Tag: اے آر وائی خصوصی

  • بلیوں کا عالمی دن: معصوم سی دوست آپ کی توجہ کی منتظر

    بلیوں کا عالمی دن: معصوم سی دوست آپ کی توجہ کی منتظر

    بلیاں پالتو جانوروں کی فہرست میں سب سے مقبول ترین جانور ہے۔ ہم میں سے کئی افراد بلیاں پالنے کے شوقین ہوتے ہیں یا انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    آج بلیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز بلیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے کیا گیا اور اس کا مقصد اس معصوم سی دوست کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلانا ہے۔

    آج ہم آپ کو کچھ ایسی ضروری معلومات بتا رہے ہیں جو آپ کے لیے جاننا بے حد ضروری ہیں اگر آپ کسی بلی کے مالک ہیں۔


    بلیوں کی اوسط عمر 13 سے 17 سال ہوتی ہے مگر اکثر بلیاں 20 سال کی عمر تک پہنچ جاتی ہیں۔


    اپنی بلی کے پنجے کی جڑ میں موجود ناخن کاٹنے سے پرہیز کریں۔ یہ ان کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کی جگہ انہیں کھردری سطح فراہم کریں جس پر وہ اپنے ناخن کھرچ سکیں۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کھرچنے سے بلیوں کے پرانے ناخن ٹوٹ جاتے ہیں اور نئے اگ آتے ہیں جو ان کے لیے ضروری ہے۔ البتہ ناخن بہت بڑھ جائیں تو ہر 2 سے 3 ہفتے بعد انہیں کاٹا جاسکتا ہے۔


    اگر آپ کے گھر میں بلی کے علاوہ دوسرے پالتو جانور بھی ہیں تو تمام جانوروں کو ایک دوسرے سے متعارف کروائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے دوست بنیں۔


    انگور، کشمش اور خمیر کا آٹا آپ کی بلی کے لیے نقصان دہ ہے لہٰذا یہ چیزیں کبھی بھی اسے کھانے کے لیے نہ دیں۔


    بلیاں اپنے آپ کو چاٹ کر صاف ستھرا رکھتی ہیں۔ اگر آپ ان کے بالوں کو کنگھا کرنے کی کوشش کریں گے تو انہیں تکلیف ہوگی اور ان کے بالوں کی تعداد میں بھی کمی آتی جائے گی۔

    اسی طرح بلیوں کو نہلانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، بعض بلیاں پانی سے بہت گھبراتی ہیں۔


    بلیوں کے کان صاف کرنے کے لیے جانوروں کے ڈاکٹر ایئر کلینر تجویز کرتے ہیں جنہیں احتیاط سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    بلیوں کے دانت صاف کرنا ایک مشکل کام ہے، تاہم کوشش کر کے ہفتے میں 1 سے 2 بار یہ کام کرنا آپ کی بلی کو صحتمند رکھے گا۔ لیکن یاد رہے کہ اس کے لیے آپ کو جانوروں کے لیے مخصوص ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا ہے۔

    نرم روئی سے بلیوں کی آنکھیں صاف کرنا بھی ضروری ہے۔


    دو بلیاں آپس میں کبھی بھی میاؤں کر کے بات نہیں کرتیں۔ تو جب بھی آپ کی بلی میاؤں کرے، جان لیں کہ وہ آپ سے مخاطب ہے۔


    بلی کے پنجوں میں موجود گوشت نہایت حساس ہوتا ہے لہٰذا اسے چھونے سے حتیٰ الامکان گریز کریں۔


    بلیوں کو پیاس بھی بہت لگتی ہے لہٰذا ان کے لیے ہر وقت ایسی جگہ پانی رکھیں جہاں وہ باآسانی پہنچ سکیں۔


    پالتو بلیوں کو باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس لے جا کر ان کی ضروری ویکسینیشنز بھی کرواتے رہیں۔


    اگر آپ کی بلی کھانا نہیں کھا رہی تو اس کی خوراک کو پانی میں بھگو کر دیں۔


    اور ہاں بلیوں کو انسانی لمس بے حد پسند ہوتا ہے چنانچہ اسے اپنے ساتھ لپٹا کر بٹھائیں اور سلائیں۔ یہ نہ صرف آپ کی بلی کو خوش کرے گا بلکہ آپ کو بھی ڈپریشن سے نجات دلائے گا۔


     

  • گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    کراچی: قوم کی بیٹی، پاکستان کی پہچان اور دنیا کی سب سے کمسن نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ ملالہ سنہ 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔

    گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر شہرت پانے والے ملالہ 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    ملالہ کا نام ملال سے نکلا ہے، اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔


    کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادی سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ 27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انہیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔

    ملالہ کے بی بی سی کے لیے لکھے گیے پہلے بلاگ سے اقتباس


    سنہ 2010 میں 9 اکتوبر کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ ’تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا‘۔ جب ملالہ نے اپنا تعارف کروایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔

    ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔

    دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے میں رپورٹرز کو بتایا۔

    ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔

    ملالہ کے والد نے بیان دیا، ’چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے‘۔

