Tag: اے آر وائی خصوصی

  • سال 2017: پاکستانی سیاست کے مد و جزر، کسے کسے بہا لے گئے؟

    سال 2017: پاکستانی سیاست کے مد و جزر، کسے کسے بہا لے گئے؟

    سال 2017 دارالخلافہ میں بھونچال کا سال کہلایا جا سکتا ہے جو دھرنوں، جلسوں اور عدالتی کارروائیوں کے ہنگاموں میں گزرا، انکوائری رپورٹس ، عدالتی فیصلوں نے اس سال کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید کردیا ہے.

    اس سال پاکستان کے مضبوط ترین وزیراعظم نواز شریف نے نااہل ہو نے کے بعد گھر کی راہ لی اور جگہ جگہ یہی کہتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ معلوم نہیں آنے والے سال 2018 میں انہیں اس سوال کا جواب مل پائے گا یا کیوں نکالا کا پہاڑہ آئندہ سال بھی سماعتوں پر بوجھ بنا رہے گا۔

    سال 2017 شریف خاندان کے لیے بہت اچھا ثابت نہیں ہوا جہاں نواز شریف وزیراعظم ہاؤس سے نکالے گئے تو شہباز شریف پر بھی نااہلی کی تلوار بہ صورت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور حدیبیہ پیپرز ملز مقدمات کی صورت میں لٹک رہی ہے تو دوسری جانب سمدھی صاحب و وفاقی وزیر خزانہ مقدمات کی زد میں ایسے آئے کہ ماہرین امراض قلب کو دل دے بیٹھے اور برطانیہ میں زیرعلاج ہیں۔

    آیئے جائزہ لیتے ہیں سال 2017 کی دھوپ نے کس کس کے چہرے جھلسائے اور کن کونپلوں کو نمو بخشی، کہاں قسمت کی دیوی مہربان رہی اور عذاب کے دیوتا نے کس کی کمر سیدھی رکھی، کون رہا فاتح اور کسے ہوئی شکست فاش، کون شہرت کی بلندی پر پہنچا اور کون رہا صاحب فراش۔

    28 جولائی 2017 ۔۔۔ نواز شریف نااہل قرار

    پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن جب طاقت ور ترین وزیراعظم نوازشریف پاناما کیس میں نااہل قرارپائے اور صادق اور امین نہ ہونے پر نواز شریف کو عہدے سے سبکدوش کردیا گیا۔

    29 اپریل 2017 ۔۔۔۔ ڈان لیکس ، طارق فاطمی کا استعفیٰ

    قومی سلامتی سے متعلق حساس خبر شائع ہونے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی ڈان لیکس سے متعلق رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو پیش کی گئی، ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔

    خیال رہے گزشتہ برس 2016 میں  وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید  ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کے آغاز پر ہی مستعفی ہوگئے تھے۔

    یکم اگست 2017 ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی نئے وزیر اعظم منتخب۔ چوہدری نثار کی دوریاں

    نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا گیا جنہوں نے 4 اگست کو اپنی کابینہ کے ہمراہ حلف اُٹھایا۔

     دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے معتمد خاص اور سینیئر ساتھی چوہدری نثار نے نئی کابینہ میں شرکت سے انکار کردیا اور اپنی جماعت کے سربراہ کی اداروں سے تصادم کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے خود کو جماعتی سرگرمیوں سے علیحدہ رکھا۔

    2 اکتوبر 2017 ۔۔۔۔ ختم نبوت قانون میں تبدیلی

    نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل 2017 قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا تاہم اس بل میں ختم نبوت سے متعلق شقوں میں موجود حلف نامے میں تبدیلی پر پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

    اپوزیشن کی جانب سے شیخ رشید جب کہ حکومتی حلیف سینیٹر حمد اللہ کی توجہ دلانے سے بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی یہاں تک کہ پورے ملک میں قریہ قریہ اور گلی گلی میں احتجاج کرتے ناموس رسالت کے فدایان نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔

    5 نومبر 2017 ۔۔۔ فیض آباد دھرنا

    تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نے فیض آباد پر ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی کے خلاف دھرنا دے دیا جس سے ٹریفک معطل اور معمولات زندگی درہم برہم ہو گئی۔

