Tag: اے آر وائی خصوصی

  • اے آر وائی فیسٹ کا آج سے آغاز ہوگا

    اے آر وائی فیسٹ کا آج سے آغاز ہوگا

    کراچی: شہر قائد میں اے آر وائی فیسٹ آج سے شروع ہوگا جو 25 دسمبر تک جاری رہے گا، مزے مزے کے کھانے اور موسیقی کے شوقین تیار ہوجائیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی کے زیر اہتمام فیملی فیسٹ کا انعقاد کیا جارہا ہے جو 22 سے 25 دسمبر تک کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں واقع شہید بینظیر بھٹو پارک میں جاری رہے گا۔

    فیملی فیسٹیول میں مزے مزے کے کھانے اور نامور گلوکار لائیو پرفارم کریں گے، فیسٹ کے تینوں دن میوزیکل کنسرٹ کا انعقاد کیا جائے گا۔

    گلوکار سجاد علی، فرحان سعید، قوال ابو فرید ایاز، عاصم اظہر، سلیم جاوید، شازیہ خشک، نتاشا بیگ اور دیگر فنکار میلے کی شان بڑھائیں گے۔

    واضح رہے کہ اے آر وائی کی جانب سے شہریوں کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا رہتا ہے جسے شہریوں کی جانب سے بھی بھرپور پذیرائی ملتی ہے۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    پہاڑوں کا عالمی دن: آئیں پربتوں سے باتیں کریں

    آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔

    ایسے موقع پر خشک پہاڑوں کے ارد گرد آبادی مزید گرمی اور بھوک کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ کلائمٹ چینج کے باعث برفانی پہاڑ یعنی گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

    پاکستان کے خوبصورت پہاڑی سلسلے

    پاکستان میں 5 ایسی بلند برفانی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔

    آئیں پاکستان میں واقع خوبصورت پہاڑی سلسلوں اور پربتوں کی سیر کریں۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ

    کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔

    دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔

    اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔

    سلسلہ کوہ قراقرم

    سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔

    کے ٹو

    کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد سنہ 1954 میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔

    نانگا پربت

    نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 1 سو 25 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے 1953 میں سر کیا۔

    سلسلہ کوہ ہندوکش

    سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 7 سو 8 میٹر ہے۔

    کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ

    صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    کارونجھر کے پہاڑ

    صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

  • ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    وہاں سیکڑوں پنچھی تھے، جو  ٹیلے کی سمت کھنچے چلے آئے تھے کہ اُنھیں خبر ملی تھی کہ وہ فسوں گر  ادھر  موجود ہے۔ فسوں گر، جس کی بانسری کی دھن نے انھیں گرویدہ بنا لیا ہے.

    وہ شخص ادھر موجود ہے، جس کے الفاظ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہیں، جس کی کہانیاں ان کی رگوں میں دوڑتی ہیں۔

    تو وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی سمت آتے تھے، جہاں گیارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی۔

    [bs-quote quote=”فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    یہ مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ہے۔ تارڑ، جو ایک امکان کا نام ہے۔ امکان کہ ادیب کو بھی عالم گیر محبت مل سکتی ہے،امکان کہ اب بھی الفاظ جاود جگا سکتے ہیں،  امکان کہ لکھاری کو بھی دیوانہ وار چاہا جاسکتا ہے۔

    لازوال ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز نے اساطیری شہرت کے حامل چے گویرا سے متعلق کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں سیکڑوں برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘ البتہ تارڑ صاحب سے متعلق ایسا کوئی بھی دعویٰ مناسب نہیں کہ ہمیں سیکڑوں برس میسر نہیں۔ البتہ اس بے بدل ادیب کے اس خصوصی انٹرویو سے قبل، جو ان کے تازہ ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ کے گرد گھومتا ہے، تعارف ضروری ہے، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

    وہ، جو جھنڈے کی طرح ممتاز ہے


    تارڑ صاحب آپ اپنا تعارف ہیں۔ 1939 لاہور میں آنکھ کھولی۔ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اس قلم کار نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو اِن سے پہلے گزرے، اُن میں سے بیش تر کی یاد ذہن سے محو ہوئی، اورجو بعد میں آئے، اُن میں سے اکثر کے سر احتراماً جھک گئے۔

    آپ کی کئی جہتیں ہیں۔ سفرنامہ نویس، فکشن نگار، اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان، اور ہر شعبے میں اپنی مثال آپ۔ کہا جاسکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے جس شے کو ہاتھ لگایا، اسے سونا بنا دیا۔

    چار سو ڈراموں میں لیڈ، مقبول ترین مارننگ شو کی میزبانی، مگر شوبز کی کہانی کے لیے ایک الگ نشست درکار، سو اپنی توجہ ادب پر مرکوز رکھتے ہیں۔

    ستر سے زاید کتب آپ کے قلم نکلیں، جو اپنے میدان میں مقبول ترین ٹھہریں۔ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے اردو سفر نامے میں نئی جہت متعارف کروائی، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ اردو ناول کی صنف میں بیسٹ سیلر ٹھہرا، اور ناول ”بہاﺅ “ نے اردو فکشن کو اوج پرپہنچا دیا، جسے پڑھ کر ایک ہندوستانی نقاد پروفیسر خالد اشرف نے کہا تھا:’’اردو کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے، جہاں تارڑ رہتا ہے۔‘‘ ادبی جریدے ”ذہن جدید“ کے سروے میں یہ اردو کے دس بہترین ناولز کا حصہ بنا، اور بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ”تنہائی کے سو سال“ سے کیا۔

    [bs-quote quote=”’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    ان کے ایک اہم ناول ’’اے غزال شب‘‘ کا ”لینن فور سیل“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، جو عالمی ادب کے قارئین کویہ خبر پہنچتا ہے کہ اردو فکشن کا بہاﺅ اورگہرائی کیا ہے۔ حساس موضوعات کو منظر کرتے ناول ”راکھ“ نے 1999 میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اسے ایک جرمن ریسرچ نے برصغیر کا نمایندہ ناول قرار دیا۔

