Tag: اے آر وائی خصوصی

  • ملک بھر کے حساس اور عسکری اداروں پر ہونے والے دہشت گرد حملے

    ملک بھر کے حساس اور عسکری اداروں پر ہونے والے دہشت گرد حملے

    پاکستان میں ایک طویل عرصہ سے جاری دہشت گردی کی لہر نے عام افراد سمیت عسکری اور سیکیورٹی اداروں کو بھی متاثر کیا ہے۔

    پچھلے 10 سالوں میں اس دہشت گردی کے باعث جہاں عام افراد نے ناقابل تلافی جانی نقصان سہا، وہیں مختلف عسکری و حساس اداروں اور مقامات کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں اب تک سینکڑوں سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

    یہاں پچھلے 10 سال میں ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات پیش کیے جارہے ہیں جن کا ہدف عسکری اداروں اور مقامات تھے۔

    چوبیس اکتوبر 2016: کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا جس میں 60 زیر تربیت پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ آپریشن میں 3 حملہ آور بھی مارے گئے۔

    کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات *

    اٹھارہ ستمبر 2015: پشاور میں بڈھ بیر ایئر فورس کیمپ پر حملہ ہوا جس میں 30 افراد شہید ہوئے۔ 13 حملہ آور بھی مارے گئے۔

    چھ ستمبر 2014: کراچی میں نیول ڈاکیارڈ پر حملہ ہوا جس میں ایک نیوی اہلکار شہید جبکہ دو حملہ آور مارے گئے۔

    چودہ اگست 2014: پی اے ایف سمنگلی ایئر بیس پر حملہ ہوا جس میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ 11 حملہ آور مارے گئے۔

    آٹھ جون 2014: کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا جس میں 26 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فوج کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن میں 10 حملہ آور مارے گئے۔

    karachi-airport

    چوبیس جولائی 2013: سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں 8 آئی ایس آئی اہلکار شہید جبکہ 4 حملہ آور مارے گئے۔

    پندرہ دسمبر 2012: پشاور ایئر پورٹ پر ہونے والے حملہ میں 15 افراد جاں بحق اور 5 حملہ آور ہلاک ہوئے۔

    سولہ اگست 2012: کامرہ ایئر بیس پر ہونے والے حملے میں 2 اہلکار شہید جبکہ 9 حملہ آور ہلاک ہوئے۔

    بائیس مئی 2011: پی این ایس نیول بیس مہران پر حملے میں 18 نیوی اور سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 4 حملہ آور ہلاک ہوئے۔

    دس جولائی 2010: کراچی میں سی آئی ڈی کی بلڈنگ پر حملہ میں 18 اہلکار و عام افراد جاں بحق ہوئے۔

    آٹھ دسمبر 2009: ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں 15 اہلکار شہید ہوئے۔

    چار دسمبر 2009: جی ایچ کیو کی پریڈ لین مسجد پر حملہ ہوا جس میں 37 نمازی شہید جبکہ 5 حملہ آور جہنم واصل ہوئے۔

    پندرہ اکتوبر 2009: لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر اور مناواں میں پولیس اکیڈمی پر حملہ ہوا۔ دونوں حملوں میں مجموعی طور پر 16 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 8 حملہ آور ہلاک کیے گئے۔

    دس اکتوبر 2009: راولپنڈی میں آرمی کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ میں 10 فوجی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ 4 حملہ آور بھی مارے گئے۔

    ghq

    سات مئی 2009: لاہور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے۔

    تیس مارچ 2009: لاہور کے علاقہ مناواں میں پولیس ٹریننگ اکیڈمی پر حملہ ہوا جس میں 15 پولیس اہلکار شہید جبکہ 4 حملہ آور ہلاک ہوئے۔

    دس دسمبر 2007: پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ پو ہونے والے حملے میں 7 افراد جاں بحق ہوئے۔

    تیرہ ستمبر 2007: تربیلا غازی ایئر بیس کی آفس میس پر حملہ میں 20 ایس ایس جی کمانڈوز شہید ہوگئے۔

    آٹھ نومبر 2006: خیبر پختونخوا میں درگئی کے علاقے میں ملٹری کیمپ پر ہونے والے حملے میں 42 جوان شہید ہوگئے۔

  • کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    ہم سب ہی نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی سنی ہے جس میں کچھوا اپنی مستقل مزاجی کے باعث خرگوش سے ریس جیت جاتا ہے اور خرگوش پیچھے رہ جاتا ہے۔ مگر یہ کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ اس کہانی کو اگر آج کے دور میں ڈھالا جائے تو اس بار کچھوا لازماً یہ ریس ہار جائے گا، کیونکہ اس بار اس کا مقابلہ اپنے جیسے کسی جنگلی جانور سے نہیں بلکہ چالاک و عیار انسان سے ہوگا، جو پیسوں کی خاطر اسے دنیا سے ختم کرنے پر تلے ہیں۔

    شاید کبھی کچھوا یہ ریس جیت جائے، کیونکہ بقا کا مقصد بہرحال سب سے عظیم ہوتا ہے اور جان بچانے کا مقصد کسی کو بھی اس کی استعداد سے بڑھ کر جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن فی الحال جو منظر نامہ ہے اس میں کچھوے کو شکست کا سامنا ہے، اور اس کے مقابل انسان فتح یاب ہورہا ہے۔

    پاکستان ایک زرخیز ملک؟

    پاکستان جغرافیہ کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

    اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے خزانے کی صحیح سے حفاطت نہیں کر پارہے۔ جانداروں کی کچھ اقسام معدوم ہوچکی ہیں، کچھ خطرے کا شکار بین الاقوامی جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دو چار ہیں۔

    گذشتہ 4 سو سال میں پاکستان (برصغیر) کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر)، دلدلی ہرن اور شیر شامل ہیں۔ چیتا سندھ کے علاقوں سےمعدوم ہوچکا ہے۔ مزید 2 اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا اور کالی بطخ کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ایشیاٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔

    ہمارے ملک میں معدومی کے خطرے کا شکار ایسا ہی ایک جاندار کچھوا بھی ہے، اور شاید لوگوں کو علم نہیں کہ یہ جاندار ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔

    معدومی کے خطرے سے دو چار ۔ کچھوا

    پاکستان میں کچھوے کی میٹھے پانی کی 8 انواع ہیں جبکہ 3 سمندری (نمکین) پانی میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے جو زمین سے مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اسی طرح کچھوا یہی کام پانی میں سرانجام دیتا ہے۔

    کچھوے پانی میں موجود مردہ اجسام کو کھاتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اس بارے میں سندھ وائلڈ لائف کے کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق یہ بات اب تصدیق شدہ ہے کہ کراچی میں اچانک پیدا ہونے والا نیگلریا وائرس کچھوؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ نیگلیریا وائرس میٹھے پانی جیسے دریاؤں، جھیل اور پینے کے پانی کے ذخائر میں پیدا ہوتا ہے اور یہاں کا محافظ یعنی میٹھے پانی کا کچھوا اپنی بقا کے مسئلہ سے دو چار ہے۔

    کچھوے اکثر ان فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یا لا کر چھوڑے جاتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے جیسے چاول کی فصل۔ وہاں بھی کچھوے پانی کو صاف رکھتے ہیں اور فصل کو آبی خطرات سے بچاتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق اصل خطرہ ۔ اسمگلنگ

    پاکستان میں کچھوؤں کی اسمگلنگ ایک عام بات بن چکی ہے۔ اس حوالے سے کئی قوانین منظور کیے جاچکے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے چنانچہ کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے کئی واقعات منظر عام پر آئے۔

    عدنان حمید کے مطابق اسمگل کیے جانے والے کچھوؤں کی پہلی کھیپ 1998 میں کراچی ائیرپورٹ سے پکڑی گئی۔ وہ اس وقت کراچی ائیر پورٹ پر کام کرتے تھے۔

    سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر 3650 کلو گرام کچھوے کا گوشت ضبط گیا جو ملزمان کے مطابق بھینسوں کا گوشت تھا۔ یہ گوشت ویتنام اسمگل کیا جارہا تھا۔

    سنہ 2007 میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر کچھوے کے جسم کے خشک کیے ہوئے 700 کلو گرام حصے چین لے جاتے ہوئے ضبط کیے گئے۔ اسے مچھلی کی خشک جلد بتائی جارہی تھی۔ 2007 ہی میں پشاور سے اسی طرح 300 کلو گرام کچھوے کے جسم کا خشک کیا ہوا حصہ پکڑا گیا۔

    اس کے بعد 2008 میں بھی اتنی ہی مقدار سے لاہور سے بھی کچھوے کا گوشت اسمگل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔سنہ 2015 میں 5 کھیپوں سے 1,345 زندہ کچھوے پکڑے گئے جو مختلف مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب اسمگل کیے جارہے تھے جبکہ 1.9 ٹن ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے گوشت ہڈیاں وغیرہ پکڑی گئیں۔

    اپریل 2015 میں 200 سے زائد میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

    اس کے چند روز بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل پر 4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زائد کچھوؤں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔

    فروری 2016 میں کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھوؤں کی غیر قانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔

    مارچ میں کراچی کرائم برانچ پولیس نے ڈالمیا شانتی نگر میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر اسمگل کے لیے جانے والے نایاب نسل کے کچھوے برآمد کرلیے۔ واقعے میں ملزمان فرار ہوگئے۔

    اسمگلنگ کی وجہ کیا ہے؟

    کچھوے کے گوشت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک 340 ڈالر فی کلو میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس میں حصے دار ہیں وہ چند سالوں میں بڑی بڑی لینڈ کروزرز اور وسیع و عریض بنگلوں کے مالک بن گئے۔

    ان کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔

    عدنان حمید کے مطابق پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اتنا با اثر نہیں چنانچہ اکثر پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھؤے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔

    قوانین کیا ہیں؟

    پاکستان میں 1972 سے 1974 کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے گئے جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔

    پاکستان نے خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن ’سائٹس‘ پر 1975 میں دستخط کیے تھے جس کے تحت ان کچھوؤں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق غیر قانونی طور پر کچھوؤں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔

    دوسری جانب اپریل 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ دیا اور واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹہرا کر کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہلکار و افسران، تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں اور سائٹس معاہدے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھوؤں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بلکہ انہیں صوبے میں نافذ کر کے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔

    اگرچہ اب بھی پاکستان میں سائٹس معاہدے پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا تاہم اس پابندی سے خطرے سے دو چار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔

    عدنان حمید نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف سے متعلق کیسوں کی سماعت میں جنگلی حیات کے فوائد، اس کی معدومی سے ہونے والے خطرات، اور اس کے متعلق قوانین کے بارے میں ججوں کو سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج سرمد عثمان جلالی خود بھی شکاری تھے اور جنگلی حیات کے اہمیت کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ مؤثر فیصلے دیا کرتے تھے۔

    عدنان حمید کے مطابق سخت قوانین کے باعث اب کسٹم حکام نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے واقعات کی اطلاع دینی شروع کی ہے تاہم اب بھی کسٹم حکام اس کام میں ملوث ہیں۔

    اسمگلنگ کے علاوہ مزید کیا خطرات درپیش ہیں؟

    اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلو میٹر ہے جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر کچھوؤں کی افزائش کے لیے موزوں ہے۔ یعنی ایک صوبے کی 300 کلو میٹر ساحلی پٹی میں سے صرف 15 سے 16 کلومیٹر میں کچھوے افزائش نسل کر سکتے ہیں۔

    مگر اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ عدنان حمید کے مطابق ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے ہوتی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ یعنی نیسٹنگ سائٹس کم ہو رہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی اس عمل میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔

    عدنان حمید نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر کچھوؤں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کے نیسٹنگ سیزن میں بھی تبدیلی آئی۔

    بعض اوقات سمندر میں موجود کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں جس کے باعث وہ مر جاتے ہیں۔ کچھوے سمندر میں بچھائے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ یہ کچھوے جب سطح سمندر پر آتے ہیں تو بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے چھڑا کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گاؤں والوں کی تفریح کا باعث بن جاتے ہیں اور یوں سمندر میں جانے سے قبل مر جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بڑے بڑے جال بچھا دیے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو سطح سمندر پر کچھ دیر بعد آ کر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ پاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979 سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھوؤں کے تحفظ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کرہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھوؤں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھوؤں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق 2014 سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھوؤں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اس ضمن میں ماہی گیروں اور مچھیروں کو تربیت اور کچھوؤں، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے تاکہ ان کے جال میں پھنسنے کی صورت میں وہ ان جانداروں کو آزاد کردیں۔

    عدنان حمید کے مطابق قانون پر عملدرآمد اور میڈیا کی بدولت آگہی کے سبب کچھوؤں کے لیے اب صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم ان کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

  • آج یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    آج یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    کراچی: آج اہلِ پاکستان ملی جوش و جذبے اور شایان شان طریقے سے یومِ آزادی منارہے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری عمارتوں،سڑکوں اور راستوں کو قومی پرچموں سے سجایا گیا ہے۔

    یوم آزادی کے دن کا آغاز دارالحکومت اسلام آباد میں توپوں کی سلامی ہوا،وفاقی دارالحکومت میں 31،صوبوں میں 21،21توپوں کی سلامی دی گئی.مساجد میں ملکی سلامتی اور خوشحالی کےلیےخصوصی دعائیں بھی کی گئیں.اس موقع پر قوم نے ہرقیمت پرملک کادفاع کرنےکاعزم کیا.

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31توپوں کی سلامی دی گئی.ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈربریگیڈیئرعرفان تقریب کےمہمان خصوصی تھے.

    یوم آزادی پر صوبہ پنجاب کےدارلحکومت لاہورمیں دن کاآغاز 21توپوں کی سلامی سے ہوا،اس موقع پر فضاتکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی.

    پشاور میں بھی یوم آزادی کے موقع پر 21 توپوں کی سلامی دی گئی.یوم آزادی پرتوپوں کی سلامی کی یہ تقریب کینٹ کےپانڈواسٹیڈیم میں ہوئی جبکہ کوئٹہ کےآرمی پولوکلب میں بھی پاک فوج کےجوانوں کی جانب سے 21 توپوں کی سلامی دی گئی.

    یوم آزادی کے دن کا آغاز کراچی میں بھی 21 توپوں کی سلامتی سے کیا گیا.شہرشہر نمازفجرکی ادائیگی کے بعدمساجدمیں ملکی ترقی وسلامتی اور خوشحالی کےلیے خصوصی دعائیں بھی کرائی گئیں.

    کراچی میں مزار قائد اور لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوئی۔

    شہرقائد میں جشن آزادی کے موقع پر مزار قائد پر پاکستان نیول اکیڈمی کے چاک و چوبند کیڈٹس نے مزار کی سیکیورٹی کے فرائض سنبھال لیے.

    کمانڈنٹ نیول اکیڈمی کموڈور عدنان احمد نے پریڈ کا معائنہ کیا اور مراز قائد پر فاتحہ خوانی کے بعد پھولوں کی چادر بھی چڑھائی،کموڈور عدنان نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات بھی درج کیے.

    گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کے موقع پر سیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیےگئے تھے،سیکیورٹی کے لیے پولیس اور رینجرز کے جوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی جب کہ گارڈز کی تبدیلی سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بھی مزار کی تلاشی لی.

    دوسری جانب پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ہوئی اور رینجرز کے چاک وچوبند دستے نے مزار کی سیکورٹی کے فرائض سنبھال لیے۔

    واضح رہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگا رنگ تقاریب،تقاریرکا اہتمام بھی کیا گیا ہے، گھروں میں بچوں،جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش توقابل دید ہے.

  • چیتوں کا عالمی دن: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    چیتوں کا عالمی دن: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    جنیوا: سوئٹزرلینڈ میں چیتوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی تقریب میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ایشیائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ چیتوں کے فارمز کو بند کروائیں جو چیتوں کی بقا کے لیے سخت خطرہ ہیں۔

    چیتوں کی تعداد دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی نسل بہت جلد معدوم ہوجائے گی۔

    t4

    جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    ایشیائی ممالک میں چیتوں کے فارمز موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔

    لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ یاد رہے کہ چیتوں کے جسمانی اعضا دوائیں بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    t3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ان فارمز کی بندش دنیا بھر میں چیتوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بار آور کرے گی۔

    کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ میں ایک خانقاہ سے چیتے کے 40 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ یہ بچے جمی ہوئی حالت میں تھے اور حکام کے مطابق خانقاہ کی انتطامیہ انہیں غیر قانونی طور پر اسمگل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

    بظاہر اس خانقاہ میں چیتوں کے تحفظ کی غرض سے انہیں رکھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے یہ ایک سیاحتی مقام تھا۔

    t6

    اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا، ’اس قسم کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ناک کے نیچے درحقیقت چیتوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے‘۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    t2

    واضح رہے کہ اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔

  • نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک روشن دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روشن دن کی روشنی آگے چل کر تاریکی کا شکار کئی لڑکیوں کی زندگی کو منور کردے گی۔ چند نقاب پوش، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے افراد نے لڑکیوں کی ایک اسکول وین کو روکا، اور اندر جھانک کر اپنے مطلوبہ ہدف کا پوچھا۔ ہدف نے خود اپنا ’تعارف‘ کروایا، جس کے بعد بندوق سے ایک گولی چلی اور ’ہدف‘ کے چہرے اور کندھے کو خون کر گئی۔

    نقاب پوشوں کو امید تھی کہ ان کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ اندھیرے میں چمکنے والی اس ننھی کرن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس اور روشنی کی کرن خون کے رنگ سے فزوں تر ہو کر پوری دنیا کو منور کرتی چلی گئی۔

    وہ نقاب پوش ’طالبان‘ تھے، اور ان کا ’ہدف‘ وہ لڑکی تھی گولی کھا کر جس کا عزم اور پختہ ہوگیا، اسے ہم اور آپ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی کم ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں۔

    سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ نے اس وقت بھی اسکول جانا نہیں چھوڑا جب طالبان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہم خوفزدہ ضرور تھے، لیکن ہمارا عزم اتنا مضبوط تھا کہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘۔

    4

    وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خوفناکی اور اس کے بعد خود پر گزرنے والی اذیت کو بھولی نہیں ہے۔ ’چنانچہ وہ کہتی ہے، ’ہمیں اپنی بلند آواز کی اہمیت صرف اسی وقت پتہ چلتی ہے، جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے‘۔

    یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ وہ سوات کی ان چند لڑکیوں میں شامل تھی جو اسکول جارہی تھیں اور انہیں مستقل طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

    اس نے ایک بار بتایا، ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ اگر طالبان سچ مچ مجھے مارنے آگئے تو میں کیا کروں گی؟ میں نے سوچا کہ میں اپنا جوتا اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں گی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر مجھ میں اور اس میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے لیے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن مسلح ہو کر نہیں بلکہ تعلیم کو ہتھیار بنا کر‘۔

    3

    میں نےسوچا کہ میں اپنے ’قاتل‘ کوبتاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہےاور یہ تمہارےبچوں کوبھی حاصل کرنی چاہیئے۔ اب تم جوچاہومیرےساتھ کرو۔

    اس سب کے باوجود اسے اپنے حملہ آوروں سے کوئی بغض نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسی حملے نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا اور وہ لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ وہ کہتی ہے، ’میں طالبان سے بدلہ نہیں لینا چاہتی۔ میں ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہوں‘۔

    ملالہ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے تعلیم کا پھیلاؤ۔ افریقہ کے پسماندہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی وہ یہی پیغام لے گئی۔ ’ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘۔

    وہ مانتی ہے کہ قلم اور کتاب دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت آپ ہر جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

    5

    وہ کہتی ہے، ’میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے ایسے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے طالبان سے گولی کھائی‘، میں چاہتی ہوں لوگ مجھے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی‘۔ یہی میرا مقصد ہے جس کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کرنا چاہتی ہوں‘۔

    پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ملالہ کو متنازعہ بنا چکا ہے۔ اسے غیر ملکی ایجنٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرار دیا چکا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے واقف ہے اور اس کی وجہ بھی جانتی ہے، ’پاکستان میں لوگ عورتوں کی آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ خود سر ہوجائیں گی۔ اپنے والد، بھائی یا شوہر کی بات نہیں مانیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لیے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے لیے خود فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘۔

    مرد سمجھتے ہیں کہ پیسہ کمانااور حکم چلانا طاقت ہے۔ اصل طاقت خواتین کےپاس ہے جو سارا دن اہل خانہ کا خیال رکھتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    بیرون ملک رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کے حالات و مسائل سے واقف ہے۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہے، ’پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد تعلیم کی کمی ہے۔ لوگوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور اسی وجہ سے کرپٹ حکمران دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں‘۔

    طالبان کے حملہ میں شدید زخمی ہونے کے باعث اس کا چہرہ خراب ہوگیا ہے۔ اب سوات کی گل مکئی کا چہرہ پتھرایا ہوا سا رہتا ہے اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ ’میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہی، میں ملالہ ہی رہوں گی۔ میں اس سے پہلے اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے بال کیسے لگ رہے ہیں لیکن اب مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب آپ موت کا سامنا کرتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے‘۔

    اہم یہ نہیں کہ میں مسکرا نہیں سکتی یا میں ٹھیک سے آنکھ نہیں جھپک سکتی، اہم یہ ہے کہ خدا نے میری زندگی مجھے واپس لوٹائی۔

    7

    وہ بتاتی ہے، ’میرے والد نے اپنے دفتر کے باہر ابراہم لنکن کے اس خط کی نقل فریم کروا کر آویزاں کی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی استاد کو لکھا تھا۔ یہ خط پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں ابراہم لنکن کہتا ہے، ’میرے بیٹے کو کتابیں ضرور پڑھاؤ، لیکن اسے کچھ وقت دو تاکہ یہ بلند آسمانوں میں پرندوں کی پرواز پر غور کرسکے، سورج کی روشنی میں کھلتے پھولوں پر دھیان دے، اور سبزے کی سحر انگیزی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسے سکھاؤ کہ ناکام ہوجانا زیادہ معتبر ہے بجائے اس کے کہ کسی کو دھوکہ دیا جائے‘۔

    اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملالہ بتاتی ہے، ’میں اپنے بچپن میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے 2 انچ مزید لمبا کردے۔ اس نے میری دعا یوں قبول کرلی کہ مجھے اتنا بلند کردیا کہ میں خود بھی اپنے آپ تک نہیں پہنچ سکتی‘۔

    وہ بتاتی ہے، ’جب ہم سوات میں تھے تو میری والدہ مجھے کہتی تھیں، ’اپنا چہرہ ٹھیک سے چھپاؤ، لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی، ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں بھی تو انہیں دیکھ رہی ہوں‘۔

    2

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کا مشن جاری ہے۔ رواں برس ملالہ ڈے پر اس کا پیغام ’یس آل گرلز‘ ہے۔ اپنے ادارے کے ساتھ مل کر وہ پوری دنیا کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ لڑکیوں کی 12 سال کی مفت تعلیم ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہے، ’ہزاروں کتابیں پڑھو اور خود کو علم کی دولت سے مالا مال کرلو۔ قلم اور کتاب ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے شدت پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے‘۔

  • ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    انسانیت کے عظیم محسن عبدالستار ایدھی رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی اور 2013 سے وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔

    ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔

    7

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔

    رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔

    1

    ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔

    قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔

    9

    وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔

    2

    بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔

    ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔

    ایدھی اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔

    2

    انہیں نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ گزشتہ برس نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے نامزد کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔

    ایدھی کو کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔

    11

    ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔

    5

    ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔

    وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔

    کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔

    6

    ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔

    زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔

    مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔

    7

    انہوں نے ایک بار کہا تھا، ‘لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔

    آج جبکہ ان کی تدفین ایدھی ویلج میں کی جارہی ہے اور کچھ لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلو میں دفنایا جائے، تو شاید یہ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، اور دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیئے کہ ایدھی زندہ ہے۔

  • عید الفطر پر دنیا بھر کی مختلف روایات

    عید الفطر پر دنیا بھر کی مختلف روایات

    عید الفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید الفطر اللہ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے ایک انعام ہے۔ پورا مہینہ روزہ رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید خوشیوں کا دن ہے۔

    عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے جو دنیا بھر کے مسلمان بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔

    قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ، ’رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو اور زکواۃ ادا کرو اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو‘۔

    دنیا بھر کے مسلمان عید الفطر سمیت مختلف مذہبی تہواروں کو اپنی ثقافتی روایات کے ساتھ مناتے ہیں جس سے ان تہواروں کی رنگینیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آئیے دنیا بھر میں عید کے موقع پر مختلف روایات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    :تاریخی پس منظر

    عید کے تہوار کو ترقی دینے میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے اہم کردار ادا کیا۔ اورنگ زیب عالمگیر انتہائی مذہبی اور شریعت کا پابند تھا۔ اس نے تخت سنبھالتے ہی غیر اسلامی رسوم کا خاتمہ کیا جو برصغیر میں رائج ہوگئی تھیں۔

    تیمور کے دور میں جشن نوروز اتنی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا کہ اس کے آگے عید پھیکی پڑ جاتی تھی۔ عالمگیر نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے جو فرمان جاری کیا تھا وہ یہی تھا کہ نوروز منانے کا سلسلہ ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ عید الفطر بھرپور طریقے سے منائی جائے۔

    عالمگیر کا جشن جلوس بھی عموماً انہی ایام میں پڑتا تھا۔ لہٰذا اس کے سبب عید کی رونقیں دوبالا ہوجایا کرتی تھیں۔ یوں برصغیر میں جشن نوروز کے بجائے عید کا تہوار ذوق و شوق اور جوش و خروش سے منایا جانے لگا۔ آنے والے دیگر بادشاہوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا اور آگے بڑھایا۔

    تمام ممالک میں جہاں مسلمان بستے ہیں یہ تہوار بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں یہ دن زیادہ تر ’فیملی ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    :پاکستان

    1

    پاکستان میں عید کے موقع پر لوگ صبح ہی نئے کپڑے پہن کر نماز عید کے لیے تیار ہوتے ہیں اور غریب افراد کی مدد کے لیے نماز سے قبل صدقہ فطر کی ادائیگی کرتے ہیں۔ عید کے موقع پر کئی روز تک تعطیلات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک عید کارڈز دینے کی خوبصورت روایت نے مکمل طور پر دم نہیں توڑا ہے۔

    پاکستان میں عید پر بچوں کو بڑوں کی جانب سے پیسوں کی شکل میں عیدی کا تحفہ دیا جاتا ہے اور انہیں اپنی یہ رقم مرضی سے خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

    :ترکی

    2
    ترک صدر احمد داؤد اوغلو نماز عید کے بعد ۔ فائل فوٹو

    ترکی میں عید کے موقع پر بزرگوں کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دے کر ان کی تکریم کی جاتی ہے۔ بچے اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں جہاں انہیں تحائف ملتے ہیں۔ عید کے موقع پر ترک ’بکلاوا‘ نامی مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔

    :سعودی عرب

    3
    نماز عید کے بعد سعودی نوجوان جشن مناتے ہوئے

    عرب قدیم دور میں عید کے پکوانوں میں کھجوریں، شوربے میں بھیگی ہوئی روٹی، شہد، اونٹنی، بکری کا دودھ اور روغن زیتون میں بھنا ہوا گوشت استعمال کرتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کھانوں میں تبدیلی آتی گئی۔ اب عرب ممالک میں قدیم روایات کے ساتھ جدید کھانے بھی رواج پاگئے ہیں۔ عید کے روز عربوں کی سب سے پختہ روایت اعلیٰ اور قیمتی لباس زیب تن کر کے رشتے داروں اور دوستوں کے گھر جا کر ملنا ہے۔

    عید پر بچوں کو تحفوں سے بھرے بیگ دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ لوگ عید کے روز بڑی مقدار میں چاول اور دوسری اجناس خریدتے ہیں جو وہ غریب خاندانوں کے گھروں کے باہر چھوڑ آتے ہیں۔ شام کے وقت عید کے میلے اس تہوار کی رونق کچھ اور بڑھا دیتے ہیں۔

    سعودی عرب میں دیہاتوں میں اونٹوں کی ریس کا بھی رواج ہے۔

    :ایران

    5
    خواتین کی نماز عید کا اجتماع

    ایران میں عید الفطر کو ’عید فطر‘ کہا جاتا ہے۔

    :مصر

    Untitled-4

    مصر میں عید الفطر کا تہوار 4 روز تک منایا جاتا ہے۔ عید کے دن کے آغاز پر بڑے بچوں کو لے کر مساجد کا رخ کرتے ہیں جبکہ خواتین گھر میں اہتمام کرتی ہیں۔ عید کی نماز کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتا ہے۔

    پہلے دن کو خاندان دعوتوں میں مناتے ہیں جبکہ دوسرے اور تیسرے دن سینما گھروں، تھیٹروں اور پبلک پارکس کے علاوہ ساحلی علاقوں میں ہلا گلا کیا جاتا ہے۔ بچوں کو عام طور پر نئے کپڑوں کا تحفہ دیا جاتا ہے جبکہ خواتین اور عورتوں کے لیے بھی خصوصی تحائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    :ملائیشیا

    8

    ملائیشیا میں عید کی تقریبات رسم و رواج کی وجہ سے بڑی رنگین ہوجاتی ہیں۔

    ملائیشیا میں عید کا مقامی نام ’ہاری ریا عید الفطری‘ ہے جس کا مطلب ہے منانے والا دن۔ ملائیشیا میں عید کے دن لوگ خصوصی رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں اور گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں تاکہ خاندان، ہمسائے اور دوسرے ملنے والے لوگ آجا سکیں۔

    عید پر روایتی آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس آتش بازی کو دیکھنے کے لیے چھوٹے بڑے بچے، عورتیں بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ ملائیشیا میں عید کے موقع پر بچوں کو عیدی دی جاتی ہے جیسے ’دوت رایا‘ کہا جاتا ہے۔

    یہاں عید پر خصوصی ڈش کے طور پر ناریل کے پتوں میں چاول پکائے جاتے ہیں جسے مقامی زبان میں ’کٹو پٹ‘ کہا جاتا ہے۔

    :انڈونیشیا

    انڈونیشیا میں عید کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلاً ’ہری رایا‘، ’ہری اوتک‘، ’ہری رایا آئیڈیل‘ اور ’ہری رایا پوسا‘۔ ہری رایا کے معنی خوشی کا دن کے ہیں۔ عید پر انڈونیشیا اور ملائیشیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں ملتی ہیں۔ آخری عشرے میں بینک، سرکاری اور نجی ادارے بند ہوتے ہیں۔

    انڈونیشیا میں عید سے قبل رات کو ’تیکرائن‘ کہا جاتا ہے۔ اس رات لوگوں کے ماشا اللہ کہنے سے ماحول گونج اٹھتا ہے جبکہ گلیوں اور بازاروں میں نعرہ تکبیر بھی لگائے جاتے ہیں۔

    اس موقع پر گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں موم بتیاں، لالٹینیں اور دیے جلا کر رکھے جاتے ہیں جو بہت خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔

    :فلسطین

    7

    فلسطین میں عید کے موقع پر ’کک التماز‘ نامی گوشت کی میٹھی ڈش تیار کی جاتی ہے جو گرما گرم کافی کے ساتھ مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔

    :بنگلہ دیش

    9

    دیگر مسلمان ممالک کی طرح یہاں بھی دن کا آغاز نماز سے ہوتا ہے اور اس کے بعد رشتہ داروں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ عید کے موقع پر زکوٰة اور فطرانہ بھی دیا جاتا ہے۔

    بنگلہ دیش میں عید کے روز شیر خورمہ بنتا ہے جسے ’شی مائی‘ کہا جاتا ہے۔ عید پر نئے لباس پہنے جاتے ہیں جبکہ گھروں میں خصوصی دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور خواتین اپنا ایک ہاتھ مہندی سے سجاتی ہیں۔

    :عراق

    10
    عراق میں عید کے موقع پر ہونے والا فیسٹیول

    عراق میں لوگ صبح نماز عید ادا کرنے سے پہلے ناشتے میں بھینس کے دودھ کی کریم اور شہد سے روٹی کھاتے ہیں۔

    :افغانستان

    11
    عید الفطر افغانستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے جسے تین دن تک پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پشتو بولنے والی برادری عید کو ’کوچنائی اختر‘ پکارتے ہیں۔

    عید کے موقع پر مہمانوں کی تواضع کرنے کے لیے جلیبیاں اور کیک بانٹا جاتا ہے جسے ’واکلچہ‘ کہا جاتا ہے۔ افغانی عید کے پہلے دن اپنے گھروں پر پورے خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

    :امریکہ

    12

    امریکہ میں مسلمان عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے اسلامک سینٹرز میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اس موقع پر پارک میں بھی نماز کی ادائیگی ہوتی ہے۔ مخیر حضرات اس موقع پر بڑی بڑی پارٹیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

    اسلامک سینٹرز میں عید ملن پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ عید کی تقریبات 3 دن تک جاری رہتی ہے۔ بڑے بچوں کو عیدی دیتے ہیں جبکہ خاندان آپس میں تحائف کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔

    :برطانیہ

    13
    برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اسلامک سینٹر میں مسلمانوں سے عید ملتے ہوئے ۔ فائل فوٹو

    برطانیہ میں عید الفطر قومی تعطیل کا دن نہیں مگر یہاں بیشتر مسلمان صبح نماز ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر مقامی دفاتر اور اسکولوں میں مسلم برادری کو حاضری سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیائی مرد جبہ اور شیروانی میں ملبوس نظر آتے ہیں جبکہ خواتین شلوار قمیض سے عید کا آغاز کرتی ہیں اور مقامی مساجد میں نماز ادا کر کے دوسروں سے ملا جاتا ہے۔

    عید کے موقع پر مسلمان اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے میل ملاقات کر کے عید کی مبارکباد دیتے ہیں جبکہ اپنے پیاروں میں روایتی پکوان اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔

    :چین

    14

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عوامی جمہوریہ چین میں مسلمانوں کی آبادی 1 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ عید کے روز مسلم اکثریتی علاقوں میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ ان علاقوں کے رہائشی مذہب سے بالاتر ہو کر ایک سے تین روز تک کی سرکاری چھٹی کر سکتے ہیں۔

  • بہترین عید گزارنے کے 9 طریقے

    بہترین عید گزارنے کے 9 طریقے

    اگر آپ خاتون خانہ ہیں تو عید کے دن آپ کو بے شمار کام ہوں گے۔ اگر گھر میں دعوت ہو تب تو سونے پر سہاگہ ہوتا ہے۔ گھر والوں کا خیال رکھنا، گھر کو صاف ستھرا بنانا، کھانے بنانا، اور مہمانوں کو خاطر مدارات کرنا یہ تمام کام آپ کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر تمام کاموں کی پہلے سے منصوبہ بندی کرلی جائے اور اس کے مطابق کام کیے جائیں تو آپ پر بوجھ کافی کم ہوجائے گا۔

    ہم آپ کو ایسے ہی کچھ طریقے بتا رہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکتی ہیں۔

    تمام کاموں کی فہرست بنائیں *

    عید سے ایک ہفتہ قبل تمام کاموں کی فہرست بنائیں۔ فہرست کے مطابق کام نمٹاتی جائیں۔ جو کام ہوجائے اسے فہرست میں سے کاٹ دیں۔

    مینیو ترتیب دیں *

    عید کے تینوں دن کا مینیو ترتیب دیں۔ اسی حساب سے تمام لوازمات بھی پہلے سے منگوا کر رکھ لیں تاکہ عید پر افراتفری سے بچا جاسکے۔

    eid-post-3

    برتن پہلے سے نکال لیں *

    عید پر اگر آپ کے گھر میں دعوت ہے تو برتن پہلے سے نکال کر انہیں دھو کر رکھ دیں۔ کھانے کے وقت صاف ستھرے برتنوں میں جلدی کھانا سرو ہوسکے گا۔

    گھر کی سیٹنگ *

    دعوت کے پیش نظر اگر آپ کو گھر میں کچھ سیٹنگ کرنی ہے، جیسے بیٹھنے کی جگہ بنانی ہے، قالین بچھانے ہیں، فرنیچر آگے پیچھے کرنا ہے تو یہ سب کام عید سے ایک دن پہلے کرلیں۔ صوفوں اور بستروں کے غلاف، چادر، اور پردے بھی ایک دو دن پہلے تبدیل کرلیں۔

    eid-3

    ٹھنڈے مشروبات کا انتظام *

    گرمی کے موسم میں گھر آئے مہمانوں کو سب سے پہلے ٹھنڈے مشروبات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے بڑی مقدار میں برف جما کر رکھیں تاکہ عین موقع پر شرمندگی سے بچا جاسکے۔

    کھانے کی تیاری کریں *

    ایک رات پہلے سے ہی کھانے کی تیاری کرلیں۔ مصالحہ بنا کر لکھ لیں، پیاز پیس لیں، کباب ایک دن پہلے بنا لیں۔ رائتہ، سلاد بھی رات میں بنا کر رکھا جا سکتا ہے۔

    eid-2

    ساتھ ساتھ صفائی کرتی رہیں *

    کچن میں ہونے کے دوران ہی صفائی کا کام بھی نمٹا لیں۔ برتن دھو لیں تاکہ برتنوں کا ڈھیر جمع نہ ہو۔

    بچوں کے کام نمٹالیں *

    بچوں کے کام نمٹا کر رکھ لیں۔ ان کے کپڑے، جوتے سب تیار کر کے رکھ دیں۔ اسی طرح صبح ہی بچوں کو تیار کردیں تاکہ وہ آرام سے کھیلتے رہیں۔

    eid-post-5

    مہمانوں کے آنے سے پہلے تمام کام نمٹالیں *

    یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ عید مل بیٹھنے اور باتیں کرنے کا بہترین موقعہ ہے۔ مہمانوں کی آمد سے پہلے تمام کام نمٹا کر تیار ہوجائیں تاکہ آپ بھی عید کا صحیح لطف اٹھا سکیں۔

    ان طریقوں پر عمل کرکے آپ ایک بہترین اور یادگار عید گزار سکتی ہیں۔

  • انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    جکارتہ: انڈونیشیا کے دارالحکومت میں ایک عیسائی خاتون نے مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھنے شروع کردیے۔

    زوزونا چیک ریپبلک سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ حصول تعلیم کے لیے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔

    j3

    اپنے مسلمان ساتھیوں کی طرح وہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے دور رہتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’میرے لیے روزہ رکھنا زیادہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ اس کے پیچھے میرا کوئی مذہبی یا روحانی مقصد نہیں ہے‘۔

    ان کے مطابق سارا دن بغیر کھائے تو گزارا ہوجاتا ہے لیکن پیاس بہت لگتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ روزے رکھنے سے انہیں ایک فائدہ ضرور ہوا اور وہ یہ کہ انہوں نے خود پر قابو پانا اور نظم و ضبط سیکھا۔

    j2

    زوزونا اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھ رہی ہیں۔