    دھرنا شرکاء کا مطالبہ تھا کہ ختم نبوت قانون میں تبدیلی کے مرتکب وفاقی وزراء سے استعفی لیا جائے اور اس سازش کو تیار کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے، یہ دھرنا کوئی بائیس دن جاری رہا۔

    17 نومبر 2017۔۔ ختم نبوت قانون اپنی اصل حالت میں بحال 

    عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل 2017 منظور کروا کر ختم نبوت سے متعلق شقوں کو اپنی اصل حالت میں بحال کردیا۔

    21 نومبر 2017۔۔۔ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے خلاف قرارداد مسترد

    نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے پر پابندی کا بل مسترد کر کے مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو سربراہ بنانے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنا دیا، یہ بل پیپلز پارٹی نے پیش کیا تھا۔

    25 نومبر 2017 ۔۔۔ فیض آباد دھرنا، شرکاء پر طاقت کا استعمال

    اسلام آباد انتظامیہ نے علی الصبح فیض آباد دھرنے میں موجود شرکاء کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنا چاہا اس دوران ملک بھر ٹی وی نشریات معطل کردی گئیں اور نیٹ سہولیات بند رہیں اس کے باوجود پورے ملک میں طاقت کے استعمال کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔

    27 نومبر 2017۔۔ آرمی چیف کی مداخلت

    ایک روز قبل سعودی عرب کے دورے کو مختصر کرتے ہوئے آرمی چیف قمر باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور دھرنے کے خاتمے کے لیے حکمت عملی پر غور کیا جس کے بعد وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے رضاکارانہ استعفی دے دیا اور یوں ایک معاہدے کے بعد تحریک لبیک پاکستان نے 22 دن سے جاری دھرنا ختم کردیا۔

    21 ستمبر 2017 ۔۔۔ عمران خان صادق و امین قرار

    نااہلی سے متعلق ایک اور اہم کیس میں عدالت نے بنی گالہ اور اپنی جائیداد سے متعلق ثبوت پیش کرنے پر عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جب کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

    24 دسمبر 2017 ۔۔۔ باقر نجفی رپورٹ عام 

    لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ٹاون سانحہ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کے لیے نئی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔

    29 اکتوبر 2017 ۔۔ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت

    ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ نے اپنی جماعت کو خیر باد کہتے ہوئے پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی یہ اب تک کی سب سے اہم وکٹ ہے۔

    8 نومبر 2017 ۔۔۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا انضمام

    حیران کن طور پر ایم کیو ایم پاکستان اور پا ک سرزمین پارٹی پہلی مرتبہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے نظر آئے جہاں جماعتی انضمام اور انتخابات میں ایک منشور، ایک نشان اور ایک نام سے حصہ لینے کا اعلان کیا گیا۔لیکن ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کا یہ سیاسی معاشقہ محض چو بیس گھنٹے ہی چل سکا.

    9 نومبر 2017 ۔۔۔ فاروق ستار کا سیاست چھوڑنے کا اعلان

     ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے انضمام پر ناخوش رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کی غیر موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جماعتی انضمام کی تردید کی۔

    پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم کی پوری رابطہ کمیٹی فارق ستار کے گھر پی آئی بی پہنچی جہاں سربراہ ایم کیو ایم پہلے ہی پریس کانفرنس طلب کرچکے تھے، فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

    بعد ازاں فاروق ستار نے اپنی والدہ اور اہلیہ کے سمجھانے اور رابطہ کمیٹی و کارکنان کی جانب سے معافی تلافی کے بعد دوبارہ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور یوں پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کا معاشقہ چوبیس گھنٹے میں ہی رقابت میں تبدیل ہو گیا۔

    متفرق

    نومنتخب گورنر جسٹس خلیق الزماں صدیقی 11 جنوری کو عارضہ قلب کے باعث انتقال کر گئے جس کے بعد نئے گورنر سندھ کے لیے محمد زبیر نے 2 فروری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔

    تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے اپنے چیئرمین عمران خان پر الزامات کی بارش کرتے ہوئے پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کردیا تاہم وہ اب تک اپنی نشست سے مستعفی نہیں ہوئیں۔

    پاک سرزمین پارٹی نے  لیاقت آباد فلائی اوور پر کامیاب جلسہ کر کے ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی کی دیگر سیاسی تنظیموں کو چیلینج کردیا ہے اور صوبائی دارالحکومت میں سیاسی منظر نامے میں تبدیلی ہوتی نظرآرہی ہے۔

    مکمل رپورٹ کی ویڈیو جھلک دیکھیں

  • نواز شریف مجرم ہیں ڈیل نہیں ہونی چاہیے، پرویز مشرف

    نواز شریف مجرم ہیں ڈیل نہیں ہونی چاہیے، پرویز مشرف

    اسلام آباد : سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ نوازشریف کرپشن کے باعث نااہل ثابت ہو چکے ہیں اس لیے شریف برادران سے کوئی ڈیل نہیں ہونی چاہیے.

    وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں میزبان عادل عباسی سے گفتگو کر رہے تھے، پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا مقصد فوج پر دباؤ ڈالنا ہے جس کی انہیں پرانی بیماری ہے اور مجھے بھی دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں.

    ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ نوازشریف کی سعودی عرب میں ڈیل سےمتعلق پتہ نہیں البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب نے دونوں بھائیوں کو تحقیقات کے لیے بلایا ہوں کیوں کہ وہاں کرپشن کے خلاف مہم جاری ہے اور نواز و شہباز کے وہاں بھی کاروباری معاملات تھے.

    سربراہ آل پاکستان مسلم لیگ پریوز مشرف نے کہا کہ ملک مشکل دور گزر رہا ہے گو حکومت میرا راستہ روکنے کے لیے مختلف حربے اپنا رہی ہے اور ویزہ و پاسپورٹ کے حوالے سے مجھے تنگ بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود میں درست موقع پرضرور پاکستان آؤں گا.

    انہوں نے جیو نیوز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میری غصے میں کہی گئی بات کو غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا اور سب جانتے ہیں کہ میں نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام کیے ہیں اور میرے ہی دور میں سیکڑوں خواتین نے میڈیا میں ملازمتیں حاصل کیں.

    پرویز مشرف نے کہا کہ بلاول بھٹو کم سن ہیں اس لیے اپنے سے بڑے عمر کے افراد کے لیے زبان و بیان میں تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، انہوں نے مجھ پر اپنی والدہ کے قتل کا الزام لگا کر میرے خلاف نعرے بازی کروائی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بی بی کہ شہادت سے سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری کو ہوا.

    الیکشن کے انعقاد سے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ ملک کے حالات کشیدہ ہیں جو کہ انتخابات کے لیے موزوں نہیں اور اس سیاسی کھینچا تانی اور لڑائی جھگڑے کے دوران مجھے الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں.

    سابق صدر پرویز مشرف کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ پاکستان کا امریکا سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اور اس تعلقات میں اتار چڑھاؤ امریکا کی ہی وجہ سے آتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں جس کا اعتراف کرنا چاہیے.

    انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن سے والدہ اور اہلیہ کی ملاقات پاکستان کا اچھا اقدام تھا جس سے پاکستان کے انسانی حقوق اور رواداری کے سے بھرپور کردار کا پتہ چلتا ہے جس کے لیے پوری دنیا کو پاکستان کا معترف ہونا چاہیے.

  • سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔

    معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر

    وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

    کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟

    کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔

    کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔

    سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔

    کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

    کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔

    دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

    لیکن خطرہ کیا ہے؟

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔

    وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔

    جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے

    اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک خطرہ جان

    صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔

    اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔

    کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔

    گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے کے فوائد

    رضا کارانہ خدمات سرانجام دینے کے فوائد

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج رضا کاروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے مختلف حصوں میں سرگرم عمل رضا کاروں کی بے لوث خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 17 دسمبر 1985 کو دنیا بھر میں رضا کاروں کا عالمی دن منانے کی منظوری دی تھی۔

    عراق، شام، افغانستان اور فلسطین کی کشیدہ صورتحال ہو، زلزلہ، طوفان یا سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں، بھوک سے تڑپتے صومالیہ کے شہری ہوں یا ایبولا جیسے جان لیوا وائرس کا شکار ممالک، یہ رضا کار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض تندہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

    ان کی بے لوث خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی یہ دن منایا جاتا ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں رضا کارانہ خدمات سر انجام دینا آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بے حد مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔ آئیں جانتے ہیں وہ اثرات کیا ہیں۔


