Tag: ARY Sar e aam

  • لاہور : 70فیصد گھروں میں چوری کی بجلی، چونکا دینے والے ہوشربا حقائق

    لاہور : 70فیصد گھروں میں چوری کی بجلی، چونکا دینے والے ہوشربا حقائق

    ملک بھر میں بجلی کی چوری کی وارداتیں عموماً خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں، غریب تو غریب امیر لوگ بھی غیر قانونی کنڈا لگا کر چوری کی بجلی استعمال کررہے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام کی ٹیم نے لاہور کے مختلف علاقوں میں اسٹنگ آپریشن کیا اور کئی غیر قانونی کنڈے استعمال کرنے والوں کی رائے اور بجلی چوری کی وجوہات دریافت کی۔

    لاہور کے علاقے بحریہ ٹاؤن سے متصل جلیا گاؤں میں بلا خوف و خطر چوری کی بجلی استعمال کی جارہی تھی جس کی وجوہات جاننے کیلیے سرعام کی ٹیم کے سربراہ نے ایک مقامی شخص سے بات کرنا چاہی تو اس نے بڑی ڈھٹائی سے بجلی چوری کرنے سے صاف انکار کیا۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی کے کچھ علاقوں کی طرح یہاں لیسکو کے اہلکار تو اپنی جگہ بلکہ پولیس اہلکار بھی آنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی جان عزیز ہے، اس گاؤں کے 70 فیصد گھروں میں گیس کا میٹر تو ہے لیکن بجلی کے میٹر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔

    ٹیم سر عام سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دکاندار نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ میری دکان کرائے کی ہے اور میں کسی کو بجلی کا بل نہیں دیتا، ایک مکین کا کہنا تھا کہ مہنگائی بہت ہے لوگ بہت مجبور ہیں کیا کریں؟ پورے گاؤں کے لوگ کنڈے کی بجلی ستعمال کرتے ہیں۔

    علاقے کی یونین کے وائس چیئرمین محمد جاوید نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بلوں میں اتنی زیادہ اووربلنگ ہوتی ہے لوگ اتنے پریشان ہوچکے ہیں کہ کنڈے نہ لگائیں تو کیا کریں؟

    لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہاں پر ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لیکن بل پورا آتا ہے۔

    قابل ذجر بات یہ بھی ہے کہ یہاں پنجاب کے وزیر بیت المال اور سماجی بہبود سہیل شوکت بٹ کا اپنا گھر بھی ہے اور اب کے گھر بھی چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عوام کا لیڈر ہی خود بجلی چور ہو تو اس کے علاقے کے لوگ چوری کی بجلی کیوں استعمال نہیں کریں گے؟

  • شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کروانا کتنا خطرناک ہے؟

    شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کروانا کتنا خطرناک ہے؟

    لاہور : شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کروانا بہت سے کاموں کیلیے ضروری ہوتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کام آپ کیلیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سر عام کی ٹیم نے فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں کے مالکان سے شناختی کارڈ کی سینکڑوں کاپیاں خرید لیں۔

    اس فراڈ کو پکڑنے کیلیے سر عام کی ٹیم نے گاہک بن کر لاہور کچہری کے پاس ایک فوٹو اسٹیٹ مشین والے سے یہ سودا کیا کہ وہ ہمیں معقول رقم کے عوض لوگوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں فراہم کرے گا۔

    اس قسم کے دکاندار لوگوں کے شناختی کارڈ کی ایک اضافی کاپی کرکے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں تاکہ انہیں مناسب ریٹ پر فروخت کیا جاسکے۔

    اسی طرح ایک اور آصف نامی دکاندار نے شناختی کارڈ بیچنے کی حامی بھری اور ٹیم سر عام کے نمائندے کو دوسرے دکاندار کے پاس بھیج دیا جس سے سودا طے پایا۔

    ٹیم سر عام سے گفتگو کرتے ہوئے ان دوںوں دکانداروں نے فوراً ہی اپنے جرم اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا، آصف نے بتایا کہ میرے چچا بھی اسی طرح یہ کاپیاں فروخت کرتے تھے۔

