Tag: اے آر وائی خصوصی

  • سالِ نوکے منتخب اشعار

    سالِ نوکے منتخب اشعار

    کیا آپ کو سالِ نو کی مبارک باد دینے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ، لیجیے ہم آپ مشکل منتخب اشعار کے ذریعے آسان کردیتے ہیں۔

    سال 2024 اپنی تمام تر ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے اور سال 2025 کچھ ہی دیر گھنٹوں بعد اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوجائے گا، اس حسین لمحے میں اپنے دوستوں، رشتے داروں ، قرابت داروں اور ان کو جو آپ کے دل کے قریب ہیں ، شعر کے ذریعے مبارک باد دیں کہ اس کا لطف ہی کچھ اور ہے ۔

    آپ کی سہولت کے لیے ہم نامور شعرا کے کلام میں سے سالِ نو کے حوالے سے اشعار منتخب کیے ہیں ، اور ہمیں قوی امید ہے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی شعر آپ کے حالات و جذبات کی ترجمانی کررہا ہوگا۔

    دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
    غالب

     

    آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
    جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

    احمد فراز

     

    اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
    لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی

    حفیظ میرٹھی

     

    کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
    تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

    پروین شاکر

    آنے والا ہے دورِ خاموشی
    گفتگو ہے گنوار پن، دم لے
    جون ایلیا

     

    منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
    ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے
    افتخار عارف

     

    یہ کس نے فون پے دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
    تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
    علی سردار جعفری

     

    اب کے بار مل کے یوں سالِ نو منائیں گے
    رنجشیں بھُلا کر ہم نفرتیں مٹائیں گے
    نامعلوم

     

    نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
    خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے

    نامعلوم

  • پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

    خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد جہاں میڈیا پر سیاست دانوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے رائے کا اظہار اور مباحث جاری ہیں، وہیں عوام بھی سرد موسم میں‌ اسی گرما گرم موضوع پر تبصرے کررہے ہیں اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    آئیے پرویز مشرف کی ذاتی زندگی، فوج میں ان کی خدمات اور دورِ اقتدار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    آئین شکنی کیس میں سزائے موت پانے والے پرویز مشرف کا تعلق دہلی سے ہے۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے قبل دہلی میں مقیم تھا۔ پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کے والد نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور کراچی آگئے۔ ان کے والد سید مشرف الدین نے پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں اور سفارت کار کی حیثیت سے متحرک رہے۔
    پرویز مشرف کا بچپن ترکی میں گزرا۔ یہ 1949 سے 1956 تک کا زمانہ تھا جب ان کے والد ترکی کے شہر انقرہ میں تعینات تھے۔
    1961 میں پرویز مشرف پاکستان ملٹری اکیڈمی کا حصّہ بنے اور 1964 میں سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی کی۔
    1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے بعد پرویز مشرف ان افسران میں سے تھے جنھیں بہادری کی اعزازی سند دی گئی۔
    1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
    1991 میں انھیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
    7 اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی اسٹاف اور 9 اپریل 1999 کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر ہوئے۔
    12 اکتوبر 1999 پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا جب اس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹاکر نئے آرمی چیف کا اعلان کیا، مگر ان کی معزولی کے بعد پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔
    20 جون 2001 کو پرویز مشرف ملک کے صدر بنے۔
    30 اپریل 2002 کو ملک میں پرویز مشرف کے حق میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا گیا۔
    2003 میں پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔
    ستمبر 2006 میں پرویز مشرف کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر منظرِ عام پر آئی۔
    پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کیا تھا۔

    مشرف دور کے متنازع اقدامات
    پاکستان میں حدود آرڈیننس میں ترمیم، جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے عام طور پر این آر او کہا جاتا ہے مشرف دور کے متنازع فیصلے اور اقدامات مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان آپریشن اور اکبر بگٹی کی شہادت کا واقعہ، عافیہ صدیقی کا معاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات اور نظر بندی بھی متنازع رہی۔

  • سکھ چین: پاکستان میں‌ پایا جانے والا ایک خوب صورت درخت

    سکھ چین: پاکستان میں‌ پایا جانے والا ایک خوب صورت درخت

    سکھ چین ہماری زبان یا بولی کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔

    اسے ایک جملے میں یوں سمجھ لیجیے: ‘‘ہم سب مل جل کر رہنا اور سکھ چین سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔’’
    انسان نے اپنی عقل اور فہم کے مطابق، اپنی سہولت اور آسانی دیکھتے ہوئے یا اپنی خواہش، جذبات اور احساسات کے زیرِ اثر دنیا میں موجود بے جان اشیا اور جان داروں کو نام دیے ہیں۔ ہم جس سکھ چین کی بات کررہے ہیں وہ ایک درخت ہے۔

    یہ درخت ایک طرف تو اپنی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میں ہمیں سستانے کا موقع دیتا ہے اور دوسری جانب یہ ماحول کی بقا اور زمین کی حفاظت میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ درخت جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگستانوں تک نظر آتا ہے۔ اسے ہندوستان اور دیگر علاقوں میں مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔

    کہیں یہ کارنج ہے تو کسی کے لیے پونگ، پونگم اور کوئی اسے ہونگ کے نام سے شناخت کرتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ سکھ چین کہلایا جس کی مختلف وجوہ ہیں جس میں سب سے اہم اس درخت کا گھنا اور سایہ دار ہونا ہے۔

    یہ درخت عام طور پر گرم اور مرطوب علاقوں میں پنپتا ہے۔ چین، ملائیشیا اور آسٹریلیا میں بھی سکھ چین پایا جاتا ہے۔ نباتات کے مطاہرین کے مطابق یہ پندرہ اور پچیس میٹر تک اونچا ہوسکتا ہے۔ عموماً اس کا پودا ہر قسم کی زمین میں جڑیں پکڑ لیتا ہے جیسے ریتیلی، چٹانی اور اس جگہ بھی جہاں زمین میں چونا پایا جاتا ہے۔

    سکھ چین ہماری زمین اور ماحول کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی گھنی جڑیں مٹی کا کٹاؤ روکتی ہیں اور ریت کے ٹیلوں کو مستحکم کرنے میں اسے مثالی قرار دیا جاتا ہے۔

  • سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی بصیرت میں ممتاز و یگانہ شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ یہی ہیں بلکہ عالمِ اسلام میں سید سلیمان ندویؒ کو ان کی مذہبی فکر، دینی خدمات اور قابلیت کی وجہ سے نہایت عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ ایک اتفاق ہے کہ آج 22 نومبر کو دنیا کے افق پر نمودار ہونے والا یہ آفتاب اس مٹی کو علم و حکمت کی کرنوں سے ضیا بار کر کے اسی روز ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا. اردو ادب کے نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور قابلِ قدر کتابوں کے مصنف کا ایک بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کاشانۂ علم و فضل ان کا احسان مند رہے گا۔

    ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی تھے جنھوں نے سیرت کی پہلی دو جلدیں لکھیں، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 1914 کو ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس میں تحقیق اور مہارت کی ضرورت تھی جسے بلاشبہہ انھوں نے خوبی سے نبھایا۔ دارُالمصنفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 1884 کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخلہ لیا جہان انھیں علامہ شبلی نعمانی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور صلاحیتوں کو اجالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد سلیمان ندوی نے جون 1950 میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کے بعد وطنِ عزیز کے لیے آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ پاکستان کے دستور کا اسلامی خطوط پر ڈھالنا تھا۔ اس حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے ساتھ مل کر آپ نے دستور کے راہ نما اصول مرتب کیے۔ پاکستان آمد کے بعد سید سلیمان ندوی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور 1953 میں کراچی میں وفات پائی۔

    آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی۔ ان کی تدفین اسلامیہ کالج کے احاطے میں کی گئی۔ ان کی تصانیف میں عرب و ہند کے تعلقات، یادِ رفتگاں، سیرِ افغانستان، حیاتِ شبلی وغیرہ شامل ہیں۔

  • جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید بھائی جون کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ضرور ہوتے تھے، مگر مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    علمی مباحث اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے جون ایلیا تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات، سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے۔

    آج نظم اور نثر پر یکساں قادر، منفرد اسلوب کے حامل اورعظیم تخلیق کار جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔
    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔

    آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جون ایلیا نے روایت سے ہٹ کر اپنے محبوب سے براہِ راست کلام کیا۔ یہ قطعہ دیکھیے:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    یہ شعر ملاحظہ ہو:

    اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
    کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک ہی مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا، شاید۔ اس کتاب کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے۔ اس کتاب کے ان چند صفحات نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    جون ایلیا کی شاعری نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا۔ ان کا حلیہ، گفتگو اور مشاعرے پڑھنے کا انداز بھی شعروسخن کے شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ وہ اپنے عہد کے ایک بڑے تخلیق کار تھے، جس نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا رسوا، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا خوف زدہ نظر نہیں آتے۔ وہ بات کہنے اور بات بنانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

    بہت نزدیک آتی جارہی ہو
    بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا ایک شاعر، مصنف، مترجم اور فلسفی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور عبرانی بھی جانتے تھے اور ان کے کلام میں ان زبانوں کے الفاظ اور تراکیب پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    جون ایلیا نے زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، سمجھا، اور اپنے انداز سے گزارا۔ وہ کسی کی پیروی اور تقلید کے قائل نہ تھے۔ ان کا باغی طرزِ فکر، ہر شے سے بیزاری اور تلخی ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

    جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
    ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بہ خدا نہیں کیا

    8 نومبر 2002 کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کا ایک شعر ہے:

    ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
    دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

  • ماحول دشمنی برداشت نہیں،  ’’سیپا‘‘ کا دو ٹوک مؤقف

    ماحول دشمنی برداشت نہیں، ’’سیپا‘‘ کا دو ٹوک مؤقف

    ایک ادارے میں پچھلے دنوں کسی کام سے جانے کا اتفاق ہوا۔ جن صاحب سے ملاقات تھی، وہ ایک میٹنگ میں مصروف تھے۔ وقت گزاری کے لیے ویٹنگ روم میں ٹیبل پر دھرا اخبار تھام لیا۔ خبریں نظر سے گزرتی رہیں۔ انہی میں ایک خبر تھی فضائی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف ادارۂ تحفظِ ماحولیات (سیپا) کی کارروائیوں کی۔ ابتدائی سطور پڑھیں تو پہلے تو یہ الجھن ہوئی کہ ادارۂ تحفظِ ماحولیات کا مخفف ‘‘سیپا’’ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس ادارے کے ساتھ ہی قوسین میں سیپا لکھ دیا گیا تھا۔ ایک عام اور کم فہم قاری کے لیے تو یہ ایک عجیب ہی بات تھی۔ خیر، اس کا جواب پوری خبر پڑھنے سے مل ہی گیا۔ یہ ادارہ سندھ انوائرونمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ہے جو اس وقت وزیر اعلی سندھ کے مشیر ماحولیات و قانون اور حکومتی ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب کی ہدایات پر ماحولیاتی بقا اور بہتری کے لیے متحرک و فعال ہو چکا ہے۔

    ہم اپنے قارئین پر نجانے کیوں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ کرپشن، وعدہ خلافی، دھوکا دہی اور اس قسم کی دیگر آلودگیوں کے خلاف کام نہیں کرتا۔ بہرحال، بیرسٹر مرتضی وہاب کی جانب سے فضائی آلودگی کے خلاف مہم کا اعلان ہونے کے بعد اب سیپا میدانِ عمل میں ہے جو سندھ دھرتی اور اس کے باسیوں کے مفاد میں اور ایک خوش آئند بات ہے۔

    قارئین، فضائی آلودگی اور ماحولیات کا مسئلہ دنیا کے لیے دردِ سر بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر ماحول کے تحفظ، زمین اور اس پر موجود جانداروں کی بقا اور صحت کے حوالے بڑے پیمانے پر کام کرنے اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ جدید اور ترقی یافتہ ملکوں نے اس حوالے سے کام شروع بھی کر دیا ہے، مگر ابھی ہمارا زور دھرنوں، استعفوں، الزامات اور اسی قسم کے دیگر معاملات پر ہے۔ سرکاری و نجی اداروں کے تحت کوئی گرین پاکستان مہم ہو یا وزیراعظم عمران خان کی شجر کاری میں ذاتی دل چسپی اور کوششیں ہمیں سب سے پہلے اس حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا شماران ملکوں میں ہوتا ہے جہاں قدرتی ماحول اور زمین کو مختلف اقسام کی آلودگی سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ اس پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے دنوں میں بدترین صورتِ حال جنم لے سکتی ہے۔ اب سندھ میں حکومتی سطح پر اقدامات کا آغاز ہوا ہے تو اسے نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ بلاتفریق اور اس سلسلہ کو ہر قسم کے دبائو کے بغیر آگے بڑھانا ہو گا۔ یہ ہماری بقا کا معاملہ ہے۔

