Tag: اے آر وائی خصوصی

  • زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    کراچی (ویب ڈیسک ) – قدرتی آفات میں زلزلے کا شمارانسان کے سب سے ہولناک اورتباہ کن دشمنوں میں ہوتا ہے انسانی تاریخ میں جتنا نقصان زلزلے نے کیا آج تک کسی قدرتی آفت نے نہیں کیا جس کی تازہ مثال رواں ماہ نیپال میں آنے والے زلزلہ ہے جس میں اب تک سارھے چار ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 2005 میں پاکستان میں آنے والا زلزلے کا شمار انسانی تاریخ کے ہولناک ترین حادثوں میں ہوتا ہے جس میں لگ بھگ 85 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔

    گزرے وقتوں میں جب سائنس اورٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی. کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کواپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے. مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے. اسی طرح ہندودیو مالائی تصوریہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجو د ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔

    سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراس طرح ہرنئے سا نحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے. یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیرہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم ہوجاتی ہواوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہےمثلاً سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں، انکی شدت اوران کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اوراس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ۔۔ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔

    بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اوردوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے .میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اورکچھ اوپرکو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے.

    زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفرکرتی ہیں اورماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

    دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں.پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے. سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں. ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔

    زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کرناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جس کی مثال 2004 ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔

  • ٹیپو سلطان کے زیر استعمال اسلحہ لندن میں نیلام

    ٹیپو سلطان کے زیر استعمال اسلحہ لندن میں نیلام

    لندن : برصغیر میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے میسور کے ٹیپو سلطان کے زیر استعمال اسلحہ لندن میں نیلام کر دیا گیا۔

    لندن کے آکشن ہاوس نے ٹیپو سلطان کے زیر استعمال بندوق، تلواروں کا سیٹ، زرہ بکتر اور دیگر نوادرات سمیت 30 اشیاء نیلامی کے لئے پیش کیں۔

     ان نودرات میں تلواروں کی جوڑی، تیر، قیمتی ہیلمٹ، توپ، شکار کے لئے استعمال کی جانے والی بندوق بھی شامل تھی۔سب سے زیادہ بولی قیمتی تلواروں کے سیٹ کی لگی جو 32 لاکھ 26 ہزار 902 ڈالر میں فروخت ہوا۔

    Sword

    ٹیپو سلطان کے زیر استعمال گولے پھینکنے والی توپ 21 لاکھ 36 ہزار 540 ڈالر میں فروخت ہوئی جب کہ ان کے زیر استعمال بندوق 10 لاکھ 82 ہزار 124 ڈالر میں فروخت ہوئی۔

  • غالب کے اشعارکوتصویرکرنے والے فنکار – شاہد رسام

    غالب کے اشعارکوتصویرکرنے والے فنکار – شاہد رسام

    کہا جاتا ہے کہ شاعر لفظوں سے تصویر تخلیق کرتا ہے تو مصور یہی کمال رنگوں سے انجام دیتا ہے لیکن اگر یہ دونوں فن یکجا ہوجائیں تو کیا ہی کہنے۔ جی  ہاں !خدائے سخن مرزا غالب کی غزلوں  کو رنگوں کا لبادہ پہناتے ہوئے تصویرکرنے کا کام انجام دیا ہے معروف مصور شاہد رسام نے۔

    شاہد رسام نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  فنونِ لطیفی کی مختلف اصناف جیسے شاعری، مصوری اور موسیقی سب ایک ہی ہیں بس اظہار کی زبان مختلف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ شاعری کے بچپن سے مداح ہیں اور اپنے کام کے دوران بھی شاعری سے انکی جذباتی وابستگی ان پر سوار رہتی ہے۔

    شاہد رسام کاکہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی مصنف و شاعر گلزار کے ساتھ ’غالب‘ نامی ڈرامے کے لئے کام کیا ، اس دوران ان پر غالب کی زندگی کے کئی گمشدہ گوشے ابھر کرسامنے آئے۔

    انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے برصغیر میں آفاقی موضوعات کا رحجان انگریزوں کے آنے سے ہوا لیکن یہ حقیقت نہیں ہے انگریزوں کے عمل دخل سے پہلے غالب آفاقی شاعری کرچکے تھے۔

    شاہد نے بتایا کہ ان کی غالب پر 150 سے زائد تخلیقات ہیں جن کی وہ جلد نمائش کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    شاہد رسام کا مکمل انٹرویو