  • بینک ملازمین شہریوں کے چوری شدہ شناختی کارڈ کی فروخت میں ملوث

    بینک ملازمین شہریوں کے چوری شدہ شناختی کارڈ کی فروخت میں ملوث

    لاہور : ‏ملک میں شہریوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں بیچنے کا کاروبار عروج پر ہے، کس کا آئی ڈی کارڈ کب اور کہاں کس کے پاس نکل آئے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

    جرائم پیشہ اور دھوکہ باز عناصر اپنے مقاصد اور وارداتوں کیلیے ایسے شناختی کارڈ ہی استعمال کرتے ہیں تاکہ پکڑائی کی صورت میں شناختی کارڈ کا اصل مالک قانون کی گرفت میں آئے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لاہور میں کامیاب کارروائی کی اور ایسے لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔

    ٹیم سر عام نے آج کے پروگرام میں ایسے بھیانک رازوں کو فاش کیا کہ جس کو دیکھ کر ہر پاکستانی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے گا کیونکہ شناختی کارڈ کی کاپیاں فروخت کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

    سب سے خطرناک بات یہ سامنے آئی کہ بینک ملازمین بھی صارفین کے شناختی کارڈ کی کاپیاں فروخت کررہے تھے، ٹیم سرعام نے ایک ایسے ہی محمس رمضان نامی ملازم سے وہ کاپیاں خریدی تھیں۔

    پہلے تو اس نے یہ کام کرنے سے انکار کیا لیکن تھوری سی پس و پیش کے بعد اس کو اپنے جرم کا اعتراف کرنا پڑا۔ بینک منیجر سے بات کرنے پر انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے سنتے ہوئے اس شخص کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔

    اس کے علاوہ موبائل فون کمپنی کے مائیکرو فنانس بینک کا افسر شہباز احمد بھی اسی جرم کا مرتکب تھا، اس نے بھی انتہائی بے شرمی سے اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔

    مزید پڑھیں : جعلی شناختی کارڈ بنانے میں ملوث نادرا کے سابق افسران گرفتار

    اس سے زیادہ خطرناک بات یہ سامنے آئی کہ اس چوری شدہ شناختی کارڈز سے مائیکرو فنانس بینک کے اکاؤنٹس باآسانی بنائے جاسکتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موبائل ایپلی کیشنز نے بھی شناختی کارڈ پر کسی اور کے فنگر پرنٹس کو ویری فائی بھی کردیا۔ یہ صورتحال نادرا اور موبائل فون کمپنیوں کیلیے سوالیہ نشان ہیں۔

  • دس سالہ نرس اور جعلی ڈاکٹر مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگے، ویڈیو سامنے آگئی

    دس سالہ نرس اور جعلی ڈاکٹر مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگے، ویڈیو سامنے آگئی

    راولپنڈی : جعلی ڈاکٹر  نے دس سال کی معصوم بچی کو اپنے کلینک میں نرس بنا دیا، ناتجربہ کار بچی مریضوں کو انجکشن اور ڈرپ لگانے لگا کر ان کی زندگیوں سے کھیلنے لگی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں ایک خوفناک انکشاف ہوا کہ راولپنڈی کے ایک کلینک میں دس سال کی بچی غیر قانونی طور پر نرس کے فرائض انجام دیتے ہوئے مریضوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔

    اتائی ڈاکٹر خود تو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل ہی رہے ہیں اس پر مزید ظلم یہ کہ انہوں نے اپنے اسٹاف میں ان پڑھ ناتجربہ کار اور انتہائی کم عمر بچے بھی شامل کیے ہوئے ہیں۔

    یہ بچی راولپنڈی کے ایک کلینک میں نہ صرف روزانہ درجنوں مریضوں کو انجکشن اور ڈرپس لگاتی ہے بلکہ ٹیسٹ کروانے کیلئے لوگوں کا خون بھی نکالتی ہے۔

    اس کلینک میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے والے 50 سالہ شخص شیراز کے پاس نہ تو کسی قسم کی میڈیکل کی ڈگری اور نہ ڈسپینسر اور نہ ہی کسی کمپاؤنڈر کا تجربہ تھا لیکن گزشتہ کئی سال سے روزانہ سینکڑوں مریضوں کا معائنہ کرکے ادویات تجویز کررہا تھا۔ بات کرنے پر اس شخص نے اس حقیقت کا برملا اعتراف بھی کیا۔

