Tag: اے آر وائی خصوصی

  • پانی کا عالمی دن: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    پانی کا عالمی دن: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    اقوامِ متحدہ کےمطابق دنیا میں اس وقت سات ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050 تک بڑھ کرنوارب ہونے کی توقع ہے۔

    water-post-3

    اقوامِ متحدہ کےاعدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہےجس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

    جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اورسنہ 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائےگا۔

    خوراک کا دارومدار بھی پانی پر ہی ہوتاہے اس لیے پانی کےمزید ذخائر بنانےکی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ 1976 کے بعد سے پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔

    water-post-2

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کےعلاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینےکا صاف پانی ملتا ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد پانی ہسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے۔

    ویسے تو دنیا بھر میں پانی کے حوالے سے مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان میں 85فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    water-post-1

    صاف پانی نہ ہونے اور نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پاکستان میں ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوںسے جاں بحق ہوتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جولائی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے

    پاک بھارت آبی مذاکرات


    آبی تنازع پر پاکستان نے بھارت سے مذاکرات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے ‘ بھارت نے مایارپن بجلی منصوبہ کے ڈیزائن میں تبدیلی کی یقین دہانی کرادی جبکہ لوئر کلنانی اور پکل دل کے منصوبوں کا بھی دوبارہ مشاہدہ کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

    اسلام آباد میں ہونے والے انڈس واٹر کمشنرز کے دوروزہ اجلاس میں بھارتی واٹر کمشنر پی کے سکسینا نے بھارتی وفد کی قیادت کی جبکہ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ مرزا نے پاکستان کی نمائندگی کی۔

    indus-post

    مذاکرات کے دوسرے روز پاکستانی موقف کے سامنے بھارتی خاموش ہوگئے، پاکستان کی جانب سے مایار ڈیم پر اعتراضات اٹھائے گئے، پاکستان نے بتایا کہ ایک سو بیس میگاواٹ کے مایار ڈیم کا ڈیزائن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی مؤقف پر بھارت نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی درخواست پر ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کیا جائے گا۔

    انڈس واٹر ٹریٹی کمشنر نے بتایا کہ لوئر کلنائی اور پاکل دل پن بجلی منصوبوں پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی، اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت سے آرٹیکل اڑتالیس کے تحت بگلیہار اور سلار کا ڈیٹا بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے 2012 میں 120میگاوٹ کے مایار پن بجلی منصوبہ کا ڈیزائن پاکستان کو دیا تھا۔

    پاکستانی انڈس واٹر کمشنرآصف بیگ مرزا نے مزاکرات ختم ہونے کے بعد گفتگو میں کہا کہ مذاکرات نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئے،بھارت نے مایار ڈیم پر پاکستان کے اعتراضات تسلیم کرلیے ہیں۔

    سندھ میں پانی کی قلت


    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں آئندہ ہفتے میں پانی کا بحران شدت اختیار کرجائے گا۔ کوٹری بیراج جو کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے چھ اضلاع کو پانی فراہم کرتا ہے ‘ وہاں پانی کا بہاؤ محض ایک ہزار کیوسک فٹ رہ جائے گا جو کہ سن 2005 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

    indus-post-1

    پانی کی فراہمی میں کمی کے سبب سندھ کے چھ اضلاع کو کاشت کاری‘ گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتیہ ہفتے سندھ چیمبر آف کامرس کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو پانی کی کمی سے مطلع کرے اور پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی ہدایات جاری کرے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے تحفظات


    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پاکستان میں پانی کی تقسیم پر اپنےتحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے جواب میں وفاقی وزارتِ پانی و بجلی نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربیع کے موسم میں سندھ اور پنجاب کو 17 فیصد پانی کی کمی کا سامناکرنا پڑا تھا اورخریف کے موسم کے لیے آبی ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس جلد طلب کرلیا جائے گا۔

  • پاکستان کے موجودہ حالات لکھنے کی اجازت نہیں دیتے: حسینہ معین

    پاکستان کے موجودہ حالات لکھنے کی اجازت نہیں دیتے: حسینہ معین

    تعارف: حسینہ معین ، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز مصنف، مکالمہ نگار اورڈراما نویس ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان اوربیرون ملک ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے  بہت سے ڈرامے لکھے اوراُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے۔

    معروف قلم کار حسینہ معین 20 نومبر، 1941ء کو بھارت کے شہر کانپور میں پیدا ہوئیں ۔ حسینہ معین نے ابتدائی تعلیم کانپور سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئیں۔ وہ کافی سالوں تک راولپنڈی میں مقیم رہیں، پھر وہاں سے لاہورچلی گئیں۔ 1950ء  آپ کراچی تشریف لے آئیں‘ یہاں اُنہوں نے جامعہ کراچی سے 1963ء میں تاریخ میں ایم اے کیا۔

    اُنہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بہت سے یادگار ڈرامے لکھےجن میں شہزوری، زیرزبر پیش، انکل عرفی، ان کہی، تنہایاں، دھوپ کنارے،دھند، آہٹ، کہر، پڑوسی، آنسو، بندش اورآئینہ جیسے مشہور ڈرامے شامل ہیں۔

    اُنہوں نے فلم کے لیے بھی کام کیا ہے۔ راج کپور کی درخواست پرہندی فلم ’حنا‘ کے مکالمات تحریر کیے۔ پھراُنہوں نے ایک پاکستانی فلم ’کہیں پیارنہ ہوجائے‘ لکھی تھی۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی فلم ’نزدیکیاں‘ اور وحید مراد کی فلم ’یہاں سے وہاں تک‘ کے مکالمے بھی قلم بند کرچکی ہیں۔

    haseena-post-1

    اے آروائی نیوز: آپ نے پاکستان کے مختلف ادوار دیکھیں ہیں، کیا آپ وطن عزیز کے آنے والے کل سے مطمئن ہیں ؟

    حسینہ معین: نہیں! بد قسمتی سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ ہمارا دور بہت مخلص اور اپنائیت بھرا تھا، جب نہ لسانیت کا شور تھا، نہ نام نہاد مذہب کی باتیں… ملک کے معر ضی حالات کے ساتھ معاشرتی صورت حال بھی بہتر تھی، میعار تعلیم بھی اچھا تھا، اب تو ہر جگہ ناقابل بیان صورت حال ہے، زمانے میں بہت سادہ لوگ تھے جو بہت اعلیٰ ظرف رکھتے تھے، رفتہ رفتہ دیکھا کہ ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب جا رہے ہیں، جو بہت افسوس کی بات ہے

    اے آروائی نیوز: اس ساری صورت حال میں قلم کار کیسے بہتر کرداد ادا کر سکتا ہے ؟

    حسینہ معین: قلم کارکی بڑی ذمے داری ہوتی ہے، یا تو پورا سچ لکھے یا بالکل بھی نہ لکھے۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظرقلم کار میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے، قلم کار اپنے لکھے ایک ایک لفظ کا جواب دہ ہوتا ہے.

    haseena-post-2

    اے آروائی نیوز: آپ نے بے شمار ڈرامے لکھے، کبھی کسی تحریرمیں آپ نے اپنی جھلک اپنے چاہنے والوں کو دکھائی ؟

    حسنیہ معین: انسان کی تحریراس کی سوچ کا عکاس ہوتی ہے، اس کی سوچ اس اخلاقیات کو اجاگر کرتی ہے، مصنف کی شناخت ہے کہ ان کی دولائنز پڑھ کر قارئین کو سمجھ آجائے کہ یہ کون ہے، یقینا میری شخصیت بھی کسی نہ کسی تحریرمیں عکاسی کا سبب بنی ہوگی، میں نے پاکستانی کلچر کے تحت گھریلو نوعیت کے ڈرامے لکھے ، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنے ملک سے والہانہ محبت ہے، جوکہ ہونی بھی چاہیئے ، میری خواہش ہے یہ جذبہ ہر قلم کارمیں ہو اوربے شمارقلم کارمٹی کی محبت کی خوشبو کو اپنے لفظوں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔

    اے آروائی نیوز: لکھنے کے سفر کا آغاز کیسے ہوا؟۔

    حسنیہ معین: میں کالج کے زمانے میں ایک میگزین میں لکھا کرتی تھی، ایک روزمیری پرنسپل نے مجھے بلاکر کہا کہ مختلف کالجز کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے، تمھیں اس سلسلے میں ڈرامہ لکھنا ہے، میں نے کہا میڈیم مجھے ڈرامہ لکھنا نہیں آتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ لکھو گی نہیں تو آئے گا کیسے، انہوں نے اصرار کیا کہ بس! تمھیں لکھنا ہوگا، میں ڈرامہ رائٹرزمیں تھمارا نام لکھ چکی ہوں۔ اب سر پر پڑی تھی لہذا کچھ تو کرنا تھا، بہت سوچ و بچار کے بعد لکھ  ڈالا  اورایسا لکھا کہ ایوارڈ یافتہ ہو گیا، پھراندازہ ہوا کہ میں ڈرامہ بھی لکھ سکتی ہوں۔

    اے آروائی نیوز: میڈیم آپ کو پہلا ایواڈر کب ملا تھا ؟

    حسنیہ معین :1972 میں جب میں نے ’ہیپی عید مبارک ‘ نامی ڈرامہ لکھا تھا وہ آن ائیر گیا ، لوگوں میں مقبول ہوا ، ہمارے ڈایکرٹر نے ہمیں 200 روپے بطور انعام دیئے ، جب 200 روپوں کی بہت اہمیت تھی ،اور وہ میرا پہلا ڈرامہ تھا اس ایواڈر کی خوشی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔

    ۔اے آروائی نیوز: آپ نے اتنے سارے ڈرامے لکھے ، فلم کے ڈائیلاگ لکھے‘ کبھی اداکاری کی جانب کیوں نہیں آئیں؟

    حسنیہ معین: مجھے اپنے لئے اداکاری پسند نہیں ہے ، زمانہ طالب علمی میں ایک بار ایک اسٹیج شو میں زبردستی پرفارم کرنا پڑگیا تھا، ہوا یوں تھا کہ ہمارے کالج کے پرنسپل بختاری صاحب نے کہا کہ تمھاری اردو اچھی ہے تم لڑکیوں کو’انارکلی‘ ڈرامے کی ریہرسل کرادو، لہذا میں یہ فرائض سر انجام دینے لگی۔ اچانک انہوں حکم دیا کہ تم نے ’انارکلی‘ کا کردارادا کرنا ہے ، میں تو سٹپٹا گئی کہ یہ کیا میرے گھروالے کہا ں اجازت دیں گے مگر پرنسپل صاحب کی حکم عدولی بھی ممکن نہ تھی ، کرنا پڑا ، امی سخت خفا ہوئیں مگر ۔امی کو کہا کہ ایک ڈرامے کی بات ہے اجازت دے دیں ،بہت مشکل سے اجازت ملی ڈارمہ کیا اور ایوارڈ جیتا.

    اے آروائی نیوز: آپ آج کل کے حالات پر کیوں نہیں لکھ رہی ہیں؟

    حسنیہ معین: دیکھو آج کل تو افراتفری کا عالم ہے،کیا لکھوں پاکستان کے حلات پرکیا لکھوں یہ کہ جب بھی آرمی آتی ہے تو عوام کو ریلیف ملتا ہے جبکہ نام نہاد جمہوری دورمیں تو عوام پریشانی سے دو چار ہوتے ہیں ، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، یہاں آرمی کی حکومت کے دور میں جمہوری کام ہوتے ہیں ، آپ خود دیکھیں بہترین بلدیاتی نظام آرمی کے دورمیں، ڈیمز کا قیام آرمی کے دورمیں ہوا، ساری دنیا میں افواج سرحدوں پرہوتی ہیں، ہمارے یہاں حکمرانوں سے نظام سنبھلتا ہی نہیں ہے ، اسی ۔لئے خود فوج سے مدد طلب کرتے ہیں تو اس صورت حال میں کیا لکھوں؟۔

    اے آروائی نیوز: پاکستان میں کتنا ’ادب‘ ہے ؟

    حسنیہ معین: پاکستان میں بہت لکھا گیا ہے اور بہت لکھا جارہا ہے ، اس سرزمین نے بہت اچھے ادیب اور شاعر دیے ہیں۔ وقت کے تقاضے کے تحت بہت سی نامور شخصیات ہم سے بچھڑ گئی ہیں ، جو کہ ایک قدرتی عمل ہے ، ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان کی جگہ پُر ہو جاتی تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا، اس کی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے ، حالات کے تناؤ کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہین میں فکر معاش ہے اس لئے وہ دامن ادب کی آغوش میں زیادہ تعداد میں نہیں آرہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ بالکل بھی نہیں آرہے مگر تعدا د تسلی بخش نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ہمارے ملک کے فنون لطیفہ کا پوری دنیا میں چرچا تھا ، اب صورتِ حال پہلے جیسی نہیں ہے ، اب تو آپ لوگوں کے ہاتھ میں بال ہے ، آپ لوگ کے ہی ہاتھ میں اوورز ہیں، وکٹیں بھی آپ کی ہیں، پچ بھی آپ کی ہے۔

    haseena-post-3

    اے آروائی نیوز: کیا آپ ہماری نسل سے مطمئن ہیں ؟

    حسنیہ معین : دیکھو! میرے بڑوں نے مجھ پراعتماد کیا تو آج میں اس مقام پرہوں لہذا میرا آپ لوگوں پراعتماد کرنا ضروری ہے۔ یہ چراغ سے چراغ بھرپوراعتماد کے ساتھ ہی روشن رہ سکتے ہیں، آپ لوگ بھی اچھا کا م کررہے ہیں۔

  • مختلف زبانوں کی تعلیم پائیدار ترقی کے لیے ضروری

    مختلف زبانوں کی تعلیم پائیدار ترقی کے لیے ضروری

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو کا کہنا ہے کہ ہر شخص کی اپنی مادری زبان کی تعلیم کے ساتھ دیگر زبانوں کی تعلیم دنیا کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

    رواں برس یہ دن اسی مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے جس میں اقوام متحدہ کی سفارش ہے کہ ہر شخص کو اس کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جائے۔ یونیسکو کے مطابق علاقائی، مقامی اور اقلیتوں کی مادری زبان کی ترویج و فروغ کسی قوم کی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوا نیو گنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیا دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔

    آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔

    اقوام متحدہ اپنے ارکان ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی حفاظت کریں اور انہیں متروک ہونے سے بچائیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے فروغ کے ذریعہ ہی عالمی ثقافتی اور لسانی ہم آہنگی، اتحاد اور یگانگت کو قائم کیا جاسکتا ہے۔

    زبانوں کی تحلیل ثقافت کو متروک کرنے کا سبب

    کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ کسی زبان کے متروک ہونے کا مطلب اس پوری ثقافت کا متروک ہونا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6 ہزار 9 سو 12 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق ہر 14 دن بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان متروک ہوجاتی ہے۔ اگلی صدی (یا رواں صدی کے آخر) تک دنیا کی نصف لگ بھگ 7 ہزار زبانیں متروک ہوجائیں گی۔

    مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کے متروک ہونے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے۔

    پاکستان ۔ کثیر اللسان ملک

    پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، 8 فیصد پشتو، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

    علاقائی مادری زبانیں منفرد انداز فکر اور حسن رکھتی ہیں۔ مادری زبان نہ صرف انسان کی شناخت اور اظہار کا ذریعہ ہیں بلکہ بیش قیمت روایات بھی رکھتی ہیں۔

    ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کر کے محفوظ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے۔

  • کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی: شہرقائد میں تین روز سے جاری آٹھواں کراچی لٹریچرفیسٹیول بالاخر اپنی تمام تر رونقیں سمیٹ کراختتام پذیر ہوگیا‘ فیسٹیول میں متعدد ادبی سیشنز سمیت 20 کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔

    سال 2017 میں شہرقائد میں ہونے والی پہلی ادبی سرگرمی یعنی کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول 10 فروری تا 12 فروری جاری رہا‘ فیسٹیول میں کئی ممالک سے ادب وفن سے وابستہ نامورشخصیات نے شرکت کی۔

    لٹریچر فسٹیول کا انعقاد ساحل کنارے واقع بیچ لگژری ہوٹل میں کیا گیا ‘ ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دیگر معزز مہمانوں کے ہمراہ امریکی اور بھارتی سفارت کار نے بھی شرکت کی۔

    کراچی کا ادبی میلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری

     ایونٹ میں کل 75 سیشنز تھے جن میں ادب وفن سے وابستہ 200 ملکی اور غیر ملکی شخصیات نے حصہ لیا جبکہ تین روزہ فیسٹیول میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ دو لاکھ افراد نے شرکت کری جو کہ اس فیسٹیول کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ 2010میں منعقد ہونے والے پہلے لٹریچر فیسٹیول میں کل پانچ ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔

    معروف فلمی شخصیات جو کہ ایونٹ کے مختلف سیشنز میں شریک ہوئے ان میں ندیم‘ مصطفیٰ قریشی‘ اور بشریٰ انصاری قابلِ ذکر ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے خصوصی طورپر پاکستان تشریف لائیں نامور اداکارہ شبنم نے بھی اس ایونٹ کو رونق بخشی۔

    post-2

    post-6

    ادب کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ضیا محی الدین‘ عائشہ جلال‘ منزہ شمسی سمیت دیگر غالب رہے بالخصوص دوسرے دن مین گارڈن میں ہونے والے مرکزی سیشنز پر مستنصر حسین تارڑ اور آخری دن ضیا محی الدین چھائے رہے‘ حاضرین کی بڑی تعداد ان شخصیات کو سننے کے لیے جگہ کم پڑجانے کے سبب کھڑے ہوکر انہیں سنتی رہی۔

    post-7

    post-3

    ایونٹ کے دوسرے دن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاہم مشاعرے میں کراچی کے اساتذہ شعرائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی گئی جیسے کہ سحرانصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ رسائی چغتائی اور جاذب قریشی جبکہ زہرہ نگاہ‘ ریحانہ روحی اور شہناز نور جیسی شاعرات جو کہ دبستانِ کراچی کی شناخت ہیں۔ ایک عالمی ایونٹ ہونے کی حیثیت سے افتخارعارف کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ حاظرین کی اتنی بڑی تعداد ایونٹ کی کامیابی اور عوام میں ادب سے محبت کا ثبوت ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے مزاج کے حامل شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے جو کہ لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ملک بھر کی مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے طلبہ طالبات کی پینٹنگز اور آرٹ ورک کو بھی اس ادبی میلے کا حصہ بنایاگیا  تھا‘ جس سے نہ صرف طالب علموں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم میسر آیا بلکہ وہاں آنے والے نوجوانوں کو بھی اس سے تحریک ملی۔

    اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ایسے ایونٹس نا صرف یہ کہ صحت مند معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے انعقاد سے عالمی دنیا میں مثبت پیغام بھی جاتا ہے جو کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرانتہائی ضروری ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اس قسم کے فیسٹیول ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔

    امورِ پاکستان کے ماہراور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹرجعفراحمد کا کہنا تھاکہ یہ اس طرح کی تہذیبی سرگرمیاں بے حد کارآمد ہوتی ہیں یہ عام لوگوں کے لیے ایک آسان موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ ادیب‘ شاعر یا فنکار سے مل سکیں اوران سے ربط استوار کرسکیں۔ انہوں مزید کہا کہ بدقستمی سے افغان جہاد کے دنوں سے پاکستان کا حقیقی تشخص مرجھا کررہ گیا تھالیکن اب صورتحال بہتر ہورہی ہے ایسے فیسٹیول اقوامِ عالم میں پاکستان کے تشخص کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    پاکستان میں نٹیا شاسترارقص کے ماہر مانی چاؤ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا ایونٹ ہے جہاں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اکھٹے ہوئے ہیں اورپاکستان میں موجود فن کو عالمی دنیا تک رسائی کا موقع مل رہا ہے۔ مانی چاؤ عنقریب پاکستان میں رقص کا عالمی مقابلہ منعقد کرانے کے لیے پر عزم ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ ماہ تک اس حوالے سے حتمی اعلان کردیا جائے گا۔

    بھارت سے تعلق رکھنے والی انٹرٹینمنٹ رائٹر پریانکا جھا نے ایونٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگےبڑھنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے کہ عوام میں باہم ربط بڑھایاجائے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جائے۔

    ایونٹ کے بانیان میں شامل معروف ادیب اورنقاد آصف فرخی نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اس عظیم الشان کامیابی اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال عوام کو اس سے بھی بہتر ادب کے ذائقے سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے۔

    post-1

    post-5

    عوام کی اس کثیر تعداد میں آمد جہاں ایک جانب کراچی لٹریچر فیسٹیول کی کامیابی کا ثبوت ہے وہیں رش بڑھ جانے کے سبب شہریوں کو جہاں پارکنگ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہاؤس فل ہونے کے سبب بہت سے لوگ اپنے پسندیدہ ادیبوں کو سننے سے بھی محروم رہے‘ لٹریچرفیسٹیول میں کتابوں کی خریداری کے رحجان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے اوراس کی نسبت جگہ کم ہونے کے سبب بہت سے افراد نے خریداری کاارادہ ترک کردیا۔

    کراچی کے ساحل کے کنارے تین روز سےآباد علم و ادب اورفن کا یہ عظیم میلہ گزشتہ رات میوزیکل کنسرٹ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا اور اپنے پیچھے آئندہ سال تک کے لیے بے شمار یادیں چھوڑگیا۔

  • بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ جس وقت آپ اپنے آرام دہ گھر یا دفتر میں گرما گرم کافی یا کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں کوئی بچہ بھوک سے مر جاتا ہے؟

    آپ کے کھانے پینے اور کام کرنے کے دوران ہر 10 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ بھوک سے لڑتا ہوا موت کی وادی میں اتر رہا ہوتا ہے۔ ہر رات جب آپ کھانا کھا کر ایک پرسکون نیند سونے جارہے ہوتے ہیں، آپ کے ارد گرد ہر 8 میں سے 1 شخص بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ پوری دنیا بھر میں 85 کروڑ افراد بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق اس تشویش ناک حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پاکستان ایک ایسا خوش نصیب ملک ہے جو دنیا میں خوراک اگانے والا آٹھواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے۔

    ملک میں 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار جبکہ 8 فیصد سے زائد بچے بھوک کے باعث 5 سال سے کم عمری میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    دنیا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس ساری صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور آگے بڑھ کر بھوک کے اس عفریت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال رابن ہڈ آرمی ہے جو پاکستان اور بھارت سمیت 13 ممالک میں بھوک کے خلاف برسر پیکار ہے۔

    اس ’فوج‘ کی بنیاد کا سہرا نیل گھوش نامی نوجوان کے سر ہے جو پرتگال میں رہائش پذیر تھا۔ وہاں اسی مقصد کے لیے کام کرتے ایک ادارے ’ری فوڈ‘ سے متاثر ہو کر نیل نے ایسا ہی قدم بھارتی عوام کے لیے بھی اٹھانے کا سوچا۔

    ابھی وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے فیس بک پر اپنے ہم خیال کچھ پاکستانی دوست ٹکرائے۔ اور پھر ان سب نے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں بھوک مٹانے کے اس سفر کا آغاز کیا۔

    مستحق افراد کو کھانا پہنچانے اور بھوک کو ختم کرنے کا عزم لیے اس تحریک کا آغاز ڈھائی سال قبل اس دن سے کیا گیا جب ورلڈ کپ 2014 میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ نئی دہلی اور کراچی میں 6 رضا کاروں نے مختلف ریستورانوں سے کھانا جمع کر کے کچی آبادی کے غریب افراد کا پیٹ بھرا۔

    ان نوجوانوں کا مقصد اور طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ مختلف ریستورانوں اور ہوٹلوں سے بچ جانے والا کھانا جمع کرنا اور انہیں نادار و مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔ 6 رضا کاروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک ڈھائی سال بعد اب 13 ممالک کے 41 شہروں میں پھیل چکی ہے اور اس میں شامل رضاکاروں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

    اس تحریک کے بانیوں نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے کام، اس کے طریقہ کار اور تجربے کے بارے میں بتایا۔

    تحریک کا نام غریبوں کے ہمدرد لٹیرے رابن ہڈ کے نام پر کیوں رکھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں نیل گھوش کا کہنا تھا کہ انگریزی تخیلاتی کردار رابن ہڈ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کو بخش دیا کرتا تھا۔

    جب انہوں نے اس کام آغاز کیا تو وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ خوارک کی ایک بڑی مقدار کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور خصوصاً شادیوں میں بے تحاشہ کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو ہزاروں افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے۔

    خوشحال افراد کے ضائع شدہ اسی کھانے کو کام میں لا کر غریب اور مستحق افراد کے پیٹ بھرنے کا خیال رابن ہڈ کے نظریے سے کسی قدر ملتا جلتا ہے، لہٰذا اس تحریک کو رابن ہڈ آرمی کا نام دیا گیا۔ تحریک میں شامل رضا کاروں کو بھی رابنز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کس طریقہ کار کے تحت اس کھانے کو مستحق افراد تک پہنچایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تحریک کے ایک اور بانی رکن نے بتایا کہ آرمی میں شامل ہر رضا کار کو کچھ مخصوص ریستوران اور اسی علاقے کی قریبی غریب آبادیوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

    ہر رضا کار اکیلا، یا 2 سے 3 کی تعداد میں اپنے طے کردہ ریستوران سے کھانا جمع کرتے ہیں، (جو ان کے لیے پہلے سے تیار رکھا ہوتا ہے) اس کے بعد وہ انہیں قریب میں موجود مستحق افراد تک پہنچا دیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تحریک کسی قسم کی چندے یا عطیات کی محتاج نہیں۔

    ابتدا میں انہیں ریستورانوں اور ہوٹلوں کی انتظامیہ کو کھانا دینے کے لیے بہت گفت و شنید کرنی پڑی۔ اب کئی ریستوران خود ہی ان سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو مستحق افراد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں بے شمار ریستوران ہیں جو اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔

    ایک رابن کا کہنا تھا کہ جب وہ کھانا جمع کرتے ہیں تو وہ ہر قسم کی غذا ہوتی ہے۔ پھل، سبزیاں بھی، مرغن اور چکنائی بھرے کھانے اور کیک، مٹھائیاں وغیرہ بھی جو بعض اوقات صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن وہ کھانے کی غذائیت کو نہیں دیکھتے۔ ’ہمارا مقصد بھوکے افراد کا پیٹ بھرنا ہے، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے بمشکل اپنی زندگی میں کچھ اچھا کھایا ہوگا۔ ایسے میں اگر ان کی صحت اور غذائیت کے بارے میں سوچا جائے تو یہ کھانے سے بھی محروم ہوجائیں گے جو ان کے ساتھ ظلم ہوگا‘۔

    تحریک کے بانی نیل گھوش نے بتایا کہ بھارت میں ان کے رضا کار شادیوں سے بھی بچ جانے والا کھانا جمع کرتے ہیں اور ان دنوں میں ان کی مصرفیات بے تحاشہ بڑھ جاتی ہیں جب شادیوں کا موسم چل رہا ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے ان کے رضا کار آدھی رات کو بھی کھانا جمع کرنے پہنچتے ہیں اور اسی وقت مستحق آبادیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ صبح تک یہ کھانا خراب نہ ہوجائے۔

    نیل نے بتایا کہ بھارت میں عموماً بہت پر تعیش شادیاں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں ضائع ہونے والے کھانے کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ ایک بار حیدرآباد دکن میں ایک شادی سے بچ جانے والے کھانے سے 970 غریب افراد کو کھانا کھلایا گیا۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    اس تحریک سے منسلک رابنز کا کہنا ہے کہ جب وہ کھانا لے کر انہیں مستحق افراد تک پہنچانے جاتے ہیں تو انہیں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور تب ان پر زندگی ایک نئے پہلو سے ظاہر ہوتی ہے۔

    کھانے کا انتظار کرنے والے غریب بچے بے حد خوشی، محبت اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بڑے انہیں دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ یہ سب انہیں خوشی تو فراہم کرتا ہے لیکن وہ دنیا میں وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم اور انسانی غیر ذمہ داری اور چشم پوشی کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہوجاتے ہیں۔

    رابن ہڈ آرمی پاکستان میں اس وقت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سرگرم ہے جبکہ بھارت کے کئی شہروں میں کام کر رہی ہے۔

    یہ رضا کار اب ان غریب علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر اسکول قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ یہ غریب بچے اپنی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو سکیں۔

  • سال 2017: اس سال کون سے اہداف حاصل کرنے ہیں؟

    سال 2017: اس سال کون سے اہداف حاصل کرنے ہیں؟

    آج سال2017 کا پہلا دن ہے۔ بہت سے افراد کے لیے یہ سال خوشیوں بھرا، اور کسی کے لیے تکلیف دہ رہا۔ کسی نے اس سال بہت کچھ پایا، اور کسی نے بہت کچھ کھویا۔

    لیکن زندگی آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے۔ یہ کبھی رکتی نہیں۔ چنانچہ اس سال کی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھ کر اپنے نیو ایئر ریزولوشن یا نئے سال کے اہداف کا تعین کریں۔

    معروف کتاب ’لونگ یور بیسٹ لائف‘ کی مصنفہ لارا برمن کہتی ہیں، ’ہم ہر سال کے آغاز پر اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں لیکن ان کے لیے کام نہیں کرتے۔ ہم میں سے 23 فیصد افراد نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں انہیں نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔ مزید 45 فیصد افراد پہلے ماہ کے آخر تک اپنے طے کردہ اہداف کو بھول بھال کر نئی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اپنی قابلیت کے مطابق اپنے اہداف کا تعین کرنا، اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

    پرجوش کرنے والے اہداف رکھیں

    ایک ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ نئے سال کے اہداف میں پہلا ہدف وہ مت رکھیں جو آپ گزشتہ کئی سال سے رکھتے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر وزن کم کرنا، یا صحت مند غذائیں کھانا۔ آپ ان کے بارے میں سوچ کر بور ہوچکے ہیں۔

    اس کی جگہ کسی ایسی نئی چیز کو ہدف بنائیں جو آپ کو پر جوش کردے۔ مثال کے طور پر وزن کم کرنے کے لیے ڈانس کلاسز میں داخلہ لینا یا رننگ کرنے والے کسی گروپ میں شامل ہونا۔

    ہدف وہی ہوگا، بس اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کار بدل جائے گا۔

    ماسٹر پلان بنائیں

    اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ماسٹر پلان بنائیں جس پر پورا سال عمل کریں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں، تو دو ماہ کے لیے دن رات جاگ کر اس پر کام کرنے کے بجائے، ہر روز صبح آدھا گھنٹہ جلدی اٹھنے کا ٹاسک رکھیں۔ اس آدھے گھنٹے میں اپنی کتاب پر کام کریں۔

    یوں یہ آپ پر بوجھ بھی نہیں بنے گا اور آپ سال کے آخر تک اس ہدف کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔

    ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملائیں

    اگر آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ دوستی کریں جس کے اہداف آپ سے ملتے جلتے ہوں، تو یہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی جانب ایک قدم ہوگا۔ ہم خیال افراد ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

    اگر آپ ایسے افراد کے ساتھ ہیں جن کے شعبے اور ترجیحات آپ سے بالکل مختلف ہیں، تو آپ ان کے ساتھ مصروف ہوجائیں گے اور آپ کے اپنے اہداف دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

    توجہ مرکوز کریں

    نئے سال میں کیے جانے والے کاموں کی فہرست بنا کر انہیں کسی الماری میں نہ رکھیں۔ انہیں اپنے دفتر یا گھر میں ایسی جگہ آویزاں کرلیں جہاں سے آتے جاتے ان پر نظر پڑتی رہے۔

    اس طرح آپ کو اپنے اہداف یاد رہیں گے اور آپ غیر متعلقہ سرگرمیوں میں مصروف ہونے سے گریز کریں گے۔

    اپنے آپ کو شاباشی دیں

    اپنے اہداف کی طرف ایک معمولی سے قدم پر بھی خود کو شاباشی دینا مت بھولیں۔ اگر آپ اپنا 20 پاؤنڈ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو انتظار مت کریں کہ 20 پاؤنڈز کم ہونے کو ہی کامیابی سمجھیں گے بلکہ چند پاؤنڈز کم ہونے پر بھی خود کو شاباشی دیں۔

    یہ عمل آپ کو مزید آگے بڑھنے پر اکسائے گا۔

  • ابھرتی ہوئی گلوکارہ کا شہید فوجی جوانوں کو خراج تحسین

    ابھرتی ہوئی گلوکارہ کا شہید فوجی جوانوں کو خراج تحسین

    لاہور: سال نو کی آمد کے موقع پر جہاں ہر شخص گزرے سال پر اپنی کامیابیوں پر خوش ہے وہی پنجاب سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ طلبہ سمیعہ معراج نے رواں سال کے اختتام پر آپریشن ضرب عضب میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کو منفرد انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔

    موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والی 12 سالہ سمیعہ معراج کلاس 9 کی طالب علم ہیں اور وہ پنجاب یونیورسٹی آف میوزک سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کررہی ہیں۔

    سمیعہ کے والد نے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اُن کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور وہ رکشہ ڈرائیور ہیں، سمیعہ کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا، اس لیے ہم نے اُس کی باقاعدہ تربیت کے لیے استاد کا بندوبست کیا‘‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ’’سمیعہ نے موسیقی کی دنیا میں کچھ ماہ قبل قدم رکھا تاہم اس دوران انہوں نے اپنے صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے الحمرا ہال میں ہونے والے 58ویں کل پاکستان موسیقی کا ایوارڈ حاصل کیا‘‘۔

    سمیعہ معراج نے سال 2016 کو آپریشن ضرب عضب میں شہید ہونے والے فوجیوں کے نام کرتے ہوئے اُن کے لیے اپنی مدھر آواز میں ملی نغمہ ’’اے راہ حق کے شہیدوں‘‘ گایا جس میں اُن کا فن اور تربیت واضح طور پر سنائی دے رہی ہے۔

    علاوہ ازیں سمیعہ نے معروف پاکستانی گلوکار سجاد علی کا مشہور گانا ’’ہرظلم تیرا یاد ہے‘‘ اور راحت فتح علی خان کی آواز میں گایا ہوا بالی ووڈ گانا ’’جگ گھومیا‘‘ بھی اپنی مخصوص آواز میں گایا ہے۔

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔

  • آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

    آج دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

    کراچی : پہاڑوں کا عالمی دن (ماؤنٹین ڈے ) پاکستان سمیت دنیا میں ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ پہاڑوں کا عالمی دن منانے کا آغاز اقوام متحدہ کے تحت گیارہ دسمبر 2003ء میں کیا گیا اور یہ دن مناتے ہوئے دنیا بھرمیں پہاڑیوں کی حالت بہتر بنانے اوران کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زوردیا جاتا ہے۔

    یہ عالمی دن منانے کا مقصد پہاڑوں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کا شعور اجاگرکرنا ہے، دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں پہاڑ ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں، دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل، نیشنل پارک کا 56 فیصد پہاڑوں میں ہے۔

    mountain-post

    وطن عزیز پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو یہاں واقع ہے۔ ورلڈ ماؤنٹین ڈے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے 2002ء کو پہاڑوں کا سال قراردیا اور دنیا بھر میں پہاڑیوں کی حالت بہتر بنانے اوران کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

    کے ٹو

    پاکستانیوں کے لئے یہ امر قابل اطمینان ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ( 8611 میٹر) اور نو ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت ( 8126 میٹر) سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 اولین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں۔ سر زمین پاکستان بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور یہاں دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش موجود ہیں۔

    k2-mountain

    پاکستان میں پانچ ایسی بلند چوٹیاں ہیں جن کی بلندی چھبیس ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نویں بلند چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔

    عالمی سطح پر ہر سال 5 کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ کے ٹو پر چڑھنے کی پہلی مہم 1902ء میں ہوئی جو ناکامی پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد 1909ء، 1934ء، 1938ء، 1939ء اور 1953ء والی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ 31 جولائی، 1954ء کی اطالوی مہم بالاخر کامیاب ہوئی۔ لیساڈلی اور کمپانونی کے ٹو پر چڑھنے میں کامیاب ہوۓ۔

    23 سال بعد اگست 1977 میں ایک جاپانی کوہ پیما اچیرو یوشیزاوا اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ اشرف امان پہلا پاکستانی تھا جس نے اس کو سر کیا۔ 1978ء میں ایک امریکی ٹیم بھی اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔

    نانگا پربت

    نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8125 میٹر/26658 فٹ ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اسے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے سب سے پہلے تین جولائی 1953ء میں سر کیا۔

    nanga-parbat

    نانگا پربت دنیا میں دیکھنے کی سب سے خوبصورت جگہ ہے۔ اس جگہ کو فیری میڈو کا نام 1932ء کی جرمن امریکی مہم کے سربراہ ولی مرکل نے دیا۔ گرمی کے موسم میں سیاحوں کی اکثریت فیری میڈو آتی ہے یہ 3300 میٹر / 10827 فٹ بلند ہے۔

    یہ نانگا پربت سے شمال کی جانب دریائے سندھ اور شاہراہ ریشم سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تاتو، فنتوری اور تارڑ جھیل بھی راستے میں آتی ہیں۔

    سلسلہ کوہ ہندوکش

    سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی تریچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی سات ہزار سات سو آٹھ میٹر ہے۔ ہندو کش قریبا سارے افغانستان میں پھیلا ہوا ہے۔۔

    hindu-kush

    ہندو کش لاطینی لفظ انڈیکوس سے بنا ہے۔ کیونکہ اس پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد ہندوستان شروع ہو جاتا تھا،دریائے کابل اور دریائے ہلمند ہندو کش سلسلے کے اہم دریا ہیں۔

    کوہ ہمالیہ

    کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے۔

    himalaya

    ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔

    کوہ قراقرم

    سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔ کے ٹو سلسلہ قراقرم کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ جو بلندی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    karakoram

    اس کی بلندی 8611 میٹر ہے اسے گوڈسن آسٹن بھی کہاجاتا ہے۔ قراقرم میں 60 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ اس سلسلہ کوہ کی لمبائی 500 کلومیٹر/300 میل ہے۔ دریائے سندھ اس سلسلے کا اہم ترین دریا ہے۔

  • جہاز کے حادثے کی صورت میں کیا ان اقدامات سے جان بچانا ممکن ہے؟

    جہاز کے حادثے کی صورت میں کیا ان اقدامات سے جان بچانا ممکن ہے؟

    گزشتہ روز چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا طیارہ پی کے 661 حادثے کا شکار ہوگیا جس میں سوار تمام 47 مسافر اپنی جانیں گنوا بیٹھے، اور یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال کئی جہازوں کو حادثے پیش آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حادثے معمولی ہوتے ہیں اور ان میں موجود مسافر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تاہم زیادہ تر طیارے زمین پر گر کر مکمل تباہ ہوجاتے ہیں۔

    فضا میں ہونے اور زمین پر گرنے کے سبب طیارہ حادثہ کسی ٹریفک حادثے سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور اس میں بچنے کے امکانات بھی بے حد کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    البتہ ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز میں کوئی ہنگامی صورتحال پیش آنے کی صورت میں کچھ حفاظتی اقدامات اپنا کر اپنی زندگی بچانے کا امکان پیدا کیا جاسکتا ہے۔

    آئیے آپ بھی جانیں کہ وہ حفاظتی اقدامات کیا ہیں۔

    کیا طیارے میں کوئی محفوظ سیٹ ہے؟

    لندن کی گرین وچ یونیورسٹی نے سنہ 2011 میں ایک ’پانچ قطاروں کے اصول‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق اگر آپ ایمرجنسی ایگزٹ کے نزدیک 5 قطاروں میں موجود کسی سیٹ پر بیٹھے ہیں تو کسی حادثے کی صورت میں آپ کے بچنے کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔

    plane-post-1

    تاہم امریکی ایوی ایشن کے ماہرین نے اس کو یکسر مسترد کردیا۔

    امریکا کے وفاقی ہوا بازی کے ادارے سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز میں کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں کہی جاسکتی۔ ’کسی حادثے کی صورت میں تمام مسافروں اور عملے کو یکساں خطرات لاحق ہوتے ہیں‘۔

    plane-new

    ان کا کہنا ہے کہ بچنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ جہاز کو کس قسم کا حادثہ پیش آیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایمرجنسی ایگزٹ کے قریب آگ بھڑک اٹھی ہے تو ظاہر ہے اس سے سب سے زیادہ خطرے میں وہی افراد ہوں گے جو اس ایگزٹ کے نزدیک بیٹھے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثے کی صورت میں جہاز کا ہر حصہ مختلف انداز سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا یہ کہنا بالکل ناممکن ہے کہ جہاز کی کوئی سیٹ بالکل محفوظ ہے۔

    حفاظتی اقدامات غور سے سنیں

    plane-post-2

    جہاز کے اڑان بھرنے سے قبل کیبن کریو یا ویڈیو کے ذریعہ بتائی جانے والی حفاظتی اقدامات اور تراکیب یقیناً بوریت کا باعث بنتی ہیں، لیکن اگر آپ نے انہیں غور سے سنا ہو اور یاد رکھا ہو تو کسی ہنگامی صورتحال میں یہی آپ کے لیے کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔

    سیفٹی کارڈ کو پڑھیں

    plane-post-3

    آپ کی آگے کی سیٹ کی پشت میں جیب میں ایک کارڈ رکھا ہے۔ اسے کھول کر پڑھیں۔ یہ آپ کو بتاتا ہے کہ ہنگامی صورتحال میں کیا کرنا ہے، اور جہاز میں موجود آلات و سہولیات کیسے آپ کی جان بچا سکتے ہیں۔

    مضبوطی سے بیٹھیں

    plane-post-4

    بعض اوقات جہاز کو لگنے والا معمولی سا جھٹکا بھی آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ آرام دہ حالت میں بیٹھے ہوں۔ آپ آگے کی سیٹ سے ٹکرا کر زخمی ہوسکتے ہیں یا آپ کے سامنے رکھا سامان آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہو۔

    آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ ہنگامی صورتحال میں آپ کے پاس صرف چند سیکنڈز ہوتے ہیں جن میں آپ کو خود کو ہر ممکن حد تک محفوظ پوزیشن پر لانا ہوتا ہے۔ اس کا علم آپ کو دیے گئے حفاظتی کارڈ میں درج ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے پہلے سے پڑھ اور سمجھ لیں۔

    ایمرجنسی ایگزٹ دیکھیں

    plane-post-5

    plane-post-9

    جہاز میں داخل ہو کر سب سے پہلے ایمرجنسی راستوں کو دیکھیں اور انہیں ذہن نشین کرلیں۔ ہنگامی صورتحال میں ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات آپ ایمرجنسی گیٹ کے قریب ہونے کے باوجود اسے نہیں دیکھ سکتے۔

    انتظار مت کریں

    plane-post-11

    کیا آپ جانتے ہیں جہاز کے کسی حادثے کا شکار ہونے کی صورت میں آپ کے پاس جہاز سے نکلنے کے لیے صرف 90 سیکنڈز ہوتے ہیں؟ اگر آپ کی زندگی لکھی ہوگی تو آپ انہی 90 سیکنڈز میں اپنی جان بچا سکتے ہیں وگرنہ نہیں۔

    ایسے موقع پر اگلے اٹھائے جانے والے قدم یا دیگر افراد کا انتظار کرنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران الرٹ رہیں

    plane-post-6

    ایک تحقیق کے مطابق جہاز کے اکثر حادثے لینڈنگ (زمین پر اترنے) اور ٹیک آف (زمین سے آسمان کی طرف بلند ہونے) کے دوران پیش آتے ہیں۔ ان دنوں مواقعوں پر سخت الرٹ رہیں۔ ذہن بھٹکانے والی چیزوں جیسے موبائل، کتاب وغیرہ کو بیگ میں رکھ دیں۔

    اگر آپ نے سارا سفر سوتے ہوئے گزارا ہے تب بھی ضروری ہے کہ لینڈنگ سے پہلے جاگ جائیں اور دماغ کو حاضر رکھیں۔

    plane-post-7

    اسی طرح جہاز کے سفر سے پہلے الکوحل کے استعمال سے بھی گریز کیا جائے۔ یہ آپ کی صورتحال کو سمجھنے اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرے گی۔

    مزید پڑھیں: لینڈنگ کے وقت کھڑکی کا شیڈ کھلا رکھنے کی ہدایت کیوں کی جاتی ہے؟

    موزوں لباس پہنیں

    plane-post-8

    جہاز میں سفر کے لیے آرام دہ اور آسان کپڑے منتخب کریں۔ ہائی ہیلز سے بالکل اجتناب کریں۔ گھیر دار اور اٹکنے والے کپڑے بھی نہ پہنے جائیں۔

    ایسے آرام دہ کپڑے پہنیں جو ہنگامی حالات میں بھاگنے کے دوران آپ کے لیے رکاوٹ نہ پیدا کریں۔

    جسمانی حالت

    plane-post-10

    ہوا بازی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو فربہ ہیں، یا سستی سے حرکت کرتے ہیں وہ ہنگامی صورتحال میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔

    خراب ریکارڈ والی ایئر لائنز سے پرہیز

    airline

    بعض ایئر لائنز کا سیفٹی ریکارڈ بہت اچھا ہوتا ہے۔ گو کہ ناگہانی حادثہ تو کبھی بھی کسی کو بھی پیش آسکتا ہے، تاہم کچھ ایئر لائنز اپنی جانب سے مسافروں کو محفوظ سفر فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ فضائی سفر کے لیے ہمیشہ ایسی ہی ایئر لائن کا انتخاب کیا جائے جن کا سیفٹی ریکارڈ اچھا ہو۔

    اس کے برعکس ایسی ایئر لائنز جن کے طیاروں میں اکثر خرابی کی اطلاعات سامنے ہوتی ہوں، کوشش کی جائے کہ ان میں سفر سے گریز کریں۔