سروں کی ملکہ اور ترنم سے بھرپور آواز کی مالک میڈم نور جہاں کو بچھڑے چودہ برس بیت گئے ہیں۔
ملکہ ترنم نور جہاں برصغیر کی وہ گلوکارہ ہیں، جنھیں سن کر دل کے تار بج اٹھتے ہیں، آواز اتنی سریلی ، مدھر تھی کہ سننے والے پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔
ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہونے والی اللہ وسائی نے نور جہاں کے نام سے شہرت پائی، نور جہاں نے موسیقی استاد بڑے غلام علی خان سے سیکھی اور اپنے فلمی فنی کیرئیر کا آغاز صرف 9 برس کی عمر میں برصغیر پاک و ہند میں بننے والی اولین پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی میں بطور گلوکارہ اور چائلڈ اسٹار پرفارمنس دی۔
گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔
نور جہاں کے سروں کے آگے کسی کا دیا نہ جلتا تھا، کہتے ہیں اگر نور جہان پاکستان نہ آتی تو شاید لوگ لتا منگیشکر کا نام بھی نہ جانتے، لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا تھا جبکہ محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔
میڈم نورجہاں ایک عہد تھی، جو دنیائے فانی سے تو کوچ کر گئیں لیکن ان کی آواز نسلوں تک گونجتی رہے گی۔
ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو طویل علالت کے باعث کراچی میں انتقال کر گئیں تھیں۔
اس موقع پر لاہور اور کراچی کے نگاہ فانوں کے علاوہ مختلف ثقافتی مراکز میں ملکہ ترنم نور جہاں کی یاد میں سیمینار اور تقریبات کا انعقاد کیا جائیگا، جس میں شوبز اور موسیقی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات اور مرحومہ کے اہلخانہ کے افراد شریک ہوں گے اور ان کی لازوال نئی نئی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جائیگا۔
کراچی ( کلچرل رپورٹر, م ش خ ) اے آروائی زندگی اور ڈیجیٹل اپنے ناظرین کیلئے خوبصورت سیریل اور سوپ آن ائیر کریگا
پروگراموں کے حوالے سے م ش خ نے بتایا کہ سیریل نہ کترو نپکھ میرے، ایک خوشحال خاندان کی کہانی ہے اسے تحریر کیا ہے ارم وسیع اور صائمہ وسیع نے جبکہ ہدایت نین مینار کی ہیں اس کے فنکاروں میں صبا قمر، حسین رضوی، دانش تیمور، نبیل ، اکد ، رابعہ نودین پرویز رضا اور دیگر شامل ہیں، سیریل نہ کترو نپکھ میرے، اے آر وائی زندگی کے ہر ہفتے کی رات8بجے دیکھایا جائے گا۔
سیریل میرے خواب لوٹادو، یہ ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو حسین خواب رکھتی ہے مگر نصیب کہاں تک ساتھ دیتے ہیں یہ وقت بتاتا ہے اسے تحریر کیا ہے ثمینہ اعجاز نے ہدایت ہشام کیدکی ہیں اس کے فنکاروں میں اعجاز اسلم، صبا فیل ، سمیر اظہر و دیگر شامل ہیں، یہ سیریل ہر جمعہ کی رات8بجے اے آر وائی زندگی سے دیکھائی جائے گی۔
سوپ اور پیار ہوگیا، پیرسے لیکر جمعرات تک 8.30بجے اے آر وائی زندگی سے دیکھا یا جائے گا جبکہ سیریل پیار تو نے کیا کیا ہر اتوار کی رات7بجے اے آر وائی زندگی سے دیکھائی جائے گی، سیریل دوسری بیوی ہر پیر کی رات 8بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دیکھائی جائے گی۔
کراچی (ویب ڈیسک) – ایکسپو سینٹر کراچی میں آئیڈیاز 2014 ہتھیار برائے امن کے عنوان سے اسلحے کی عالمی نمائش جاری ہے نمائش میں غیر ملکی وفود جوق درجوق حصہ لے رہے ہیں۔
نمائش کا افتتاح وزیرِ پاکستان میاں محمد نواز شریف نےکیا اسلحے کی یہ عالمی نمائش 1 دسمبر سے 4 دسمبر 2014 تک جاری رہے گی۔
عالمی نمائش میں ویسے تو ملکی اور غیر ملکی اسلحے کی بھرمارتھی لیکن الخالد ٹینک ، جے ایف 17 تھنڈر اور ڈرون طیارے نمائش کے شرکاء کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔
الخالد ٹینک
پاکستانی فوج کے زیرِاستعمال ’الخالد ٹینک‘نمائس کے شرکا ء کی توجہ کا خصوصی مرکزرہا
الخالد ٹینک
الخالدٹینک پاکستانی فوج کا نیا اور جدید ترین ٹینک ہے۔ یہ 400 کلومیٹر دور تک بغیر کسی مزاحمت سفر کرسکتا هے۔ اس کے اندر ایک ایچ پی 1200 یوکرین کا بنایا گیاانتہائی جدید انجن نصب ہے۔ یہ70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا ہے۔
الخالد پانچ میٹر گہرے پانی میں سے بھی گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسکا عمله تین آدمیوں پر مشتمل ہےـ
جے ایف 17 تھنڈر
جے ایف-17 تھنڈر ایک لڑاکا طیارہ ہے، جو کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پربنایا ہے۔
جے ایف 17 تھنڈر
اس میں ایک 23 ملی میٹر کی مشین گن بھی نسب ہوتی ہے۔ یہ ہوائی جہازوں کے خلاف ایس ڈی-10 اور پی ایل-9 میزائل لے کرجا سکتا ہے۔ جے ایف-17 سمندری جہازوں کے خلاف ایکسوکٹ، سی-801 یا ہارپون میزائل بھی استعمال کر سکتا ہے۔ یہ جی پی ایس کی رہنمائی استعمال کرنے والے بم مثلا ایف ٹی، ایل ٹی اور ایل ایس بم بھی لے جاسکتا ہے۔
ڈرون
ٹینک اورجہاز کے علاوہ جس شے پرعوام کی خصوصی توجہ مرکوزرہی وہ ڈرون تھے۔ شرکاء نگرانی کے لئے استعمال ہونے والے ان ڈرونز کی ماہیت اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار جاننے میں خصوصی دلچسپی لیتے رہے۔
نگرانی کرنے والے ڈرون
جرمن ساختہ ڈرون طیارے کو اس کی بنیادی خصوصیا ت کی بنا پرشرکا ء سے خاص پذیرائی حاصل کی جو کہ 200 کلومیٹر کے فاصلےتک پرواز کرسکتا ہے اور17000 فٹ کی بلندی تک جاسکتا ہے۔
روسی ہیلی کاپٹر
روسی ساختہ ایم آئی-17 ہیلی کاپٹر کے ماڈل نے بھی شرکاء کی توجہ اپنی جانب مبذول رکھی اس ہیلی کاپٹر میں 30 افراد سفر کر سکتے ہیں اور سامان کی نقل و حمل بھی کی جا سکتی ہے۔
ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر
یہ ہیلی کاپٹر سمندر پر بھی اتر سکتا ہے اور برف پر بھی اس کو گن شپ بھی بنایا جا سکتا ہے اور اسے ایئر لائن میں بھی استعمال کیا گیا سکتا ہے۔ اسے دو پائلٹ ایک اور انجینیر اڑاتے ہیں۔
روسی ہیلی کاپٹر ،60 فٹ لمبا اور15 فٹ اونچا ہوتا ہے اسکا وزن ساڑھے 7 ٹن ہے اور 13 ٹن انتہائی وزن کے ساتھ اڑ سکتا ہے ۔اس کی رفتار 250 کلومیتر فی گھنٹہ ہے اور یہ 450 کلومیٹر تک صرف اپنے داخلی ٹینک کے ایندھن سے اڑ سکتا ہے اس کے دو انجن ہوتے ہیں اور یہ 20 ہزار فٹ کی بلندی تک اڑ سکتا ہے ۔ اس کے نیچے آرمرڈ پلیٹیں لگی ہوتی ہیں جو اسے گولیوں سے بچاتی ہیں۔
بلٹ پروف گاڑیاں
غیر ملکی ساختہ بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں بھی نمائش کے شرکاء کو اپنی جانب کھینچتی رہیں اور شرکاء ان گاڑیوں کی ماہیت اور قیمت کے بارے میں نمائش کے منتظمین سے استسفار کرتے رہے۔
بلٹ پروف گاڑیوں میں نجی اور دفاعی دونوں طرز کی گاڑیاں شامل ہیں۔
واکی ٹاکی ٹرانسمیٹر
مواصلات کے جدید دور میں جہاںموبائل فون اورٹیبلٹ بچے بچے کی پہنچ میں ہیں واکی ٹاکی سیٹ اپنی عجیب و غریب ماہیت کے باعث شرکاء کی دلچسپی کا سبب بنے رہے خصوصی ایک واکی ٹاکی سیٹ تو ایسا تھا کہ جو ہر راہ چلتے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا تھا ، ’اسکی خاصیت یہ تھی کہ وہ پانی میں گر کر ڈوبنے کے بجائے سطح پر تیرتا رہتا ہے اور پانی کسی بھی صورت اس کے اند ر داخل نہیں ہوسکتا۔
آج دنیا بھر میں لاکھوں جانوں کے قاتل مرض ایڈز سے بچاؤ کا دن منایا جارہا ہے، عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں مہلک مرض بڑھنے کا الارم بجا دیا ہے۔