    کلینک میں کام کرنے والی دس سالہ بچی نے بتایا کہ وہ گزشتہ چھ سال سے یہاں کام کررہی ہے یعنی 5سال کی عمر سے ہی اسے اس کام پر لگا دیا گیا۔

  • لاہور : پارکنگ مافیا کا راج، کارندے ڈاکو بن گئے

    لاہور : پارکنگ مافیا کا راج، کارندے ڈاکو بن گئے

    لاہور کے مختلف مقامات پر پارکنگ مافیا نے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارنا شروع کردیا، 10 روپے والی پرچی کے 30 روپے وصول کیے جارہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے پارکنگ مافیا کے کارندوں کو بے نقاب کردیا، لاہور کے جناح اسپتال علاج معالجے کیلئے آنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین سے روزانہ کی بنیادوں پر کروڑوں روپے لوٹے جارہے ہیں۔

    پروگرام سرعام کے میزبان اقرار الحسن نے پارکنگ فیس وصول کرنے والے کارندے سے اس حوالے سے دریافت کیا تو پہلے تو وہ صاف مُکر گیا کہ وہ بیس روپے ہی لیتا ہے۔

    لیکن وہاں موجود سب شہریوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہم سے بھی تیس روپے ہی وصول کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ شہریوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہیلمٹ رکھنے کے تیس روپے بھی علیحدہ سے وصول کیے جاتے ہیں۔

    پارکنگ مافیا کے کارندے شہریوں کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے رات 12 بجے کے بعد ریٹ دگنا کردیا جاتا ہے فی موٹر سائیکل 60 روپے لیے جاتے ہیں۔

    اس کے علاوہ کار کی پارکنگ فیس 30 روپے ہے لیکن 50 روپے لیے جارہے ہیں، پارکنگ مافیا شہر بھر میں یومیہ بنیادوں پر کروڑوں روپے کا چونا لگا رہا ہے۔

    ایم ایس جناح اسپتال ڈاکٹر کاشف جہانگیر نے ٹیم سرعام سے رابطہ کرکے اپنے آفس بلوایا اور کہا کہ وہ خود اس پارکنگ مافیا کے حوالے سے کچھ اہم گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ریونیو بڑھانے کا جو طریقہ ہے اس میں یہ پارکنگ فیس بھی ہے، کیونکہ اسپتال کے معاملات چلانے کیلیے جو بجٹ فراہم کیاجاتا ہے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے دس روپے اضافی لینے والی شکایت کا ازالہ کرنے کا بھی وعدہ کیا۔

    دوسری جانب لاہور کے میو اسپتال میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے یہاں بھی 20 کے بجائے 30 روپے لیے جاتے ہیں اگر کوئی بحث کرتے تو اس سے 20 روپے لیے جاتے ہیں۔

  • اچار کس گندگی اور غلاظت سے تیار کیا جاتا ہے؟ ویڈیو دیکھنے والے بھی حیران

    اچار کس گندگی اور غلاظت سے تیار کیا جاتا ہے؟ ویڈیو دیکھنے والے بھی حیران

    لاہور : پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ٹیم سرعام نے لاہور میں غیر معیاری اور مضر صحت اچار بنانے والے کارخانوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرتے ہوئے انہیں سیل کردیا۔

    اے آّر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کے میزبان اقرار الحسن نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عاصم جاوید کے ہمراہ شہر میں اچار بنانے والے مختلف کارخانوں پر چھاپے مارے اور وہاں صفائی ستھرائی کے معیار کو چیک کیا۔

    ٹیم سرعام اور فوڈ اتھارٹی افسران نے ایک بیابان علاقے میں قائم اچار بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی چھاپہ مارا اور حفظان صحت کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی پر مالکان کیخلاف قانونی کارروائی کی۔