    چھ روز بعد 15 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا ’میں ملالہ ہوں‘۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔

    اگلے برس 12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ تھی تب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

    دس اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حق تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔

    اس اعزاز میں ان کے شریک بھارت سے کیلاش ستیارتھی تھے جو بھارت میں بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔

    ملالہ یوسفزئی کو اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات مل چکے ہیں جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔

    اسے اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • والد سے محبت کا عالمی دن

    والد سے محبت کا عالمی دن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج والد کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کا مقصد بچے کے لیے والد کی محبت اور تربیت میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔

    فادرز ڈے کو منانے کا آغاز 19 جون 1910 میں واشنگٹن میں ہوا۔ اس کا خیال ایک خاتون سنورا سمارٹ ڈوڈ نے اس وقت پیش کیا جب وہ ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ایک خطاب سن رہی تھیں۔

    ماں کے مرنے کے بعد سنورا کی پرورش ان کے والد ولیم سمارٹ نے کی تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ اپنے والد کو بتاسکیں کہ وہ ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔

    چونکہ ولیم کی پیدائش جون میں ہوئی تھی، اس لیے سنورا نے 19 جون کو پہلا فادرز ڈے منایا۔

    سنہ 1926 میں نیویارک سٹی میں قومی سطح پر ایک فادرز کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ اس دن کو 1956 میں امریکی کانگریس کی قرارداد کے ذریعے باقاعدہ طور پر تسلیم کرلیا گیا۔

    سنہ 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے قومی سطح پر فادرز ڈے منانے کے لیے جون کے تیسرے اتوار کا مستقل طور پر تعین کرلیا جس کے بعد سے اس دن کو پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جون کے تیسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔

    بعض ممالک میں یہ دن مختلف تاریخوں میں بھی منایا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق باپ سے قریب رہنے والے بچے چیزوں کو جلدی سمجھتے اور سیکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت سے لے کر 2 سال کی عمر تک کے وہ بچے جن کے والد ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں اور کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں، ایسے بچوں کی ذہنی نشونما تیز ہوجاتی ہے۔

    یہ تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی اور لندن کے کنگز کالج کے ماہرین نے مشترکہ طور پر کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کی ماں سے قربت تو ایک عام بات ہے، تاہم اگر اس عمر کے دوران والد بھی ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں تو بچوں کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جن باپوں کو شامل کیا گیا انہوں نے دن کا کچھ حصہ بچوں کے ساتھ گزارا۔ اس دوران انہوں نے بچوں سے باتیں کیں، اپنے مطالعے میں انہیں شریک کیا اور اس دوران کھلونوں سے دور رہے۔

    ان بچوں نے بعد ازاں ذہنی مشقوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    اس کے برعکس وہ والد جن کا رویہ بچوں کے ساتھ رسمی یا سختی کا تھا، ایسے بچوں کی کارکردگی میں تنزلی دیکھی گئی۔

    تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ماں اور باپ دونوں بچے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں تاکہ وہ مستقبل میں ایک ذہین اور باصلاحیت فرد ثابت ہوسکے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اس ماہ رمضان میں کریں منفرد نیکیاں

    اس ماہ رمضان میں کریں منفرد نیکیاں

    ماہ رمضان کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور ایسے میں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ عبادات کرے بلکہ کار خیر کے کاموں میں حصہ لے اور غریبوں کی مدد کرے تاکہ اس مقدس ماہ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوسکے۔

    اس مبارک ماہ میں زکواۃ بھی دی جاتی ہے جبکہ صدقات و عطیات کا سلسلہ بھی عروج پر جا پہنچتا ہے جس کا مقصد اپنے ساتھ ساتھ غربا و مساکین کو ماہ رمضان اور عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔

    رمضان میں یوں تو غربا و نادار افراد کی مالی مدد کرنا، لوگوں کو افطار کروانا اور مسجدوں کے لیے رقم خرچ کرنا عام بات ہے، لیکن آج ہم آپ کو اس ماہ مبارک کے لیے ایسی منفرد نیکیوں سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جو نہ صرف آپ کی نیکیوں کے پلڑا بھاری کریں گی بلکہ دیگر افراد کے مسائل حل کرنے میں بھی مدد دیں گی۔

    یاد رکھیں کہ ہر وہ کام جس سے کسی دوسرے شخص کی مدد ہو اور اسے کسی مشکل سے نجات ملے، آپ کی بھی نجات کا ذریعہ بنے گا۔


    صدقے کی رقم سے کسی کو کاروبار کروائیں

    کاروبار کرنا سنت رسول ﷺ ہے۔ آج کل اس مہنگائی کے دور میں ایک لگی بندھی تنخواہ میں گزارا کرنا مشکل ہے جس کی وجہ سے اکثر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی کریں تاکہ زندگی کی گاڑی آسانی سے چل سکے۔