ایڈز سے بچاؤ کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں میں اس مہلک مرض سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور پید اکرنا ہے، ایڈز مختلف ذرائع سے ہوتا ہے، جو انسانی قوت مدافعت کو کم کردیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایڈز کی بروقت تشخیص، علاج اور احتیاط سے اس مہلک مرض کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کو اس مرض کے بارے میں شعور دینے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر کے طبی ماہرین ابھی تک اس مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں، دنیا بھر میں ایڈز کا شکار افراد کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔
آج پاکستان کے مشہور فلمی شاعر فیاض ہاشمی کی تیسری برسی منائی جارہی ہے۔
فیاض ہاشمی1920ءمیں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے،ان کے والد سید محمد حسین ہاشمی دلگیرتھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے اور اپنے زمانے کے مشہور تھیٹر گروپ مدن تھیٹر لمیٹڈ سے وابستہ تھے، فیاض ہاشمی نے نہایت کم عمری سے گراموفون کمپنیوں سے وابستہ ہوکر ان کے لیے نغمہ نگاری شروع کردی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے موسیقار کمل داس گپتا کی موسیقی میں بڑے یادگار نغمات تحریر کیے جو نہ صرف فیاض ہاشمی بلکہ کمل داس گپتا کی بھی پہچان بن گئے۔ ان نغمات میں طلعت محمود کی آواز میں گایا گیا نغمہ تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی سرفہرست تھا۔یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی اس زمانے کی معروف فلموں میں رانی،صبح وشام، ایران کی ایک رات،امیری، جبل یاترا،میگھ دوت، چندر شیکھر، عربین نائٹ عرف الف لیلیٰ، کرشن لیلیٰ، پہچان، زمین آسمان، فیصلہ اور گری بالا کے نام شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد فیاض ہاشمی اپنی گراموفون کمپنی کی جانب سے پہلے ڈھاکا اور پھر لاہور میں تعینات ہوئے۔ 1956ءمیں انہوں نے فلمی دنیا سے مستقل وابستگی اختیار کرلی۔ پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔ انہوں نے جن مشہور فلموں کے نغمات تحریر کیے ان میں بیداری، سویرا، اولاد، سہیلی، رات کے راہی، پیغام، داستان، شبنم، ہزار داستان، دال میں کالا، دیور بھابھی، دل کے ٹکڑے، پیسے، چودھویں صدی، ظالم، گہرا داغ، صنم، توبہ، لاکھوں میں ایک، کون کسی کا، تقدیر، عالیہ، پھر صبح ہوگی، رشتہ ہے پیار کا، بہن بھائی، شریک حیات، عید مبارک، زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، بزدل، پازیب، نہلا پہ دہلا، لو ان جنگل، انجمن، رنگیلا، آوارہ، جاسوس، خدا اور محبت اور نشیمن کے نام سرفہرست ہیں۔انہوں نے مجموعی طور پر 122 فلموں میں نغمہ نگاری کی، 482 فلمی گیت تحریر کیے اور 24 فلموں کی کہانی اور مکالمے تحریر کیے۔
فیاض ہاشمی 29نومبر 2011ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
کسی جگہ اورعمارتوں کی تعریف ان کی اونچائی یا لمبائی سے نہیں کی جاسکتی بلکہ ان کی تعریف ان کی بناوٹی خوبصورتی اورپُرکشش منظر سے کیا جاسکتاہے ۔
یہاں پیش کی جانے والی عمارتیں دنیا میں قائم کچھ فلک بوس عمارتوں میں سے ہیں، جن کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔
تاج محل:۔
