Tag: ARY Sar e aam

  • سینٹرل جیل : سزائے موت کے قیدیوں کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟

    سینٹرل جیل : سزائے موت کے قیدیوں کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟

    قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، پنجرہ چاہے سونے کا ہی کیوں نہ ہو قید پھر قید ہے، آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر تب ہوتی ہے جب یہ نہ رہے۔

    قیدی انسان کتنا بے بس ہوتا ہے اس کا اندازہ جیل جاکر ہی ہوتا ہے جہاں زندگی میں آزادی کے سوا سب کچھ میسر ہوتا ہے پھر وہی آزادی دنیا کی سب سے قیمتی شے نظر آتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سرعام‘ کی ٹیم نے تین سال بعد ایک بار پھر سینٹرل جیل کراچی کا دورہ کیا، میزبان اقرار الحسن نے وہاں موجود قیدیوں کے مسائل اور ان کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے متعلق تفصیلات معلوم کیں۔

    سنٹرل جیل کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کرنے بعد سرعام کی ٹیم نے ’ڈیتھ سیل‘ میں موجود پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں سے خصوصی ملاقات کی اور ان کی زندگی سے متعلق گفتگو کی۔

    اس موقع پر کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سرتاج نامی قیدی نے سوال کے جواب میں باہر کے لوگوں کو پیغام دیا کہ جیل بہت بری جگہ ہے اپنی زندگی یہاں آکر برباد مت کرو۔

    نثار احمد نامی قیدی نے بتایا کہ مجھے یہاں 17 سال ہوگئے اب میرا گھر اور گھر والے سب یہی لوگ ہیں لیکن میری والدہ اور بچے بہت یاد آتے ہیں۔

    ایک اور سزائے موت کے نوجوان قیدی جہانگیر نے بتایا کہ وہ یہاں سال 2011 سے ہے، اس نے کہا کہ یہاں اپنا وقت دستکاری کرکے گزارتے ہیں، اس کا کہنا تھا کہ میری عدلیہ سے درخواست ہے کہ ہماری اپیلوں کی جلد سماعت کی جائے۔

    اقرار الحسن کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں یہ اچھی بات دیکھنے میں آئی کہ یہاں قیدیوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، یہاں کی ہریالی، رنگ و روغن، کچن کے معاملات اور قیدیوں کی اصلاح کیلیے کیے جانے والے اقدامات لائق تحسن ہیں۔

    پروگرام کے آخر میں جیل سپرنٹنڈنٹ عبدالکریم عباسی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نفرت جرم سے کی جاتی ہے مجرم سے نہیں، ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو انسان سمجھ کر اس سے سلوک کیا جائے اور جو شخص اسلحے کے جرم میں یہاں آیا ہے جب وہ واپس جائے تو اس کے ہاتھ میں قلم یا برش ہو تاکہ وہ معاشرے کا اچھا شہری بن سکے۔

  • ایک بوسیدہ قبر کھودی تو دیکھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! گورکن کی آنکھوں دیکھا واقعہ

    ایک بوسیدہ قبر کھودی تو دیکھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! گورکن کی آنکھوں دیکھا واقعہ

    کراچی : شہر قائد میں بے حساب بڑھتی ہوئی آبادی اور بلند و بالا رہائشی فلیٹوں کے قیام اور ارباب اختیار کی مؤثر منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث قبرستانوں میں قبر کی جگہ کا ملنا ناممکن ہوگیا ہے۔

    شہر میں جگہ کے فقدان کے باعث نئے قبرستانوں کی تعمیر بھی التوا کا شکار ہے، غریب شہریوں کے لیے اپنے پیاروں کی تدفین بھی ایک گھمبیر مسئلہ بن چکی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سرعام‘ میں میزبان اقرار الحسن نے کراچی کے مختلف قبرستانوں کی صورتحال کا جائزہ لیا اور سینئر گورکن سے ملاقات کرکے ناظرین کو مسائل سے آگاہ کیا۔

    سخی حسن قبرستان  کے عبد الواحد نامی گورکن نے بتایا کہ وہ اس تیسری نسل سے تعلق رکھتا ہے جو اس قبرستان میں گزشتہ چار صدیوں سے تدفین کے فرائض انجام دے رہی ہے، انہوں نے بتایا کہ اب یہاں پر قبر کی جگہ بالکل نہیں ہے لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں کو کھلوا کر یا اسی کے اوپر مردوں کو دفنا دیتے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے ھم نے کوئی ایسی قبر کھودی جس کا کوئی والی وارث نہیں اور اس کی حالت بھی انتہائی خستہ تھی لیکن پتہ چلا کہ اس قبر کا مردہ بالکل تازہ حالت میں موجود ہوتا ہے، اس قسم کی قبروں کے رکھوالے ہم خود بن جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کس قبر کا کیا حال ہے یہ ایک راز ہے جس کو پوشیدہ رکھنا ہمارا فرض ہے، اس کے بارے میں ہم کسی سے کوئی ذکر نہیں کرتے۔

    علاوہ ازیں کراچی کے پیشتر قبرستانوں میں دو تین منزلہ قبریں بھی دستیاب ہیں، جگہ کی شدید کمی کے باعث لوگ اپنے مردوں کو قبر کے اوپر قبر بنا کر دفنا رہے ہیں۔