کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں آج آٹھ محرم کو ایک ایسا جلوسِ تعزیہ برآمد ہوتا ہے جس کی بنیاد’ایلی کاٹ ‘نامی ایک نو مسلم انگریز نے رکھی تھی۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق ایلی کاٹ ایک ’انگریز ‘ تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کئے عزا داری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقع کربلا سن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انہوں نے گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم ِحسینؑ‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔
چارلی ایلی کاٹ بیلے ڈانسر گروپ کے ساتھ
چارلی ایلی کاٹ عرف علی گوھر کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تاہم انہیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے آج ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے ۔ ان کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں ڈاکٹر تھیں اور والد فاریسٹ آفیسر تھے‘ جو کہ ہمیشہ شکار میں مصروف رہتے تھے۔چارلی کی ماں کا تعلق کلکتہ سے تھا اور وہ بھی انگریز تھیں۔
چارلی کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس پر نذر و نیاز کرتیں تھیں۔ چارلی اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ وہ خود محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر تھے۔ عبدالغفور چانڈیو جو ان کا ڈرائیور تھا۔ اُس سے ’امام علی ؑاور امام حسینؑ‘ کی شہادت اور ان کی زندگی کے بارے میں سن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔
عبدالغفور کے بیٹے غلام قادرچانڈیو بتاتے ہیں کے ایلی کاٹ نے ان کے والد عبدالغفور سے کہا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں‘ ان کی خواہش کے بموجب حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔
یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لئے تیار تھا تو عجیب اتفاق ہوا کہ چارلی کی والدہ انتقال کر گئیں۔ غلام قادر کے مطابق ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع’ گورا قبرستان ‘میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہوگیا۔
غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں۔ ان کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ دو بیٹیوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں۔ جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لئے لوٹ کر نہیں آئیں۔
چارلی اب علی گوھر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلےگئے جہاں انہوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔
چار ربیع الاول بمطابق17اپریل 1971ء کو چارلی عرف ایلی کاٹ انتقال کر گئے اور انہیں اسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا جہاں وہ رہتے تھے۔
سال 2017 موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا۔ فرسٹ ورلڈ امریکہ سے لے کر تیسری دنیا کے جنوبی ایشیا تک طوفانوں اور سیلابوں نے وہ تباہی مچائی کہ دنیا لرز اٹھی۔
یہ بات اب دنیا کو سمجھنی ہوگی کہ گو کہ ہم نے زمین سے مماثلت رکھنے والے کئی سیارے دریافت تو کرلیے ہیں، لیکن فی الحال ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک ہی سیارہ زمین ہے جہاں باقاعدہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کو مطلوب مکمل ضروریات موجود ہیں، اور بدقسمتی سے اب اس زمین کا کوئی بھی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہا جسے عاقبت نا اندیش انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے دعوت دی۔
اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند بین الاقوامی ماہرین سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات میں اور ان کی تباہ کن شدت میں اس قدر اضافہ کیوں ہوگیا ہے، اور ان سے نمٹنا یا ان کی شدت کو کم کرنا ممکن ہے۔
اس سے قبل ہم گزشتہ 2 ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرنے والے سمندری طوفانوں، سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
جنوبی ایشیا کا تباہ کن مون سون
بارشوں کا سیزن مون سون ایک قدرتی عمل ہے جو جنوبی ایشیا میں جون سے ستمبر تک ہر سال آتا ہے تاہم سینٹر فار ریسرچ آن دا ایپیڈ مولوجی آف ڈیزاسٹر کے مطابق 2017 کے مون سون کا آخری سائیکل جس کا آغاز اگست میں ہوا، نے جنوبی ایشیائی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بے تحاشہ تباہی مچائی۔
اس اسپیل نے چاروں ممالک میں لگ بھگ 13 سو افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنے۔
اس آخری سائیکل نے بیک وقت بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کو اپنا نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس نوعیت کی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان 3 ممالک میں نظر آئی۔
بھارت
مون سون کی یہ معمول کی بارشیں جب غیر معمولی صورت اختیار کر گئیں تو انہوں نے بھارت کے شمالی حصے بشمول ممبئی اور بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش کو بدترین طور پر متاثر کیا۔
اس سیلاب نے 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 8 لاکھ سے زائد گھر بہہ گئے جبکہ ریاست آسام میں واقع نایاب نسل کے گینڈوں اور چیتوں پر مشتمل کازی رنگا نیشنل پارک بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔
بعد ازاں وہاں کئی گینڈوں اور چیتوں کی لاشیں بھی تیرتی ہوئی پائی گئیں۔
بھارتی شہر ممبئی بھی مذکورہ سیلاب سے بے حد متاثر ہوا، لگاتار پورا دن ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، ممبئی کے ریلوے ٹریکس بھی زیر آب آگئے۔
بھارت میں امدادی کاموں میں تاخیر اور غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوب ایشیائی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ اس خطے کا معمول کا حکومتی رویہ ہے اور خود عوام بھی اس رویے کو سہنے کی عادی ہے۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ اور مختلف شمالی و مشرقی حصوں میں معمول کی بارشیں اچانک شدت اختیار کرنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ 7 لاکھ گھر تباہ ہوئے، جبکہ 46 لاکھ 80 ہزار ہیکٹرز پر کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔
ڈھاکہ بارشوں کے بعد
نیپال
نیپال میں ان تباہ کن بارشوں نے 143 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ مجموعی طور 17 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ 34 ہزار مکانات بالکل تباہ ہوگئے۔
سب سے بڑا نقصان مہندرا ہائی وے کو ہوا جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ تھی اور یہ ہائی وے ان بارشوں میں بہہ گئی۔
سیلاب سے برات نگر ایئرپورٹ کا رن وے بھی زیر آب آگیا جس کے باعث ایئرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔
سیلاب کے بعد برات نگر ایئرپورٹ کا ایک منظر
زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب میں چاول کی فصلیں بھی بہہ چکی ہیں جو نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے، اور نیپال میں بہت جلد ایک غذائی قلت اور مہنگائی کا عفریت سر اٹھانے والا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیپال کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقے خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔
پاکستان
پاکستان میں مون سون کے اس آخری سائیکل نے اس نوعیت کی تباہی تو نہ مچائی تاہم سندھ کے کئی دیہی علاقے زیر آب آگئے جبکہ کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر بھی اربن فلڈ کی زد میں آگیا۔
یاد رہے کہ رواں سال مون سون شروع سے پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہ تھا اور مختلف سائیکل ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچاتے رہے جن میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی اور دیہی علاقے شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیلاب ہر سال ہی پاکستانی مون سون کا حصہ ہیں۔
ماہرین روز اول سے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ سال کا آدھا حصہ ہم پیاس سے مرتے ہیں جبکہ بقیہ سال سیلاب ہمیں مارتا ہے۔
اگر سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر دانشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا جائے تو ڈیمز اور دیگر جدید ذرائع سے اس پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو سیلابی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح نہ تو سیلاب پیدا ہوں گے اور نہ سال کے کسی حصے میں کہیں خشک سالی کی صورتحال ہوگی۔
شہر کراچی میں آنے والا اربن فلڈ بھی صوبائی و شہری حکومتوں کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جنہوں نے نکاسی آب کے راستوں کو کچرے اور غلاظت سے بھر رکھا ہے، نتیجتاً معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں نکاس نہ ہوسکیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئی۔
ماہرین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اربن فلڈ آتے ہی اس وقت ہیں جب کسی شہر کو بغیر منصوبہ بندی کے بساتے چلے جایا جائے اور مستقبل اور موسمی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔
معمول سے ذرا سی زیادہ بارش نے شہر کراچی کا یہ حال کردیا
مغربی ممالک کے خوفناک طوفان
امریکا میں بحر اوقیانوس میں سب سے پہلے ہاروی طوفان مشاہدے میں آیا اور اس سے قبل ہی امریکی ماہرین خبردار کرچکے تھے کہ اوقیانوس میں اس وقت 3 فعال طوفان موجود ہیں جن کی شدت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
امریکا میں ہریکین ہاروی کی نوعیت کا شدید اور تباہ کن طوفان اس سے قبل سنہ 2005 میں آیا تھا جس کا نام ولما تھا۔ رواں برس آنے والے سمندری طوفان لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بھی بنے جس نے نقصان کی شدت میں اضافہ کردیا۔
یاد رہے کہ بحر اوقیانوس 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا بحر ہے اور یہ بحر الکاہل کے بعد زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
متعدد افریقی، امریکی و یورپی ممالک اس کے کناروں پر واقع ہیں لہٰذا اوقیانوس میں معمولی سی ہلچل کا مطلب ہے کہ متعدد مغربی و افریقی ممالک میں نقصانات کا خدشہ۔
ہریکین ہاروی
گزشتہ ماہ 215 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور اس کے نتیجے میں 100 سینٹی میٹر کی ہونے والی بارشوں نے امریکا میں تباہی کی تاریخ رقم کردی۔
اوقیانوس میں ایک بڑی لہر سے شروع ہونے والا یہ طوفان 17 اگست کو بدترین سمندری طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک معمولی نوعیت کے طوفان کی حیثیت سے یہ سب سے پہلے ونڈ ورڈ جزائر سے گزرا اس کے بعد کیریبیئن جزائر کے ملک بارباڈوس پہنچا لیکن ابھی بھی یہ ایک کم شدت کا طوفان تھا۔
تاہم کم ترقی یافتہ کیریبیئن ملک بارباڈوس اس طوفان کو سہہ نہ سکا اور بے تحاشا نقصان دیکھنے میں آیا۔
کیریبیئن جزائر سے لے کر کولمبیا کے سفر تک اس طوفان کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ دیکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں 24 اور 25 اگست کی رات یہ اچانک درجہ 4 کےطوفان میں تبدیل ہوگیا، اس وقت یہ امریکی ریاست ٹیکسس میں داخل ہوچکا تھا۔
ہاروی طوفان اور بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔
طوفان اور سیلاب کے دوران ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کا ایک منظر
اس دوران یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتا چلا آرہا تھا۔ اس کے بعد یہ بحر اقیانوس کے ساحلی نشیب گلف میکسیکو میں داخل ہوا جہاں اس کی شدت ابھی برقرار تھی۔
ہاروی نے وہاں پر واقع امریکی ریاست لوزیانا میں بے حد نقصان بشمول لینڈ سلائیڈنگ برپا کی، اس کے بعد کمزور ہوتا چلا گیا اور پھر یکایک اوقیانوس کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔
ہریکین ہاروی نے ونڈ ورڈ آئی لینڈز، سوری نام، گیانا، نکارا گوا، ہنڈراس، اور جنوبی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکس اور لوزیانا کو بری طرح متاثر کیا۔ طوفان میں کل 83اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 82 امریکی ریاستوں میں تھی۔
طوفان نے ان ممالک و جزائر کی معیشتوں کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 200 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
ہریکین ارما
ابھی ہاروی طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا اور امدادی کام جاری تھا کہ ارما طوفان بھی سر پر آ پہنچا۔ امریکی ماہرین ارما کے گرداب اور لہروں کا مشاہدہ سنہ 2007 سے کر رہے تھے تاہم ہاروی نے اس کو بے پناہ تقویت دی اور یہ چیختا چھنگاڑتا سمندر کے کناروں سے باہر اچھل آیا۔
پہلے درجے سے شروع ہوتا ہوا 6 ستمبر کو یہ پانچویں درجے تک جا پہنچا جس میں ہواؤں کی شدت 295 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔
ذرا سے مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یہ کیپ ورڈی، لی وارڈ جزائر، اور کیریبیئن جزائر کے ملک کیوبا میں تباہی مچاتا جس وقت امریکی ریاست فلوریڈا پہنچا اس وقت یہ اپنےعروج پر تھا۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے بعد تباہی
اس دوران یہ کم ہو کر چوتھے درجے پر بھی پہنچا لیکن ایک بار پھر پانچویں درجے پر پہنچ کر بدترین لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنا۔ تاہم اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔
ارما نے کیریبیئن جزائر کے علاقوں بارباڈوس، سینٹ بارتھیلمی، سینٹ مارٹن اور برطانوی ورجن جزائر اور ہیٹی میں خوب تباہی مچائی جس میں سے بارباڈوس پہلے ہی ہاروی سے تباہ حال تھا۔
مقامی حکام کے مطابق بربودہ یا بارباڈوس میں ارما اور ہاروی کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جزیرہ پورٹو ریکو کے نصف سے زائد مکانات گر گئے جبکہ سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔
بالآخر جب طوفان ختم ہوا تو یہ 101 افراد کی زندگیاں نگل چکا تھا جن میں 44 کیریبیئن جزائر اور 57 امریکی ریاستوں میں ہوئیں۔ ارما نے امدادی کاموں کو بھی متاثر کیا جو ہاروی کے بعد کیا جارہا تھا۔
ہریکین ماریا
بحر اوقیانوس میں آنے والا تیسرا خوفناک شدت کا طوفان ہریکین ماریہ تھا جو فی الحال جاری ہے۔ اس طوفان نے کیریبیئن جزائر کے ملک ڈومنیکا کو شدید نقصان پہنچایا جب اس جزیرے سے یہ 5 درجے کے طوفان کی حیثیت سے ٹکرایا۔
ڈومنیکا میں اس طوفان نے 33 افراد کو موت کے منہ میں پہنچایا۔ مقامی افراد گھر، بجلی، پانی سب سے محروم ہوچکے ہیں۔
اس کے بعد یہ ڈومنیکا کے قریب دوسرے جزیرے پورٹو ریکو پہنچا۔ گو کہ یہاں سے اس طوفان کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے تاہم یہاں کے لوگ تاحال امدادی کاموں کے منتظر ہیں۔
جزیرے میں 16 لاکھ افراد بجلی سے تاحال محروم ہیں جبکہ 16 افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد ازاں یہ ورجن آئی لینڈز کی جانب بڑھا۔ یہاں تاحال 48 ہزار افراد بجلی سے محروم ہیں جبکہ مذکورہ جزیرے سمیت کیریبیئن کے متعدد جزائر میں تباہی کی عبرت ناک داستان رقم ہوچکی ہے۔
دونوں دنیاؤں کے طوفانوں میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے 2 مختلف حصوں میں آنے والے دو مختلف نوعیت کے طوفانوں نے مختلف تباہی مچائی۔
اس بارے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر اور صدر اوباما کے ماحولیاتی مشیر پروفیسر جان پی ہولڈرن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں آنے والے سیلاب ٹائی فون تھے جبکہ امریکا کو متاثر کرنے والے طوفان ہریکین تھے۔
پروفیسر جان پی ہولڈرن فی الحال جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں ماحولیاتی شعبہ کے پروفیسر ہیں جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس اینڈ پالیسی ڈیپارٹمنٹ برائے ارتھ اینڈ پلینٹری سائنس شعبہ سے بھی منسلک ہیں۔
ان کے مطابق بیان کیے گئے ان دونوں طوفانوں کا فرق سمجھنے کے لیے آپ کو زمین کے دو بڑے بحروں کے بارے میں جاننا ہوگا۔
بحرالکاہل یا پیسیفک اوشین زمین کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جس کا رقبہ 16 کروڑ 50 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ شمالی اور جنوبی بحر الکاہل کے نام سے جانے جانے والے اس بحر کے کناروں پر ایک طرف ایشیائی ممالک واقع ہیں جبکہ اس کی وسعت کی دوسری جانب امریکی براعظم کے کچھ ممالک بھی موجود ہیں۔
یہ زمین کے کل رقبے کے 30 فیصد سے زائد حصے پر محیط ہے۔
دوسری جانب بحر اوقیانوس یا انٹلانٹک اوشین کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بحر زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
اب بات آتی ہے ہریکین اور ٹائی فون میں کیا فرق ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق مغربی شمالی اوقیانوس، بحر الکاہل کے مرکزی اور جنوب شمالی حصے، کیریبیئن سمندر اور گلف میکسیکو میں آنے والے طوفان ہریکین کہلاتے ہیں۔
مغربی شمالی بحر الکاہل کے حصے میں آنے والے طوفان ٹائی فون کہلاتے ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیلاب کا شکار کرنے والا کوئی ٹائی فون یا سمندری طوفان نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی مون سون بارشیں تھیں جو شدت اختیار کر گئیں تاہم انہوں نے سمندر کی لہروں کو بھی متاثر کر کے انہیں غیرمعمولی بنا دیا۔
اس بارے میں اسلام آباد میں مقیم کلائمٹ چینج ایکسپرٹ عارف رحمٰن کہتے ہیں کہ یہ موازنہ کرنا غلط ہوگا کہ دونوں میں کون سا زیادہ شدید ہے۔
ہاشو فاؤنڈیشن سے بطور سینئر پروگرام مینیجر برائے کلائمٹ چینج منسلک عارف رحمٰن کا کہنا تھا کہ بظاہر دیکھا جائے تو ٹائی فون ہریکین سے زیادہ شدید ہوتے ہیں تاہم اگر ہریکین اپنی پوری شدت پر ہوں تو ٹائی فون سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔
ان کے مطابق ایک اور فرق ٹائی فون کی درجہ بندی نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہریکین کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اس درجہ بندی کے حساب سے وہ شدت اختیار کرتا ہے۔ مختلف عوامل جیسے ہوا کا دباؤ، مذکورہ علاقے پر پڑنے والے موسمیاتی تغیرات اور مذکورہ علاقے کی زمین کی نوعیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو طوفان کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔
ہریکین کی درجہ بندی
اب ہم آتے ہیں ہریکین کی درجہ بندی کی طرف جس سے آپ کو علم ہوگا کہ کون سا درجہ کتنا شدید ہے۔
درجہ 1: کیٹگری 1 کے ہریکین میں ہوا کی رفتار 119 سے 153 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جب ہوا کی رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر جائے تویہ طوفان ہے جو کہیں ٹائی فون اور کہیں ہریکین کا سبب بنتا ہے۔
یہ کچھ حد تک نقصان پہنچاتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 2: اس درجے میں ہوا کی رفتار 154 سے 177 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ شدید نقصان کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 3: ہوا کی رفتار 178 سے 208 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو پختہ تعمیر کیے گئے مکانات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
درجہ 4: ہوا کی رفتار 209 سے 251 کلومیٹر فی گھنٹہ جو زمین میں مضبوطی سے گڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔
درجہ 5: ہوا کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد، یہ طوفان کی شدید ترین قسم ہے جو عمارتوں کو تباہ کردیتی ہے اور اس کے آخر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
طوفان کے راستے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
پروفیسر جان پی ہولڈرن کے مطابق جب طوفان شروع ہوتا ہے تو اس پر پڑنے والے دباؤ جسے کوریولس فورس کہا جاتا ہے اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
یہ فورس طوفان کو دائیں یا بائیں طرف گھمانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تعین کیا جاتا ہے کہ آنے والا طوفان کن مقامات پر کتنی شدت سے آئے گا۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس جب دنیا صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں مگن تھی اس وقت سائنس دان مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ شدید نوعیت کے طوفان امریکا کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ان طوفانوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان طوفانوں میں اتنی شدت آ کیوں رہی ہے؟
اس بارے میں اے آر وائی نیوز نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے زمینی و آبی سائنس (ارتھ اینڈ میرین سائنسز) شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک سے رابطہ کیا تو انہوں نے ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمود یا۔
ان کا کہنا تھا، ’سمندروں میں آنے والا گرم پانی (جو مختلف دریاؤں سے آتا ہے) سمندر کے پانی کو گرم کرتا ہے، جس سے پانی مزید تیزی سے بخارات بن کر بادلوں اور پھر بارشوں کو تخلیق کرتا ہے‘۔
ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک کے مطابق سمندروں کا گرم درجہ حرارت پہلے سے موجود طوفانوں کو تقویت دیتا ہے، نئے طوفان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ طوفان بارشوں کا سبب بنتے ہیں جو بڑے پیمانے پر سیلاب اور جانی و معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک براہ راست تعلق نہیں، بلکہ بالواسطہ تعلق ہے، یعنی کہ کوئی شے کسی سے جڑی ہے اور وہ مزید کسی شے سے جڑی ہے، لیکن اس کا بنیادی سبب ہےعالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔
یہ بات قطعاً سمجھنا مشکل نہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نہ صرف خود سمندر کا پانی گرم ہورہا ہے، بلکہ مختلف دریاؤں کا گرم ہونے والا پانی بھی سمندر میں آکر مل جاتا ہے یوں یہ عمل عظیم تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت پروفیسر جان پی ہولڈرن نے کی۔
پروفیسر ہولڈرن کے مطابق یہ تاریخی تباہ کن آندھیاں یا طوفان کوئی اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہیں۔ ’ہم انسان جس قسم کی ترقی کر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور سائنس و ماحولیات کے ماہرین نہ صرف یہ بات جانتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ اس قسم کے طوفان اور آندھیاں گرم پانیوں کی وجہ سے طاقت پارہے ہیں اور یہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب گرم پانیوں کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں تو یہ گرم ہواؤں کا سبب بھی بنتے ہیں جو سطح سمندر کو مزید گرم کرتے ہیں اور اس مقام پر ہوا کا دباؤ کم کرتے ہیں۔
اب یہ سب کچھ سمندر کے اندر ہو رہا ہے جو پانی کو زور آور بنا رہا ہے جو طوفان کی شکل میں کسی نہ کسی دن باہر نکلے گا اور یہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرم ہوائیں اور گرم پانی سمندر کی جتنی گہرائی تک جائیں گی یہ ٹھنڈے پانی کی مقدار کو اتنا ہی کم کرتی جائیں گی نتیجتاً ہمارے پاس سمندر کی گہرائی میں بھی گرم پانی موجود ہوگا۔
انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گو کہ ان طوفانوں اور ان کے بننے کی دیگر کئی وجوہات ہیں تاہم بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو فضا اور سمندروں کو گرم کر رہی ہے۔ گرم پانی ہی سمندری طوفانوں اور آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں صورتحال پر کیسے قابو پایا گیا؟
اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف ایشیائی ماہرین سے بھی گفتگو کی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
بھارت میں مقیم سماجی کارکن راکھی سوریا پرکاش اپنی قائم کردہ تنظیم سن شائن ملینیئم کے ذریعے بھارت میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس جب بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں سیلاب آیا تھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ایک کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر ماحولیات پرکاش جاویدکر نے متنبہ کردیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ ہے۔
راکھی کے مطابق اس ضمن میں مودی سرکار ماحولیاتی و موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور ملک بھر میں شجر کاری مہمات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔
چند روز قبل ہی بھارت نے سنہ 2030 تک اپنے تمام جدید ذرائع آمد و رفت بجلی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فاسل فیولز یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی لعنت سے چھٹکارہ پا کر فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ گو کہ ارلی وارننگ سسٹم کے تحت قبل از وقت پیشن گوئی جاری کردی گئی تھی اور امدادی ٹیمیں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تھیں تاہم نقصان ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔
اس کے بعد اے آر وائی نیوز نے نیپال میں مقیم بنود پارا جولی سے خصوصی گفتگو کی۔ بنود ایک محقق ہیں اور ہائی اویئر پروجیکٹ کے تحت ہمالیہ اور اس کے پانیوں پر مختلف تحقیق سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نیپال کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ مہندرا ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
ان کے مطابق چاول کی فصل نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے اور ان کے بہہ جانے کے بعد اب ایک غذائی بحران منہ کھولے نیپال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بنود کے مطابق قبل از وقت پیشن گوئیاں جاری کردیے جانے کے باوجود حکام نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ’یہ ہم جنوبی ایشیائی شہریوں کا المیہ بن چکا ہے‘۔
شائلہ کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی اور مشرقی حصوں میں سیلاب نے بہت سے نواحی گاؤں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے جہاں بدقسمتی سے تاحال امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔
تاہم قابل رسائی علاقوں میں حکومتی طور پر یا نجی سطح پر جس طرح بھی ممکن تھا امداد پہنچائی گئی، اس ضمن میں مقامی افراد نے بھی بے حد تعاون کیا اور اپنے سیلاب متاثرین ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کی۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش پیرس معاہدے کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس ضمن میں مختلف ماحول دوست منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا تمام صورتحال اور تجزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے حد آسان ہے، اور ماہرین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری زمین اور دنیا کو دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے، اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہم نے دفاعی ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل اداروں و شخصیات سے مدد لی گئی۔
کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔
گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔
یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔
سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔
ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔
کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔
کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔
زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک
کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
طویل العمر جاندار
کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔
تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔
پیٹ پر خول
کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔
کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔
تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور
کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔
انڈے دینے کا عمل
تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔
انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔
مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔
انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔
اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
جائے پیدائش کی طرف واپسی
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔
آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔
یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔
افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت
مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔
موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار
کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔
اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔
یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔
ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول
کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔
پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔
جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔
کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔
دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔
حساس ترین جانور
کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔
بقا کی جدوجہد میں مصروف
بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔
عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرتآئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔
کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔
ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔
لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔
کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔
کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ
سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
موسم کی پیش گوئی دشوار
توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔
یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔
ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔
ایل نینو کا اثر
توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔
ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔
ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟
ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔
لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔
اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔
ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔
اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔
امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔
سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔
فطرت کی رفو گری
کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔
ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔
شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔
ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔
قرآن شریف دنیا کا سب سے بڑا وہ ظاہر معجزہ ہے اور وہ الہامی کتاب ہے جس میں قیامت تک پیش آنے والے ہر واقعہ کی پیش گوئی کردی گئی ہے، کچھ باتیں کھلی اور کچھ ڈھکی چھپی ہیں تاکہ سمجھنے والے اسے سمجھ سکیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ عقل والوں کے لیے اس میں کھلی نشانیاں موجود ہیں۔
آج دنیا زمین کے مسلسل بڑھنے والے درجہ حرارت سے پریشان ہے، جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا ہے، سائنس دان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، اس ضمن میں قرآن شریف میں بہت واضح طور پر کم از کم دو بار اللہ تعالیٰ دنیا بھر کو خبردار کرچکے ہیں۔
سورۃ الانبیا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتاوا دیا یہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوئی تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں تو کیا یہ غالب ہوں گے؟( سورۃ انبیاء، آیت 44)
سورہ الرعد میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں اور خدا (جیسا چاہتا ہے) حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کا رد کرنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے(سورۃ الرعد، آیت 41)
ان دونوں سورۃ کی آیات کا ترجمہ دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور ہم زمین کے کناروں کو گھٹاتے چلے آئے ہیں؟ کیسے؟؟
زمین پر تین حصے پانی، ایک حصہ خشکی
ہماری زمین پر تین حصے پانی اور صرف ایک حصہ یا اس سے کم خشکی ہے، سائنس دانوں کے مطابق زمین پر 71 فیصد پانی اور 29 فیصد خشکی ہے۔
اس خشک حصے کا 20 فیصد پہاڑوں پر مشتمل ہے اور 20 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے جس میں پورا براعظم انٹار کٹیکا شامل ہے جہاں برف کے عظیم الشان گلیشیر بھی موجود ہیں۔
زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اس کی وجہ انسان خود ہے جو اپنی ایجادات، درختوں کے کٹاؤ اور دیگر اقسام کی ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے سبب زمین کے اطراف موجود اوزون کی تہہ ختم کررہا ہے جس کے باعث دھوپ کی شعاعیں چھن کر آنے کے بجائے براہ راست زمین پر پڑ رہی ہیں اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
برف کے پہاڑ پگھلنے لگے
درجہ حرارت بڑھنے کے سبب زمین پر موجود برف کے عظیم الشان پہاڑ متاثر ہیں اور حالیہ رپورٹس کے مطابق ان کے پگھلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے نتیجے میں سمندروں میں پانی کی مقدار مسلسل بڑھ رہی ہے اور سطح آب مسلسل بلند ہورہی ہے۔
چند روز قبل ہی عالمی اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے سبب قطب جنوبی میں واقع براعظم انٹارکٹیکا میں 6 ہزار مربع کلومیٹر برفانی تودہ شگاف پڑ جانے کے باعث ٹوٹ کر خطے سے علیحدہ ہوگیا۔
دنیا کے کئی بڑے شہر غرق ہونے کی پیش گوئیاں
سطح سمندر بلند ہونے سے زمین کا خشک حصہ کم ہورہا ہے حتیٰ کہ کچھ اداروں نے برسوں بعد دنیا کے کئی بڑے شہر غرق آب ہونے کی پیش گوئی بھی کررکھی ہے جو کہ سمندر کنارے واقع ہیں۔
یہ واقعی حقیت ہے کہ درجہ حرارت اگر اسی طرح بڑھتا رہا تو سمندر میں پانی کی سطح کئی انچ تک بلند ہوجائے گی اور پانی سمندر کنارے بنے شہروں میں داخل ہوجائے گا۔
یہ بات سائنس دان اب کہہ رہے ہیں مگر 1400 برس قبل قرآن شریف میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا گیا تھا کہ انسان اپنے اعمال اپنی ایجادات اور توانائی کے بے جا اور غیر محفوظ استعمال کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھانے کا باعث بنے گا جس کی وجہ سے برف کے پہاڑ پگھل جائیں گے اور خشکی کا رقبہ کم ہوجائے گا۔
عین ممکن ہے کہ سطح سمندر دنیا کے کئی شہروں سے بلند ہوجائے اور سمندر کا پانی جب شہروں میں داخل ہوگا تو وہ پورے کے پورے شہر سمندر کا حصہ بن جائیں گے۔
ہمیں اس آیت پر بارہا غور کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ہم زمین کے کناروں کو گھٹاتے چلے آئے ہیں۔
اگر آپ کو یہ مضمون پسند نہیں آیا تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
کراچی: اردو زبان کی سب سے بڑی لغت کا اب انٹرنیٹ اور موبائل ورژن دستیاب ہے‘ اردو لغت بورڈ نے یہ کارنامہ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں سرانجام دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اردو لغت بورڈ نے 22 جلدوں پر مشتمل تاریخی اصولوں پر مرتب کردہ اردو کی سب سے بڑی جو کہ دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ پر مشتمل ہے ‘ آن لائن کردی ہے۔
اردو لغت بورڈ کے مدیراعلیٰ عقیل عباس جعفری نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے مشیرِ خصوصی عرفان صدیقی کی خصوصی توجہ کے سبب یہ کام چھ ماہ کے قلیل عرصے میں انجام دیا گیا ہے۔
مدیراعلیٰ – عقیل عباس جعفری
معروف محقق عقیل عباس جعفری نے گزشتہ برس 14 دسمبر کو اردو لغت بورڈ میں مدیراعلیٰ کا چارج سنبھالا اور ادارے کی مرتب کردہ تاریخی لغت جو کہ 22 جلدوں پر مشتمل ہے ‘ اس تک عوام الناس کی رسائی آسان بنانے کے اس عظیم منصوبے پر کام شروع کیا‘ جنوری میں لغت بورڈ نے اس پراجیکٹ کو ٹینڈر کیا جسے کراچی کی ایک کمپنی نے حاصل کیا اور کام کا آغاز کیا۔
عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ان کی جانب سے 20 مئی کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی اور کمپنی نے مقررہ وقت میں کام ختم کرلیا تھا جس کے بعد سے اس آن لائن لغت کی تکنیکی حوالوں سے جانچ جاری تھی‘ بالاخر جانچ مکمل ہونے کے بعد 20 جون کو اسے عوام کے لیے مکمل طور پر آن لائن کیا گیا۔
لغت بورڈ کے مدیرِ اعلیٰ کے مطابق لغت کی تیاری میں سند کے طور پر سنہ 1920 سے پہلے کی طبع شدہ 1500 کتب سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے ‘ جو کہ اردو ادب کا انتہائی نادر اثاثہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ تمام کتابیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں لہذا کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت سے بجٹ منظور کرواکر ان کتابوں کو بھی آن لائن شائع کرکے عوام الناس کو ان تک رسائی دی جائے‘ حالانکہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن امید ہے کہ ہم اسے کرگزریں گے۔
– لغت کا رسم الخط –
اردو لغت آن لائن کرنے میں جو سب سے اہم مسئلہ درپیش تھا وہ آن لائن رسم الخط یا فونٹ کا انتخاب تھا۔ آن لائن اردو زبان لکھنے میں سب سے بڑی دقت یہ آتی تھی کہ کئی فونٹ کئی الفاظ درست طریقے سے لکھنے سے قاصر تھے ‘ خصوصاً اعراب لگانے میں سب سے زیادہ دقت پیش آتی تھی۔
جب لغت کوآن لائن مرتب کرنے کا مرحلہ پیش آیا تھا اس کے لیے کئی فونٹ استعمال کرکے دیکھے گئے اور بالاخر ’علوی‘ فونٹ کو منتخب کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ ’حیدر‘ نامی ایک فونٹ مزید وضع کیا گیا ہے۔
آن لائن اردو لغت
– اردو لغت بورڈ کے مستقبل میں آنے والے منصوبے –
عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ اردو لغت بورڈ کا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ یہ تو کام کا آغاز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید کئی منصوبے ایسے ہیں جو مستقبل قریب میں آن لائن پیش کیے جائیں گے۔
– صوتی لغت –
اردو زبان کی اس عظیم لغت کا آن لائن صوتی ورژن تیار کرنے کے لیے حکومت نے بجٹ منظور کردیا ہے اور جلد ہی اس منصوبے پر بھی کام شروع ہوجائے گا جس سے تلفظ کی غلطیاں درست کرنے میں مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ ان افراد کو زحمت دی جائے گی جن کی آواز اچھی اور درست تلفظ سے واقف ہوں‘ عقیل عباس کے مطابق جس طرح لغت تاریخی اصول پر مرتب کی گئی اسی طرح صوتی لغت کے لیے بھی تاریخی اصولوں کو ہی مدِ نظر رکھا جائے گا۔ فی الحال تلفظ سمجھانے کا کام اعراب کے ذریعے انجام دیا جارہا ہے۔
– بچوں کی لغت –
عقیل عباس جعفری کا ایک اور کارنامہ بچوں کے لیے لغت کی تیاری کا کام ہے جو کہ عنقریب منظرِ عام پر آجائے گا‘ اب تک بچوں کے نصاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی لغت مرتب نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے چارج سنبھالا تو محض سندھ میں اس پر کام ہورہا تھا لیکن اردو کیونکہ قومی زبان ہے لہذا انہوں اسلام آباد‘ پنجاب‘ خیبرپختونخواہ‘ بلوچستان اور وفاق کے زیراستعمال علاقوں کے نصاب منگوائے اور اب ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کی لغت کی تیاری کا کام جاری ہے۔
– مختصر لغت –
ریسرچ اسکالر اور مصنف ہونے کی حیثیت سے عقیل عباس جعفری سمجھتے ہیں کہ 22 جلدوں پر مشتمل لغت شاید ایک عام آدمی کی دلچسپی کا سبب نہ ہو‘ لہذا اسی ضیغم لغت سے الفاظ کی وضاحتیں ہٹا کر’معنی‘ پر مبنی ایک مختصر لغت بھی تیار کی جارہی ہے جو کہ دو جلدوں پر مشتمل ہوگی۔ سرکاری سطح پر شائع ہونے والی یہ پہلی لغت ہوگی جو یقیناً ہر پڑھے لکھے شخص کے بک شیلف کی زینت بنے گی۔
– اردونامہ –
اردو لغت بورڈ کے زیرِ اہتمام سن 1960 سے 1976 تک شائع ہونے والے ’اردو نامہ‘ کے 54 ایڈیشن آن لائن شائع کرکے اس کے دوبارہ احیاء کا منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔
اردو کا یہ عظیم الشان شمارہ شان الحق حقی کی ادارت میں نکلا کرتا تھا اور ان کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا‘ عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ وہ ایک ساتھ سارے کام چھیڑدینے کے بجائے ایک کام مکمل کرکے دوسرے پر جانے کے حامی ہیں‘ اردو نامہ بھی جلد آن لائن دستیاب ہوگا اور اس کا دوبارہ اجرا ءبھی اردو لغت بورڈ کے منصوبوں میں شامل ہے۔
الغرض اردو لغت بورڈ اور عقیل عباس جعفری اردو زبان کو ڈیجیٹل دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور انہیں اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کی بھرپور مدد حاصل ہے ‘ لہذا امید کی جاسکتی ہے کہ اردو لغت بورڈ کی ویب سائٹ جلد ہی اردو کی سب سے عظیم ویب سائٹ کادرجہ حاصل کرلے گی۔
وزیراعظم کے مشیر – عرفان صدیقی
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔
تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔
پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل
سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایکتاریخ ساز معاہدہاپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔
اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔
مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔
اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔
شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے
دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔
ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔
چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوںکو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔
موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟
مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔
بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔
وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحتجنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔
تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔
زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔
دیگر منصوبے
ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔
ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔
وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق
حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔
پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔
رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔
ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔
اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔
دبئی: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر عالمی عدالت جانا کا فیصلہ غلط ہے، یہ ہمارا داخلی اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے، آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی چلتی ہے،ممکن ہے جندال کلبھوشن سے متعلق پیغام لایا ہو، 80ء کی دہائی میں جہادیوں پر سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا، اسامہ بن لادن 80ء کی دہائی کا ہیرو ہے، امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ چھا جائیں گے۔
یہ باتیں انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’اعتراض یہ ہے ‘‘ میں میزبان عادل عباسی سے بات کرتے ہوئے کہیں۔
کسی کو حق نہیں کہ ہماری قومی سلامتی پر ہمیں رائے دے
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا،کسی کو حق نہیں کہ ہماری قومی سلامتی پر ہمیں رائے دے، اگر یہی بات ہے تو اجمل قصاب کا کیس ہمیں بھی لے جانا چاہیے تھاجب کہ کلبھوشن تو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو دیکھ رہا تھا۔
جس کی مرضی ہوتی ہے عالمی عدالت کا فیصلہ مانتا ہے ورنہ نہیں
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر جس کی مرضی ہوتی ہے آئی سی جے کا فیصلہ مان لیتا ہے،ماضی میں مثالیں ہیں کہ آئی سی جے کے فیصلوں سے انکار کیا گیا،پاکستانی طیارہ گرانے کے معاملہ پر بھارت آئی سی جے میں نہیں آیا تھا۔
آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی بھی چلتی ہے
انہوں نے کہا کہ کلبھوشن کامعاملہ قومی سلامتی کا ایشو ہے اس میں مداخلت برداشت نہیں کرنی چاہیے، آئی سی جے جیسی جگہوں پر بھارتی لابی وغیرہ بھی چلتی ہے،کلبھوشن کا کورٹ مارشل ہوا ہے یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔
بھارت کلبھوشن جیسوں کے ذریعے دہشت گردی کرارہا ہے
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کے ذریعے بھارت دہشت گردی کرا رہا ہے، بلوچستان میں کچھ لوگ پٹاخے چلاتے ہیں اور بھارت ان کی مدد کرتا ہے،بھارت ان ہی ایشوز کا سہارا لے کر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرتا ہے۔
آرمی چیف نے عالمی عدالت بھیجا تب بھی فیصلہ غلط ہے
آرمی چیف قمر باجوہ کی جانب سے کل کے سیمینار میں کہا گیا کہ عالمی عدالت جانے کا ہم نے کہا تھا تو اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ اگر آرمی چیف کے کہنے پر عالمی عدالت گئے تب بھی یہی کہتا ہوں کہ عالمی عدالت جانا ہی نہیں چاہیے تھا یہ فیصلہ غلط تھا۔
یہ کام حکومت یا دفتر خارجہ کو کرنا چاہیے فوج نے کیوں کیا؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں قوانین تو یہی ہیں کہ حکومت یا دفتر خارجہ یہ بات کرے لیکن کلبھوشن کو چوں کہ فوجی عدالت نے سزا دی ہے اس لیے فوج نے ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ عالمی عدالت جایا جائے۔
کلبھوشن کا معاملہ بہت اچھالنا چاہیے تھا
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حاضر سروس نیوی کا کمانڈر را کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے اس معاملے کو ہمیں بہت زیادہ اچھالنا چاہیے تھا۔
جندال آیا تھا تو اسلام آباد میں ملاقات کرنی چاہیے تھی
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جندال پاکستان آیا تو اسلام آباد میں ہی ملاقات کرنی چاہیے تھی، جندال آپ کا ذاتی دوست ہے تو ذاتی سطح پر ملاقات کی جائے۔
نواز شریف جندال سے ملاقات کی وضاحت کریں
انہوں نے کہا کہ سجن جندال سے مری میں ملاقات کی وضاحت ہونی چاہیے، سجن جندال کی نواز شریف سے ملاقات پر کنفیوژن ہے،سجن جندال سے ٹیلی فون پر بھی بات ہوسکتی تھی۔
ممکن ہے جندال کلبھوشن سے متعلق پیغام لایا ہو
ملاقات میں کلبھوشن کا معاملہ زیر بحث آیا؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارتی چالاک بہت ہیں، مودی کے ویسے ہی نواز شریف سے تعلقات ہیں، وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے رہتے ہیں، ممکن ہے کہ کبلھوشن کے معاملے پر جندال کوئی پیغام لائے ہوں۔
پاکستان کوئی بھوٹان نہیں جو بھارت دھمکیاں دیتا ہے
انہوں نے کہا کہ واجپائی سے ہاتھ سیاسی بریک تھرو کے لیے ملایا تھا، اب یہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف اشتعال انگیزی کرتے ہیں،پاکستان کوئی بھوٹان نہیں جو بھارت دھمکیاں دے رہا ہے،ہمیں سبق سکھانے کی بات کرنے والے خود سبق یاد کریں۔
ن لیگ انتخابات میں حکومتی مشینری استعمال کرتی ہے
پرویز مشرف نے کہا کہ یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، مجھ سمیت قوم کی نظر میں نواز شریف صادق اور امین نہیں، انتخابی اصلاحات نہ ہوئیں تو آئندہ الیکشن ن لیگ جیت جائے گی،ن لیگ انتخابات میں حکومتی مشینری استعمال کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تیسری سیاسی قوت وقت کی اہم ضرورت ہے، پی ٹی آئی سندھ میں دوسری سیاسی قوت بھی نہیں ہے۔
جہادیوں کو سپورٹ اور بعد میں ان کا مخالف بننا، پالیسی ایک نہیں رہتی
سوشل میڈل کے ذریعے نوجوانوں کا ذہن تبدیل ہونے کے سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ 80ء میں جہادیوں کو سپورٹ اور نائن الیون کے بعد ان کے خلاف ہوجانا،پالیسی کبھی ایک نہیں رہتی، جو مرے ہوئے ملک ہیں وہ ایک ہی پالیسی پر چلتے ہیں جب کہ جاگے ہوئے ملک دنیا کے ماحول کو دیکھتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے مطابق رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور پالیسی وضع کرتے ہیں۔
سال 1980ء میں جہادیوں کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا
انہوں نے کہا کہ 1980ء میں جہادیوں کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ درست تھا، وہ فیصلہ امریکا کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ پاکستان کا فیصلہ تھا کیوں روس اور افغان فورسز گرم پانیوں کی طرف جانا چاہتے تھے ہمیں دو طرفہ تھریٹ تھے۔
پشاور اور کوئٹہ کے سوا لاکھ افراد افغان جہاد میں فنڈنگ کرکے بھیجے
مشرف کا کہنا تھا کہ ہم نے الیون اور ٹویلو(12) کور یعنی پشاور اور کوئٹہ والے سوا لاکھ افراد کو اخراجات کے بعد افغان جہاد بھیجا یہ ہمارا اپنا مفاد تھا کہ روسیوں کو نکالیں جو ہمارے لیے خطرہ بن رہے تھے۔
اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری 80ء کے ہیرو ہیں
انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کی بات تھی اور اب معاملہ دوسرا ہے، روسی جاچکے ہیں، 90ء کا دور آگیا، یہی لوگ جنہیں جہادی کہتے ہیں پلٹ گئے، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری 80ء کی دہائی کے ہیرو ہیں جو روسیوں سے لڑنے آئے تھے لیکن اب انہوں نے اپنی توپیں انٹرنیشنل ٹیررازم کی جانب موڑ دیں، کیا اب بھی ہم انہیں سپورٹ کرتے رہے ہیں؟ بالکل نہیں۔
سال 80ء میں ہونے والا جہاد بعد میں فساد میں تبدیل ہوگیا
انہوں نے کہا کہ اب معاملہ بدل گیا، اب طالبان آگئے، ملا عمر آگئے اور ہم نے انہیں سپورٹ نہیں کیا، 80ء میں ہونے والا جہاد بعد میں فساد میں تبدیل ہوگیا، اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ امریکا کی غلطی ہے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے، میں امریکا میں بھی یہ کہتا ہوں۔
افغانستان میں ہم فیل طالبان کامیاب کیوں ہوئے؟ تجزیہ کیا جائے
افغانستان میں امریکا موجود ہے پھر بھی حالات تبدیل کیوں نہ ہوئے اس سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ سب فیل ہوئے اور طالبان وہاں کامیاب ہوئے، ایسا کیوں ہوا اس کا ہم سب کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ حالات کیوں ٹھیک نہ ہوئے۔
امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ چھا جائیں گے
آج امریکا افغانستان سے نکل جائے تو طالبان دوبارہ وہاں چھا جائیں گے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔
امریکا نے حملہ کیا تو طالبان بھاگ کر پاکستان کے پہاڑوں میں آگئے
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پوری دنیا نے مشترکہ طور پر کہا کہ انہیں سزا دی جائے جس پر امریکا نے وہاں کارروائی کی تو القاعدہ اور طالبان بھاگ کر پاکستان کے پہاڑوں میں آگئے، افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری وکٹری فائنل سلوشن نہیں ہوتی اس بات کو یاد رکھیں۔
کراچی: پاکستان کے پہلے دارالحکومت اور ملک کی معاشی رگ سمجھے جانے والے شہر قائد میں واقع فریئر ہال کی لائبریری حکومت کی عدم دلچپسی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کے دوسرے کمشنر سر بارٹل فریئر کے نام سے منسوب فرئیر ہال کی عمارت 1865 میں تعمیر کی گئی جو اب تک اُسی خدوخال میں موجود تو ہے مگر حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس کی لائبریری اپنی اجڑنے کی داستان خود بیان کررہی ہے۔