مغلیا دور کی شاہکار عمارت تاج محل کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے پندرویں صدی کے نصف میں تعمیر کروائی تھی ۔تاج محل ایک منفرد انداز کا سفید ماربل سے بنا مقبرہ ہے جو ترکش، فارس اور ایشاء کی عکاسی کرتا ہے۔یہ جگہ محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے ، یہ جگہ دنیاکی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے ۔
پوٹالا محل:۔
تبت کے دارالحکومت لہاسا میں قائم مشہور پوٹالا محل 1959 میں سردار دلائی لاما کی ریہائش گاہ تھی۔ یہ جگہ 637 میں قائم ہوئی اور 1645 میں اس جگہ جدید طرز کا محل تعمیر ہوا۔ یہ عمارت بدھ مت کے عبادت گاہوں کی طرز جیسی تبت کے پہاڑ پربنائی گئی ۔کوئی شک نہیں کہ پوٹالا محل دنیا کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے۔
امام مسجد:۔
امام مسجد فارسی طرزِ تعمیر کا ایک نادر نامونہ ہے، یہ ایران کے دارلحکومت اسفہاں میں 16ویں صدی کے نصف میں تعمیر کی گئی ۔ مسجد کی اہم خصوصیات میں اس کے بے مثالی گمبد ہے، جو دکھنے میں تاج محل کے گمبد جیسا ہے ۔
ایفل ٹاور:۔
ایفل ٹاور لوہے سے بنے ایک مینار کا نام ہے جو فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے، ثقافتی طرز کی عمارت ایفل ٹاور پیرس میں 1889 میں تعمیر کی گئی، ایفل ٹاور انقلاب فرانس کی 100 سالہ تقاریب کے موقع پر ہونے والی نمائش کے دروازے کے طور پر بنایا گیا تھا،پیرس کا یہ سب سے اونچا ٹاور دنیا میں سب سے زیادہ پہچانی جانے والی یادگار ہے۔
سڈنی اوپیرا ہاؤس:۔
سڈنی اوپیرا ہاؤس نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا میں سڈنی ہاربر برج کے نزدیک ایک کثیر مقامی فنونی کارکردگی کا مظاہرہ کے لیے ایک مرکز ہے۔یہ جگہ 1973 میں تعمیر کی گئی یہ 20ویں صدی کی امتیازی عمارت ہے۔2007 میں یونسکو نے اس جگہ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا ۔یہ عمارت ثقافتی فنِ تعمیر اور جدید طرز کی شہکار ہے ۔جس کی وجہ سے اس جگہ کو دنیا بھر کی خوبصورت جگہوں میں گنا جاتا ہے ۔
کرسلر بلڈنگ:۔
نیویارک میں تعمیر کرسلر بلڈنگ امریکا کی نشانیوں میں سے ایک ہے یہ عمارت آرٹ ڈیکو طرز کی بہترین مثال ہےجو کسی زمانے میں دنیاکی بلند ترین عمارت تھی، لیکن دنیا کی خوبصورت عمارتوں میں سے آج بھی ایک ہے۔
سگرادا فیمیلیا:۔
سگرادا فیمیلیا ایک رومن کیتھولک گرجاگھر ہے جو اسپین میں واقع ہے،سگرادا فیملیا کا تعمیری سلسلہ 1882 میں شروع ہوا تھا۔ عا لمی شہرت یافتہ معمر انتونی گودی اس میں 1883 میں شامل ہوئے تھے۔حالانکہ یہ ابھی پوری طرح سے تعمیرشدہ نہیں ہے لیکن یونیسکو نے اسے عالمی وراثت کا مقام قرار دیا ہے۔ گودی نے اسکے تعمیر اور عمارتی طرز کو گوتھک طرز کے ساتھ ساتھ جدید دور کے گولائیدار لکیری اطوار کے امتزاج سے ایک نیا زاویہ دیا۔
ایاصوفیہ:۔
ایاصوفیہ ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا۔ 1935ء میں کمال اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کرکے اسے عجائب گھر بنادیا۔
ایاصوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
برج العرب:۔
برج العرب متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے شہر دبئی کا ایک پرتعیش ہوٹل ہے جسے دنیا کا پہلا 7 اسٹار ہوٹل ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
برج العرب دنیا کا تیسرا بلند ہوٹل ہے ۔یہ دبئی کے ساحل جمیرہ سے 280 میٹر دور ایک مصنوعی جزیرے پر قائم ہے اور ایک پل کے ذریعے دبئی سے جڑا ہے ۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں مقابلے کی جنگ جاری ہے،بہت سی ویب سائٹ بنائی گئیں اور ختم کردی گئی لیکن چند ویب سائٹس نے اپنے قدم مضبوطی سے جمالیے ہیں، ویب سائٹس کی ریٹنگ بتانے والی ویب سائٹ ایلگزا کے مطابق ٹاپ 10 ویب سائٹس مندرجہ ذیل ہیں۔