    اچار کے کارخانے پر چھاپہ کے دوران دیکھا گیا کہ حفظان صحت کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں اور انتہائی غلیظ اور بدبو دار ماحول میں رکھی گئی کیریوں گاجروں اور اچار میں استعمال ہونے والی اشیاء میں پھپھوندی لگی ہوئی تھی۔

    پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران نے ٹیم سرعام کے سامنے فوری کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ اچار کے کارخانے کے مالک کیخلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے اور ساتھ ہی کارخانے کو سیل کرنے کی ہدایت بھی دی۔

  • لاہور : مضر صحت دودھ اور اس سے بنی اشیاء کی فروخت کا انکشاف

    لاہور : مضر صحت دودھ اور اس سے بنی اشیاء کی فروخت کا انکشاف

    لاہور : پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ٹیم سرعام نے لاہور میں غیر معیاری اور مضر صحت دودھ سپلائی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ہزاروں لیٹر ملاوٹ شدہ دودھ تلف کر دیا۔

    اے آّر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کے میزبان اقرار الحسن نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عاصم جاوید کے ہمراہ شہر میں دودھ کی مختلف دکانوں پر چھاپے مارے اور موبائل فوڈ لیب کے ذریعے دودھ کے معیار کو چیک کیا۔

    لیبارٹری ٹیسٹ میں دودھ کو مضر صحت اور غیر معیاری قرار دیے جانے کے بعد کئی دکانوں کو سربمہر کردیا گیا جبکہ کچھ دکانداروں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم اور فوڈ اتھارٹی کے عملے نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی اور موقع پر دودھ کے معیار کو چیک کر تے ہوئے ہزاروں لیٹر مضر صحت ملاوٹ شدہ دودھ موقع پر ہی تلف کروا دیا۔

    ایک دودھ کی دکان پر چھاپے کے دوران مضر صحت اور جعلی دودھ برآمد ہونے پر کئی من دودھ نالی میں بہا دیا گیا اور ساتھ ہی اس دودھ سے بنائی گئی دہی، قلفی اور اشیاء کو بھی ضائع کردیا گیا۔

    اس موقع پر ایک دودھ کی دکان میں دودھ کا سیمپل درست قرار دیا گیا کیونکہ اس میں اضافی پانی یا کسی قسم کی ملاوٹ نہیں پائی گئی۔

  • فیصل آباد : پاور لومز انڈسٹری تباہ، مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی

    فیصل آباد : پاور لومز انڈسٹری تباہ، مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی

    فیصل آباد میں پاور لومز انڈسٹری تباہ حالی کا شکار ہوگئی بجلی کے بے تحاشہ بلوں اور خام مال کی قیمتوں کے اضافے نے لومز مالکان کی کمر توڑ دی جس سے مزدور طبقہ بھی بے روزگاری کا شکار ہوگیا۔

    فیصل آباد کے علاقے غلام محمد آباد جسے فیصل آباد کا مانچسٹر بھی کہا جاتا ہے میں پاور لومز کے بےشمار چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں جو اس علاقے کی پہچان ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی نے اس شہر کی فیکٹریوں کو سنسان اور لومز کی آوازوں کو خاموش کردیا۔

    علاقے کی زیادہ تر فیکٹریاں بند پڑی ہیں ان پر دھول مٹی جمی ہوئی ہے دروازوں پر لگے تالے مزدوروں کی بےروزگاری اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں میزبان اقرار الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے غلام محمد آباد کے فیکٹری مالکان اور مزدوروں نے اپنے دکھ اور پریشانیاں بیان کیں۔

    اس موقع پر پاور لوم ورکرز کی نمائندہ تنظیم لیبر قومی موومنٹ کے چیئرمین بابا لطیف نے بتایا کہ اس صنعت سے 5لاکھ کارکن وابستہ ہیں، مالکان پیدواری نقصان سے بچنے کے لیے فیکٹریاں بند کر رہے ہیں، یہاں 2100 چھوٹے یونٹ ہیں جس میں سے 1200 بالکل بند پڑے ہیں اور مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کا عالم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکمران مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کی پالیسی پر کام ہی نہیں کررہے، ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا بل ہے اور یہ صرف لومز مالکان کا ہی نہیں ہر گھر کا مسئلہ ہے، جس لوم کا بل 3 لاکھ روپے آتا تھا اب 12 لاکھ روپے آتا ہے مالک کہاں سے پورا کرے گا۔