اٹھارہویں صدی میں قائم ہونے والی اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا گیا، دو سو سال قبل بنائی جانے والی اس عمارت کی تعمیر میں سرکاری دستاویزات کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار روپے کے اخراجات آئے جن میں سے 50 ہزار 200 روپے علم سے دوستی رکھنے والی شخصیات نے ادا کیے۔
فریئر ہال کی تعمیر کے لیے خصوصی لال، پیلے اور کتھائی (براوؤن) پتھراستعمال کیے گئے کیونکہ ان پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ پانی چھڑکنے کے بعد یہ بالکل نئے نظر آنے لگتے ہیں۔
چوالیس فٹ بلند عمارت میں پاکستان کے نامور خطاط صادقین نے اپنے فن سے کمرے کی چھتوں پر سورۃ الرحمٰن کی آیات کی کشیدہ کاری کی، حکومت نے اُن کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے بالائی منزل پر موجود آرٹ گیلری کو 1990 میں صادقین کے نام سے منسوب کردیا۔
میرٹ ہوٹل کے سامنے واقع فریئر ہال میں لیاقت لائبریری، باغ جناح، فیریئر ہال، صادقین آرٹ گیلری اسی جگہ موجود ہے اور تعمیر کیا گیا باغ آج بھی بالکل ویسی کا ویسی موجود ہے، اس عمارت میں جہاں دیگر اہم چیزیں ہیں وہی لائبریری میں رکھی علوم اور فنون کی کثیر تعداد میں کتابیں بھی بہت اہم ہیں۔
لائبریری اور میوزیم عمارت کی نچلی منزل پر واقع تھا جہاں کتاب دوست افراد صاف صوفوں پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے، کمرے میں داخل ہونے والی مدھم سی سورج کی روشنی اور کمرے میں اٹھنے والی پرانے اوراق کی خوشبو اس کمرے کی خوبصورت کو چار چاند لگاتی تھی۔
مناسب دیکھ بحال نہ ہونے کی وجہ سے نچلی منزل کی چھت ٹپکنے لگی تو اہم تصانیف خراب ہونے لگیں تو انتظامیہ نے دونوں شعبوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بزنس گارڈن منتقل کیا تاہم وہاں بھی صورت حال بالکل تبدیل نہیں ہوئی۔
فریئر ہال میں موجود لائبریری میں موجود خستہ حال اور بوسیدہ کتابیں حکومتی کارکردگی کا حال بیان کرتی ہیں اور دیواروں پر لگی دیمک عدم توجہ پر شادیانے بجاتی نظر آتی ہے۔
کتاب دوست افراد اہم تصانیف کو اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتا دیکھ کر انہیں اپنے حساب سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپارہے، جس لائبریری میں اخبارات محفوظ ہوتے تھے اب وہاں روزانہ آنے والے اخبارات کا ناغہ ہونے لگا ہے۔
گزشتہ دنوں میئر کراچی نے فریئر ہال کا دورہ کیا اور لائبریری کی دوبارہ سے تعمیرات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’لائبریریاں ترقی یافتہ اقوام کی عکاسی کرتی ہیں جلد اس کی رونقیں بحال ہوں گی اور لوگ یہاں سے مستفید بھی ہوسکیں گے۔
دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔
رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ماحولیات اور کلائمٹ سے متعلق تعلیم اور شعور و آگاہی کا فروغ ہے۔ ماحولیات اور خاص طور پر کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیرات) کے بارے میں تعلیم اور آگاہی حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دن بدن بڑھتے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سدباب کیے جاسکیں۔
تحفط ماحولیات کا شعور پاکستان میں کس طرح ممکن؟
ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ایک حقیقیت ہے اور حقیقت کا ادارک نہ کیا جائے، اس سے آگاہی حاصل نہ کی جائے تو وہ نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ’ماحولیات اور خصوصاً کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیئے۔
وہ کہتے ہیں، ’ہماری جامعات میں انوائرنمنٹ اسٹڈیز کے الگ سے شعبے بنا دیے گئے ہیں۔ یہ تعلیم اس شعبے میں مہارت تو فراہم کرتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو، ان کے علاوہ ہماری عوام کی بڑی تعداد ماحولیات کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے‘۔
ان کے مطابق اب جبکہ یہ وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔
آگاہی کے ذرائع
رفیع الحق نے ایک اور امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جب ہم اخبارات کے ذریعہ آگاہی کو فروغ دیتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری عوام کی اکثریت اخبار نہیں پڑھ سکتی۔ ’ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں‘۔
اس ضمن میں ٹی وی پر اشتہارات، دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں، مسجدوں سے اعلان کروانا، یا وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’اگر ہم یہ سب نہیں کریں گے، تو پھر وہی صورتحال ہوگی جو سنہ 2015 میں کراچی کی ہیٹ ویو کے دوران پیش آئی اور 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے شہر میں آفت کی صورت نازل ہونے والی یہ گرمی کیا ہے، اور کس قدر خطرناک ہے، تو وہ کیوں گھر سے باہر نکل کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے؟
زمین کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ چند معمولی باتیں جو بظاہر بہت عام سی لگتی ہیں بعض دفعہ ہمارے ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
غیر ضروری روشنیاں بند کریں۔ مختلف ساکٹس کے بٹن بھی بند رکھیں۔ کھلے بٹنوں کی وجہ سے ساکٹس توانائی خارج کرتے ہیں جو بجلی کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔
اپنے گھر اور گھر سے باہر جہاں ممکن ہو وہاں پودے اگائیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیا گیا آگاہی پوسٹر
بہت سارے پودے اگا کر انہیں خراب ہونے کے لیے چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ کم از کم ایک یا 2 پودے اگائے جائیں تاکہ ان کی دیکھ بھال کر کے انہیں تناور درختوں میں تبدیل کیا جائے۔
جتنا ممکن ہو پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر شخص کی انفرادی گاڑی ماحول میں فضائی آلودگی اور زہریلی گیسیں شامل کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
پرانے اخبارات کو ردی میں پھینکنے کے بجائے انہیں مختلف کاموں میں استعمال کریں۔ اس طرح سے آپ درختوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کچرے کو بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے اور جگہ جگہ کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔
پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ برش کرتے ہوئے نلکا بند کردیں۔
گوشت کی نسبت پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار ہماری زمین کو نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس گوشت کے ذرائع مختلف جانور درخت اور پتے کھا کر ہمیں گوشت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔
کاغذ کم سے کم ضائع کریں۔ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں لہٰذا کاغذوں کا ضیاع کرنے سے گریز کریں۔ ایک صفحے کی دنوں جانب لکھائی کے لیے استعمال کریں۔
مختلف اشیا کو ری سائیکل کریں یعنی انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنائیں۔
پلاسٹک کی اشیا خصوصاً تھیلیوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ یہ ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ان کی جگہ مختلف ماحول دوست میٹیریل سے بنے بیگز استعمال کریں۔
اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔
ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔
اپنے بچوں کو بچپن سے ماحول دوست بننے کی تربیت دیں۔