Tag: اے آر وائی خصوصی

  • ملک بھر میں آج پچاسواں یوم دفاع ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے

    ملک بھر میں آج پچاسواں یوم دفاع ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے

    کراچی: ملک بھرمیں یوم دفاع کی گولڈن جوبلی انتہائی جوش وجذبے کےساتھ منائی جارہی ہے۔

    آج ملک بھر میں یوم دفاع بھرپور جوش و جذبے سے منایا جائے گا، 50 ویں یوم دفاع کا آغاز دفاقی دار الحکومت میں 31 اور صوبائی دار الحکومتوں میں 21 ، 21 توپوں کی سلامی سے آغاز ہوا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں یوم دفاع کی گولڈن جوبلی کے موقع پر مزار اقبال پر جنرل راحیل شریف کی جانب سے برگیڈیئر بلال جاوید نے پھولوں کی چادر چڑھائی، جبکہ کراچی میں مزار قائد پر گارڈز کے تبدیلی کی تقریب منوقد کی گئی۔

    چھ ستمبر 1965 کو آج ہی کے دن پاکستان افواج کے بہادر سپوتوں نے دشمن کو کاری ضرب لگا کر منہ توڑ جواب دیا تھا، جو تا دنیا تک یاد رہے گا، اس جنگ میں مٹھی بھر فوج نے اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو ناکو چنے چبوا دیئے تھے۔ اس دن شہید ہونے والوں کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں، جب کہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    war 1

    اس دن کی مناسبت سے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر مختلف پروگرامز بھی نشر کیے جاتے ہیں،  یوم دفاع ہمیں ملکی دفاع اور وقار کی خاطر ڈٹ جانے کا سبق دیتا ہے، جب ہمارے سپاہیوں، غازیوں اور شہیدوں ملک کے خاطر اپنی جانوں کو پیش کیا۔

    پچاس سال قبل 6 ستمبر 1965 کو دشمن کی جارحیت کے جواب میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی۔ بری ، بحری،  فضائی اور جہاں مسلمان فوجیوں نے دفاع وطن میں تن من دھن کی بازی لگائی وہیں پاکستان میں بسنے والی اقلیت بھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں پیش پیش رہی۔

    چھ ستمبر کو دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والے شیردل جوانوں نے مذہب اور فرقے سےبالاتر ہو کر وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کیا، ایئر مارشل ایرک گورڈن ہال نے آزادی کے بعد پاک فضائیہ کے انتخاب کو ترجیح دی جبکہ وہ بھارتی ایئر فورس کا انتخاب بھی کر سکتے تھے، جنگ چھڑی تو انہیں احساس ہوا کہ پاک فضائیہ کے پاس بمبار طیاروں کی کمی ہے۔

     انہوں نے سی ون تھرٹی ٹرانسپورٹ طیارے میں تبدیلی کی اور اسے بمباری کے قابل بنایا، ان طیاروں کی مدد سے انہوں نے لاہور کے اٹاری سیکٹرمیں بھارت کے ہیوی توپ خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

     اسی طرح پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے لیفٹینٹ میک پسٹن جی سپاری والا نے بلوچ ریجمنٹ کی قیادت میں بھارتی سورماوں کو خاک چٹا دی تھی ان کے علاوہ ایئرفورس پائلٹ سیسل چودھری، اسکورڈرن لیڈر ڈیسمنڈہارنے، ونگ کمنڈر نزیر لطیف، ونگ کمانڈر میرون لیزلی اور سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی سمیت بے شمار اقلیتی برادری نے مقدس سرزمین پر بھارت کے ناپاک قدم روکنے کے لیے سر ڈھڑ کی بازی لگا دی تھی۔

    پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں لاہور کے تین اطراف سے حملہ کیا تو عالمی سطح پر بھی بھارت کے اس مکار انہ رویے کی شدید مذمت کی گئی ۔ پاکستان کے سدا بہار دوست چین نے اپنی افواج کے ایک بڑے حصے کو بھارتی بارڈر کے ساتھ لا کھڑا کیا تھا اور مبصروں کے مطابق اسی خوف کی وجہ سے دشمنوں کے بزدل حکمران سیز فائر پر مجبور ہو گئے۔

    war 3

    یوم دفاع کا آغاز ہوتے ہی عوام نے آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کر کے اپنے جوش و جذبے اور پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اور دیگر سیاستدانوں نے عوام کو یوم دفاع کی بھرپور مبارکباد دی ہے اور شہدائے پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ عظیم دن داد ِ شجاعت دینے والے جاں بازوں اور شہیدوں کو عقیدت کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔

     

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    کراچی: جب قومی نغموں میں جذبہ اور وطن سے محبت کا جنون شامل ہو اور توقومی ترانے کی مدھر دھن اور سر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوز کرنے کا ساماں ہوتے ہیں  اور جذبہ ایمان بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے ہیں ۔

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا، اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا۔

    پاک فوج اور وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے چند ملی نغمے اسے بھی ہیں  جو کئی دہائیوں سے ہر محب وطن کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج کے بہادری اور جذبے کیا ذکر کیا گیا ہے۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    پاکستان کے مشہور و معروف گلوکاروں کے چند  ایسے ملی نغمے جن تخلیق کے بعد سے کبھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی مندرجہ ذیل ہیں۔

    حال ہی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے شہدا آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے یاد میں ایک نغمہ پیش کیا جس پورے ملک میں بہت پزیرائی حاصل کی۔

  • آج ملک بھر میں یوم آزادی ملی جوش و جذبہ سے منایا جارہا ہے

    آج ملک بھر میں یوم آزادی ملی جوش و جذبہ سے منایا جارہا ہے

    کراچی: آج اہل ِ پاکستان اپنا انسٹھواں یوم ِ آزادی منارہے ہیں پاکستان میں یومِ آزادی جسے یوم استقلال بھی کہا جاتا ہے۔

    ہرسال 14 اگست کوبرطانوی راج اور ہندو سامراج سے آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

    ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہےاوراسلام آباد جو کہ پاکستان کادارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اسکے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔

    ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیواور ٹی وی پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔

    سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگاکر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائداعظم محمد علی جناح کے قول "ایمان، اتحاد اور تنظیم” کی پاسداری کریں گے۔

    سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب، تقاریر اور مذاکروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش توقابل دید ہوتا ہے جہاں مختلف تقاریب کے علاوہ دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں سیروتفریح سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ رہائشی علاقوں ، ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیر راہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں علاوہ ازیں مقبرہء قائداعظم پر سرکاری طور پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے ۔ اسی طرح واہگہ باڈر پر بھی ثقافتی تقاریب میں احترامی محافظوں کی تبدیلی کا عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ سرحد پار کرنے والے قیدیوں کی دوطرفہ رہائی بھی ہوتی ہے۔

  • جامعہ کراچی میں جشن آزادی کی بھرپور تقریبات

    جامعہ کراچی میں جشن آزادی کی بھرپور تقریبات

    کراچی: جامعہ کراچی میں جشن آزادی کی تقریبات بھرپور انداز میں منائی گئیں ، اساتذہ ، طلبا اور تدریسی و غیر تدریسی عملے نے پاکستان سے محبت کا والہانہ اظہار کیا۔

    کراچی میں جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر ہیں، بڑوں کے ساتھ بچے بھی تیاریوں میں مشغول ہیں، تیرہ اگست کو جشن آزادی کی مناسبت سے جامعہ کراچی میں ہر سال کی طرح اس سال بھی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

    یونیورسٹی میں ریلی کی مرکزی تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں اساتذہ اورمختلف شعبہ جات کے طلبہ وطالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    اس موقع پر طلبہ کا کہنا ہے کہ کافی عرصے بعد کراچی کے عوام صحیح معنوں میں جشن آزادی روایتی جوش و جذبے سے منانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سال دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ سمیت جرائم کے واقعات کم ہوئے ہیں اور شہر میں امن قائم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔

    طلبہ کا کہنا تھا کہ ہم بھرپور یوم آزادی منانا چاہتے ہیں۔

  • قہقہوں سے بھرپور فلم ’رانگ نمبر ‘ کی تعارفی تقریب

    قہقہوں سے بھرپور فلم ’رانگ نمبر ‘ کی تعارفی تقریب

    کراچی (رپورٹ : شاہ جہاں خرم  / تصاویر پیار علی ) وائی این ایچ فلمز کی پیشکش اور اے آروائی فلمز کی جانب سے ریلیز ہونےوالی فلم رانگ نمبر قہقوں سے بھرپور ایک زبردست تفریحی فلم ہے ، جس کا پاکستانی فلم بینوں کا شدت سے انتظار تھا، یہ فلم اس عید الفطر کو نمائش کیلئے پیش کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے مقامی ہوٹل میں فلم رانگ نمبر کی تعارفی تقریب  منعقد ہوئی، جس میں معروف اداکار جاوید شیخ، شفقت چیمہ، دانش تیمور، وقار علی ،محسن علی، دانش نواز اداکارہ سوہائی علی ابڑو ودیگر نے شرکت کی۔

    نامور اداکار اور ہدایتکار یاسر نواز کی سلور اسکرین کیلئے بطور ڈائریکٹر یہ پہلی فلم ہے، فلم رانگ نمبر مزاح، ایکشن، ڈرامہ اور رومان سے بھرپور فلم ہے ۔

    رانگ نمبر میں برجستہ تنزو مزاح کے حوالے سے فلم کے ڈائریکٹر یاسر نواز کاکہنا ہے کہ یہ فلم مزاحیہ موضوعات کیلئے میرے جنون کی واضح عکاسی کرتی ہے ،انہوں نے کہا کہ رانگ نمبر کے نام سے بننے والی فلم کیلئے یقین ہے کہ یہ فلم عوام کو مکمل تفریح فراہم کرے گی اور انہیں مسکرانے پر مجبور کرے گی ۔

    وقار علی کی ترتیب دی ہوئی موسیقی اور محسن علی کے قلم سے نکلے ہوئے لوٹ پوٹ کردینے والے مکالموں کے باعث فلم شائقین کیلئے ایک موضوع بن چکی ہے۔

    فلم کے گانے زاہد حسین نے ترتیب دیئے ہیں جو فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلیں گے۔ اے آروائی فلمز کے مطابق پاکستانی سینما تیزی سے ترقی کررہا ہے ۔


    Kundi VIDEO Song (Wrong Number) Pakistani Movie…

    مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی جارہی ہیں، اے آروائی فلمز کو اس بات کا فخر ہے کہ وہ رانگ نمبر کی ریلیز کے ذریعے فلم بینوں کیلئے سینما کی ایک نئی نسل کو پروان چڑھانے کے حوالے سے پیش رو کا درجہ رکھتے ہیں۔

    رانگ نمبر مکمل طور پر پاکستان میں بنائی گئی ہے ، تمام تکنیکی کام پاکستان میں مکمل کیا گیا ہے۔

    اے آروائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو ایم جرجیس سیجا نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری اے آروائی کے بینر تلے پاکستان میں بنائی گئی ہر فلم کے ساتھ پھلتی پھولتی جاری ہے ۔

    انہوں نے کہا کہ اے آروائی فلمز کی کوشش  ہے کہ فلم بینوں کو ہر بار مختلف قسم کی فلمیں پیش کی جائیں۔


    Wrong Number HD Official Movie Teaser Trailer…

  • آج اردو کے نامور شاعرسید آل رضا کی تاریخ پیدائش ہے

    آج اردو کے نامور شاعرسید آل رضا کی تاریخ پیدائش ہے

    سید آل رضا 10 جون 1896 ء کو قصبہ نبوتنی ضلع اناﺅ (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے۔

    سید آل رضا نے 1916ء میں کنگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ءمیں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کرکے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔

    سن 1921ءمیں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے جہاں 1927ءتک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ءکے بعد دوبارہ لکھنومیں سکونت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور پھر ساری عمر اسی شہر میں گزاری۔

    سید آل رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ءمیں انھوں نے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ءمیں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”نوائے رضا“ لکھنؤ سے اور 1959ءمیں دوسرا مجموعہ ”غزل معلیٰ“ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت کم غزلیں کہیں اور تمام ترصلاحیتیں نوحہ و مرثیہ کے لئے وقف کردیں۔