    کاروبار کی ضرورت ان افراد کو زیادہ ہوتی ہے جو کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور انہیں کوئی اچھی ملازمت نہیں مل پاتی۔

    اس سال اپنی زکواۃ اور صدقہ و خیرات کی مد میں دی جانے والی رقم سے کسی مستحق شخص کو ایسا کاروبار کروا دیں جو جلد نفع دینے لگے۔

    لوگ عموماً صدقے کی رقم کو تھوڑا تھوڑا کر کے بہت سے لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں جو بہت مختصر عرصے تک کام آتی ہے۔ اس کے بعد مستحق اور نادار افراد ایک بار پھر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

    ایک ہی بار کسی شخص کو کاروبار کروا دینے سے آپ ایک پورے خاندان کو ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچا کر باعزت زندگی دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کی پورے سال کی زکواۃ کا بہترین مصرف ہوگا۔


    غریب بچے کی فیس ادا کریں

    اسی طرح آپ اپنے صدقات کی رقم سے کسی نادار بچے کی پورے سال کی فیس بھی ادا کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ صدقات و عطیات خرچ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے خاندان اور قریبی عزیز و اقارب میں نظر دوڑائیں۔

    اگر آپ کا کوئی عزیز کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کر کے غیروں کو صدقات دے رہے ہیں تو یقیناً ایسی نیکی بے فائدہ ہے۔

    کسی ایسے گھر کے ہونہار بچے کو جو بہت مشکل سے زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہو، پورے سال کی فیس ادا کر کے آپ ایک بڑے بوجھ سے نجات دلا سکتے ہیں۔


    درخت لگائیں

    درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ درخت جب تک زندہ رہے گا اور لوگوں کو سایہ اور پھل فراہم کرے گا، اپنے لگوانے والے کی آسانی و بخشش کا سامان کرتا رہے گا۔

    چونکہ آج کل موسم گرما بھی عروج پر ہے، ایسے میں کسی عوامی مقام پر درخت لگوانے سے آپ بے شمار بزرگ، بیمار، اور روزہ دار افراد کی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں۔


    عوامی مقام پر شیڈ لگوائیں

    سخت موسم گرما کے پیش نظر کسی عوامی مقام پر شیڈ بھی لگوایا جاسکتا ہے۔ سبز رنگ کا ترپال لوگوں کو دھوپ اور گرمی سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرے گا اور لوگ بے اختیار آپ کی سلامتی کی دعائیں دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

    اس ضمن میں بس اسٹاپ، کسی مسجد کے باہر یا صحن میں، کسی تعلیمی ادارے کے باہر جہاں طلبا کا ہجوم کھڑا ہو کر سواری کا انتظار کرتا ہو یا کسی ایسے مقام کا انتخاب بہتر ہوگا جہاں لوگ قطاروں میں لگ کر کوئی کام کرواتے ہوں۔


    پانی کے اسٹالز

    گزشتہ چند سالوں سے رمضان سخت موسم گرما میں آرہا ہے جس کی وجہ سے بزرگ، بیمار اور کمزور افراد روزے رکھنے سے معذور ہیں۔

    ایسے تمام افراد اور غیر مسلموں کے لیے کسی بس اسٹاپ کے نزدیک پانی کا اسٹال قائم کرنا یقیناً ایک احسن قدم ہوگا۔ پانی کی سبیل قائم کرنا پورے سال ہر موسم میں لوگوں کی پیاس بجھانے اور آپ کی بخشش کا سبب بنے گا۔


    ضرورت مند کے گھر کی مرمت کروائیں

    صدقات کی رقم کا ایک مصرف کسی ایسے غریب شخص کے گھر کی مرمت کروادینا بھی ہے جو عرصے سے مرمت کا منتظر ہو۔

    پاس پڑوس میں یا کسی غریب رشتہ دار کے گھر کی مرمت کروا دینا یقیناً نیکی ہے۔


    سحری کروائیں

    ماہ رمضان میں افطار تو سب ہی کرواتے ہیں تاہم سحری کروانا بھی نیکی ہے۔ لمبے سفر پر، گھر سے دور افراد یا کسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے سڑک پر موجود افراد کو سحری کروانا آپ کی نیکیوں میں اضافہ کرے گا۔


    مستحق رشتہ دار کے گھر میں سرپرائز افطار کروائیں

    رمضان میں لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر افطار کرتے ہیں جس کے لیے میزبانوں کو اچھا خاصا اہتمام کرنا پڑ جاتا ہے۔

    ایسے میں اگر کسی روز آپ گھر یا بازار سے افطار کے تمام لوازمات لے کر معاشی طور پر کمزور کسی رشتہ دار کے گھر جا پہنچیں تو اس سے ملنے والی خوشی آپ کو نہال کردے گی۔


    محلے کی صفائی کریں

    گو کہ گلیوں محلوں کو صاف رکھنا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، تاہم ایسی صورتحال جب انتظامیہ غافل ہو، اور آپ کی گلی کا کچرا بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنے، آنے جانے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرے اور تغفن کے باعث سانس لینا دوبھر کردے، یقیناً آپ کی توجہ کی متقاضی ہے۔