  • کروڑوں کمانے والے بالی وڈ ستاروں کی پہلی تنخواہ آشکار

    کروڑوں کمانے والے بالی وڈ ستاروں کی پہلی تنخواہ آشکار

    بالی وڈ کے چند ستارے ایسے ہیں کہ جو زندگی وہ جیتے ہیں ہم سب کا خواب ہے کہ ویسی ہی زندگی جئیں ان کی فلمیں کروڑوں کا منافع کماتی ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مشہور ہونے سے قبل یہ سب ہماری اور آپ کی طرح عام آدمی تھےاور انہیں بھی کسبِ معاش کی فکر ستاتی تھی۔
    ص
    یہاں ہم چند نامور بالی وڈ ستاروں کی پہلی کمائی آپ سے شیئر کررہے ہیں۔

    امیتابھ بچن

    بالی وڈ میں اینگری ینگ مین کا خطاب پانے سے پہلے امیتابھ ایک شپنگ کمپنی میں ملازم تھے اور ان کی ماہانہ تنخواہ  500 روپے تھی۔ جب امیتابھ بچن مشہور ہوئے اور اپنے وقت کی بڑی اداکاراوٗں جیسے جیابچن، ریکھا، ہیما مالنی وغیرہ کے ساتھ اسکرین پرجلوہ گر ہونے لگے تو انہیں ان کی محنت کازبردست معاوضہ ملنا شروع ہوا۔

    دھرمیندر

    بالی وڈ کے ناموراداکار دھرمیندرنے 1960 میں اپنی پہلی فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے‘ میں کام کرنے کا معاوضہ 51 روپے وصول کیا تھا۔ بعد ازاں شعلے فلم کا ویرو فلمی افق کا درخشاں ستارہ بن گیا اور نا صرف خود بلکہ ان کے دونوں بیٹے سنی دیول اوربوبی دیول 90 کی دہائی میں بالہ وڈ کے مرکزی اداکاروں میں شامل تھے۔

    شاہ رخ خان

    کنگ خان کہلانے والے شاہ رخ خان نے بالی وڈ پر حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجانے سے پہلئ شاہ رخ خان نے کانٹوں بھری راہ گزر پرسفرکیاہے۔ وہ سینما گھر میں ٹکٹ فروخ کیا کرتے تھے اور انکی پہلی تنخواہ 50 روپے تھی۔ یہ ان کا ماضی تھا اوراب ان کی فلم اربوں روپے کا منافع کماتی ہے۔

    ریتک روشن

    امیرو کبیر راکیش روشن کے فرزند ریتیک روشن کو کبھی بھی پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اداکاری کا معاوضہ نہیں لیا۔
    سن 1980 میں ریلیز ہونے والی ان کی پہلی فلم ’آشا‘ کا معاوضہ انہیں 100 روپے ملا تھا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ انہوں نے اس سوروپے کا کیا کیا؟ انہوں نے اسی دن اس سے اپنے لئے کھلونا کار خریدی تھی۔

  • اپنی انڈسٹری اورسینما کوسپورٹ کرنا چاہیے، سلمان اقبال

    اپنی انڈسٹری اورسینما کوسپورٹ کرنا چاہیے، سلمان اقبال

    کراچی: ملکی تاریخ کی پہلی مکمل میڈ اِن پاکستان فلم جلیبی کے حوالے سے کراچی میں میٹ دی پریس پروگرام منعقد کیا گیا۔

    رواں سال کی پہلی پاکستانی فلم جلیبی بیس مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے سنیما گھروں میں تہلکہ مچانے کو تیارہیں۔ جیسے اے آر وائی فلمز ریلیرز کرے گا۔جلیبی کی منفرد کہانی اورجاندار کاسٹ فلم کو ایک بلاک بسٹر میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

    میٹ دی پریس پروگرام میں فلم جلیبی کے ڈائریکٹر اور کاسٹ نے اے آر وائی نیٹ ورک کی سرپرستی میں مزید انتہائی معیاری پروڈکشن کیلئے عزم کا اظہارکیا۔

    اےآر وائی کی فلم "جلیبی” کےحوالےسےمیٹ دی پریس میں اےآروائی کےصدر اورسی ای اوسلمان اقبال کا کہناتھاکہ فلم میں اداکاروں نے بہترین کام کیا،قوم کو چاہیے کہ وہ فلم انڈسٹری کوسپورٹ کرے۔

    سلمان اقبال کا کہناتھا کہ اے آر وائی نیٹ ورک نے ’میڈ ان پاکستان‘کوپروموٹ کرنےکابیڑااٹھارکھاہے۔

    صدراورسی ای اواےآروائی نیٹ ورک سلمان اقبال کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی مصنوعات پر فخر ہے،فلم جلیبی اس کی بہترین مثال ہے،اپنی انڈسٹری اور سینماکو سپورٹ کرناچاہئے۔

    اے آر وائی نیٹ ورک کے بانی سلمان اقبال نے کہا کہ 2013 میں ہم نے اے آر وائی فلمز کے نام کا یہ پلیٹ فارم پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا اور تب سے اس سیکٹر میں ہم نے غیر معمولی ترقی دیکھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے اب تک ایک مختصر لیکنک دلچسپ سفر طے کیا ہے جس کے دوران ہماری بہتر فلموں نے پاکستان اور بیرون ملک لوگوں کے دل جیتے ہیں، ہمیں اس بات پر بہت خوشی ہے کہ  آج بہت سی اچھی پاکستانی فلمیں بڑی اسکرین پر سامنے آرہی ہیں۔

     

    فلم جلیبی کے مصنف اور ہدایتکار یاسر جسوال نے کہا ہے کہ  جلیبی پاکستانی فلمی دنیا میں ایک نیا ذائقہ متعارف کرانے کی پُرخلوص کاوش ہے۔

    فلم جلیبی کے ایگزیکٹوپروڈیوسرسید مرتضیٰ شاہ نے کہا کہ  جلیبی اپنی نوعیت کی پہلی پاکستانی فلم ہے جو ملکی اور غیر ملکی سطح پر ہمارے ناظرین کی توقعات پر یقیناَ پورا اترے گی۔

     اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد جرجیس سیجا کا کہناتھا کہ  یہ  فلم ایک ہائی کوالٹی پرڈکشن ہے ۔ جو تمام عالمی معیارات پر پورا اترتی ہے۔  

    انہوں نے کہا کہ  یہ فلم خالص پاکستانی فلم ہے جس کی پروڈکشن ، مارکیٹنگ سے لے کر ڈسٹری بیوشن تک ہر مرحلہ پاکستانی کمپنیوں نے سرانجام دیا ہے جو کہ ملکی وسائل اور ٹیلنٹ کا بہترین استعمال ہے۔

     

    دوسری جانب بحریہ ٹاون کے سربراہ ملک ریاض نے ٹیلی فون کے زریعے میٹ دی پریس میں شرکت کی،بحریہ ٹاون کے سربراہ نےفلم جلیبی کے10ہزار ٹکٹ خرید لیے، انہوں نے اعلان کیا کہ میڈان پاکستان پروڈکشن کیلئےپرممکن تعاون کااعلان کیا ہے۔

     

    چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کا کہنا تھا کہ جلیبی جیسی فلمیں بنائیں بحریہ ٹاؤن سپورٹ کرے گا، انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاون ہر اس کام میں ساتھ دے گا جس میں پاکستان کی بہتری ہے۔

     

    اے آر وائی فلمز کی کاوش ایکشن ، سسپینس ، اور رومانس سے بھرپور فلم جلیبی کی کہانی دودوستوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جو غلطی سے خطرناک گیگسٹر کے چنگل میں پھنس جاتے ہے۔

    فلم میں دانش تیمور اور علی سفیہ مرکزی کردار ادا کریں گے۔دیگر فنکار وں میں وقارعلی خان، ژالےسرحدی ، ساجد حسین ، سبیکا امام، عدنان جعفر اور عزیر جسوال شامل ہیں ۔

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

  • جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے ممتاز شاعر جمال احسانی کی بر سی ہے۔ جمال 21 اپریل 1951 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔
    انتہائی منفرد اور ممتاز لب و لہجے کے شاعر جمال احسانی کالج اوریونیورسٹی کے نوجوانوں میں بے پناہ مقبول تھے۔

    یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
    یہ رنج ہے کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

    آپ نے تین شعری مجموعے تحریر کئے جن میں تارے کو مہتاب کیا، رات کے جاگے ہوئے، ستارۂ سفر شامل ہیں۔ آپ کا تمام تر کلام کلیاتِ جمال کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

    ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
    سرکٹانا ہے توہتھیارنہ ڈالیں جائیں

    جمال نے اپنی ابتدائی تعلیم سرگودھا میں ہی حاصل کی اوراس کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اورپھریہیں کے ہورہے۔

    تعلیم کے بعد محکمۂ اطلاعات ونشریات ،سندھ سے منسلک ہوگئے۔اس کے علاوہ جمال احسانی روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا پرچہ’’رازدار‘‘ بھی نکالتےرہے۔ وہ معاشی طور پر بہت پریشاں رہے۔

      تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
    کوئی بھی عکس اگربے مثال رہ جاتا

     آپ کے کلام میں بے ساختگی اور شائستہ پن تھا اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کی محرومیوں کا کرب بھی تھا اور ان کے کلام کا یہی جزو انہیں نوجوانوں میں منفرد بناتا تھا۔۱۹۸۱ ء میں سوہنی دھرتی رائٹرزگلڈ ایوارڈ ملا۔

    جمال احسانی 10 فروری 1998 کو 47 سال کی مختصرعمرمیں کراچی میں وفات پاگئے،انکی وفات پرمقبول شاعر جون ایلیاء نے ایک معرکتہ الارآ مختصر مرثیہ کہا تھا جس کا نمائندہ شعر کچھ یوں ہے کہ،

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب توجاکےکہیں دن سنورنے والے تھے

  • پانچویں کلاس تک اسکول پڑھا، میرا

    پانچویں کلاس تک اسکول پڑھا، میرا

    کراچی: اے آروائی نیوز کے مارننگ شو میں بھی صنم بلوچ سے دل کی باتیں کیں، میرا نے مارننگ شو میں اپنی کہانی  سنادی۔

    تنازعات پر میرا کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کی طرح اپنی صفائی نہیں دے سکتی، میرا نے شکوہ کیا کہ غلط اردو بولنے پر کوئی نہیں ٹوکتا مگر میری غلط انگریزی پر باتیں بنائیں۔

    میرا نے یہ بھی بتایا کہ پانچویں کلاس تک اسکول پڑھا پھر میں نے شوبز میں کام شروع کردیا ، اسی لئے انگلش میں تھوڑی پرابلم ہے۔ میرا کا کہنا تھا کہ میں اب تک فلم انڈسٹری میں کام کررہی، وینا اور ریما کی شادی ہوگئی اور وہ باہر چلی گئی۔

    انھوں نے کہا کہ میں نے اسپتال کا پروجیکٹ شروع کیا ، انڈیا اور پاکستان میں پہلے کسی نے اس بارے میں نہیں سوچا ، میں نے اسپتال کیلئے فنڈز ریزنگ کی ، امریکہ جاکر شوز کئے، اسپتال پروجیکٹ میں وقار علی نے بہت تعاون کیا،امریکہ میں ڈاکٹر اسد اور انکی اہلیہ نے بھی بہت تعاون کیا لیکن جب میڈیا پر اس طرح کی باتیں آتی ہیں تو پریشان ہوجاتے ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ مجھے بگ باس سے تین سے چار بار آفر آئی پر میں نے انکار کردیا کیونکہ جو وہ چاہتے میں نہیں کرسکتی۔

    میرا نے کہا کہ میں کچھ جان بوجھ کر کچھ نہیں کرتی اب پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان بھارت گئی وہاں انھیں دھمکیاں مل رہی ہے تو کیا وہ یہ جان بوجھ کر کر رہی ہے۔

    میرا کا انگلش بولنے کے حوالے سے کہا کہ برطانیہ میں انگلش بولنےکا انداز الگ ہیں اور امریکہ میں انگلش الگ انداز میں پولی جاتی ہییں ۔ میں انگلش بولتی ہو تو لوگ اسکو خبر بنانے کیلئےغلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔

    میرا کا شادی  سے متعلق کہنا تھا کہ کوئی مجھ سے شادی ہی نہیں کرتا ، جب بارات کا وقت آتا ہے تو سب بھاگ جاتے ہیں۔

    انکا کہنا تھا کہ بھارت جاکر ایکٹنگ اور ڈانس کی کلاسز لیتی ہوں، میں نے ہندی ، انگلش سیکھی، میرا کا کہنا تھا کہ میں کیسی بھی بات کی صفائی دینا ضروری نہیں سمجھتی، میری اپنی فیملی ہے، اللہ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔

  • اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج217 واں یوم پیدائش

    اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج217 واں یوم پیدائش

    اردو ادب کے شہنشاہ اسد اللہ خان غالب کا آج دو سو سترواں یوم پیدائش ہے ۔

    ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

    عالم تمام حلقہ دام خٰیال ہے دام خیال سے

    اردوشاعری میں تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکو جلا بخشنے والے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج دو سو ستراہواں یوم پیدائش ہے، بر صغیر کے معروف قد آور شاعر ہیں، غالب کی آفاقی شاعری اردو شاعری کے لئے لازم وملزوم قرار پائی۔

    عالم کو بیدار کرنے والے مرزا غالب ستائیس دسمبر سترہ سو ستانوے کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ بیگ خان تھا۔ مرزا غالب اردو زبان کے ایک عظیم شاعر اور رجحان ساز نثر نگار ہونے کے علاوہ ایک آفاقی شاعر تھے۔

    مرزا کی شاعری میں جدت، بانکپن اور جدید تشبیہات و تراکیب نے ان کے طرزِ سخن کو ایک ایسی دائمی تازگی بخشی، جس میں آج بھی شگفتگی کا احساس مؤجزن نظر آتا ہے، غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، مہ، جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    غالب نے اردو کے علاوہ فارسی اور ترکی میں بھی شاعری کی تاہم انکی وجہ شہرت اردو شاعری بنی، غالب اردو شاعری کے وہ کردار ہیں جن پر بے شمار تحریریں لکھی گئیں، سینکڑوں فلمیں ڈرامے اور اسٹیج شوز تیار ہوئے جبکہ پر اثر شاعری کی بدولت بے شمار فلموں کو عوامی پذیرائی ملی۔

    ہیں دنیا میں اور بھی سخن ور بہت اچھے

    کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِبیاں اور

    انہوں نے متعدد مقامات پر انتہائی سنجیدہ مضامین کو بڑے بے تکلف انداز میں چھیڑا، غالب کو اپنی فارسی پر بڑا ناز تھا، تاہم ان کی شہرت ودوام اور مقبولیت کا اصل سبب ان کا اردو دیوان “دیوان غالب” اور”خطوط غالب” ہیں۔

    غالب خوشحالی کے ساتھ تنگ دست زندگی سے نبرد آزما رہنے کے بعد پندرہ فروری اٹھارہ سو انہتر کو اکہتر سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئے لیکن اد ب کی دنیا میں غالب اپنی لازوال شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے رہیں گے

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

  • پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم ’تین بہادر‘2015 میں ریلیزہوگی

    پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم ’تین بہادر‘2015 میں ریلیزہوگی

    کراچی: پاکستان کی پہلی تھری ڈی اینیمٹڈ فلم ’تین بہادر‘وادی اینیمیشنز، ایس او سی فلمز اور اے آر وائی فلمز کے اشتراک سے 2015 میں نمائش کے لئے پیش کی جائے گی۔

    بچوں کے لئے بنائی جانے والی ایڈونچر مووی کا فرسٹ لک، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے سی ای او سلمان اقبال اور وادی اینیمیشن کی سی ای او شرمین عبید چنائے نے مقامی سینما میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیش کیا۔

    اس مووی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے کردار ، اور مناظر بچوں کے اپنے ماحول سے متعلق ہیں اور وہ بچے جو اب تک غیر ملکی اینیمیٹڈ فلمیں دیکھتے تھے انہیں ’تین بہادر‘ میں اپنے ماحول سے متعلق بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔

    مرکزی خیال

    اس فلم کی کہانی تین بچوں( آمنہ، سعدی اور کامل) کے گرد گھومتی ہے جو کہ اپنے گاؤں کو بچانے کے لئے ایک لمبے اور پر خطر سفرپرنکلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ بچے برائی کو شکست دے کر اپنے گاؤں کا امن بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

    ٹریلر

    اس موقع پر اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے سی ای او سلمان اقبال کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے بچے بے حد بہادر ہیں اور ہمیں ان کو آگے لانا ہوگا، یہ فلم انہی کے لئے بنائی گئی ہے

    وادی اینیمیشن کی سی ای او شرمین عبید چنائے نے اس موقع پرکہا کہ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن ہمارے قابل اینیمیٹرز کی ٹیم نے اسے انتہا ئی خوبی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔

     

    ’تین بہادر‘ آئندہ سال موسمِ گرما میں سینما گھروں کی زینت بنے گی۔