    حال ہی میں سیپا نے ٹھٹھہ کے علاقے دھابیجی میں معیار اور صنعتی قوانین کو نظر انداز کرنے والی فیکٹری کے خلاف کارروائی کی ہے۔ استعمال شدہ دھاتی اشیا کی ری سائیکلنگ کرنے والی یہ فیکٹری فضائی آلودگی پھیلا رہی تھی جس سے سانس اور جلد کے امراض سمیت صحت کے لیے دیگر مسائل جنم لے رہے تھے۔ اسی طرح سیپا کی ٹیم نے بلدیہ کے علاقے میں بیٹریاں پگھلانے والے غیر قانونی کارخانوں پر چھاپے مارے جن کی وجہ سے نہ صرف ماحول آلودہ ہو رہا تھا بلکہ وہاں کے مکینوں کی صحت بھی متاثر ہورہی تھی۔ حالیہ دنوں میں ضرر رساں فضلہ تلف کرنے کی تین سائنسی بھٹیوں (انسنریٹرز) کو تلفی کا ناقص طریقہ اپنانے پر نوٹس دیا گیا ہے۔ سندھ کے ہر ذمہ دار باسی، ہر باشعور فرد کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس کا دائرہ ماحولیات کے تحفظ اور بقا سے متعلق دیگر شعبوں تک بڑھائے اور خاص طور پر چھوٹے پیمانے کے کارخانہ داروں کو اس ضمن میں آگاہی دے کر انھیں ماحول دوست بننے میں مدد دے۔

  • محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر  اپنی فکر،  اپنے نظریے اور تخیل سے اردو  زبان اور ادب کو  یوں مرصع و آراستہ کرگئیں کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ اس تحریر سے نئی نسل کو  ایک نہایت قابل و  باصلاحیت مدیر، لکھاری اور خصوصاً عصرِ حاضر کی خواتین کے لیے ایک مدبر و مصلح کی زندگی اور خدمات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

     آئیے، محمدی بیگم کی زندگی  کے اوراق الٹتے ہیں۔

    دہلی کے نواحی قصبے شاہ پور  میں 1879ء  آنکھ کھولی۔ والد سید احمد شفیع اسٹنٹ کمشنر  تھے۔ والد باذوق اور  روشن خیال تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو بنیادی تعلیم کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق تربیت اور تہذیب سے آراستہ کیا۔

    محمدی بیگم کا حافظہ قوی تھا۔ اُن کا شمار ذہین بچوں میں ہوتا تھا، کم عمری میں لکھنے پڑھنے کے ساتھ، امورِ خانہ داری سیکھے۔  کم عمری ہی میں کتب بینی کا شوق اور علم و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی اور یہی سلسلہ آگے چل کر  ہفتہ وار مجلّہ تہذیبِ نسواں، ماہ نامہ مشیرِ مادر جیسے رسائل اور دیگر تصانیف تک پھیل گیا۔

    محمدی بیگم 19 برس کی تھیں جب اُن کی شادی سید ممتاز علی سے ہوئی جو خود بھی ایک مصنف، مترجم اور ناشر تھے۔ ان کی پہلی زوجہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ محمدی بیگم کو ایک عورت ہونے کے ناتے نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں نبھانا تھیں بلکہ انہیں اپنے شوہر اور اُن کے بچوں کی نگہداشت کے ساتھ تربیت بھی کرنا تھی جو انہوں نے بہت اچھے انداز سے کی اور خود کو ایک بہترین شریکِ حیات کے ساتھ اچھی ماں ثابت کیا۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طو ر پر یاد کیا جاتاہے۔

    سید ممتاز علی ایک روشن خیال اور بیدار مغز انسان تھے۔ انھوں نے محمدی بیگم کی قابلیت اور  صلاحیتوں کو دیکھ کر مسلم عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ محمدی بیگم نے اپنے رفیقِ حیات کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں تہذیبِ نسواں اور خواتین میں بیداری سے متعلق انجمن کی بنیاد پڑی۔

    شادی کے بعد خاوند نے محمدی بیگم کی ضرروی تعلیم کا بند و بست کیا، انھوں نے گھر پر انگریزی، ہندی اور  ریاضی سیکھی جب کہ شوہر نے انھیں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جس کے  بعد محمدی بیگم نے عورتوں کے لیے رسالے کی ادارت سنبھالی۔  1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر  بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔

    یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا ۔تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف کے عنوانات سے ظاہر ہے کہ محمدی بیگم کی تحریروں کا محور عورت اور ان مضامین کا مقصد زندگی اور رشتوں کے ساتھ عملی زندگی سے آگاہی دینا تھا۔  آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی۔ ہندوستان میں خواتین کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لیے دن رات محنت اور لگن سے کام کرنے والی محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔


    تحریر: عارف عزیز

  • سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 31 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، ان کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا جو آج تک خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

    جنرل ضیا الحق نے سنہ 1977 میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائی کورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے 31 سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے طیاروں میں آم کی پیٹی میں بم رکھا گیا تھا۔

  • انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    ہر شخص کو موت آ لے گی، سوائے آرٹسٹ کے۔

    آرٹسٹ اپنے آرٹ کے وسیلے زندہ رہتا ہے۔ آرٹ ہی آب حیات ہے، یہی صدیوں تک جینے کا نسخہ ہے۔ یہی باقی رکھتا ہے۔

    انور سجاد اپنی اساس میں ایک آرٹسٹ تھے، ایک مکمل آرٹسٹ۔ چاہے وہ فکشن لکھ رہے ہوں، یا ہاتھ میں برش ہو، یا رقص میں ان کے پاؤں تھرکتے ہوں، یا ان کی باکمال آواز  ہماری سماعتوں میں اترتی ہو، ہمیشہ ایک آرٹسٹ ہمارے روبرو ہوتا۔

    جدید افسانے کے اس سرخیل، اس باکمال فکشن نگار سے متعلق، اس دل پذیر شخص سے متعلق اردو کے چند اہم ادیبوں سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا: مستنصر حسین تارڑ

    اردو کے ہر دل عزیز  ادیب، ممتاز فکشن نگار اور سفر نامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر کہا، انتظار حسین، عبداللہ حسین، یوسفی صاحب اور اب انور سجاد؛ بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد ادب کے باغ کی (خوشیوں کا باغ کی) آخری بہار تھی، آخری خوش نوا، خوش آثار، خوش کمال آخری بلبل تھی جو، نغمہ سنج ہوتی  رخصت ہوگئی، اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔

    تارڑ صاحب کے مطابق انور سجار، سریندر پرکاش اور بلراج من را کے ساتھ جدید افسانے کے بانیوں‌ میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ہاں ایک خاص ردھم تھا، زبان پر بڑی گرفت تھی. انور سجاد نے جدید اردو افسانے پر دیرپا اثرات مرتب کیے، 90 فی صد جدید کہانی کار ان ہی کے انداز کی پیروی کرتے ہیں، البتہ ان کے ہاں وہ ردہم مفقود ہے.

    ان کے مطابق انور سجاد کی مثال اس ماڈرن آرٹسٹ کی تھی، جو کلاسیکی آرٹ پر بھی گرفت رکھتا ہے، جو تجریدی اسٹروک سے پہلے سیدھی لکیر کھینچا جانتا ہے، بعد والوں میں یہ فن کم  دکھائی دیا. اللہ  مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سفرِ آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے.

    وہ علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ نئی تحریک کے بانی تھے: محمد حمید شاہد

    ممتاز نقاد اور فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ان افراد میں‌ سے تھے، جنھوں نے اردو فکشن کا مزاج بدلا، انتظار حسین نے ماضی  میں اپنا تخلیقی جوہر ڈھونڈا، انور سجاد نے حال اور لمحہ موجود سے جڑ کر اپنا ادب تخلیق کیا، علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ وہ نئی تحریک کے بانی تھے.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد نے اپنے معاصرین پر گہرے اثرات مرتب کیے. ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منفرد شے ہے، انھوں نے زندگی کو الگ انداز میں محسوس کیا، نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے، البتہ فکشن میں‌اپنی راہ الگ بنائی. ڈرامے بھی خوب لکھے، صدا کاری کی رقص کیا، مصوری کی.

    فکری طرح پر بہت واضح تھے، بڑے انسان تھے، لکھنا ترک کر دیا، مگر اپنا کام کر گئے. لکھنایوں  چھوڑا کہ انھیں لگا کہ وہ خود کو دہرا رہے ہیں، ایک بار انتظار حسین سے بھی کہہ دیا کہ اب آپ بھی لکھنا چھوڑ دیں۔ المختصر انھوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا.

    انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے: رفاقت حیات

    معروف فکشن نگار رفاقت حیات کے مطابق منٹو کے بعد جن افراد نے فکشن میں‌نئی جہت متعارف کروانے کی کوشش کی، ان میں‌انتظار حسین اور انور سجاد کا نام اہم ہے. منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘‘ ان کے سامنے ایک مثال تھا.