    ایک مزدور نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 12 سال سے لوم پر کام کررہا تھا ایک دن کام پر آیا تو جواب دے دیا گیا کہ کام ہی نہیں ہے تو ملازم کیسے رکھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ بندہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے کیوں کہ ہم سے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھا جاتا۔

    ٹھیکے پر کام کرنے والے ایک کارکن نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں گزشتہ کئی سال سے یہ کام کر رہا ہوں لیکن میں نے آج تک اس طرح کا بحران نہیں دیکھا، میں نے اپنے بچے کی پڑھائی چھڑوا کر اسے مزدوری پر لگوا دیا تاکہ کم از کم بچوں کا پیٹ تو بھرے۔

    اس کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کرایہ دار مکان کا کرایہ نہیں دے پارہا اور پر بجلی کے بل ڈبل سے بھی زیادہ ہوگئے جنہیں بھرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچنا پڑتی ہیں۔

  • انٹرنیٹ کی سست روی کی اصل وجہ کیا ہے؟ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ جانیے

    انٹرنیٹ کی سست روی کی اصل وجہ کیا ہے؟ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ جانیے

    ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس سست روی کا شکار ہے یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے جس کے سبب صارفین شدید مشکلات میں مبتلا جبکہ فری لانسرز، سافٹ ویئر ہاؤسز اور دیگر آئی ٹی سیکٹرز بھی بھاری مالی نقصان برداشت کر رہے ہیں۔

    اس حوالے سے لاہور کے لبرٹی چوک پر اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ مختلف افراد نے گفتگو کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    پروگرام کے میزبان اقرار الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ماہرین نے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پیش آنے والی مشکلات و مسائل کا ذکر کیا اور اس کے سدباب کیلئے اپنی تجاویز سے آگاہ کیا۔

    اس موقع پر ایک کانٹنٹ کریئٹر کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سیکیورٹی نیٹ ورک سسٹم ’فائر وال‘ کی تنصیب اور تجربات کی وجہ سے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی رفتار سست کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ آئی ٹی ایک ایسا سیکٹر ہے جو ملکی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے فیصلہ سازوں نے انٹرنیٹ کی سہولت ہی چھین لی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ مسئلہ کب اور کیسے حل ہوگا۔

    ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ اگر میں کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تو میرے لیے کوئی مشکل یا مسئلہ نہیں ہوتا، میرے اندر چاہے جتنی بھی صلاحیتیں ہوں مجھے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقامی تاجر نے بتایا کہ دنیا اس وقت فائیو جی پر کام کررہی ہے اور ہم سے تھری جی اور فور جی پر اٹکے ہوئے ہیں اور وہ بھی ٹھیک سے نہین چلا پارہے۔

    اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے

    ایک سافٹ ویئر ہاؤس سے وابستہ فینٹیک ایکسپرٹ یوسف جمشید کا کہنا تھا کہ جو لوگ نچلی سطح پر کام کررہے ہیں وہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

    وی پی این کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو بہت پہلے بھی چل رہا ہے بہت سے ممالک ہم سے براہ راست رابطے میں نہیں جس کی وجہ سے وی پی این کا استعمال ضروری ہے اور وہ ہوتا آیا ہے۔ بہت ساری ایپلی کیشنز بغیر وی پی این کے نہیں چلتیں۔

    یوسف جمشید نے کہا کہ حکومت نے ایک غیر تربیت یافتہ شخصیت سے اس کی وضاحت بیان کرواتی ہے جس کی لوگوں نے تردید کرتے ہوئے اس کا مدلل جواب دیا۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ لوگ اپنا کام دبئی شفٹ کررہے ہیں اس کے علاوہ آئی ٹی کے حوالے سے افرادی قوت پاکستان کے بجائے بھارت سے لی جارہی ہے۔

    مسئلے کا حل بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ دیگر ممالک کی طرح ایک پالیسی فریم مرتب کرے کہ سب کو اس دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے یا سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے لیکن نیٹ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید الجھن کا سبب بنے گا۔

    پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے

    سی ای او ایمبلم ٹیکنالوجی سلمان ارشد نے موجودہ حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، نااہل حکمران، لاعلم لوگ اور لاغرض پالیسی ساز پتہ نہیں اس ملک کے ساتھ کیا کرچکے ہیں اور مزید کیا کرنا چاہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یومیہ کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، ملک کی دیگر صنعتیں تو بحران کا شکار ہیں ہی اب آئی ٹی سیکٹر کو بھی تباہی کی جانب لے جایا جارہا ہے۔

    ایک اور آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ میں وی پی این سے متعلق حکومتی مؤقف سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں، انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے دو بڑے نقصانات ہورہے ہیں پہلا یہ کہ دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں ہمارے ٹاپ فری لانسرز کو اپنی جانب راغب کرنے کیلیے بڑے پیکجز دے رہی ہیں اور لوگ یہاں سے باہر جارہے ہیں۔

    اور دوسرا بڑا نقصان یہ کہ حکومت نے فری لانسرز سے یہ سہولت ہی چھین لی ہے اور اس کا الزام مختلف طریقوں سے دوسروں پر ڈالا جارہا ہے، جب ہر بچہ باہر جانے کی کوشش کرے گا تو آئی ٹی سیکٹر کیسے ترقی کرے گا؟

  • غریب عوام پنکھے کو ترس گئے،  افسران کی عیاشیاں، خالی دفتر بھی ٹھنڈے

    غریب عوام پنکھے کو ترس گئے، افسران کی عیاشیاں، خالی دفتر بھی ٹھنڈے

    ایک طرف پاکستان کے غریب عوام سارا سارا دن بجلی سے محروم اور مہنگائی سے مر رہے ہیں ہیں تو دوسری جانب سرکاری افسران بجلی کا استعمال ’مالِ مفت دل رحم‘ کی طرح کرتے ہیں۔

    اس کی ایک تازہ مثال واپڈا کے ایک دفتر میں نظر آئی، لاہور کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ’لیسکو‘ کے افسران کے خالی دفاتر میں بھی ایئر کنڈیشن (اے سی) بدستور چلتے رہتے ہیں۔

    ایسے وقت میں جب شہر میں بجلی کا شدید بحران ہے ان دفاتر میں درجنوں ایئر کنڈیشن (اے سی) سارا دن چلتے رہتے ہیں، اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لیسکو کے دفتر کا دورہ کیا تو مضحکہ خیز صورتحال دیکھنے میں آئی۔

    لیسکو کے اسی دفتر میں جہاں افسران کے خالی دفاتر میں ایئر کنڈیشن (اے سی) چلائے جارہے ہیں تو وہی بجلی کی بچت مہم کے حوالے سے لکھا ایک بینر بھی دیکھا جو بے بس عوام کو منہ چڑا رہا تھا۔

    ٹیم سر عام نے تین دن تک ان خالی دفاتر میں ایئر کنڈیشن (اے سی) چلانے کی ریکارڈنگ کی، افسر چاہے دفتر آئے یا نہ آئے ان کے شاہانہ دفاتر کے اے سی صبح نو بجے سے شام تک 16 ٹمپریچر پر چلا دیے جاتے ہیں۔

    اس موقع پر اپنے کام کے سلسلے میں آئے ہوئے واپڈا کے ایک ریٹائرڈ ملازم نے اس بے قاعدگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور ٹیم سرعام پر ہی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھ سے توہین آمیز لہجے میں بات کی لیکن جب انہیں ثبوتوں کے ساتھ ویڈیوز دکھائی گئیں تو انہوں نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔

    ٹیم سرعام کو دیکھ کر عمارت کے نچلے حصے میں موجود وہ دفاتر کے ایئر کنڈیشن (اے سی) بھی بند کردیئے گئے جس میں ملازمین بیٹھے کام کررہے تھے۔

    لیسکو کے ڈی جی ایڈمن نے ’ٹیم سرعام‘ کی ساری روداد سننے کے بعد کہا کہ اس مسئلے کے حل کیلیے قواعد مرتب کیے جائیں گے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