    سن1939ءمیں انہوں نے پہلا مرثیہ کہا جس کا عنوان تھا ”شہادت سے پہلے“ دوسرا مرثیہ 1942ءمیں جس کا عنوان تھا ”شہادت کے بعد“ یہ دونوں مرثیے 1944ءمیں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔

    قیام پاکستان کے بعد نورباغ کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ”شہادت سے پہلے“ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے۔

    کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے۔ یکم مارچ 1978ءکو سید آل رضا وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہاہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہاہے

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن ہرسال 5جون کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 1974 سے منایا جارہا ہے۔

    ماحولیات کاعالمی دن منانے کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے عالمی حدت میں روز بروزخطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے لوگوں میں مہلک وبائی امراض پیدا ہورہے ہیں۔

    ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پرقابو پانے کےلئے ماحولیاتی تنظیمیں برسرپیکار ہیں جبکہ سائنسدان بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماحولیاتی تنظیموں اورسائنسدانوں کی مشترکہ کاوشوں سے ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پرقابو پانے کےلئے قانون سازی کرنے پرمجبور ہوگئی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گرین ہاﺅسزگیسوں کے اخراج کی وجہ سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    دوسری جانب پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب پانی کی آلودگی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق 80 فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے، لہٰذا خوشگوار اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ماحولیاتی مسائل پر قابوپانا انتہائی ضروری ہے۔

    ماحولیاتی آلودگی کے باعث قطب شمالی و جنوبی میں موجود متعدد گلیشیئرتیزی پگھل رہے ہیں جس سے سمندری طوفان کے شدید خطرات لاحق ہیں، جبکہ گرین ہاس گیسز سے ماحول کو مسلسل پہنچنے والے نقصانات کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھرمیں زلزلے، طوفان اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے موجودہ دنیا اورآنے والی نسلوں کو بھی خطرہ ہے۔

    پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں گزشتہ ایک سوسال کے دوران درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافے کی ایک بڑی وجہ یہاں کے جنگلات کی مسلسل کٹائی بھی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا کہ نئی نسلوں کو بہترماحول اورصحت مند زندگی دینے کے لیے تمام ممالک کا فرض ہے کہ وہ کرہ ارض میں فطری ماحول میں تبدیلی جو انسانی اعمال کی وجہ سے آرہی ہے اس کو روکنے میں اپنا کردارادا کریں۔

    اس سال اقوام متحدہ نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے عالمی دن کو ’’سات ارب خواب، ایک زمین، احتیاط سے استعمال کیجیئے‘‘ منتخب کی ہے۔

  • فلمی دنیا کو ’’رنگیلا‘‘ سے محروم ہوئے دس برس بیت گئے

    فلمی دنیا کو ’’رنگیلا‘‘ سے محروم ہوئے دس برس بیت گئے

    آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے دورِ عروج کے لازوال کردارسعید خان المعروف ’’رنگیلا‘‘ کی دسویں برسی ہے۔

    رنگیلا کی شخصیت اپنے اندرکئی پہلوسموئے ہوئے تھی وہ ایک عظیم اداکار، گلوکار، ہدایت کاراور مصنف تھے۔ انہوں نے فلم انڈسٹری پر ایسے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔

    ذاتی زندگی


    رنگیلا کا اصل نام محمد سعید خان تھا۔ وہ یکم جنوری 1937ء کوضلع ننگرہار، افغانستان میں پیدا ہوئے۔ انہیں نوعمری سے ہی جسمانی ورزش کا بہت شوق تھا۔اس شوق کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ اداکار نہ ہوتے تو شاید باڈی بلڈر ہوتے۔

    ذریعہ معاش کی خاطر انہوں نے مصوری سیکھی اورایک پینٹر کی حیثیت سے رزق کمانے کے لئے پہلے پشاور ہجرت کی لیکن یہاں زیادہ کامیابی ہاتھ نہ آتے دیکھ کر بالاخرلاہورکا رخ کیا جہاں قسمت نے ان کے ساتھ یاوری کی اور وہ پینٹر کی حیثیت سے فلمی سائن بورڈ تیار کرنے لگے۔