    رمضان میں رات کے اوقات میں گلی کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر اپنے محلے کی صفائی کر کے نمازی حضرات اور خواتین کے لیے چلنے میں آسانی پیدا کرنا اور محلے کو بدبو اور گندگی سے نجات دلانا آپ کی نیکیوں میں اضافہ کرے گا۔


    غریب بچوں کے لیے عید کا اہتمام

    کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے۔ اپنے نادار رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کے بچوں کی فہرست بنائیں اور عید سے چند روز قبل انہیں مارکیٹ لے جا کر ان کی پسند سے عید کی تیاری کروائیں۔

    بچے عید پر اپنی پسند کے لباس پہن کر اور تیار ہو کر آپ سے ملنے آئیں گے جو آپ کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کردے گا۔


    بچوں کو کارخیر کی جانب راغب کریں

    ماہ رمضان کے دوران بچوں کے اسکولوں کی چھٹیاں بھی ہیں لہٰذا یہ وقت بچوں میں غریبوں سے ہمدردی اور ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کا بہترین وقت ہے۔

    رمضان میں شام یا رات کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے بچوں کو بھی ان کے والدین کی اجازت سے ساتھ لیں اور اپنے ساتھ کار خیر کے کاموں میں شریک کریں۔

    محلے کی صفائی کرنے یا درخت لگوانے کے موقع پر بچے بڑوں سے زیادہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ درخت لگانے کے بعد روزانہ ایک بچے کی ڈیوٹی لگائی جاسکتی ہے کہ وہ درخت کو پانی ڈالے۔

    اسی طرح اگر آپ غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو خریداری سے لے کر تقسیم کے آخری مرحلے تک بچوں کو ساتھ رکھیں۔

    انہیں غریب اور پسماندہ بستیوں کا دورہ کروائیں تاکہ وہ زندگی کی مشکلات کو سمجھیں اور خود کو حاصل نعمتوں کی قدر کرنا سیکھیں۔

    بچوں کو فلاحی کام کرنے کے فوائد بتائیں اور سمجھائیں کہ دوسروں کی مدد کر کے آپ کسی پر احسان نہیں کر رہے بلکہ یہ خود کو دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔


    کتاب کا تحفہ دیں

    کسی کتاب دوست شخص کو کتاب تحفے میں دینا بھی ایک احسن عمل ہے خصوصاً آج کے دور میں جب کتابوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور متوسط طبقہ اپنے اس شوق سے بھی محروم ہو رہا ہے۔

    رمضان میں کسی عزیز کے گھر جاتے ہوئے کھانے پینے کی اشیا لے جانے کے بجائے کتاب بھی لے جائی جاسکتی ہے۔ اگر میزبان کے گھر میں بچے موجود ہیں تو بچوں کے لیے رنگین تصویری کتابوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔


    خون کا عطیہ دیں

    خون کا عطیہ دینا حادثات میں زخمی ہوجانے والے اور خون کی کمی کا شکار افراد کی جان بچا سکتا ہے۔

    روزے کے دوران خون دینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا یہ نیک کام شام کے اوقات میں روزہ کھل جانے کے بعد سرانجام دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گھارو میں یورپی معیار کا انوکھا ریسٹورنٹ، جہاں‌ غیرملکی بھی کھانا کھانے آتے ہیں

    گھارو میں یورپی معیار کا انوکھا ریسٹورنٹ، جہاں‌ غیرملکی بھی کھانا کھانے آتے ہیں

    ٹھٹھہ:سندھ کے چھوٹے سے شہر گھارو میں ایک ایسا حیران کن ریسٹورنٹ بھی ہے، جس کی صفائی ستھرائی کا معیار کسی یورپی ریسٹورنٹ سے کم نہیں اور جہاں غیرملکی بھی کھانا کھانے آتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گھارو میں عمران کیفے نامی ایک انوکھا ریسٹورنٹ ہے، جہاں بڑے شہروں کے ہوٹلوں سے بھی زیادہ صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے، بیرے سیاہ رنگ کی بے داغ وردی اور صاف ستھرے جوتے پہنتے ہیں، جب کہ کک سر اور منہ ڈھانپ کر کھانا پکاتے ہیں۔

    اے آر وائی کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے ایک بار گھارو سے گزرتے ہوئے اس صاف ستھرے ریسٹورنٹ کو دیکھا تھا. پروگرام میزبان اقرار الحسن نے کچھ عرصے بعد اس کا تفصیلی دورہ کیا اور کیفے عمران کے مالک سے گفتگو کی۔

    اس رپورٹ میں پروگرام میزبان نے وہاں موجود گاہکوں سے بات چیت کی، جنھوں نے اس کی کوالٹی کو نہ صرف اطمینان بخش بلکہ قابل تعریف ٹھہرایا۔ سرعام کی ٹیم نے فیملی ہال میں بیٹھے افراد خواتین و افراد سے بھی گفتگو کی۔

