا۔

  • ملازم بچے پر تشدد کرنے والا بیٹا ماں کو اکیلا چھوڑ کر فرار ہوگیا

    ملازم بچے پر تشدد کرنے والا بیٹا ماں کو اکیلا چھوڑ کر فرار ہوگیا

    گزشتہ سے پیوستہ :

    اس سے قبل ٹیم سرعام نے ابوبکر نامی گھریلو ملازم بچے کو بڑے سرکاری افسر کے گھر سے رہا کروایا تھا، جہاں اس ملازم بچے پر تشدد کیا جاتا اور کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں دیا جاتا تھا۔،

    اسلام آباد کے پوش علاقے میں قائم سرکاری افسر کے اس گھر کے درندہ صفت افراد میں ایک ماں اور اس کا بیٹا شامل تھے جو اس ملازم بچے پر تشدد کرنے میں ملوث تھے۔

    بچے ابوبکر سے بات چیت کے دوران گھر کی ایک بڑی عمر کی خاتون ڈھٹائی کے ساتھ خود کو بے گناہ اور معصوم قرار دیتی رہی لیکن بچے کے جسم پر جابجا لگے ہوئے زخموں کے نشانات اس کے جھوٹ کو بے نقاب کررہے تھے۔

    بچے نے بتایا کہ وہ یہاں تین سال سے کام کررہا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے چھری اور ڈنڈوں سے مارا جاتا ہے، اس موقع پر اس گھر کی خاتون نے ٹیم سرعام سے کیمرے کے سامنے سے ہٹ کر بات کرنے کی درخواست کی جسے مسترد کردیا گیا۔

    مزید پڑھیں : 12سالہ گھریلو ملازم بچے پر حیوانی تشدد، جلانے، کاٹنے، استری سے داغنے کے نشانات

    اس سے قبل ہی اس خاتون کا بیٹا پولیس اور ٹیم سرعام کو دیکھ کر اور ماں کو اکیلا چھوڑ کر وہاں سے فرار ہوچکا تھا۔

  • سموسہ رول پٹی : مکڑی کے جالے اور کیڑے مکوڑے، ہم کیا کھاتے ہیں؟

    سموسہ رول پٹی : مکڑی کے جالے اور کیڑے مکوڑے، ہم کیا کھاتے ہیں؟

    ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں بڑی تعداد میں مضر صحت سموسہ رول پٹی اور غیر معیاری فروزن چیزوں کی تیاری اور فروخت عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

    ان اشیاء کی تیاری کس طرح کی جاتی ہے اور کس طرح اس میں حفظان صحت اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عملے کے ہمراہ لاہور میں چوک یتیم خانہ کے عقب میں واقع ایک مخدوش سی عمارت میں کارروائی کی جہاں اسی طریقے سے سموسہ رول پٹی تیار کی جارہی تھی۔

    ٹیم سرعام اور پی ایف اے کا عملہ جب اس گھر کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ یہاں بہت بڑے پیمانے پر کام ہورہا تھا، 40 سے 50 ملازمین سموسہ رول پٹی کی تیاری میں مصروف عمل تھے اور صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی قابل اعتراض تھی اور ملازمین بدبودار ماحول میں کام کررہے تھے۔

    یہاں کی دیواروں پر مکڑی کے جالے اور سامان پر بے تحاشا مکھیاں بیٹھی تھیں، سموسہ رول پٹی کیلیے میدہ پیروں کی مدد سے گوندھا جا رہا تھا، پٹیوں میں استعمال ہونے والی روٹی کی تیاری کیلیے جو گھی رکھا ہوا تھا اس میں کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات الارض گرے ہوئے تھے۔

    اس موقع پر کارخانے کے منیجر شاہ زیب نے ساری صورتحال کے سامنے آنے پر اپنی غلطی کا برملا اعتراف کیا۔ بعد ازاں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس فیکٹری پر 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرکے اس کو سیل کردیا۔

  • منشیات کے عادی افراد کی پولیس کو دیکھ کرڈرامہ بازیاں : ویڈیو

    منشیات کے عادی افراد کی پولیس کو دیکھ کرڈرامہ بازیاں : ویڈیو

    شہر کی گلی کوچوں، فٹ پاتھوں اور نالوں کے اندر بیٹھے منشیات کے عادی افراد نہ صرف اپنے لیے بلکہ نئی نسل کیلیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔

    ایسے منشیات کے عادی افراد جو دیکھنے میں بہت کمزور اور لاغر دکھائی دیتے ہیں اپنا نشہ پورا کرنے کے بعد ان میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ اچھا خاصا بندہ بھی ان کو بھاگتے ہوئے نہیں پکڑ پاتا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام میں ان منشیات کے عادی افراد کیخلاف ان کی پناہ گاہوں پر  ایک آپریشن کیا گیا جس میں اینٹی نارکوٹکس اینڈ کرائم کنٹرول سوشل اوئیرنیس فاؤنڈیشن اور تھانہ نیو کراچی کے عملے نے بھرپور تعاون کیا۔

    منشیات کے عادی یہ افراد علاقوں میں چھوٹی چھوٹی چوریوں کے ساتھ فلیٹوں کے نیچے اور گھروں کے باہر کھڑی موٹرسائیکلوں کو بھی چرا کر لے جاتے ہیں اور کھول کر اس کے پرزے کباڑیوں کو بیچ دیتے ہیں۔

    اس موقع پر نیو کراچی میں سندھ گورنمنٹ اسپتال کے عقب میں واقع ایک پلاٹ پر ان افراد کو پکڑنے کیلیے کارروائی کا آغاز کیا گیا، اس جگہ یہ لوگ منشیات کی خرید و فروخت کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان نشئی افراد کے ساتھ ،منشیات فروش بھی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔

    پولیس کو دیکھ کر ان لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی تاہم زیادہ تر پکڑے گئے جنہیں ایک گاڑی میں بھر کر تھانے منقتل کردیا گیا۔

    ٹیم سر عام کو کارروائی کے دوران ایک ایسے نشئی سے ملنے کا بھی موقع ملا جو بے ہوش ہونے کی زبردست ایکٹنگ کررہا تھا پولیس کو دیکھتے ہیں پہلے تو اس نے بھاگبے کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ اب جان بچانا مشکل ہے تو بے سدھ ہوکر زمین پر ہی لیٹ گیا۔

    نوٹ : رپورٹ کی مزید تفصیلات اگلی خبر میں ملاحظہ کریں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 20 کروڑ سے زائد افراد منشیات کے نشے کے عادی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال دنیا بھر میں سب سے زیادہ امریکا میں ہوتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔

    اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75 فیصد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔

    وطن عزیز پاکستان میں بطورِ منشیات سب سے زیادہ استعمال بھنگ، حشیش، چرس، ہیروئن اور شراب کی صورت میں کیا جاتا تھا جس نے اب مزید جدت اختیار کرلی ہے۔

  • لیبارٹری میں ڈاکٹر کی مرضی کی جعلی رپورٹیں کیسے تیار کی جاتی ہیں؟ ویڈیو دیکھیں

    لیبارٹری میں ڈاکٹر کی مرضی کی جعلی رپورٹیں کیسے تیار کی جاتی ہیں؟ ویڈیو دیکھیں

    منڈی بہاؤالدین : لیبارٹری میں ٹیسٹ کے نام پر جعلی رپورٹیں تیار کرکے لوگوں کو لوٹنے کا دھندہ ٹیم سر عام  نے بے نقاب کردیا۔

    منڈی بہاؤالدین کے سرکاری اسپتال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پھالیہ میں قائم لیبارٹری سے ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے کمیشن کے عوض مریضوں کو وہی بیماریاں لکھ کر دی جاتی تھیں جو ڈاکٹر خود بتاتے ہیں تاکہ لوگوں سے علاج کے نام پر بڑی بڑی رقوم اینٹھ سکیں۔

    ٹیم سرعام  نے اس دھندے کو بھی بے نقاب کرنے کیلیے وہاں ڈاکٹر وسیم کے روپ میں ایک نمائندے کو بھیجا اور لیبارٹری مالک اختر علی قادری کو پیشکش کی کہ جس کسی کو میں ٹیسٹ کیلیے بھیجوں گا اس کی رپورٹ میں وہی بیماری لکھنی ہے جو میں کہوں گا۔

    بعد ازاں لیبارٹری کا مالک جو دیکھنے میں انتہائی شریف اور مذہبی لگتا تھا خلاف توقع اس نے جعلی رپورٹ بنا کر دی اور مریض کو کہا کہ تم کو معدے اور جگر کی بیماری ہے اسی ڈاکٹر وسیم کے پاس جاکر اپنا علاج کراؤ۔