    نعمتوں کی قدر

    جب آپ اپنے سے کمتر اور غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کی زندگی کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، اور ایک معمولی سی چیز سے ان کی زندگی بے حد تبدیل ہوجاتی ہے۔

    ایسے میں آپ خود کو حاصل نعمتوں کی اہمیت کا احساس کرتے ہیں اور آپ کے اندر انکسار اور شکر گزاری کی عادت پیدا ہوتی ہے۔


    سچی خوشی

    جب آپ مجبور و بے کس لوگوں کے لیے رضا کارانہ خدمات سر انجام دیتے ہیں تو ان کے چہروں پر آنے والی خوشی اور ان کی دعائیں آپ کے دل و دماغ کو سچی خوشی اور طمانیت سے بھر دیتی ہے اور آپ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتے ہیں۔


    تنہائی سے نجات

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ہفتے میں صرف 2 گھنٹے کے لیے رضا کارانہ سماجی خدمات انجام دینا اکیلے پن کے احساس میں کمی جبکہ اس کے منفی اثرات سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔


    بچوں پر مثبت اثر

    اگر آپ والدین ہیں تو کسی کے لیے رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہوئے آپ اپنے بچوں میں لاشعوری طور پر ہمدردی، انسانیت اور مدد کرنے کا جذبہ بو رہے ہیں۔ کار خیر کے کاموں میں اپنے بچوں کو ضرور شریک کریں اور انہیں اس کے بارے میں آگاہ کریں۔


    دیگر افراد کو ترغیب ہوگی

    ہوسکتا ہے آپ کو رضا کارانہ کام کرتا ہوا دیکھ کر آپ کے آس پاس موجود افراد کو بھی اس کی ترغیب ہو، اور یوں آپ ایک کار خیر کے پھیلاؤ کا سبب بن جائیں۔


    وقت کی منصوبہ بندی

    رضا کارانہ کام کرنے سے آپ بہتر طور پر وقت کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی بنتے ہیں۔ آپ کی وقت ضائع کرنے کی عادت ختم ہوتی ہے اور آپ ہر وقت خود میں کچھ نیا کرنے کا جوش و جذبہ محسوس کرتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بغیر استری کے کپڑوں کی سلوٹیں نکالیں

    بغیر استری کے کپڑوں کی سلوٹیں نکالیں

    کراچی: ہم سب جانتے ہیں کہ عصر حاضر میں کپڑوں سے سلوٹیں نکالنے کے لیے کپڑوں پر استری کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے بجلی کا موجود رہنا بے حد ضروری ہے۔

    اگر دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی وقت پر میسر نہ ہوتو ایسی صورتحال میں اکثر گھر میں ہونے والی تقاریب خراب ہوجاتی ہیں، اکثر اوقات عین وقت پر مطلوبہ کپڑے استری نہ ہونے کے سبب گھر کے کسی ایک فرد کا موڈ خراب بھی ہوجاتا ہے جس کے باعث اکثر پورے اہل خانہ کو کسی بھی تقریب میں جانے کا ارادہ ملتوی کرنا پڑتا ہے۔

    عصر حاضر میں ترقی ہونے کے سبب بجلی اور استری کی سہولت تو موجود ہے مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ جب یہ سہولیات نہیں تھیں تو کپڑوں پر استری کیسے کی جاتی تھی؟ اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم  آپ کو چند وہ مفید طریقے بتا رہے ہیں جو پرانے لوگ یعنی (بڑے، بوڑھے) استعمال کرتے تھے۔

    دھاتی برتن کا استعمال

    1

    کپڑوں کی سلوٹیں دور کرنے کے لیے کسی بھی دھاتی (چاندی، پیتل) یا دیگر دھاتوں کے برتن کو استعمال کیا جاسکتاہے، جس برتن کا پیندا سیدھا ہو اس میں پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر چولے پر رکھ کر ابال لیں پھر برتن کو کپڑے پر پھیریں۔

    اس طرح کرنے سے کپڑے میں موجود سلوٹیں دور ہوجائیں گی اور وہ استری کے متبادل کا کام سرانجام دے گا، پانی کی جتنی زیادہ مقدار ہوگی برتن اتنی دیر تک استری کا متبادل ہوگا۔ ہلکی آنچ پر پانی گرم کرنے سے برتن کا پیندا کالا نہیں ہوگا۔