    اس دوران وہاں چند غیرملکی بھی موجود تھے، جنھوں نے یہاں کے معیار کو بین الاقوامی معیارات کے عین مطابق اور قابل ستائش قرار دیا۔

    بعد میں ٹیم نے ریسٹورنٹ کے کچن کا دورہ کیا۔ یاد رہے کہ عام طور ریسٹورنٹ کے کچن ہی سب سے زیادہ بری حالت میں ہوتے ہیں، البتہ یہاں صفائی کا مکمل خیال رکھا گیا تھا، اسٹور میں تمام چیزیں ترتیب سے رکھی تھیں اور کوکنگ ایریا میں بھی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا گیا تھا۔

    اس موقع پر کیفے کے مالک نے کہا کہ یہ ان کا ریسٹورنٹ کا اولین تجربہ ہے۔ انھوں نے ابتداہی سے اصولوں کو مقدم رکھا. یہ ان کے والدین اور اساتذہ کی تربیت ہے، جو ریسٹورنٹ میں دکھائی دے رہی ہے۔


    اقرارالحسن کی پورے پاکستان کو’’سرعام‘‘ کی ٹیم میں شمولیت کی دعوت


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہاتھ کی کڑھائی سے پورا قرآن مجید تحریر کرنے والی پاکستانی خاتون

    ہاتھ کی کڑھائی سے پورا قرآن مجید تحریر کرنے والی پاکستانی خاتون

    گجرات : پاکستان کے صوبے پنجاب کی رہائشی خاتون نسیم اختر نے مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کے بعد 32 برس میں ہاتھ کی کڑھائی سے لکھا قرآن مجید کا نسخہ تیار کرلیا۔

    اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے شوق تھا کہ ہاتھ کی کڑھائی سے قرآن مجید خود تحریر کروں، شادی سے پہلے ارادہ کیا مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ 1987 میں شادی کے بعد جب حتمی ارادہ کیا تو فیصل آباد سے کپڑے کے 12 تھان منگوائے جن کی چوڑائی 45 انچ اور لمبائی 25 گز تھی، کپڑے کو شلنگ کے بعد کاٹا جس میں بہت وقت لگا بعد ازاں اسے ترتیب دے کر قرآن مجید کو سامنے رکھ کر الفاظ تحریر کیے۔

    خاتون کا دعویٰ ہے کہ ہاتھ کی کڑھائی سے تیار کیا جانے والا قرآن مجید کا یہ نسخہ واحد ہے جو ایک ہی عورت کے ہاتھ سے بنا، اس میں کسی کی مدد شامل نہیں بلکہ سب میری اپنی کاوش ہے، کبھی دو سطریں تو کبھی تین سطریں بنتی تھیں کیونکہ پہلے تو یہ کام آسان نہیں تھا دوسرا لفظ کو پڑھنا تھا اس لیے اعراب کا بہت زیادہ خیال رکھا کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔

    خاتون نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قرآن مجید کے اس نسخے کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا جائے کیونکہ ہاتھ کی کڑھائی کا ایسا کوئی قرآن مجید نہیں بنا جو خاص طور پر ڈبل لکھائی پر بنا ہو۔ نسیم اختر نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ میں مدینہ جاکر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتی ہوں۔

    ویڈیو دیکھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسکولوں میں فائرنگ: کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں؟

    اسکولوں میں فائرنگ: کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں؟

    واشنگٹن: گزشتہ کچھ عرصے میں امریکا کے مختلف اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک بھر میں گن کلچر کے خلاف پرزور احتجاج کیا جارہا ہے تاہم انتظامیہ اس پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

    سماجی و سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کو دیکھتے ہوئے نہ صرف انفرادی طور پر بچاؤ کی کوششیں کرنا ضروری ہیں بلکہ کچھ احتیاطی تدابیر بھی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ حادثے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو سکے۔

    مزید پڑھیں: فلوریڈا کے ہائی اسکول میں فائرنگ، 17 افراد ہلاک

    ان کےمطابق ایسے حادثات کی شدت کو کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں۔


    ملزم کا نام لینے سے گریز

    امریکی سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ابتدا میں ہونے والے واقعات کے بعد جب ٹی وی اور اخبارات میں ملزم کا نام آنا شروع ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے فوراً بعد ہی اسی نوعیت کے دیگر واقعات بھی پیش آئے۔

    سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد ٹی وی اور اخبارات پر ملزم کا نام آنا ممکنہ طور پر ایک وجہ ہوسکتی ہے جو شہرت کے حصول کے خواہش مند کسی عام سے طالب علم کو مجرم بنا سکتی ہے۔

    سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تجاویز کے بعد سی این این سمیت متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز نے فیصلہ کیا کہ وہ ملزم کا نام اور اور تصویر شائع نہیں کریں گے، اس کی جگہ وہ متاثرین کے بارے میں آگاہ کرنے کو ترجیح دیں گے۔


    اساتذہ کو مسلح کرنا

    اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات کو دیکھتے ہوئے تجویز دی جارہی ہے کہ ہر اسکول میں منتخب استادوں کو مسلح کیا جائے اور انہیں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جائے۔

    ایک امریکی فائر آرم ایسوسی ایشن کے مطابق اسکول میں کسی مسلح شخص کے گھس آنے کی صورت میں پولیس کو وہاں پہنچنے کے لیے بھی کم سے کم جتنا وقت درکار ہے، اتنی دیر میں مسلح شخص ایک برسٹ میں بے شمار طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اساتذہ کو مسلح کرنے کا بل منظور

    اس کے برعکس اسکول کے اندر موجود تربیت یافتہ ہتھیار سے لیس استاد انتہائی کم وقت میں مسلح شخص کے سر پر پہنچ کر قیمتی جانیں بچا سکتے ہیں۔

    ایسوسی ایشن کی تجویز ہے کہ استادوں کو ہتھیار چلانے کے ساتھ فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی دی جائے تاکہ وہ زخمی ہونے والے طالب علموں کی بھی فوری مدد کرسکیں۔


    کلاس روم میں دو دروازے

    سیکیورٹی ماہرین کے مطابق باقاعدہ ارادے کے تحت اسکول کے اندر گھسنے والا مسلح شخص ایسی جگہ کو ٹارگٹ کرتا ہے جو چھوٹی ہو اور وہاں موجود افراد کے لیے چھپنے کی جگہ نہ ہو۔

    فلوریڈا میں واقع ایک اسکول کے استاد کے مطابق جب ان کے اسکول میں مسلح حملہ آور گھس آیا تو ایک کلاس روم میں موجود دوسرے دروازے نے نہ صرف طالب علموں کو کلاس سے باہر نکلنے میں مدد دی بلکہ حملہ آور کی توجہ بھی بھٹکائی۔

    مزید پڑھیں: امریکی طلبہ گن حملوں کا جواب پتھر سے دیں گے

    ماہرین نے بھی ہر کلاس روم میں دو دروازے رکھنے کی تجویز کی حمایت کی ہے۔


    پریشان افراد سے اسلحہ واپس لے لینا

    اسکولوں میں ہونے والی فائرنگ کے واقعات میں ملزم زیادہ تر ایسے تھے جو دماغی طور پر پریشان یا نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی شخص میں کسی دماغی الجھن کی تشخیص ہو تو ایسے شخص سے فوری طور پر اسلحہ واپس لے کر اس کے اسلحے کا لائسنس منسوخ کردیا جائے، قبل اس کے کہ وہ ذہنی مریض کسی بڑے حادثے کا ذمہ دار بن جائے۔


    ایئرپورٹ طرز کی سیکیورٹی

    سیکیورٹی ماہرین کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ اسکولوں میں بھی سیکیورٹی اقدامات کیے جائیں اور اس کے لیے ایئر پورٹ طرز کی سیکیورٹی اپنائی جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکولوں کے داخلی دورازوں پر میٹل ڈیٹیکٹر لگانا کسی بڑے حادثے کو روکنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔


    دوسری ترمیم کی منسوخی

    امریکا میں گن رکھنے والے افراد کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ سنہ 1791 میں امریکی آئین میں کی جانے والی دوسری ترمیم کے مطابق امریکیوں کو اسلحہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔

    تاہم اب امریکی شہری اس ترمیم کی منسوخی چاہتے ہیں۔

    آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم کانگریس کی جانب سے اس وقت تجویز کی جاتی ہے جب دونوں ایوانوں کے ایک تہائی ارکان اس کے حق میں ہوں۔ بعد ازاں ترمیم کی منظوری کے لیے ایک تہائی ریاستوں کی حمایت بھی ضروری ہے۔

    امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے کسی بھی قسم کے اقدمات اس وقت تک غیر مؤثر رہیں گے جب تک لوگوں کو آئین کے تحت خطرناک ہتھیار خریدنے کی آزادی حاصل ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہتھیار رکھنے سے متعلق دوسری ترمیم منسوخ کر بھی دی جائے تب بھی ملک سے اسلحہ ختم نہیں ہوجائے گا، بس یہ غیر قانونی قرار پائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زندگی کے لیے ضروری اس نعمت کی حفاظت کریں

    زندگی کے لیے ضروری اس نعمت کی حفاظت کریں

    پانی زندگی کا ضامن ہے۔ زندگی پنپنے کے لیے جتنا ضروری پانی ہے، اتنی ضروری اور کوئی شے نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس وسیلے کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے بجائے اسے ایسے بے دردی سے خرچ کرتے ہیں جیسے یہ ہمیں وافر مقدار میں میسر ہے۔

    گو کہ زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے، لیکن یاد رہے کہ اس 70 فیصد میں سے صرف 2 فیصد پانی اس قابل ہے جو دریاؤں کی شکل میں پینے کے قابل ہے، بقیہ پانی سمندروں کے نمکین پانی پر مشتمل ہے جسے پیا نہیں جاسکتا۔