    انور سجاد منٹو کی حقیقت نگاری کے بجائے علامت کی طرف گئے، گو وہ کچھ جلدی چلے گئے، ابھی حقیقت نگاری میں بہت کام باقی تھا، مگر انھوں نے معیاری فکشن لکھا.

    ان کا سب سے اچھا کام ان کے افسانوں میں سامنے آیا. انتظار حسین اور انور سجاد نے آدمی کے اندر کی دنیا، ٹوٹ پھوٹ کو منظر کیا، خارج سے ہٹ کر اس کے باطن کی طرف متوجہ کیا. اس کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت نگار  بھی اِس سمت متوجہ ہوئے، انھوں‌نے توازن قائم کیا.

    رفاقت حیات کے مطابق  آج ناول میں‌ جو تجربات ہورہے ہیں، زبان اور پلاٹ کے حوالے سے، ان کی ابتدائی مثالوں‌ میں ان کا ناول "خوشیوں کا باغ” اہم ہے. انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے.

  • ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن آہنی عزم کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ 12 فروری 1809 کو امریکا میں ایک جوتے بنانے والے شخص کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر نکلا۔

    ابراہم لنکن نے اپنی زندگی کی ابتدا سے لےکر آخری لمحے تک جاں توڑ محنت کی تھی ، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ امریکی امراء کے لیےجوتے بھی تیار کیے، بطور ڈاکیا اور کلرک انتھک محنت کی، اپنی ذاتی کاوشوں سے قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

    آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ابراہم لنکن ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ سنہ 1856ء میں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور سنہ 1860ء میں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے ۔ ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر آیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، 1864ء میں وہ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ، تاہم 15 اپریل سنہ 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

    اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔

    امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کےبعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔

    ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن نے حبشیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں ، اور بالاخر سنہ 1863 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں آزاد قرارد یا۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کا اپنےجیسے انسان کی غلامی میں ہونا غیر فطری ہے۔

    ان کے کارناموں میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ شامل ہےبلکہ انہوں نے امریکی تاریخ کےمشکل ترین دور یعنی خانہ جنگی کے دور میں مرکز کو سنبھالے رکھا اور خانہ جنگی کو خاتمے کی جانب لے کر گئے، یاد رہے کہ اس جنگ کا شمار تاریخ کے خونی ترین خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔

    دریں اثناء جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئینی اور سیاسی بحرانوں کا بھی سامنا کیا اور مدبرانہ انداز میں ان کا حل نکالا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت کے سبب امریکی یونین ( ریاست ہائے متحدہ امریکا) اپنا وجود برقرار رکھ سکی، غلامی کا خاتمہ ہوا اور وفاق کو استحکام ملا۔

    بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ امریکا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا، جن کی مدد سےامریکا آنے والی چند دہائیوں میں سپر پاور کے رتبے پر فائز ہوگیا، اور آج تک اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

    15 اپریل 1865 ، امریکی صدر ابراہم لنکن کو واشنگٹن میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ایک تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گئے اور امریکہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔

    غالب امکان یہی کیا گیا کہ صدر کا قاتل ایک امریکی اداکار جان بوتھ تھا جس نے یہ حرکت اکیلے ہی کی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش کے تحت کیا گیا تھا جس میں 8 افراد شامل تھے اور صرف صدر ہی نہیں بلکہ نائب صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

    کوہ رشمور پر تراشا گیا ابراہم لنکن کا مجسمہ

    ابراہم لنکن ان چارامریکی صدورمیں شامل ہیں جنہیں اپنے عہدہ صدارت کے دوران قتل کردیا گیاتھا۔ ابراہم لنکن کے قاتل جان ولکس بوتھ نامی کواس قتل کے بارہ روز بعد امریکی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔

    اس سازش میں شریک افراد میں سے چار کو سزائے موت اور دوسرے چار افراد کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں۔لنکن کے قتل کی سازش پر ایک فلم’دی کانسپریٹر‘ کے نام سے بنائی گئی تھی جس کا افتتاحی شو اسی تھیٹر میں منعقد کیا گیا جہاں ابراہم کا قتل ہوا تھا۔ لنکن ان چند افراد میں شامل ہیں جن پر بلاشبہ ہزار سے زائد کتب تحریر کی گئی ہیں۔