    فنی زندگی


    فلمی بورڈ بنانے کے ذوق و شوق نے جب جنون کی کیفیت اختیار کی تو رنگیلا نے فلموں میں بطور اداکار کام کرنے کی ٹھانی۔ یہ دور تھا 1958ء کا۔ اس سال رنگیلا نے بطور اداکار پنجابی فلم "جٹی” سے اداکاری کا آغاز کیا۔ یہ فلم ایم جے رانا نے ڈائریکٹ کی تھی فلم کا ریلیز ہونا تھا کہ ان کے پرستار بنتے چلے گئے اور فلم دیکھنے والوں کا سینما ہالوں پر رش لگ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلم "جٹی” راتو ں رات ہٹ ہوگئی۔

    اداکار کی حیثیت سے خود کو منوانے کے بعد رنگیلا نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا اور پہلی فلم ’’دیا اور طوفان‘‘ کی ہدایت کاری کی کی۔ اس فلم نے بھی رنگیلا کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ اس کے بعد انہوں نے بطور فلمساز بھی قسمت آزائی کا فیصلہ کیا اور’’رنگیلا پروڈکشنز‘‘ کے بینرتلے فلمسازی شروع کردی۔ انہوں نے کئی فلمیں پروڈیوس کیں جنہیں بہت پسند کیا گیا۔

     گیارہ ستمبر 1970ء کو ان کی فلم ’’رنگیلا ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے مرکزی کردارادا کیا تھا۔ یکم اکتوبر 1971ء کوان کی ایک اور کامیاب ترین فلم ’’دل اوردنیا‘‘ ریلیز ہوئی جس میں رنگیلا کے علاوہ حبیب اورآسیہ بھی ساتھی اداکروں کے طور پر جلوہ گر ہوئے تھے۔

    ایوارڈز اوراعزازات


    رنگیلا نے دل اور دنیا، میری زندگی ہے نغمہ، رنگیلا، نوکر تے مالک، سونا چاندی، مس کولمبو، باغی قیدی اور فلم تین یکے تین چھکے جیسی کامیاب فلموں کے لئے بہترین اسکرین پلے رائٹر، بہترین کامیڈین، بہترین مصنف اور بہترین ڈائریکٹر کی حیثیت سے انیس سو ستر، اکہتر، بہتر، بیاسی، تراسی، چوراسی، چھیاسی اور انیس سو اکیانوے میں 9مرتبہ نگار ایوارڈ زحاصل کئے جو ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔

    رنگیلا کو 2004 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔

    بیماری اور انتقال


    رنگیلا کو گردوں، جگراورپھیپھڑوں کا عارضہ لاحق تھاجس کے علاج کے لئے انہیں کئی کئی مہینے اسپتال میں گزارنے پڑے۔ آخر کاروہ انہی امراض کے ہاتھوں آج ہی کے دن یعنی 24 مئی 2005ء کو لاہور میں 68 سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ انہوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی آٹھ بیٹیاں اور چھ بیٹے ہیں۔

  • فلم تین بہادر پوری فیملی کے لئے ہے، شرمین عبید

    فلم تین بہادر پوری فیملی کے لئے ہے، شرمین عبید

    کراچی: تین بہادر فلم کی ہدایتکارہ شرمین عبید نے کہا ہے کہ فلم میں بچوں کے ذریعے بہادری اور ملک وقوم کیلئے کچھ کرگزرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

    پاکستان کی پہلی اینی میٹڈ فلم تین بہادر کا پوری قوم کو بے چینی سے انتظار ہے، پروگرام ایلیونتھ آر میں اینکر پرسن وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تین بہادر فلم کی ہدایتکارہ شرمین عبید کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان میں کسی نے بچوں کی مارکیٹ کا استعمال نہیں کیا،تین بہادر فلم پاکستان کے بارے میں ہے۔