    یاد رکھیں جس وقت ہم برش کرتے ہوئے پانی کا نلکا کھول کر رکھتے ہیں اور کئی لیٹر پانی ضائع کردیتے ہیں، عین اسی وقت غیر ترقی یافتہ ملک میں کئی کمسن بچے پانی کی کمی کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اگر زمین پر زندگی کا وجود باقی رکھنا ہے تو اس کے لیے پانی کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کر کے بہت سا پانی ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ آئیں جانتے ہیں کیسے؟


    باتھ روم میں کم پانی

    ہمارے بیت الخلا میں نصب کیے جانے والے پرانے اقسام کے فلش سسٹم زیادہ پانی کا اخراج کرتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے فلش سسٹم نصف پانی استعمال کرتے ہیں۔

    اپنے باتھ روم کے کموڈ میں کبھی بھی ٹشو پیپر، روئی یا کاغذ وغیرہ مت پھینکیں۔ انہیں بہانے کے لیے زیادہ پانی درکار ہوگا، علاوہ ازیں یہ سیوریج کی لائن کو بلاک کرنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔


    لیکج کا خیال رکھیں

    باتھ روم، کچن اور دیگر جگہوں پر نصب پانی کے نلکوں کی لیکج کا خیال رکھیں۔ اگر نلکے کہیں سے لیک ہو رہے ہوں تو انہیں فوری طور پر ٹھیک کروائیں۔

    لیک ہونے والے نلکے سے پانی قطرہ قطرہ بہتا ہے جو بظاہر کچھ نہیں لگتا، لیکن ماہانہ اس پانی کی مقدار کئی سو لیٹر تک بن سکتی ہے۔


    نہانے کے دوران

    نہانے، بچوں یا پالتو جانوروں کو نہلانے کے لیے شاور کے بجائے بالٹی یا ٹب استعمال کرنا کئی لیٹر پانی بچا سکتا ہے۔ کھلے شاور کے نیچے 15 منٹ تک نہانا، اور پانی سے بھرے ٹب سے 15 منٹ نہانے میں نصف پانی کی بچت ہوسکتی ہے۔

    برش کرتے ہوئے اور صابن لگاتے ہوئے پانی کا نلکا کھلا چھوڑنے کے بجائے بند کریں۔ اس طریقے سے آپ 10 سے 15 لیٹر پانی کی بچت کرسکتے ہیں۔


    کچن میں پانی کا استعمال

    اسی طرح کچن میں بھی آپ پانی کے غیر ضروری استعمال کو کم کرسکتے ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کو نلکے کے نیچے دھونے کے بجائے پانی سے بھرے برتن میں دھوئیں۔

    برتن دھوتے ہوئے کم پانی استعمال کریں۔ نلکا اسی وقت کھولیں جب پانی استعمال ہورہا ہو، ڈش واشر لگاتے ہوئے نلکے کو بند رکھیں۔


    کار دھونے کے لیے

    کار دھونے کے لیے پانی کے پائپ کے بجائے ڈرم یا بالٹی میں پانی استعمال کریں۔ اس طریقے سے آپ بہت سا پانی بچا سکتے ہیں۔


    پودوں کو پانی دیتے ہوئے

    یورپ میں اکثر گھروں میں کچن کا استعمال ہونے والا پانی خود بخود گارڈن میں لگے پودوں اور درختوں کو چلا جاتا ہے یوں باغبانی کے لیے اضافی پانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    سبزیاں، چاول یا دالیں وغیرہ دھونے کے لیے استعمال کیا جانے والا پانی گھر میں لگے پودوں کی افزائش میں اضافہ کرے گا چنانچہ انہیں پھینکنے کے بجائے پودوں کو دینے کے لیے استعمال کریں۔


    بارش کا پانی جمع کریں

    بارش کا پانی بھی آپ کے پودوں کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔ بارش کے دنوں میں بارش کا پانی ڈرم میں جمع کر کے رکھا جاسکتا ہے جسے بعد میں پودوں کو دیا جاسکتا ہے۔ اس پانی سے کار بھی دھوئی جاسکتی ہے۔


    پانی کی اہمیت اجاگر کریں

    پانی کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر افراد میں بھی پانی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ چھوٹے بچوں کو پانی کی اہمیت بتائیں اور پانی کے کم استعمال کے حوالے سے ان کی تربیت کریں۔ اسی طرح ملازمین کو بھی کم پانی استعمال کرنے کی ہدایت دیں۔

    گھر کے دیگر افراد کو بھی بتائیں کہ پانی کو اتنا ہی استعمال کیا جائے جتنی ضرورت ہو، غیر ضروری طور پر پانی بہانے سے گریز کیا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2017 کی وہ نامور شخصیات جو ہمیں اداس کرگئیں

    سال 2017 کی وہ نامور شخصیات جو ہمیں اداس کرگئیں

    سال 2017 گزر گیا لیکن اپنے ساتھ خوشگوار یادوں کا گلدستہ دینے کے ساتھ ہی بہت ساری ان شخصیات کو بھی لے گیا جن کو یاد کرکے ہم اداس رہیں گے، ان لوگوں میں معروف ادیب، گلوکار و اداکاراور سماجی شخصیات شامل ہیں۔