    گیلے تولیے کا استعمال

    21

    شکنوں والے کپڑے پر تولیے کو گیلا کر کے پھیرے جس سے کافی حد تک شکنیں دو ہوجائیں گی ، بعد ازاں گیلے کپڑوں خشک ہونے تک رسی پر لٹکا دیں اور پھر اسے زیب تن کریں، ایسا کرنے سے کپڑے استری کیے ہوئے معلوم ہوں گے۔

    ہیر ڈرائیر کا استعمال

    3

    اگر آپ کے گھر میں موجود استری خراب ہے یا پھر بجلی نہ ہونے کی وجہ آپ کے کپڑے استری ہونےسے رہ گئے ہیں تو ہیر ڈارئیر کی مدد سے آپ کپڑوں میں موجود سلوٹوں کو دور کرسکتے ہیں۔

    اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مشین کو کپڑوں سے 3 انچ اوپر رکھ کر شکنوں والی جگہ پر ہوا دیں ایسا کرنے سے دیکھتے ہی دیکھتے سلوٹیں ختم ہوجائیں گی اور کپڑے پہننے کے قابل ہوں گے۔

    گیلے بدن میں کپڑے پہننے

    غسل کرنے کے بعد اپنے جسم کو خشک کرنے سے قبل کپڑے پہن لیں اور ہاتھ گیلے کر کے سلوٹوں والی جگہ پر دو تین بار پھیریں ایسا کرنے سے کپڑے کی سلوٹیں دور ہوجائیں گی خشک ہوتے ہی یہ استری کیے ہوئے معلوم ہوں گے۔

    ان تمام آزمودہ طریقوں سے  فائدہ اٹھائیں اور لوڈشیڈنگ یا استری کی خرابی کی صورت میں پریشانی سے بچ جائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    عالمی یوم اطفال: اپنے بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ بچوں کی پرورش نہایت ہی توجہ طلب معاملہ ہے کیونکہ آپ کی تربیت ہی آگے چل کر کسی بچے کو معاشرے کے لیے اچھا یا برا انسان بنا سکتی ہے۔

    اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔


    نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔


    بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔


    ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔


    اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔


    ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔


    قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ونگار ۔ سندھ کی خوبصورت روایت

    ونگار ۔ سندھ کی خوبصورت روایت

    ونگار اندرون سندھ میں رائج ایک خوبصورت روایت ہے جو ہم آہنگی اور بھائی چارے کی بہترین مثال ہے۔

    یہ روایت اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب کوئی اجتماعی کام کیا جارہا ہو جیسے مختلف فصلوں جیسے گنے یا گندم کی کٹائی، کپاس کی چنائی یا نہر کی کھدائی کی جا رہی ہو۔

    اس موقع پر گاؤں کے کے ہر گھر سے ایک یا 2 افراد شرکت کرتے ہیں یوں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو کر اس کام کو انجام دیتی ہے۔

    یہ کام بلا معاوضہ کیا جاتا ہے اور کام کرنے والے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتے۔ یہ کام مردوں اور خواتین کے الگ الگ گروہ انجام دیتے ہیں۔

    ونگار کی روایت ایک دوسرے کی مدد کرنے، اور ایک دوسرے کے کام آنے کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح گاؤں والے تمام مذہبی و لسانی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔

    چند روز قبل اندرون سندھ میں کپاس کی چنائی کی جارہی تھی جس کے لیے حسب معمول گاؤں والے جمع ہوئے اور مل جل کر کپاس کی کٹائی کی۔

    اس موقع پر کام کرنے والے افراد کے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے جسے کام کے دوران یا کام مکمل ہونے کے بعد ایک ساتھ بیٹھ کر کھایا جاتا ہے۔

    اگر ونگار کسی ایک شخص کی زمین پر کیا جارہا ہو تو کھانے کا انتظام اس کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر مختلف افراد اپنی مدد کے لیے گاؤں والوں کو بلاتے ہیں تو کھانے کا انتظام بھی وہ مل جل کر کرتے ہیں۔

    آج کے اس افراتفری اور لسانیت کے دور میں، جب شہروں میں پڑوسی بھی پڑوسی سے بے خبر ہوتا ہے، ونگار ایک ایسی روایت ہے جو معاشرے کو مل کر کام کرنے، اختلافات بھلانے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا سبق دیتی ہے۔