    ان کی کتب گذشتہ تیس برس سے شعبہ اردو، ماسکو یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں، جہاں کے طلبا یہ کہتے ہیں کہ وہ اردو ادب کو فیض اور تارڑ کی وجہ سے جانتے ہیں۔

    تارڑ صاحب کو دوحہ قطر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا،انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا، ستارہ امتیاز پیش ہوا، مگر اصل اعزاز وہ عالم گیر محبت ہے، جو ان کے حصے میں آئی۔

    سوال و جواب کی دنیا


    سوال: فرید الدین عطار نے صدیوں، نسلوں کو گرویدہ بنایا، مولانا روم بھی ان سے متاثر تھے، آپ بھی انھیں مرشد کہتے ہیں، ایسے تخلیق کار کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہہ کائنات تخلیق کرنا کتنا بڑا چیلینج تھا؟

    تارڑ: فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ  بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گذشتہ پچاس برس سے میرے مطالعے ہے، میری بیش تر کتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے، میرے ناول ’’خس و خاشاک‘‘ کا ایک کردار دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے، اور اچانک پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، میری کتابوں ’’فاختہ‘‘ اور ’’پکھیرو‘‘ میں بھی پرندے ہیں۔

    [bs-quote quote=”جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ جیسے میں نے اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم بھی عطار کی طرح سچ کے تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے، تو میرا ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کار ہیں، آپ ہی نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔

    سوال: آپ کی کتابوں میں پرندے تو ابتدا سے ساتھ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کب ہوا کہ انھیں ناول کی شکل دی جائے، کیا اس کے لیے ٹلہ جوگیاں کا سفر کیا گیا؟

    تارڑ: دراصل پچاس برس میں ہر شے بدل جاتی ہے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں، سوچ بدل جاتی ہے، فیشن تو بدل ہی جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں خدا حافظ کہا جاتا تھا، اب اللہ حافظ آگیا، اس وقت لڑکیاں اگر ’’یار‘‘ کا لفظ استعمال کریں، تو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اب یہ عام ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اخلاق تباہ ہوا ہے، بلکہ  اقدار تبدیل ہوگئیں۔ تو اسی طرح سچ کا تصور بھی بدلا ہے۔ تو ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ یعنی ہر شخص کو ان ہی سوالوں کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب مل جاتا ہے، اور نہیں بھی ملتا، تو وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

    ’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا۔ کسی نے کہا  کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ میں نے ٹلہ جوگیاں سے متعلق مطالعہ کیا، ویڈیوز دیکھیں، البتہ کوشش کے باوجود وہاں جا نہیں سکا، تو اپنے تخیل میں ایک ٹلہ جوگیاں بنا لیا، مگر احتیاط کی کہ کوئی ایسی شے نہ ہو، جو متصادم ثابت ہو۔ بعد میں ایک دوست نے ٹلہ جوگیاں چلنے کے لیے کہا، مگر تب میں نے منع کر دیا کہ اب مناسب نہیں۔ پھر ضروری نہیں کہ تخلیق کار وہاں جائے، جس جگہ کو اس نے موضوع بنایا ہو۔

    سوال: آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ادیان اور عشق، مردوں کے نمائندہ پرندے، عورتوں کے نمائندہ پرندے، ان کا سنجوگ؟

    تارڑ: مجھے اس میں فرید الدین عطار کی سپورٹ حاصل تھی۔ میں نے لکھتے ہوئے ان حوالوں، سہاروں کو پیش نظر رکھا، جیسے منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ۔ پھر اپنا نظریہ شامل کیا۔ پھر اس میں تاریخی حوالے بھی ہیں۔ خوش قسمتی سے، جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں۔

    سوال: ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ آپ کے دیگر ناولز سے نہ صرف ضخیم ہے، بلکہ اس کا کینوس بھی وسیع ہے، ہندوستانی فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اسے کلاسیکی ناول سے میلوں آگے کی چیز قرار دیا، البتہ توقعات کے برعکس وہ زیادہ زیربحث نہیں آیا؟

    تارڑ: دراصل ضخیم ناول لوگ پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ جب جب میرے تین بہترین ناولز کا انتخاب کیا گیا، تو ہر شخص نے اپنی پسند کے مطابق چناؤ کیا۔ آج کل میرے ناول ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ پر بات ہو رہی ہے، گو اسے چھپے ہوئے دس برس ہوگئے۔ تو ناول نظم یا غزل کی طرح دھماکا نہیں کرتا، وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا ہے، آہستہ آہستہ قارئین میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ اگر سکت ہوتی ہے، تو باقی رہتا ہے، ورنہ نہیں رہتا۔

    [bs-quote quote=”لٹریچر میں واضح منزل سے انحراف کے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    سوال: ’’منطق الطیر جدید‘‘ کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانش ور شمیم حنفی نے اس ضمن میں ’’یولیسس‘‘ کا حوالہ دیا تھا؟

    تارڑ: ہاں، اس میں جیمز جوائس کے یولیسس کی طرح کوئی باقاعدہ واقعہ نہیں ہے، اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں۔

    سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ ٹائپ کرتے ہیں، ہاتھ سے لکھتے ہیں؟

    جواب: نہیں میں ٹائپ نہیں کرتا، انگریزی میں جب کالم لکھتا تھا، تو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا، ورنہ میز پر قلم کے ساتھ لکھتا ہوں، جب تک قلم سے نہیں لکھتا، بات نہیں بنتی۔ قلم سے بھی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ ساڑھے سات بجے اسٹڈی میں چلا جاتا ہوں، ساڑھے دس گیارہ بجے تک وہاں رہتا ہوں۔

    سوال: آپ نے اپنی فکشن نگار ی سے متعلق ایک بار کہا تھا کہ آپ سفر سے قبل منزل سامنے رکھتے ہیں، مگر پھر نامعلوم کی سمت چلے جاتے ہیں؟

    جواب: کئی برس پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کی ایک ادبی تقریب میں ممتاز مفتی میرے پاس آئے، اور کہا کہ ’’ٹی وی کی شہرت تمھیں کھا جائے گی، تم میں بڑا ادیب بنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’مفتی صاحب، میں اس شہرت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘ کہنے لگے،’’نہیں، ٹی وی چھوڑو، ورنہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ خیر، بعد میں انھوں نے خط لکھا اور  تسلیم کیا کہ ان کا اندازہ  غلط تھا۔