    شرمین عبید نے بتایا کہ میرے بچوں سے کوئی پوچھے کا تو بتائیں گے کہ ان کا سپر ہیرو کون ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم صرف بچوں کے لئے نہیں ہے بلکہ پوری فیملی کے لئے ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ پاکستان میں سپر ہیرو کا تصور آرہا ہے جو چلے گا نہیں بلکہ دوڑے گا، فلم میں بچوں کے ذریعے بہادری اور ملک وقوم کیلئے کچھ کرگزرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فلم گانے اور جزبات سے بھرپور ہے ، فلم کے ڈائیلاگ کو والدین اور بچے الگ الگ طرح سے لینگے، انہوں نے کہا ہر بچے کا اپنا سپر ہیرو ہوتا ہے جیسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی نہ کسی کو جمپ لگانا پڑھتا ہے ، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پہلے جمپ لگاتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں پہلے ڈاکومنٹری بناتی تھیں سب کہتےتھے پاکستان میں نہیں بن سکتی، لیکن بارہ سال بعد مجھے آسکر ایوارڈ ملا۔

    پروگرام ایلیونتھ آر میں اینکر پرسن وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اے آروائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال کا کہنا ہےتین بہادر میں بچے سپر ہیرو ہیں، آئندہ سال اے آروائی فلمز نو فلمیں لا رہاہے۔

    سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیئے، اے آر وائی ہر دو ماہ بعد ایک فلم بنا رہا ہے ۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مختلف انداز کی فلم ہوگی، پانچ سال میں پاکستان کی فلمی صنعت بھارت کے برابر ہوگی۔

    شرمین عبید کی خدمات کو سرہاتے ہوئے اے آروائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال نے کہا کہ شرمین عبید نے اس فلم کے لئے بہت محنت کی ہے ۔

    پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اداکار و ہدایتکار یار نواز کا کہنا تھا کہ یہ تین نہیں چار بہادر ہیں ،شرمین عبید بھی ایک بہادر ہیں جنہوں نے یہ قدم اٹھایا، ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر میں بھی سکتا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ فلم بنانے یہی سوچ ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ آئیں، انہوں نے کہا کہ  فلم میں اپنا پن رکھا ہے اپنے علاقے رکھے ہیں اس وقت لوگوں کو اپنی فلم چاہیے ، انہوں نے کہا کہ شرمین کو ایسے نظریہ کے انتخاب پر میں چوتھا بہادر سمجھتا ہوں۔

  • رقص کا عالمی دن – رقص میں ہے سارا جہاں

    رقص کا عالمی دن – رقص میں ہے سارا جہاں

     دنیا بھرمیں رقص کاعالمی دن منایا جارہاہے اس موقع پردنیا بھرمیں رقص کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔

    رقص لطیف انسانی جذبات اورہاتھوں اورپیروں کی متوازن حرکات کی ہم آہنگی کا نام ہے۔ رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی رقص کونسل نے 29 اپریل کو رقص کے عالمی دن کی حیثیت سےمنانے کا فیصلہ کیا تب سے آج تک یہ دن دنیا بھرمیں منایاجاتا ہے۔

    دنیابھرمیں رقص کا عالمی دن منانے کا مقصد رقص کی مختلف اقسام کوفروغ دینا اور علاقائی ثقافتی سرمائے کو تحفظ دینا ہے۔

    رقص پاکستان کی ثقافت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ’موہن جو دڑو‘کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا کانسی کا مجسمہ ہے۔ پاکستان میں لوک رقص کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے اور ملک کے تمام علاقوں کے اپنے مقامی رقص ہیں جن سے ان علاقوں کی ثقافت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

    پنجاب میں بھنگڑا اورلڈی بے پناہ مقبول رقص ہیں اور ہر خوشی و مسرت کے موقع پر ان کا اہتممام کیا جاتا ہے۔

    بلوچستان میں چاپ اورجھومر نامی رقص بے پناہ مقبول ہیں۔

    خیبرپختونخواہ میں خٹک، کھوار اور کیلاش ڈانس کوعوام میں بے پناہ پسند کیا جاتا ہے اور شادی بیاہ ومسرت کے مواقع پران کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    سندھ کا مزاج صوفیانہ ہےاور یہاں دھمال اور ہو جمالو نامی رقص عوام میں معروف و مقبول ہیں جن کا اہتمام ہر خوشی کے موقع اور عوامی تقریبات میں کیا جاتا ہے۔