    ان شخصیات نے اپنے اپنے شعبہ جات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا،جن کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس حوالے سے ہم نے ان میں سے چند شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔

    استاد فتح علی خان ۔ وفات 4جنوری ۔ عمر 82سال

    معروف کلاسیکل گائیک استاد فتح علی خاں طویل عرصہ سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے، استاد فتح علی خان، استاد امانت علی اور حامد علی کے چھوٹے بھائی اور اسد امانت علی خان کے چچا تھے۔

    بانو قدسیہ ۔ وفات 4فروری۔ عمر 88 سال

    اردو ادب کی معروف مصنفہ اور اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں، وہ خود بھی ادب کا ایک درخشاں ستارہ تھیں، بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ بہت مشہور ہوا۔ اُن کی ادبی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں گی۔

    فاروق ضمیر۔ وفات 23فروری ۔ عمر 78سال

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنجیدہ اور دھیمے لہجے کے حوالے سےمشہور فنکار فاروق ضمیر منکسر المزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک تھے، ان کی وفات سے پی ٹی وی کا ایک سنہرا دور اپنے اختتام کو پہنچا، مرحوم اپنی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے تھے۔

    ونود کھنہ ۔ 27وفات اپریل۔ عمر 70 سال

    بھارتی فلموں کے مشہور اداکار ونود کھنہ طویل عرصے سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے، بالی ووڈ پر راج کرنے والے اس اداکار نے ایک سو اکتالیس سے زائد فلموں میں کام کیا اور آخری بار 2015 میں شاہ رخ خان کی فلم دل والے میں جلوہ گر ہوئے، مرحوم نے ملکی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

    نعت خواں منیبہ شیخ ۔ وفات 14مئی ۔عمر 70سال

    معروف نعت خواں اور صدارتی ایوارڈ یافتہ منیبہ شیخ طویل عرصے سے گردے کے امراض میں مبتلا تھیں۔ منیبہ شیخ نے فارسی، اسلامی تاریخ، انڈین اسٹڈیز میں ایم اے کیا، جبکہ استاد امراؤ بندو خان سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، انہوں نے ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ نعت مرحبا سیّدی مکّی مدنی العربی پڑھی جس سے انہیں کافی شہرت ملی۔

    عامر ذکی۔ وفات 2جون۔ عمر 49 سال

    معروف میوزیکل بینڈ وائٹل سائنز سے شہرت پانے والے پاکستانی گٹارسٹ عامر ذکی دل کا دورہ پڑنے کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئے، انہوں نے 1995 میں ‘سگنیچر’ کے نام سے اپنی البم ریلیز کی جس کے گیت ‘میرا پیار’ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ڈاکٹر رتھ فاؤ ۔ وفات 10اگست۔ عمر 87سال

    جذام کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ المعروف پاکستانی "مدرٹریسا” کی خدمات پر انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلالِ امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ 1960 میں پاکستان آئیں اور پھر جذام کے مریضوں کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی ۔

    نصرت آراء ۔ وفات 14 اکتوبر۔ عمر 65 سال

    لاہور : بچوں کی مشہور ڈرامہ سیریل عینک والا جن کے کردار بل بتوڑی سے شہرت پانے والی اداکارہ نصرت آرا انتہائی کسمپرسی کے عالم میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث خالق حقیقی سے جاملیں، زندگی کےآخری سالوں میں وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئی تھیں، چوبیس برس بعد بھی بل بتوڑی کا کردار ہمارے ذہنوں میں زندہ ہے۔

    رومی انشاء۔ وفات 17 اکتوبر۔ عمر 42سال

    معروف شاعر اور مزاح نگار ابنِ انشاء کے صاحبزادے ہدایتکار رومی انشاء حرکت قلب بند ہونے کے باعث کراچی میں انتقال کر گئے، رومی انشا کا آخری سیریل”رسم دنیا” تھا، جو اے آر وائی ڈیجیٹل سے آن ایئر ہوا۔

    ششی کپور ۔ وفات 4دسمبر ۔ عمر 79سال

    تین سال کی عمر سے اداکاری کے جوہر دکھانے والے بالی ووڈ انڈسٹری کے نامور اداکار ششی کپور نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں نمایاں کردار ادا کیا، امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مشہور ہوئی، سو سے زائد فلموں میں کام کے دوران انہیں بھارت کے کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔

    خواجہ اکمل ۔ وفات 25 نومبر۔ عمر 60سال

    پاکستان کے معروف کامیڈین خواجہ اکمل کوئٹہ میں دل کا دورہ پڑنے سے مداحوں سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، اے آر وائی ڈیجیٹل سے پچھلے کئی سالوں سے ان کی سپرہٹ کامیڈی سیریل ’بلبلے‘ جاری تھی۔ ان کے مقبول ڈراموں میں رس گلے اور دیگر شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