گوگل: ۔
گوگل نے انٹرنیٹ کی دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے بچہ بڑا ہر کوئی گوگل سے واقف ہے ، دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرچ ہونے والی ویب سائٹس میں گوگل نمبر 1 پر ہے ۔ ویڈوز کی مشہور ویب سائٹ یوٹوب اور بلاگر کا مالک بھی گوگل ہی ہے ۔گوگل نے سرچ انجن میں بہت سی آسانیاں دی ہیں اور ساتھ ہی جی میل جیسے مشہور میل سروس کی سہولت بھی دی ہے، موبائل فون کے اوپر سوشل نیٹ ورکنگ کی چیزیں متعارف کروائی۔ گوگل پر دنیا کی ہر اقسام کی لاتعداد تصویریں ،ویڈیوز ، آرٹیکل صرف ایک کلک پر حاصل ہوجاتی ہیں ۔
فیس بک:۔
فیس بک انٹرنیٹ کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی ویب سائٹ ہے، دنیا میں سب سے زیادہ سرچ ہونے والی ویب سائٹس میں فیس بک دوسرے نمبر پر ہے ،سماجی رابطے کے لئے مارک زوکربرگ نے 2004 میں اسے متعارف کروایا تھا ۔ ابتداء میں یہ صرف کالج کے حد تک محدود تھی لیکن اب دنیا بھر سے اس کے ایک ارب صارفین موجود ہیں یہ ویب سائٹ ایک دوسرے سے رابطے ، تصویروں کو ایک دوسرے سے شیئر کرنے کے کام آتی ہے۔
یوٹیوب:۔
یوٹیوب کو ویڈیوز کی دنیاکا بادشاہ کہیں تو غلط نہ ہوگا، ویڈیوز دیکھنے اور ایک دوسرے کو دیکھانے کی سب سے مشہور اور بہترین سائٹ ہے ۔ یوٹوب پر صارفین آسانی سے ویڈیوز اپ لوڈ اور ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں، اس پر دنیا جہاں کی ویڈیوز دیکھ کردنیا بھر میں شیئر کرسکتے ہیں۔ یوٹیوب کو 2005 میں پے پال کی تین سابق ملازمین نے متعارف کروایا تھا بعد ازاں2006 میں اسے گوگل نے ایک ارب ڈالر میں خرید لیا تھا۔دنیا میں سب سے زیادہ سرچ ہونے والی ویب سائٹ میں اس کا تیسرا نمبر ہے ۔
:Yahoo
یاہو، ایک تیز ترین اور عمدہ سہولت فراہم کرنے والی ویب سائٹ ہے یاہو بھی ایک مشہور اور مقبول سرچ انجن ہے، یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا ایک اہم ستون ہے جو مختلف سہولیات فراہم، کرتا ہے جیسے ای میل ، میسنجر، اور مختلف عنونات پر آرٹیکل ۔
بیدو:۔
بیدو چائینیز زبان کی سرچ انجن ویب سائٹ ہے ،بیدو آسان اور قابل اعتماد ویب سائٹ ہے جو کہ چائینیز زبان میں ہے ، اس پر دنیا جہاں کی چیزیں ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں یہ ویب سائٹ موبائل پر با آسانی استعمال کی جاسکتی ہے ۔ بیدو اپنے صارفین کو 50سے زائد سہولیات فراہم کرتا ہے ۔
ویکیپیڈیا:۔
ویکیپیڈیا ایک جدید انسائیکلوپیڈیا جیسا ہے لیکن اس میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی صارف کسی چیز میں باآسانی اپنی رائے کا اضافہ کرسکتا ہے۔ اس میں 30لاکھ سے زائد مضامین 287 زبان میں موجود ہیں ،اس کے علاوہ کوئی بھی اس میں رضاکارانہ طور پراپنی معلومات شامل کرسکتا ہے، یہ ویب سائٹ 2001 میں متعارف کراوائی گئی۔
ٹینسنٹ:۔
ٹینسنٹ بھی چائنا کی ویب سائٹ ہے جو پیغام رساں کا کام ادا کرتی ہے اس کے علاوہ اس پر سرچ انجن اور میل کی سہولیات بھی موجود ہیں،اس پر 6 لاکھ سے زائد صارفین موجود ہیں ، اس ویب سائٹ کے ذریعے شاپنگ اور اپنے من پسند لوگوں سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں، یہ ویب سائٹ چائنا میں انٹرنیٹ شاپنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
لنکڈ ان:۔
جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک اور ٹویٹر نے مقبولیت حاصل کی تو اسی جیسی ایک اور ویب سائٹ لنکڈ ان منظر عام پر آئی، لنکڈ ان بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے جس کے ذیعے دنیا بھر کے ہر طبقے کے عوام سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، یہ سائٹ نوکری تلاش کرنے اور انتخاب کرنے کے لئے بہترین ہے۔
تاوٗباوٗ:۔
تاوٗباوٗ ایک صارف تا صارف کی تجارتی ویب سائٹ ہے ، یہ سائٹ چائنا میں خرید و فروخت کے لئے بہت مشہور ہے۔ 2013 کے اعدادو شمار کے مطابق اس ویب سائٹ پر 760 لاکھ سے زیادہ اشیاء خرید وفروخت کے لئے موجود ہوتی ہے ۔ایگزا کے کے مطابق دنیا بھر میں سرچ ہونے والی ویب سائٹ میں اس کا نواں نمبر ہے ۔
ٹوئٹر :۔
دنیا میں سب سے زیادہ سرچ ہونے والی ویب سائٹ میں ٹوئٹر دسویں نمبر پر ہے، ٹوئٹر ایک مایکرو بلاگنگ ویب سائٹ ہے اس کے علاوہ معومات کی فراہمی کے لئے بہترین اور تیز ذریعہ ہے ۔
دنیائے سیاست میں بہت سے واقع رونماء ہوئے ، جیسے چند ایسے سیاسی لیڈر بھی گزرے جو خود تو عظیم مرتبے پر فائز تھے لیکن ان کے ان کی اولادیں بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی کی طرح عظیم عہدے پر فائز ہوئے ، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں یہ صلاحیتیں وارثتی طور پر منتقل ہوئی ۔
بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو 17 سال تک وزیر اعظم کے فرائض نبہاتے رہے، (1947-1964) تک وزیر اعظم کی فرائض نبہانے والے جواہرلال نہرو مشہوری کی وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت کی آزادی کے وقت وہ تمام تحریک میں پیش پیش تھے۔ان کی بے پناہ مقبولیت ہی وہ وجہ تھی جس کے باعث وہ آخری سانس تک بھارت پر حکمرانی کرتے رہے۔
بعد ازاں 1966 میں جواہرلال نہرو کی صحابزادی اندرا گاندھی کو کانگریس کی قیادت ملی ، جس کے بعد اُسی سال وہ بھارت کی تیسرے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئی ، یہ عہدہ ان کے پاس 1977 تک رہا ، اندرا گاندھی دوسری مرتبہ 1980 میں وزیراعظم بنی اور مزید چال سال 1984 تک عہدے پر فائز رہیں۔1984 میں اندرا کو قتل کردیا گیا۔
بعد ازاں اندرا گاندھی کی کرسی ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو مل گئی جو کہ 1984 سے 1989 تک وزیراعظم رہے۔
جارج ہاربٹ واکر بش امریکہ کے 41ویں صدر تھے۔وہ 1989 سے 1993 سپر پاور امریکہ کے جمہوری صدر رہے ،بعد ازاں ان کی تمام صلاحیتیں اُن کے بیٹے جارج ڈیبلو بش میں منتقل ہوئیں۔جارج بش 2001 میں امریکہ کے 43 ویں صدر منتخب ہوئے جارج بش 2009 تک امریکہ کے صدر رہے ان کی جگہ موجودہ وزیراعظم بارک اوباما نے لی ہے۔
شیخ مجیب الرحمان آزاد بنگلادیش کے بانی ، پہلے صدر اور دوسرے وزیراعظم تھے۔وہ بنگلادیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی تحریک عوامی لیگ کے قائد بھی تھے۔ 1975 میں مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے ہمراہ قتل کردیا گیا ، مجیب الرحمان کے لواحیقین میں صرف دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور ریحانہ بچیں جو جرمنی میں قیام پزیر تھیں۔
عمر میں بڑی ہونے کے وجہ سے شیخ حسینہ میں اپنے والد جیسی تمام صلاحیتیں قدرتی طور پر موجود تھیں، 1981 میں شیخ حسینہ کو عوامی لیگ کی قیادت سونپ دی گئی۔بنگلادیش کی موجودہ وزیراعظم بھی شیخ حسینہ ہی ہیں ۔