    کچھ عرصے بعد پروفیسر رفیق اختر کے گھر ایک ملاقات ہوئی، وہاں ممتاز مفتی کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی موجود تھے۔ تو وہاں ممتاز مفتی نے اچانک کہا، ’’تارڑ، یہ جو تم لکھتے لکھتے اچانک نئی سمت چلے جاتے ہو، یہ تکنیک پروفیسر رفیق اختر سے مستعار لی؟‘‘ میں نے کہا کہ میں پروفیسر رفیق اختر کی قادر الکلامی اور تفسیر کا بڑا قائل ہوں، مگر یہ میرا اپنا طریقہ ہے۔

    ابتدا میں لکھنے والا بڑا محتاط ہوتا ہے، مگر بعد میں وہ نامعلوم کی سمت، اندھیری گلی کی سمت بھی چلا جاتا ہے۔ جس زمانے میں میں یورپ میں hitchhiking کرتا تھا، تو یوں ہوتا کہ کہیں اور جانا ہے، مگر جس شخص سے لفٹ لی، وہ کسی اور قصبے کی سمت جارہا ہے، تو اس سمت چل دیے، کیوں کہ اس کا اپنا چارم اور رومانس ہوتا ہے، یہی چیز لٹریچر میں ہوتی ہے کہ آپ جس واضح منزل کی سمت جارہے ہیں، اسے انحراف کر کے اس سمت چلے جاتے ہیں، جس کی آپ کو خبر نہیں، اور اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں۔

    سوال: ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ایک طویل وقفہ تھا، ناول کی سمت آپ بارہ برس بعد آئے، تو اب پھر ایک وقفہ ہے، یا کسی ناول پر کام کر رہے ہیں؟

    تارڑ: ’’اے غزال شپ‘‘ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ پھر فکشن لکھوں گا، مگر پھر یہ (منطق الطیر جدید) سامنے آگیا، مگر فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں ہے، ممکن ہے، یہ آخری ہو۔

  • یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو اب تین سال بیت چکے ہیں، یہ جنگ اس عرب بہار کے نتیجے میں رونما ہوئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے خون آلود بہار ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں تنازعے کی ابتدا ہوئی 2011 میں جب طویل عرصے سے مسند حکومت پر فائزعلی عبداللہ الصالح کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپنا پڑا۔

    نئے صدر ہادی کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ القائدہ کے حملے، جنوبی یمن میں جاری علیحدگی پسند تحریک، فوجی حکام کی سابق صدر سے وفاداریاں اور ان کے ساتھ ساتھ کرپشن ، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل شامل تھے ۔

    [bs-quote quote=”عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر ڈالتے ہیں یمن کے جغرافیے اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر جس کا اس جنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج ایک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے سدباب کا مستقبل قریب میں دو ر دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد 56 فی صد جب کہ زیدی شیعوں کی 42 فی صد ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چلیں اب واپس چلتے ہیں ماضی کے منظر نامے کی طرف جس سے ہمیں واپس حال میں آنے میں مدد ملے گی۔ عبد اللہ صالح کے دور اقتدار میں حوثی قبائل جو کہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہیں ، انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ پہلے سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ، جیسے ہی عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی ، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔

    جنگ کے شعلے عروج پر


    اسی عرصے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والا کثیر القومی اتحاد یمن کے تنازعے میں مداخلت کرتا ہے ، یہ وقت ہے مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

    حوثی قبائل کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے جس کے سبب خطے کے سنی ممالک میں تشویش پیدا ہونا یقیناً ایک قابلِ فہم بات تھی اور اسی سلسلے میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملے شروع کیے کہ کسی طرح یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کردیا جائے ۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جن کی بنا پر سعودی عرب نے چن چن کر یمن پر حملے کیے۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات کی مدد سے یمن پر مہلک فضائی حملے کیے۔ دوسری طرف حوثی قبائل کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کر دیا جائے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سعودی اتحاد اگست 2015 میں جنوبی یمن کے ساحلی شہر عدن میں داخل ہوتے ہوئے حوثی قبائل اور ان کے حواریوں سے شہر کا تسلط لے کر اٹھے اور ہادی عدن نامی شہر میں اپنی عارضی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا، حالاں کہ وہ تاحال یمن واپس نہیں آ ئے ہیں۔

    عدن کو چھڑائے جانے کے باوجود ابھی تک صنعا پر حوثیوں کا تسلط برقرار ہے اور جنوبی شہر تیز بھی ان کے تسلط میں ہے جہاں سے وہ سعودی عرب کی سرحدوں میں میزائل فائر کرتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سارے خونی منظر نامے میں دو فریق اوربھی ہیں اور ان میں سے ایک ہے القائدہ ( عرب ) اور اسی کے متوازی دولتِ اسلامیہ کے حمایت یافتہ جہادی گروپ، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے سابق صدرصالح کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور بعد میں بھی ہادی کی حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ۔ انہوں نے جنوبی یمن میں علاقوں پر قبضے کیے اور بالخصوص عدن میں ایسے خون آشام حملے کیے ہیں کہ آسمان لرز اٹھا۔

    [bs-quote quote=”حوثی قبائل کے میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا، دوسری طرف القائدہ اور دولتِ اسلامیہ نے سعودی اتحاد کے زیرِ قبضہ علاقے عدن میں بے پناہ تباہ کن حملے کیے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جہاں ایک جانب یہ سارے عناصر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوکر یمن کو دنیا کی برباد ترین ریاست میں تبدیل کررہے ہیں وہی نومبر 2017 میں یمنی دار الحکومت صنعا پر ہونے والے بیلسٹک میزائل حملے نے سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑادی جس کے بعد یمن کا محاصرہ شدید ترین کردیا گیا جس سے وہاں دنیا کی تاریخ کا بد ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ سعودی اتحاد کا مؤقف ہے کہ وہ اس محاصرے سے یمن کے باغیوں کو ایران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی روک تھام کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