    یہی نہیں اس بار ٹیم سر عام کے نمائندے ڈاکٹر وسیم  نے لیبارٹری مالک اختر علی قادری سے کہا کہ اس بار جو مریض آئے گا اسے ایڈز کی رپورٹ بنا کر دینا، چند ہزار روپے کے عوض اس نے اس کام کی بھی حامی بھرلی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک اور لڑکی کے حمل کی جعلی مثبت رپورٹ بنانے پر بھی راضی ہوگیا بلکہ اس لڑکی کو  راز داری سے حمل ضائع کرانے کا مشورہ بھی دیا۔

    بعد ازاں اقرار الحسن کی قیادت میں ٹیم سرعام  نے لیبارٹری کے مالک سے بات کی پہلے تو اس نے اپنے اس جرم سے صریحاً انکار کیا تاہم ویڈیوز ثبوت دیکھنے کے بعد اس نے بلا چوں چراں اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا تہیہ کیا۔

  • نوکری کا جھانسہ دے کر خواتین کا جنسی استحصال کرنے والا درندہ کس طرح اپنے انجام کو پہنچا؟ ویڈیو

    نوکری کا جھانسہ دے کر خواتین کا جنسی استحصال کرنے والا درندہ کس طرح اپنے انجام کو پہنچا؟ ویڈیو

    منڈی بہاؤ الدین : اپنے عہدے اور تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور اور لاچار خواتین کو نوکری کا جھانسہ دے کر ان کا جنسی استحصال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔

    بدقسمتی سے پاکستان جیسے معاشرے میں بھی کسی مجبور عورت کا آج بھی کام کیلیے گھر سے نکلنا اپنی عزت کو سر بازار نیلام کرنے کے مترادف ہے۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام کی ٹیم نے ایک ایسے ہی درندے کو اس کے انجام تک پہنچایا جس نے ملازمت کیلیے آنے والی مجبور لڑکی کو نوکری کا جھانسہ دے کر اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی پوری کوشش کی۔

    نصراللہ نامی یہ شخص منڈی بہاؤالدین کے ایک اسپتال میں سپر وائزر کے عہدے پر تعینات تھا جو محض 30ہزار روپے کی نوکری کا جھانسہ دے کر معصوم لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتا تھا۔

    سیکڑوں بستروں پر مشتمل اس اسپتال کے عملے میں شامل کوئی خاتون ایسی نہیں تھی جسے اس درندے نما انسان کے جنسی حملوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، کیونکہ اس کے پاس حاضری، چھٹیوں اور دیگر امور کے حوالے سے تمام اختیارات حاصل تھے جس کو کرنے کیلیے وہ خواتین سے اپنے گھناؤنے مقاصد پورے کرتا تھا۔

    اس کی درندگی سے متاثرہ چار ملازم خواتین نے ٹیم سر عام سے رابطہ کرکے پوری روداد سنائی تاہم کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بالآخر ایک باہمت لڑکی نے ٹیم سرعام کو بتایا کہ کس طرح اس شخص نے اسے اور اس کی دوست کو نوکری کے عوض جنسی خواہش کی تکمیل کی شرط پوری کرنے پر مجبور کیا۔

    پھر منصوبے کے مطابق لڑکی نصراللہ کے پاس نوکری مانگنے گئی اور اس نے اپنی وہی شرط اس کے سامنے رکھی اور 30 ہزار روپے تنخواہ اور موجودہ مہینے کے 10 ہزار روپے دینے کا حلفاً کہا اور مختلف حیلوں بہانوں سے اسے زبردستی چھونے اور پکڑنے کی کوشش کی ۔

    اس سے پہلے کہ وہ درندہ اس پر چھپٹتا، عین اسی وقت ٹیم سر عام میزبان اقرار الحسن کی قیادت میں اسپتال کے اس کمرے میں پہنچ گئی۔ اس شخص کی ڈھٹائی اور بے شرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام تر ویڈیوز ثبوت دیکھنے کے باوجود مسلسل جھوٹ بول رہا تھا۔

    بعد ازاں متاثرہ لڑکی کی شکایت پر علاقہ پولیس نے ملزم نصراللہ کو موقع سے گرفتار کرلیا اور اس کیخلاف مقدمہ درج کرکے حوالات میں بند کردیا۔

  • ’یہ گاڑی ایس ایچ او کی ہے‘ جھوٹ بولنے والا شخص فوری پکڑا گیا، ویڈیو دیکھیں

    ’یہ گاڑی ایس ایچ او کی ہے‘ جھوٹ بولنے والا شخص فوری پکڑا گیا، ویڈیو دیکھیں

    کراچی : شہر قائد کی سڑکوں پر آئے روز ٹریفک پولیس اور شہریوں کے درمیان تلخ کلامی اور جھگڑوں کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔

    اس کی سب سے بڑی وجہ تو شہریوں کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور اوپر سے چوری اور سینہ زوری کے مصداق اہلکاروں سے بحث اور اپنے اثر رسوخ کا دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔

    اگر دوسری جانب جائزہ لیا جائے تو بعض ٹریفک اہلکار بھی اپنی ڈیوٹی اور فرائض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چند روپے کی رشوت کے عوض ایسے شہریوں کو مزید ڈھیل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام کی ٹیم نے کراچی کی مختلف شاہراہوں پر شہریوں کی جانب سے ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاؤ اور رویوں کا جائزہ لیا۔

    پروگرام سر عام کے میزبان اقرار الحسن کے مطابق لاہور میں اور کراچی میں کیے جانے والے پروگراموں کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ لاہور کی نسبت کراچی کے ٹریفک اہلکار زیادہ شہریوں کے برے سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔

    سیاسی رہنما وڈیروں کی اولادیں اثر و رسوخ رکھنے والے صحافی، وکیل اور پولیس افسران کے بھانجے بھتیجے اکثر ان اہلکاروں کو تضحیک کا نشانہ بناکر ان کی سڑک پر ہی تذلیل کرتے ہیں۔

    اس موقع پر کراچی کی دو اہم شاہراہوں پر ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ مل کر خفیہ ریکارڈنگ کی تاکہ شہریوں کے اس رویے کی نشاندہی کرکے اس کا سدباب کرنے کی کوشش کی جائے۔

    ’میں ایم پی کا بھائی ہوں‘

    ٹریفک اہلکاروں نے ایک رنگین شیشوں والی قیمتی گاڑی کو روکا تو اس میں موجود شخص نے خود کو ایم پی اے کا بھائی بتایا اور عب جمانے کی کوشش کی تاہم پولیس افسر کی جانب سے یہی ترغیب دی جاتی رہے کہ چالان کروالیں ترو زیادہ بہتر ہے تاہم کچھ دیر کی بحث و تکرار کے بعد وہ شخص چالان کٹوانے پر راضی ہوگیا۔

    ’یہ گاڑی ایس ایچ او کی ہے‘ شہری کا جھوٹ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا،

    اسی دوران ایک اور بڑی گاڑی کو اسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روکا گیا تو اس میں موجود شخص نے یہ بتا کر رعب جمانے کی کوشش کی کہ یہ گاڑی ایس ایچ او کی ہے، تاہم جب اس کو احساس ہوا کہ ٹیم سرعام بھی یہاں موجود ہے تو اس نے بغیر کسی پس و پیش کے اپنے جھوٹ کا اقرار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میری ذاتی گاڑی ہے تاہم میں چالان بھی کٹوا رہا ہوں اور یہ شیشے بھی صاف کردوں گا۔،

    سیاسی جماعت کے جھنڈے والی گاڑی کے مالک کی پولیس کو مغلظات

    اس دوران ایک نہایت افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا جب ایک ایسی گاڑی کو روکا گیا جس کے باہر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا، اس میں موجود صاحب نے روکے جانے کو اپنی بے عزتی گردانتے ہوئے انتہائی برہمی کا مظاہرہ کیا اور بجائے کاغذات دکھانے کے اہلکاروں کو مغلظات بکنا شروع کردیں، صرف اتنا نہیں نہایت غصے کے عالم میں سامنے کھڑے اہلکاروں کی جان کی پرواہ کیے بغیر تیزی گاڑی بھگا کر فرار ہوگیا۔

  • لاہور پولیس کی چوری اور سینہ زوری، نام نہاد صحافی کی ڈھٹائی

    لاہور پولیس کی چوری اور سینہ زوری، نام نہاد صحافی کی ڈھٹائی

    گزشتہ سے پیوستہ

    لاہور پولیس کی اغواء برائے تاوان کی اس خطرناک واردات کے بعد ٹیم سرعام کے میزبان اقرار الحسن نے اپنے نمائندے کو کرنٹ لگانے کی خبر سنتے ہی فوری طور پر کاہنہ تھانے کا رخ کیا۔

    تھانے میں شوکت نامی پولیس افسر اور نام نہاد صحافی سید ماجد علی شاہ سے سوالات کیے جس پر شوکت مسلسل انکار کرتا رہا، اس پر ظلم یہ کہ خود کو صحافی کہنے والا ماجد شاہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تیز آواز میں بات کرتے ہوئے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کیلیے الٹی سیدھی بہانے بازی کرنے لگا۔

    اس موقع پر ایس ایچ او خود اپنے کمرے اٹھ کر آگئے، ٹیم سرعام نے کاہنہ تھانے کے ایس ایچ او محمد فاروق کے سامنے پوری واردات اور اس کے ویڈیو ثبوت رکھے.

    اس موقع پر ایس ایچ او کاہنہ پولیس اسٹیشن نے تمام ثبوتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات انکشاف کیا کہ ان کو اس پوری واردات کا سرے سے ہی علم نہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ٹیم سر عام کے پاس ایس ایچ او کیخلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔

    بعد ازاں مذکورہ ایس ایچ او نے ٹیم سرعام کو اغواء برائے تاوان میں ملوث افسران و اہلکاروں کیخلاف اعلیٰ حکام کو رپورٹ ارسال کرنے کی یقین دہانی کرائی، تادم تحریر اس بات کا تو علم نہیں کہ ان پولیس افسران کیخلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں لیکن اس ٹاؤٹ اور نام نہاد صحافی کیخلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا گیا۔

    اس حوالے سے لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے سر عام ٹیم کی اس کارروائی کو سراہا اور کہا کہ صحافت کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرنے والی کالی بھیڑیں ہمارے اندر موجود ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسے نام نہاد صحافی پولیس اور دیگر اداروں کے کرپٹ افسران سے مل کر لوٹ مار کی وارداتیں کرتے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

  • لاہور پولیس کی دہشت گردی، اغواء برائے تاوان کی خوفناک واردات کے ویڈیو ثبوت

    لاہور پولیس کی دہشت گردی، اغواء برائے تاوان کی خوفناک واردات کے ویڈیو ثبوت

    لاہور پولیس کے افسران اور اہلکار شہریوں کو دن دہاڑے لوٹنے لگے، دولت مند شخصیات کو اغواء کرکے ان کے اہل خانہ سے تاوان وصول کرنے والے کوئی اور نہیں ان ہی کے محافظ ہیں۔

    یہ درندہ نما انسان باقاعدہ گینگ کی صورت میں وارداتیں کرتے ہیں اس گینگ میں ٹاؤٹ صحافی بھی شامل ہے،  یہ ظالم لوگ بہت منظم انداز میں کارروائیاں کرکے لوگوں کی جان و مال کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

    اس بار اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لاہور پولیس کی اس دہشت گردی کیخلاف اسٹنگ آپریشن کرکے اپنا ہی بندہ اغواء کروایا  اور پردے کے پیچھے چھپے ان ہی اصل چہروں کو بے نقاب کیا۔

    اس کام میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لینے کیلیے ٹیم سرعام کے نمائندے نے کاہنہ پریس کلب کے نام نہاد صدر سید ماجد علی شاہ سے رابطہ کیا اور ایک فرضی کہانی سنائی کہ اس کا ایک جاننے والا ایک لڑکی کو گھر سے بھگا کر لے گیا ہے اور ان کے پاس بھاری مقدار میں قیمتی زیورات بھی ہیں۔ اگر اس لڑکے کو پکڑ کر ڈرایا دھمکایا جائے تو رہائی کے عوض وہ سونے کے زیورات بھی دے سکتا ہے۔

    جس پر اس شخص نے حامی بھری اور متعلقہ پولیس افسر کو اس منصوبے سے آگاہ کرکے سر عام کے نمائندے سے ملاقات بھی کرادی، مبینہ طور پر کاہنہ تھانے کے ایس ایچ او محمد فاروق کی جانب سے بھیجے گئے پولیس افسر نے نمائندے کی ساری باتیں مان لیں اور سودا طے ہوا کہ تاوان سے ملنے والی رقم تین حصوں میں تقسیم ہوگی۔

    جس کے بعد اس ٹاؤٹ صحافی اور پولیس افسر نے اس لڑکے کو ہوٹل سے اٹھایا اور مزید خوف و دہشت بٹھانے کیلئے تھانے کے عقوبت خانے میں لے جاکر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور نہ صرف تشدد کیا بلکہ اسے کرنٹ بھی لگایا۔

    مزید تفصیلات اوپر دیئے گئے لنک میں ملاحظہ کریں