  • جھینگے کھانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

    جھینگے کھانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

    پاکستان میں جھینگے کی خرید وفروخت کا کاروبار کامیابی سے جاری ہے البتہ مسلمانوں کی اکثریت جھینگے کو کھانے میں احتیاط برتتی ہے، جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ اختلافی رہا ہے۔

    جن حضرات نے اس کو مچھلی کی ایک قسم سمجھا انہوں نے کھانے کی اجازت تو دی البتہ احتیاط اسی میں بتلائی کہ نہ کھایا جائے۔

    اے آر وائی کیو ٹی وی کے پروگرام احکام شریعت میں معروف عالم دین مفتی اکمل قادری نے بتایا کہ فقہ حنفی میں مچھلی کے علاوہ تمام چیزیں ممنوع ہیں جبکہ امام شافعی کے نزدیک ایسی تمام چیزیں جائز ہیں۔

    امام ابوحنیفہ کے نزدیک دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے، دیگر آئمہ کے نزدیک دیگر جانور بھی حلال ہیں، جن میں خاصی تفصیل ہے۔

    مفتی اکمل قادری کا کہنا تھا کہ جن فقہاء نے اسے مچھلی کہا ان کے نزدیک تو جائز ہے، لیکن جن کا یہ خیال ہے کہ جھینگا کیڑوں کی قسم کا نام ہے اس کا کھانا ممنوع ہے۔

    تو یہ بہتر ہے کہ جس چیز کے کھانے میں مسئلہ درپیش ہو تو اس سے اجتناب کرنا ہی بہتر عمل ہے۔ مچھلیوں کی ساری اقسام حلال ہیں، مگر بعض چیزیں مچھلی سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ مچھلی نہیں بلکہ وہ جھینگے ہوتے ہیں۔

    اب جدید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جھینگا مچھلی نہیں ہے، اس لئے امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک کھانا جائز نہیں ہوگا، البتہ بطور دوا کھانے میں یا اس کی تجارت میں گنجائش ہوگی کیونکہ مسئلہ اجتہادی ہے۔

  • انصارالشریعہ کیا ہے اوراس کے کیا مقاصد ہیں

    انصارالشریعہ کیا ہے اوراس کے کیا مقاصد ہیں

    کراچی : شہر قائد میں گزشتہ چند ماہ قبل پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سامنے آئے، جس کے بعد  انصار الشریعہ نامی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔

    یہ ذمہ داری ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے قبول کی گئی جوبعد ازاں فوری طور پر بلاک کردیا گیا، پاکستان کے انٹیلیجنس ادارے اور پولیس اس کے وجود سے تب تک یکسر لاعلم تھے جب تک انصارالشریعہ نے خود اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کیا۔

    انصار الشریعہ کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا تھے؟ اس حوالے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتداء میں انصارالشریعہ میں صرف13ارکان تھے، جنہوں نے داعش سے اختلافات کے بعد اس تنظیم کی بنیاد رکھی، پڑھے لکھے لڑکوں پر مشتمل گروہ نے سائٹ ایریا سمیت کئی علاقوں میں پولیس اہلکاروں کونشانہ بنایا۔

    انصار الشریعہ کا مقصد القاعدہ کی سرپرستی اور خوشنودی حاصل کرنا تھا، گروہ کا سربراہ ڈاکٹرعبداللہ ہاشمی عالمی دہشت گرد تنظیم سے منسلک ہونا چاہتا تھا۔

    ذرائع کے مطابق تمام ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کی باقاعدہ ویڈیوبنائی جاتی تھی، پھر یہ ویڈیوز افغانستان میں موجود قیادت کو بھیجی جاتی تھیں، عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے بھی انصارالشریعہ کو تسلیم کیا، کچھ روز میں ارکان نے بیعت کرنی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تنظیم نے کراچی میں کارروائیوں کا آغاز کیا اور رواں سال فروری میں پولیس فاؤنڈیشن کے ایک محافظ کو نشانہ بنایا۔

    اپریل میں شاہراہ فیصل پر فوج کے ریٹائرڈ کرنل طاہر ضیاء ناگی کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ مئی2017 میں بہادر آباد میں کی گئی پولیس موبائل پر فائرنگ سے دو اہلکار شہید ہوئے۔

    ماہ جون میں سائٹ ایریا کے علاقے میں ایک ہوٹل پر افطار کے انتظار میں بیٹھے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں چار اہلکار شہید ہوئے۔

    علاوہ ازیں عزیز آباد میں بھی ماہ اگست میں ڈی ایس پی ٹریفک کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ طاہر ناگی قتل کے بعد حساس اداروں نے تنظیم پر کام شروع کیا۔

    انصارالشریعہ کیخلاف پہلاچھاپہ سروش کے گھر پرمارا گیا، خواجہ اظہار پر حملے کا پلان سروش کے گھر سے ملا، حملہ، ریکی اور دیگردستاویزات بھی سروش کے گھر سے ملے۔

    گزشتہ رات رینجرز کی بڑی کارروائی کے بعد یہ راز بھی کھلا کہ دہشت گردوں کا اگلا ٹارگٹ پولیس ہیڈکوارٹرز اور حساس مقامات تھے۔ ہلاک دہشتگردوں نے اتوار بازار،الہ دین پارک کی ریکی کررکھی تھی ملزمان موٹرسائیکل پر ریکارڈنگ ڈیوائس لگا کر ریکی کرتے تھے۔

  • کراچی کے شیو مندر میں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    کراچی کے شیو مندر میں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    ہندو مذہب میں دیوالی کو خاص اہمیت حاصل ہے یہ روشنیوں کا تہوار ہے اور اس موقع پر ہندو برادری انتہائی عقیدت و احترام سے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

    دیوالی کی تاریخ بے حد قدیم ہے اورہندو مت کے قدیم پرانوں میں اس کا ذکر ’روشنی کی اندھیرے پر فتح کے دن‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دیوالی در حقیقت 5 روزہ تہوار ہے جس میں اصل دن ہندو کلینڈر کے مطابق ’کارتیک‘ نامی مہینے کا پہلا دن ہے۔ تقریبات کا آغاز 2 روز پہلے کیا جاتا ہے اور یہ نئے چاند کے طلوع ہونے کے 2 دن بعد تک جاری رہتی ہیں۔

    ہندو برادری اس موقع پرخصوصی اہتمام کرتی ہے۔ نئے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں، گھروں اور بازاروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے

    دیا اور رنگولی دیوالی کے تہوار کے اہم جزو ہیں اور بچے اس موقع پر آتش بازی کرتے ہیں جبکہ مندروں میں لکشمی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرساد تقسیم ہوتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے اس موقع یہ جاننے کے لیے ساحل سمندر کلفٹن کے کنارے واقع ’شری رت نیشور مہا دیو مندر‘ کا رخ کیا کہ پاکستان میں ہندو برادری دیوالی کی رات کس طرح گزارتی ہے۔

    مندرکے سامنے کئی بچے پٹاخے پھوڑنے اور پھلجھڑیاں جلانے میں مشغول تھے اور مندر میں داخل ہوتے ہی اگر بتی اور گلاب کی ملی جلی خوشبو اور ندیم نامی ایک خدمت گار نے ٹیم کا استقبال کیا۔

    شری رت نیشور مہا دیو مندر کم از کم ڈیڑھ صدی سے اس مقام پر قائم ہے اور اسے کراچی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں ہندو مت کے لگ بھگ 100 بھگوانوں کی مورتیاں موجود ہیں جنہیں انتہائی خوبصورتی سے شیشے کی دیواروں میں آراستہ کیا گیا ہے۔

    مندر میں آنے والے زائرین اپنے عقیدے کے مطابق یہاں مختلف دیوی دیوتاؤں کے آگے اگر بتیاں جلا کر اپنی مذہبی شردھا (عقیدت) کا اظہار کر رہے تھے حالانکہ مندر انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ آویزاں تھے جن پر اگر بتی جلانے کی ممانعت درج تھی۔

    اس روز مندر میں آنے والے زائرین کے چہرے دیوالی کی خوشی سے تمتمارہے تھے اوران کے لباس اور آرائش و زینت سے اس بات کا اظہار ہو رہا تھا کہ آج ہندو برادری اپنا مذہبی تہوار منا رہی ہے۔

    مندر میں ہندو مت کے مختلف بھگوان موجود ہیں جن کے آگے زائرین اگر بتیاں جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اورگھنٹیاں بجا کر مذہبی سکون حاصل کرتے ہیں۔

    دیوالی کے موقع پر مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی۔

    مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی۔

    تصاویر: پیار علی امیر علی


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