    سعودی اتحاد کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے ایک ایسا انسانی قحط جنم لے رہا ہے جو کہ دنیا نے کئی دہائیوں سے نہیں دیکھا ہے۔ تین سال کے عرصے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قیام امن کے لیے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ایسی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔

    طویل عرصے بعد اس سارے منظر نامے میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک طرف امریکا نے یمن میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، دوسری طرف سعودی اتحاد نے تباہ کن حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، تیسری طرف شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جنوبی یمن سے علیحدگی کا پھر مطالبہ شروع کر دیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اس مطالبے کے ساتھ ہی حکومتی افواج اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں انتہائی شدت آگئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ وہ قیام امن کے مذاکرات سے پہلے حوثیوں کو فیصلہ کن ضرب دینا چاہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 1990 میں جنوبی یمن سے الحاق کرنے والے شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جو کہ اب تک حوثیوں کے خلاف حکومت کے ہمراہ صف آرا تھے ، اب انہوں نے ایک بار پھر جنوبی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اب مذاکرات کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کا معاملہ بھی سامنے رہے گا۔ اس تمام تر منظرنامے میں لگتا تو یہ ہے کہ یمن کےعوام کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور قیام امن کے لیے ابھی ایک طویل سفر ہے جو یمن کے شہریوں نے طے کرنا ہے۔

    یمن جنگ کے انسانی زندگی پراثرات


    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    [bs-quote quote=”اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    حرف ِآخر


    ان سارے عوامل کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے ، بصورت دیگر مشرقِ وسطیٰ کا یہ دوسرا بڑا عرب ملک ، مسلم حکمرانوں کی ان بین الاقوامی سطح کی بے وقوفیوں کا شکار بن کربالکل ہی برباد ہوجائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عرب بہار کے نام پر اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیراعظم پاکستان اپنے دورۂ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگرچاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ امریکی مطالبہ بھی یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں تو سعودی عرب کے لیے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ یمن کی اس بے مقصد جنگ سے وہ خود کو باہر نکال لے،بہ صورتِ دیگر وہ یہاں گردن تک دھنس چکا ہے اور فی الحال اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔

    جاتے جاتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان ’قیامتِ صغرا ‘تھا۔ مؤلف کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن کتاب میں احادیث کے حوالے سے وہ علامات جمع کی گئیں تھیں جن کا قیامت سےپہلے ظہور ہونا ہے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھی کہ عدن( یمن ) کی گہرائیوں میں سے ایک ایسی ہولناک آگ برآمد ہوگی جو سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ محض چند سال کے بعد ہی قیامت کی وہ علامت مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے اور اب یہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا مزید تیل ڈال کراسے پورے خطے میں پھیلادیتے ہیں۔

  • غذا ضائع کرنے والے 10 بے حس ممالک

    غذا ضائع کرنے والے 10 بے حس ممالک

    انسان کے زندہ رہنے کے لیے جو اشیا سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں غذا سرفہرست ہے ، اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ممالک غذائی اشیا بے دریغ ضائع کرتے ہیں، اس غذائی کچرے کو تلف کرنے پر بھی کثیر رقم صرف ہوتی ہے۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کرہ ارض کے 78 کروڑ افراد مسلسل بھوک اور افلاس کا شکار ہیں ، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو غذائی اشیا کو انتہائی معمولی وجوہات کی بنا پر ضائع کردیتے ہیں اور یہ ضائع شدہ غذائی اشیا لاکھوں ٹن ہوتی ہیں جن سے پوری دنیا کے بھوکے لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے ہیں۔

    یہ غذا نہ صرف گھروں میں بلکہ کھیتوں میں اور انڈسٹریل سطح پر بھی بے دریغ ضائع کی جارہی ہے اور اس کا سب سے بنیادی سبب اسٹوریج کے مناسب اقدامات نہ ہونا ہے، آپ جان کرحیران رہ جائیں گے کہ غذا ضائع کرنے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں صرف افریقا میں لاکھوں افراد ایک ایک روٹی کو ترستے ہیں ، یقیناً غذائی اشیا کے ساتھ ایسا رویہ کسی بھی طور انسانی نہیں ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    اس تحریر میں ہم آپ کو ان دس ملکوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو 2018 انڈیکس کے مطابق سب سے زیادہ غذا ضائع کرتے ہیں۔

    ناروے


    غذا ضائع کرنے والے ممالک میں ناروے دسویں نمبر پر ہے، حیرت انگیز طور پر ا س ملک کا صرف تین فیصد رقبہ زیرِ کاشت ہے جو کہ یہاں کے عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے قطعی ناکافی ہے ۔ ملک کی تمام تر غذائی ضرورت باہر سے امپورٹ کرکے پوری کی جاتی ہے اس کے باوجود یہاں سالانہ 620 کلو غذائی اشیا فی کس ضائع ہوجاتی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ناروے سالانہ تین لاکھ 35 ہزار ٹن فوڈ ہر سال ضائع کردیتا ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں سب سے زیادہ گھروں میں اور کھانے پینے کی جگہوں پر ضائع کیا جاتا ہے۔

     

    کینیڈا


    کینیڈا اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق یہاں فی کس 640 کلو گرام فوڈ ضائع ہوجاتا ہے جو کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 75 لاکھ ٹن بنتا ہے۔ یہ ضائع شدہ کھانا نہ صرف ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ ماحولیات کے لیے بھی خطرہ بناتا ہے۔ یہاں بھی گھریلو کچن اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ ٹورنٹو غذائی اشیا کو ضائع کرنے والے اور اس پیدا ہونے والی آلودگی سے متاثر ہونے والے اہم شہروں میں شامل ہے۔

    ڈنمارک


    ڈنمارک اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے ، اس ملک میں پیک شدہ اور غیر پیک شدہ دونوں طرح کی غذائی اشیا طویل عرصے سے استعمال کی جارہی ہیں۔ یہ ملک اپنی ضرورت کا محض دو فیصد خود اگاتا ہے اور باقی تمام کا تمام باہر سے امپورٹ کرتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی کس 660 کلو کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو کہ مجموعی طور 7 لاکھ ٹن کھانا ضائع کرتا ہے ۔ ا س بڑی مقدار کوٹھکانے لگانا یہاں کی حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ ڈنمار ک آبادی کینیڈا سے انتہائی کم ہے۔

    آسٹریلیا


    آسٹریلیا کی جہاں آبادی زیادہ ہے اس کا نمبر ساتواں ہے ۔ وہاں غذائی اشیا ضائع کرنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ یہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد بتائی جاتی ہے جو کہ بچا ہوا کھانا سنبھالنے کے بجائے پھینک دینے کی عادی ہے۔ غذا ضائع ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کے تاجر اکثر غذائی اشیا کو مارکیٹ میں آنے سےقبل ہی مسترد کردیتے ہیں جس کے سبب اسے ضائع کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلوی حکومت کو کم از کم آٹھ ملین ڈالر اس غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے میں صرف کرنا پڑتے ہیں۔

    امریکا


    امریکا غذا پیدا کرنےاور امپورٹ کرنے ، دونوں میں بہت آگے ہے ، یہاں کے افراد کھانے پینے کے بے حد شوقین ہیں۔ غذا ضائع کرنے میں امریکا چھٹے نمبر پر ہے ۔فارم سے لے کر کیٹرنگ پوائنٹ تک پہنچنے میں ہی یہاں غذا کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے ۔ اندازہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی آدھی غذا ضائع ہوتی ہے۔ یعنی یہاں فی کس 760 کلو غذائی اشیا ضائع کی جارہی ہیں جن کی قیمت 1600 ڈالر بنتی ہے۔ یہ غذائی کچرا نقصان دہ گیسز پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے جس سے گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    فن لینڈ


    فن لینڈ انتہائی چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس فہرست میں پانچویں نمبر ہے، اندازہ ہے کہ یہاں 550 کلو گرام فوڈ فی کس ضائع ہوجاتا ہے۔ غذاضائع کرنے میں ریستوران، ہوٹل اور کیفے سب سے آگے ہیں ، گھریلو کچن اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

    سنگاپور


    جزیروں پر مشتمل ملک سنگا پور کا غذائی ضرورت کا انحصار درآمد کرنے پر ہے اس کے باوجود کھانا ضائع کرنے والوں کی اس لسٹ میں یہ ملک چوتھے نمبر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں آنے والی تمام تر غذائی اشیا کا کل 13 فیصد حصہ مکمل ضائع ہوجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کھانے کو مکمل ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم ان اقدامات سے فی الحال کل ضائع شدہ کھانے کا تیرہ فیصد ہی ری سائیکل کیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک میں کھانا ضائع کرنے کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔

    ملائشیا


    کھانا ضائع کرنے والے ممالک میں جنوب مشرقی ایشیائی ملک ملائیشیا تیسرے نمبر پر ہے ، یہ ایک زرعی ملک ہےجس کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے، عموماً ایسے ممالک میں غذا ضائع کرنے کی شرح بے حد کم ہوتی ہے تاہم یہاں افسوس ناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 560 کلو فی کس غذا ضائع کردی جاتی ہے۔ ضائع ہونے والی اشیا میں سرفہرست فروٹ اور سبزیاں ہیں۔

    جرمنی


    انسانی ہمدردی پر مشتمل رویوں کا حامل ملک جرمنی میں بھی اس فہرست میں دوسرے نمبرپر ہے یعنی یہاں بھی کھانا ضائع کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک جرمن شہری ہر سال 82 کلو کرام غذا ضائع کردیتا ہےجو کہ مجموعی طور پر 11 ملین ٹن بنتا ہے ۔ اس غذای کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے حکومت کو کثیر سرمایہ صرف کرنا پڑتا ہے ۔ جرمنی کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ 2030 تک اس مقدار کو کم کرکے آدھے پر لایا جائے۔

    برطانیہ


    برطانیہ ان ممالک میں سے ہے جو اپنی غذائی ضرورت کا بڑا حصہ ملک میں اگاتے ہیں ، ان کی ساٹھ فیصد غذائی ضرورت ملک سے پوری ہوتی ہے جبکہ باقی 40 فیصد امپورٹ کیا جاتا ہے ۔ یہ ملک6.7 ملین ٹن غذائی کچرا پیدا کرکے اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے میں 10.2 بلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں ، یاد رہے کہ اتنی رقم سے پاکستان جیسے ممالک اپنے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں۔ برطانیہ کی حکومت کی کوشش کہ ہے کہ اس کچرے کو کم کر ایک لاکھ 37 ہزار ٹن تک لایا جاسکے اور مقصد کے لیے وہاں ‘غذا سے پیار، غذا کے ضیاع سے نفرت‘ کے عنوان سے مہم بھی چل رہی ہے۔


    جہاں اس دنیا میں کہیں غذا کا ضائع ہونا کچھ ممالک کا سنگین مسئلہ ہے تو وہیں اسی کرہ ارض پر کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جو اپنی غذائی ضرورت پوری ہی نہیں کرپاتے اور ان کے عوام قحط سے بھوکوں مرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پوری پوری نسلوں نے کبھی کسی پرتعیش غذا کی شکل بھی نہیں دیکھی۔

    ایسے میں یہ تمام ممالک جو کہ غذا ضائع کرنے میں سب سے آگے ہیں اور سب کے سب ہی ترقی یافتہ ہیں، ان پر سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ غذائی قلت کو روک کر اسے محفوظ کرنے کے اقدامات کریں کہ یہی معاشی ، معاشرتی اور انسانی طور پر ایک بہتر عمل ہے۔ غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ غذا کو محفوظ کرنے پر یہ ممالک اپنا سرمایہ کم کریں تاکہ ان کی معیشت پر بوجھ بھی کم ہو اور دنیا کے کروڑوں انسان پیٹ بھر کر کھا بھی سکیں۔

  • کیا آپ کسی کی مالی مدد کرنے کے فوائد جانتے ہیں؟

    کیا آپ کسی کی مالی مدد کرنے کے فوائد جانتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چیریٹی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یوں تو چیریٹی کو عام معنوں میں صدقہ و خیرات کہا جاتا ہے، تاہم سخاوت یا انسانی ہمدردی کے تحت مالی طور پر کی جانے والی امداد بھی اسی زمرے میں آتی ہے جو ہر شخص کو کرنی چاہیئے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مدر ٹریسا کے یوم وفات 5 ستمبر کو ورلڈ چیریٹی ڈے کے طور پر منانے کی منظوری دی تھی۔

    مالی امداد دراصل ان لوگوں کے لیے کی جاتی ہے جو معاشی پریشانی کا شکار ہیں، مصیبت میں ہیں، تکلیف میں ہیں، بے گھر، دربدر یا پناہ گزین ہیں۔ بے سہارا ہیں، یا کسی کار خیر کے لیے کوئی فرد یا گروہ کوئی عمل سر انجام دے رہا ہو انہیں عطیات دیے جائیں۔

    اسلامی عقائد کے مطابق صدقہ و خیرات اور عطیات یوں تو بلاؤں کو ٹالتا ہے، لیکن مالی طور پر کسی کی مدد کرنے کے بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور طبی فوائد بھی ہیں جن کی سائنس نے بھی تصدیق کی ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا فوائد ہیں۔


    بے پناہ خوشی

    اگر آپ نے کبھی کسی مستحق کی مالی مدد کی ہوگی تو آپ اپنے اندر ایک عجیب سا سکون اور خوشی محسوس کریں گے۔

    امداد پانے والے شخص کی آنکھوں کا تشکر آپ کو شرمندہ تو کرسکتا ہے، تاہم یہ تشکر آپ کے اندر خوشی بھی بھر دے گا۔ یہ خوشی آپ کو پھر سے خیراتی کاموں کی طرف راغب کرے گی تاکہ آپ پھر سے وہ خوشی اور سکون حاصل کریں۔


    زندگی کا مطلب جانیں گے

    جب آپ اپنے سے کم تر اور غریب لوگوں کو دیکھیں گے، ان کے مسائل سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ کی زندگی کس قدر نعمتوں سے بھرپور ہے۔

    آپ کو اپنی زندگی اور حاصل شدہ نعمتوں کی قدر ہوگی اور آپ میں شکر گزاری کی عادت پیدا ہوگی۔


    بچوں پر مثبت اثر

    اگر آپ والدین ہیں تو کسی کی مالی امداد کرتے ہوئے آپ اپنے بچوں میں لاشعوری طور پر ہمدردی، انسانیت اور مدد کرنے کا جذبہ بو رہے ہیں۔ کار خیر کے کاموں میں اپنے بچوں کو ضرور شریک کریں اور انہیں اس کے بارے میں آگاہ کریں۔


    دیگر افراد کو ترغیب ہوگی

    ہوسکتا ہے آپ کو کسی کی مالی مدد کرتا ہوا دیکھ کر آپ کے آس پاس موجود افراد کو بھی اس کی ترغیب ہو، اور یوں آپ ایک کار خیر کے پھیلاؤ کا سبب بن جائیں۔


    معاشی منصوبہ بندی

    خیرات کرنے سے آپ بہتر طور پر معاشی منصوبہ بندی کرنے کے عادی بنتے ہیں۔ آپ کی فضول خرچی کی عادت کم ہوتی جاتی ہے اور آپ با مقصد اشیا پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔


    ٹیکس میں کمی

    ترقی یافتہ ممالک میں جو شخص جتنے عطیات دیتا ہے، اسے اتنا ہی کم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔


    مدد کریں، تاکہ آپ کی بھی مدد ہوسکے

    ویسے تو جب آپ کسی کی مشکل حل کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں، تو خدا آپ کی مشکلات میں بھی آسانیاں پیدا کرتا ہے اور آپ کی مشکلات کم ہوتی جاتی ہیں۔

    یہ خیراتی رقم جو آج آپ کسی کی مدد کرنے کے لیے دے رہے ہیں، ہوسکتا ہے کل اس وقت آپ کو اس صورت میں واپس ملے جب آپ خود کسی معاشی پریشانی کا شکار ہوں۔

    ہوسکتا ہے آپ کی مالی امداد کرنے کی عادت مستقبل میں آپ کے بچوں کی معاشی مشکلات کو کم کرسکے، کہ جب انہیں مدد کی ضرورت ہو، تو آپ سے مدد لینے والا کوئی شخص ان کی مدد کردے۔

    گویا یہ ایک قسم کی سرمایہ کاری ہے، جو آپ خدا کے ساتھ کر رہے ہیں، اور یقین رکھیں اس کا منافع آپ کو ضرور ملے گا۔

  • حج کی قدیم نایاب تصاویر جو آپ کا جذبہ ایمان تازہ کردیں گی

    حج کی قدیم نایاب تصاویر جو آپ کا جذبہ ایمان تازہ کردیں گی

    اسلام کا اہم ترین فریضہ عبادت حج کا آغاز ہوچکا ہے اور دنیا بھر سے بے شمار فرزندان اسلام اس اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے سرزمین مقدس پر موجود ہیں۔

    آج سعودی عرب میں دنیا بھر سے آنے والے حجاج کرام کی میزبانی کے لیے شاندار سہولیات فراہم کی جاتی ہیں تاہم اب سے چند دہائیوں قبل منظر نامہ کچھ مختلف تھا۔

    وہ دور آج کے دور جیسا ترقی یافتہ بھی نہیں تھا، اور مختلف ممالک سے حج ادا کرنے کے لیے مکہ المکرمہ پہنچنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔

    مزید پڑھیں: خانہ کعبہ کی مختلف ادوار کی تصاویر

    آج ہم آپ کو سنہ 1953 میں کھینچی گئی حج کے موقع کی ایسی ہی کچھ نایاب تصاویر دکھانے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود فرزندان اسلام دین اسلام کی محبت و عقیدت سے سرشار ہو کر اس فریضے کی تکمیل کے لیے پہنچتے تھے۔

     اس وقت جہاز کا سفر اتنا عام نہیں تھا اور دنیا کے دور دراز خطوں سے آنے والے بحری سفر کر کے حج ادا کرنے پہنچتے تھے۔


    صاحب حیثیت افراد ہوائی جہاز کا سفر بھی کرتے تھے مگر وہ زیادہ تر قریبی ممالک کے رہنے والے ہوتے تھے۔


    حجاج کرام کے ایک سے دوسری جگہ سفر کا منظر۔


    اس وقت موجود کئی عمارتوں کو حرم کی وسعت تعمیر کے لیے اب ڈھا دیا گیا ہے۔


    غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی کا بورڈ۔


    مکہ کی ایک مصروف سڑک، تصویر میں عثمانی طرز تعمیر کا حامل ایک مینار بھی موجود ہے۔


    مسجد الحرام میں داخلے کا ایک منظر۔


    مسجد کے دروازے کے باہر محو عبادت نمازی۔


    خانہ کعبہ اور مطاف کا ایک منظر، اس وقت یہاں پکے فرش نہیں بچھائے گئے تھے۔


    اس وقت عازمین حج کو خانہ کعبہ کے اندر داخلے کی اجازت بھی تھی۔


    خانہ کعبہ کا طواف اس وقت ایک آسان عمل تھا کیونکہ اس وقت آج کی طرح لوگوں کا ہجوم نہیں ہوتا تھا۔


    مسجد الحرام کے قریب قائم بازار اور مختلف اشیا فروخت کرنے والے تاجر۔


    اس وقت گھوڑا گاڑیاں آمد و رفت کا نہایت آسان ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔


    حجاج کرام قربانی کے لیے اپنی مرضی کے جانور کا انتخاب کرتے تھے۔


    فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران کچھ حجاج اپنے جانوروں کو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے۔


    جانوروں کی قربانی کے بعد انہیں گدھے پر لاد کر لے جایا جاتا تھا۔


    حجاج ہاتھ سے بنے چولہوں پر اپنا کھانا خود تیار کیا کرتے تھے۔


    میدان عرفات میں حاجیوں کے نصب شدہ خیمے۔


    شیطان کو کنکریاں مارنا یعنی جمرات کے لیے مٹی کا ایک ستون استعمال ہوتا تھا۔

  • جشن آزادی: پاکستانی ملی نغمے جو کئی دہائیوں سے دلوں میں زندہ ہیں

    جشن آزادی: پاکستانی ملی نغمے جو کئی دہائیوں سے دلوں میں زندہ ہیں

    کراچی: پاک وطن کے شہری آزادی کا جشن بھرپور انداز میں مناتے ہیں، ہر محب وطن شہری کے لبوں پر  بالخصوص 14 اگست کو ملی نغموں کی سریلی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    جب قومی نغموں میں جذبہ اور وطن سے محبت کا جنون شامل ہو اور توقومی ترانے کی مدھر دھن اور سُر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوز کرنے کا ساماں ہوتے ہیں ۔

     یوم آزادی کی تقریبات میں قومی ترانے، قومی نغمے اور اسکے دھن کے رس گھولتے سُر اپنی مخصوص دُھن میں جشن آزادی کے تقدس اوراہمیت کو اور بڑھا دیتی ہے۔

    جشن آزادی پر وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے چند ملی نغمے اسے بھی ہیں  جو کئی دہائیوں سے ہر محب وطن کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں اور وہ آج بھی قوم کا لہو گرماتے ہیں۔

    پاکستان کے مشہور و معروف گلوکاروں کے چند  ایسے ملی نغمے جن تخلیق کے بعد سے کبھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی مندرجہ ذیل ہیں۔

  • یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    کراچی: رواں برس مادر وطن پاکستان کا یوم آزادی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز ہمارے وطن کی آزادی کو 71 برس مکمل ہوجائیں گے۔

    ہر سال یہ دن ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ اس قدر طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔

    اس دن کی تاریخی اہمیت محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ان مقامات کی سیر کرنا بھی ہے جو قیام پاکستان سے منسوب ہیں یا اس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

    آج ہم آپ کو کراچی میں واقع ایسے ہی چند مقامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں یوم آزادی کے دن جانا نہ صرف آپ کے اس دن کو یادگار بنا دے گا بلکہ ایک آزاد وطن کے شہری ہونے کے احساس اور فخر کو بھی دوبالا کردے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    مزار قائد

    کراچی اس حوالے سے ایک منفرد اہمیت کا حامل شہر ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    یوم آزادی پر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری، فاتحہ خوانی اور پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

    سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مزار قائد شہر کراچی کے وسط میں واقع ہے۔ مزار کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب ہیں۔ رات میں جب روشنیاں جل اٹھتی ہیں تو مزار اور اس کے اطراف کا حصہ نہایت سحر انگیز دکھائی دیتا ہے۔

    مزار سے متصل باغ بھی بلاشبہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں یہاں گزارے گئے وقت کو یادگار ترین بنا دیتی ہیں۔

    وزیر مینشن

    کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع وزیر مینشن نامی گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔

    سنہ 1953 میں حکومت پاکستان نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر قومی ورثے کا درجہ دے دیا جس کے بعد اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا۔

    دو منزلوں پر مشتمل اس مکان میں قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، لباس، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور قائد اعظم کی دوسری اہلیہ رتی بائی کے استعمال کی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

    یہاں موجود سب سے اہم اثاثہ، جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں، قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

    فلیگ اسٹاف ہاؤس

    کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع فلیگ اسٹاف ہاؤس جسے قائد اعظم ہاؤس میوزیم بھی کہا جاتا ہے، قائد اعظم نے 1946 میں خریدا تھا۔ ان کا ارادہ پاکستان کے وجود میں آنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں قیام کا تھا۔

    تاہم قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنے انتقال تک وہیں رہے۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق، ’قائد اعظم نے اپنی زندگی کا ایک روز بھی اس گھر میں نہیں گزارا۔ یہ گھر ان سے منسوب تو ضرور ہے تاہم اسے قائد اعظم ہاؤس کا نام دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے‘۔

    قائد اعظم کے انتقال کے صرف 2 دن بعد 13 ستمبر 1948 کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح گورنر ہاؤس سے فلیگ اسٹاف ہاؤس منتقل ہوگئیں۔ اس وقت وہاں موجود تمام نوادرات فاطمہ جناح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی وہاں رہائش کے دوران ان کے زیر استعمال تھے۔

    فاطمہ جناح اس گھر میں 16 یا 17 سال تک رہائش پذیر رہیں۔

    موہٹہ پیلیس

    کلفٹن میں واقع یہ خوبصورت محل ایک ہندو تاجر چندر رتن موہٹہ نے تعمیر کروایا تھا۔

    سنہ 1963 میں یہ محل حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کردیا جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوگئیں اور اپنے انتقال تک یہیں رہیں۔

    خوبصورت محرابوں اور سرسبز باغ پر مشتمل یہ محل اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے جہاں اکثر و بیشتر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے کہ اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    اکادمی قائد اعظم

    قائد اعظم محمد علی جناح کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر قائم کی جانے والی قائد اعظم اکیڈمی، بانی پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں مصدقہ دستاویزات کی فراہمی کا معتبر ادارہ ہے۔

    یہ ادارہ وفاقی وزارت ثقافت و کھیل کے ماتحت ہے۔

    فریئر ہال

    کراچی کا سب سے مشہور اور نمایاں ترین تاریخی اور خوبصورت مقام فریئر ہال ہے جو صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اسے برطانوی راج میں سنہ 1865 میں ایک ٹاؤن ہال کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ اب اس ہال میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری اور لائبریری موجود ہے۔

    فریئر ہال کے لیاقت نیشنل لائبریری کے نام سے جانے جانے والے کتب خانے میں 70 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم و تاریخی مخطوطے بھی شامل ہیں۔

    اسی طرح آرٹ گیلری بھی فن و مصوری کا مرکز ہے جسے صادقین گیلری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    پاکستان کے معروف مصور و خطاط صادقین نے فریئر ہال کی چھتوں اور دیواروں پر نہایت خوبصورت میورلز (قد آدم تصاویر) بنائی ہیں۔ یہاں صادقین کا ایک ادھورا فن پارہ بھی موجود ہے جس پر وہ اپنے انتقال سے چند دن قبل تک کام کر رہے تھے لیکن موت نے انہیں اسے مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

    فریئر ہال کا طرز تعمیر نہایت خوبصورت ہے جو برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کی سیر کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے محسوس ہوں گے اور آپ خود کو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں موجود محسوس کریں گے ۔

    قومی عجائب گھر

    کراچی کے علاقے برنس روڈ پر واقعہ برنس گارڈن کے اندر قومی عجائب گھر واقع ہے جو سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس عمارت میں وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا جہاں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کی بلڈنگ واقع ہے۔

    اس عجائب گھر میں 6 گیلریز موجود ہیں جن میں وادی مہران اور گندھارا تہذیب کے نوادرات، منی ایچر فن پارے، اسلامی فن و خطاطی کے نمونے، قدیم ادوار کے سکے، مختلف عقائد کے مجسمے (بشمول گوتم بدھ، وشنو اور سرسوتی دیوی) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک انتہائی خوبصورت قرآن گیلری بھی ہے جہاں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک کے کئی نادرو نایاب قرآنی نسخے اپنی اصل حالت میں بحال کرکے رکھے گئے ہیں۔

    میوزیم میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے زیر استعمال گھڑیاں، قلم اور چھڑیاں بھی موجود ہیں۔

    خالق دینا ہال

    خالق دینا ہال سنہ 1906 میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد یہاں سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد تھا۔

    اس ہال کی تعمیر کے لیے سندھ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے رقم فراہم کی گئی جس کے بعد اس ہال کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل جب ترکی میں خلافت ختم کی جارہی تھی تب برصغیر میں اسے بچانے کے لیے تحریک خلافت شروع کی گئی جس کے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے۔

    سنہ 1921 میں برطانوی حکومت نے دونوں رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمے کی سماعت 26 دسمبر کو اسی ہال میں ہوئی اور دونوں بھائیوں کو 2، 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    یہاں ایک وسیع اور متنوع کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔

    منوڑہ لائٹ ہاؤس

    کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع منوڑہ ایک جزیرہ نما ہے جو سینڈز پٹ کی پٹی کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں موجود لائٹ ہاؤس کو دنیا کے طاقتور ترین لائٹ ہاؤسز میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    یہ لائٹ ہاؤس سنہ 1889 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔

    سنہ 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں اور لینسز سے آراستہ کیا گیا۔ یہ لائٹ ہاؤس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔

    پاکستان میری ٹائم میوزیم

    کراچی میں پی این ایس کارساز پر واقع پاک بحریہ کے میری ٹائم میوزیم کا دورہ بھی ایک معلوماتی دورہ ہوسکتا ہے۔ 6 گیلریوں اور آڈیٹوریم پر مشتمل اس عجائب گھر میں بحری فوج کے زیر استعمال اشیا، آلات اور لباس رکھے گئے ہیں۔

    یہاں آبدوز اور بحری جہاز کے ماڈل بھی موجود ہیں جن کے اندر جا کر ان کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری ٹائم میوزیم کا دورہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں معلوماتی تفریح ثابت ہوسکتا ہے۔

    پی اے ایف میوزیم

    کراچی میں پاک فضائیہ کا عجائب گھر (پی اے ایف میوزیم) بھی موجود ہے جہاں فضائیہ کے زیر استعمال آلات، ہتھیار اور دیگر ساز و سامان نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    یہاں سنہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کا گرفتار کیا گیا ایک طیارہ بھی رکھا گیا ہے جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال طیارہ بھی یہاں موجود ہے۔

    نشانِ پاکستان

    کراچی کے ساحل پر پاک فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قومی یادگار ’نشان پاکستان‘ قومی اتحاد کی علامت ہے۔

    یادگار کے مرکزی چبوترے پر نشان حیدر پانے والے 11 شہدا کی مناسبت سے 11 کمانیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج ہیں۔

    یادگار کے مرکزی دروازے کے ساتھ 145 فٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جس کا یوم آزادی کے موقع پر نظارہ کرنا یقیناً حب الوطنی کے جذبات کو گرما دے گا۔

    آرٹس کاؤنسل آزادی فیسٹیول

    اس یوم آزادی کی شام آرٹس کاؤنسل کے آزادی فیسٹیول میں شریک ہونا نہ بھولیں جہاں شہر بھر سے باصلاحیت نوجوان و بچے شریک ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