شامی سیاستدان حفیظ الاسد 1971 سے 2000شام کے صدر رہےانہوں نے 30 سال تک شام میں حکومت کی ، انکے انتقال کے ان کی وراثت کے حقدار ان کے بیٹے بشارالاسد والد کی کرسی پر بیٹھنے کے قابل ہوگئے تھے۔سن 2000 میں بشارالاسد اپنے والد کے عہدے پر فائز ہوئے اور وہ موجودہ شام میں جاری خانہ جنگی کا مقابلہ کررہے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ، پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیراعظم تھے۔اس عظیم لیڈر نے 7 سال تک پاکستان میں حکومت کی ۔1977 میں فوجی انقلاب کے نتیجے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ذوالفقارعلی بھٹو کے انقتال کے بعد ان کی وارث بینظر بھٹو سیاست میں آئیں ، بینظر بھٹو دو مرتبہ پاکستانی کی وزیراعظم بنیں، 2007 میں ان کو قتل کردیا گیا ۔
کراچی (ویب ڈیسک) – شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طرازہیں۔
”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت حاصل کر لی تھی۔”
جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے
جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔
ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ
جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا
جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔
میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا
مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔
کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ
جون ہی تو ہے جون کے درپے
میرکو میر ہی سے خطرہ ہے
کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
کراچی ( ویب ڈیسک) – سراج الدین بہادر شاہ ظفر خاندان تیموریہ کے آخری بادشاہ جو اکبر شاہ ثانی کے بیٹے تھے۔ 1837ء میں تریسٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھے اور بیس سال حکومت کرنے کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور برما کی راجدھانی رنگون میں قید کر دیے گئے۔ پانچ سال تک اسیری اورنظر بندی کے مصائب جھیل کر نہایت بے کسی کے عالم میں 7نومبر1862ءمیں وفات پائی۔ ان کا مزار رنگوں میں ہے اور اس کی خستہ حالی آج بھی ان کے دردناک انجام کی داستان سنا رہی ہے۔
سن1857 کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82سال کے تھے جب جنرل ہڈسن نے ان کے سبھی بچوں کا سرقلم کرکے ان کے سامنے تھال میں سجا کرپیش کیا تھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوکر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پرلٹکا دیا گیا۔
سن1857 ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ملک کی سیاست و ادب کا نقشہ بدل گیا تھا۔ دلی کی قسمت اب کیا جاگتی، بلکہ اسکی تباہی و بربادی کا سلسلہ تو ظفر سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاہ ظہور الدین حاتم کا مخمس شہر آشوب، مرزا رفیع سودا کا قصیدہ تضحیکِ روزگار اور میرتقی میر کی مثنوی دربیان وکذب وغیرہ دہلی کی معاشرتی و معاشی انحطاط و زوال کی اپنی داستان ہے جو ملک کی تاریخ کے لیے ایک آئینہ حقیقت عبرت ہے۔ حقیقت اس لیے کہ تاریخ اس کی تردید نہیں کر سکتی اور عبرت اس لیے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں کی عشرت پسندی،عاقبت اندیشی اور امور سلطنت کی طرف سے بے نیازی اس کی نشاندہی کرتی ہے۔
سیاسی و ذہنی انتشار کا اثرعام زندگی ، خارجی حالات اور شعرائے کرام پر بھی پڑا، جس کی عکاسی و تصویر کشی ان کے کلام میں نمایاں ہیں۔ غلام ہمدانی مصحفی جیسا شاعر بھی ملک کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور ملک گیری کی ہوس کا جو منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس کا اظہار اس شعر میں یوں کیا ہے۔
ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی